جمعرات، 22 جنوری، 2015

امام احمد رضا انتہائی محتاط محقق مفتی تھے

امام احمد رضا کے دور میں ہزاروں اہلسنت علماء موجود تھے ان میں سے چند عظیم علماء و مشائخ کے نام زندہ رہے، یاد رہے یہ حضرات بذات خود ایک سند تھے۔ مثلا پیر مہر علی سرکار، دو مختلف جماعت علی شاہ سرکار، سیال شریف والے پیر، شرقپور والے پیر اور چند عمیق تحقیق والے علماء کرام۔۔۔۔!
 امام اہلسنت مولانا احمد رضا خان قادری کے دور میں ان پر تنقید والے علماء اہلسنت کی بھی کمی نہ تھی یعنی حاسدین وافر مقدار میں موجود تھے۔ان میں سے کچھ علماء تو امام کو ایک سادہ سا مولوی سمجھتے تھے،باقیوں کو اپنی دستار اونچی رکھنے کا شوق تھا۔امام احمد رضا اٹھائیس برس کے تھے کہ اسلامی ہجری قمری صدی نے موڑ کاٹا، تیرھویں ختم اور چودھویں شروع ہوئی۔تب تک آپ کی شہرت بلاد عرب و عجم میں پہنچ چکی تھی۔بہت سوں کا خیال تھا کہ آپ بڑے طمطراق والے مولانا صاحب ہونگے۔لیکن آپ نے سادہ سے لباس میں بغیر کروفر کے زندگی گزاری۔امام احمد رضا پر تنقید کرنے والوں کے ناموں سے بھی آج ہم واقف نہیں ہیں۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کسی معتبر خانقاہ سے امام احمد رضا کی تحقیقات پر سختی سے تنقید نہیں ہوئی۔ جن حضرات کو پچھلی صدی کے اولیاءاللہ مانا جاتا ہے وہ امام اہلسنت کی تحقیقات سے متفق تھے۔اعلی حضرت کے دور میں علمی کام اہلسنت علماء دنیا کے مختلف کونوں میں کررہے تھے۔آپ کے متوازی بھی بہت سے کام کرنے والے حضرات تھے۔کس چیز نے آپ کو منفرد بنا دیا۔ایک جملہ جس میں ہم بیان کردیتے ہیں وہ ہے ان کاعشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو انہیں ممتاز کرتا ہے۔امام احمد رضا نے زبانی کلامی دعووں کی بجائے اپنے عمل سے خود کو رسولِ خدا کا غلام ثابت کیا۔درحقیقت وہ شریعت پر سختی سے عمل پیرا تھے
اور انتہائی محتاط محقق مفتی تھے۔اللہ عزوجل نے امام کو ایسا حافظہ عطا فرمایا تھا جو ہر دیکھے گئے منظر کو ایک فوٹو سکین کی طرح محفوظ کرلیتا۔ آپ نے بچپن میں ہی وہ کتب پڑھ ڈالی تھیں جن کو بڑے بڑے زعماء جوانی کے بعد پڑھنے کا سوچتے۔ لہذا آپ انتہائی دقیق سوالات پر نپی تلی عالمانہ رائے دیتے۔امام احمد رضا بہت سے علوم کےساتھ ساتھ فنون پر مہارت رکھتے تھے انہوں نے علم وفن کے کئی خودساختہ اماموں کو فن کی باریکیوں کے ذریعے بتایاکہ علم کیا ہوتاہے۔وہ قدیم فلسفے اور جدیدسائنس کے رموز سے واقف تھے۔جدید طب، ریاضی، جغرافیہ اور آسٹرونومی میں مغرب والے ان سے متاثر ہیں۔امام احمد رضا خان قادری ایک جاگیر دار رئیس خاندان سے تعلق رکھتے تھے آپ نے درویشانہ زندگی بسر کی اور اپنی جائیداد میں سے کثیر مال و دولت خرچ کرکے دینی کاموں میں معاونت فرماتے رہے۔آپ کی عمر سڑسٹھ برس تھی جس میں سے زیادہ تر وقت پڑھنے لکھنے میں گزرا۔غیروں نے امام احمد رضا کی مخالفت میں اندھی تقلید سے کام لیا۔ ساتھ ساتھ اپنوں نے بھی خوب حسد و تعصب کی آگ بھڑکائے رکھی۔امام نجانے کتنے درجن علوم کے ماہر تھے۔ جبکہ ان کے ناقدین میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہیں اردو کا ایک جملہ تک درست لکھنا نہیں آتا۔ آج کے دور میں اپنے اور غیر دونوں ہی آنکھیں بند کرکے ایک راگ الاپتے جارہے ہیں کہ اعلی حضرت علیہ الرحمہ بہت متشدد تھے۔ غلط قسم کے الزامات ان کے کھاتے میں ڈالے جارہے ہیں۔انہیں کئی چیزوں کا بانی بتایا جارہا ہے!جس کے منہ میں جو بات آتی ہے امام کے نام لگا دی جاتی ہے! اپنوں میں بہت سے اہل علم حجروں میں بیٹھے سنجیدہ تحقیقات کرتے رہتے ہیں اور بعض اس کے ساتھ ساتھ درس و تدریس کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ انہی بزرگوں کی بدولت ہمیں امام اہلسنت سے شناسائی نصیب ہوئی ہے۔
ان میں سے کئی بزرگ اب پردہ فرما گئے ہیں۔غیروں میں سے بھی چند قدردانوں نے امام احمد رضا کی علمی خدمات کو مانا اور خوب سراہا بلکہ علم و فن کے میدان میں امام کی پیروی کی۔ کئی متشدد مخالفین نے بھی بعض مقامات پر امام کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ مولانا احمد رضا کی پیدائش سے پہلے اہلسنت علماء نے اسماعیل دہلوی پر نہ صرف کفر کے باقاعدہ فتوے دیئے تھے بلکہ اس کے باطل عقائد و نظریات کے رد میں کتابیں تصنیف فرمائی تھی۔ اعلی حضرت کو کہیں سے زبانی پتہ چلا کہ وہ مرنے سے پہلے توبہ کرگیا تھا۔آپ نے اس کی مطلقا تکفیر نہیں کی۔۔۔۔ اعلیحضرت شخصیات کی بجائے نظریات پر بات کرتے تھے ان کے ملفوظات والی کتاب سے بہت سی دانشمندانہ باتوں کا پتہ چلتا ہے مثلا وہ اس بات کے قائل نہ تھے کہ خواجہ اجمیری علیہ الرحمہ نے موسیقی یعنی باجے گاجے وغیرہ کو قوالی کاحصہ بنایا۔کئی مشہور افواہوں کا رد اس کتاب میں موجود ہے!
امام احمد رضا خان جمعہ کی تقریر کے علاوہ سالانہ 12 ربیع الاول کی صبح کو وعظ فرماتے۔آج ساری ساری رات سپیکروں میں گلا پھاڑ پھاڑ کر لوگوں کو کافر کافر کہنے والے خود کو اعلی حضرت کا وارث بتاتے ہیں۔اور ساری عمر سوائے گلا پھاڑنے کے کوئی قابل ذکر کارنامہ سرانجام نہیں دیتے۔امام احمدرضا کے سیاسی فلسفے میں 1912 کے 4 نکاتی چارٹر کو بہت اہمیت حاصل ہے۔آج تک جدید تعلیم یافتہ طبقہ اس ایجنڈے کو مسلمانوں کے سیاسی معاملات کا حل مانتا چلا آرہا ہے۔ خصوصا ڈاکٹر محمد ہارون برطانوی نومسلم اور ڈاکٹر مسعود جیسے ماہرین اپنے رفقا سمیت اس کا پرچار کرتے رہے۔یاد رہے ڈاکٹر مسعود اور وحید احمد مسعود دو علیحدہ علیحدہ شخصیات تھیں۔ آج کے دور میں خلیل احمد رانا ایک بزرگ ہیں جو جہانیاں سے علمی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔خصوصا انٹرنیٹ پر خوبصورت پی ڈی ایف کتابیں اپلوڈ کرنے میں ان کا کردار ہے۔علامہ مفتی محمد عبدالحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ نے اعلی حضرت فاضل بریلوی کی تعلیمات کو عام کرنے کیلئے بہت جدوجہد فرمائی۔حکیم موسی امرتسری رحمۃ اللہ علیہ نے علمی کام کرنے کیلئے مختلف ادارے، لائبریریاں اور ادبی شخصیات کو متعارف کرایا اور حوصلہ افزائی فرماتے رہے۔

جمعرات، 15 جنوری، 2015

نہیں ایسے نہیں ہوا کرتا

قومیں ایسے تو نہیں بنا کرتیں۔ کیا قوم ایسی ہوتی ہے کسی ایک کا منہ مشرق کو اور کسی دوسرے کا رخ مغرب کو۔ کوئی دہشتگردی کو ختم کرنا چاہتا ہے کوئی انسانیت کا جنازہ نکالنا چاہتا ہے۔ کوئی اس قوم کے صبح جاگنے سے پہلے ان کی گلیاں محلے صاف کرکے اس میں چونا بکھیرتا ہے اور 'خاکروب' کہلاتا ہے دوسرا صرف گندگی پھیلاتا ہے اور نعرے لگاتا ہے۔ کسی کو عوامی فلاحی منصوبوں میں سے دھوکہ دہی کے ذریعے 'مال' نکال کر اپنے بچوں کو کھلانے سے لطف آتا ہے۔ کسی دوسرے کو زبردستی رشوت پکڑا دی جاتی ہے ورنہ پستول کی گولی حاضر ہے۔ یہاں کتنے کیس عدالتوں میں 'حل' ہوئے ہیں۔
  ایک دہائی سے زائد عرصہ اخبار بینی میں صرف ایک منڈی ڈھاباں ، صفدر آباد کے دیہاتوں کا کیس نظر آیا تھا جس میں کسی لڑکی کے ساتھ ظلم کرنے والوں کو پھانسی کے پھندے تک پہنچایا گیا تھا۔ سپریم کورٹ  کے فیصلے کے بعد مظلوم  کے اہل خانہ نے مجرموں کو معاف کر دیا تھا لیکن سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے ظالموں کی معافی کی اپیل رد کر دی تھی۔ اس کے بعد صرف ایک اصغر خان کیس کا فیصلہ اس معاملے کے بیس برس بعد اور کیس دائر ہونے کے تقریباً سولہ برس بعد آیا تھا اس پر عمل نہیں ہوا۔ آپ دیکھیں کہ اس میں تمام 'مجرم' کردارنہ صرف آپ کی بلکہ خطے کی سیاست پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ ایک آخری فیصلہ شاہ زیب قتل کیس کا تھا جو قومی میڈیا، سوشل میڈیا اور بھر پور عوامی دباؤ کے نتیجے میں آیا لیکن وہ 'ظالم' وکٹری کا نشان بنا کر متاثر فیملی کو منا کر یہ جا اور وہ جا۔ یہ ہے تقریباً ڈیڑھ دہائی کی کُل عدالتی کارروائی۔ اس کے باوجود لاہور ہائی کورٹ بار کے وکلاء اور ان کی چہیتی عاصمہ جہانگیر ملٹری کورٹس کا 'رد' کر رہے ہیں۔  یعنی دہشتگردوں کو قانون کے جاننے ماننے والے پناہ فراہم کر رہے ہیں۔
 سولہ دسمبر کو پشاور میں وہ قیامت خیز سانحہ ہوا تو قیامت کیوں نہیں آئی۔ قوم کو بُدھو بنایا ہوا ہے۔ کیا سولہ کی شام دسمبر تک دہشت گردوں کے تمام پشت پناہ مدارس ، وکلاء اور سیاسی کرداروں کو ٹکڑے کرکے کتوں کے آگے نہیں پھینکا جا سکتا تھا۔ جیلوں میں ہزاروں دہشتگرد جو قوم کے ٹیکس سے 'پل' رہے ہیں اور ہر طرح کے جرائم میں وہاں سے بھی ملوث ہیں انہیں پٹرول چھڑک کر آگ نہیں لگا دینی چاہئے تھی، بھیا! کیا قومیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ ایک مہینہ گزر گیا۔ چلیں چھوڑیں اس بات کو بھی! پیرس میں جو ہوا، اس کے بعد یورپ کے چونتالیس ممالک سمیت آدھی سے زیادہ دنیا حرکت میں نہیں آگئی۔ پاکستان میں سیاست دانوں کو رہنے دیں عوام الناس نے کتنے احتجاج کئے سانحہ پشاور کے لئے۔ ارے کوئی ہے جو ان دہشت گردوں کی حمایت کرنے والوں اور ان کی وکالت میں برین واشنگ کرکے قوم کو گمراہ کرنے والوں کو 'لگام' ڈالے؟ نہیں ہے۔ یہاں کتیا چوروں کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ اللہ عزوجل کی بارگاہ کے علاوہ کسی سے کوئی امید نہیں۔ یہ تو ایسے گئے گزرے ہیں کہ گھٹیا سے گھٹیا الفاظ بھی ان کے سامنے ہیچ ہیں اور ان کے کرتوت انتہائی بھیانک ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں ان کا 'آج' نہیں ہے یہ آنے والے کل کو سنواریں گے۔ یہ قوم کے رکھوالے ہیں یہ کریں گے قوم کے مستقبل کے فیصلے جو ہر آن اُڑنے کو تیار رہتے ہیں۔ پنڈ نوں اگ لگی، کتا روڑی تے۔ یہاں رہنا تو قوم نے ہے۔ کس قوم نے نجانے کس قوم نے۔ جسے آج تک ہوش نہیں آ سکا کہ قوم ہوتی کیا ہے۔ جنہیں انسانیت کا درس کسی نے دیا ہی نہیں۔ صرف سکھایا گیا ہے زیادہ سے زیادہ 'مال' کمانا۔ یا اس کے لئے ہر جائز و ناجائز ذریعے کو اختیار کرنا۔ یہ لوگ کِدھر کو جا رہے ہیں ان کی ستر فیصد نوجوان نسل کدھر جا رہی ہے۔ کسی کو خبر ہے!
 ٹی وی سکرین کے سامنے یا اخبار کے ایک کالم میں کتنی دنیا کو سنوارا جا چکا ہے۔ ایک سو بیس ٹی وی چینلز میں سے کتنے ہیں جو قوم کو اچھی زندگی بسر کرنے کا درس دے رہے ہیں۔ کس نے قوم  کو پچھلے اڑسٹھ برس سے  یرغمال بنایا ہوا ہے۔ کون ہے جس کے شکنجے سے ہم آزاد نہیں ہو سکے۔ اگر ابھی تک پتہ نہیں چل سکا تو جناب! معلوم کیجئے۔ حالات ایسے نہیں سُدھرا کرتے۔ قومیں ایسے نہیں بنا کرتیں۔ زندگیاں ایسے نہیں سنورا کرتیں۔ نہیں ایسے نہیں ہوا کرتا۔ کنویں سے باہر آجائیے کسی سمندر نہیں تو کم از کم دریا جیسی وسعت کا نظارا کیجیے کیونکہ اب چھوٹی موٹی نہر کی وسعت سے یہ معاملات حل ہونے والے نہیں۔ دنیا کو بہت سے بندوں (حدود) سے آزاد ہوکر دیکھئے۔ کیا یہی اصولِ زندگانی ہے جو ہم نے اپنایا ہے۔ کیا ٹی وی پر غمزدہ تصاویر دکھانے سے 'سب ٹھیک ہوجائے گا'۔

منگل، 13 جنوری، 2015

مناجات مقبول

اے اللہ
ہم عاجز بندے تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔اور تیرے  آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ ہمارے دلوں کو اخلاص کے ساتھ اپنے دین کی طرف پھیر دے۔ ہمارے صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کو معاف فرما دے۔ ہم کو پکا اور سچا مسلمان بنا دے
ہماری مشکلات کو حل فرما
ہم کو اسلام پر استقامت نصیب فرما
ہم سے راضی ہوجا ہم کو شیطان اور نفس کے شر سے بچا
ایمان کے ساتھ خاتمہ کیجئے
ہمارے قدموں کو صراط مستقیم پر قائم رہنے والا بنا دے
اپنی رضا پر راضی رہنے کی توفیق دے
اپنی خاص رحمت نازل فرما اور اپنے قہر اور غضب سے بچا لے
قیامت کی رسوائی سے بچا لینا
اپنے عرش کے سائے میں جگہ عنایت فرمانا۔ قیامت کے روز اپنا دیدار نصیب فرمانا
کُل امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حشر کی رسوائی سے پناہ عنایت فرما، اسلام کا بول بالا فرما۔ اسلام کا جھنڈا بلند فرما۔
تمام مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار فرما دے۔ اسلام کی حفاظت فرما
قبر کے اندھیرے اور عذاب سے بچا اور منکر نکیر کے سوالات کے وقت ہماری مدد فرما
ہمارا نامہء اعمال ہمارے دائیں ہاتھ میں دینا
ہمیں حلال روزی نصیب فرما۔ ہمارے کاروبار میں اپنی رحمت سے برکت اور ترقی عطا فرما۔
ہمیں اخلاص نصیب فرما۔ ہمارے دِلوں میں حسد بغض اور کینہ دور فرما۔ ہم کو دجال کے فتنے اور موت کی سختی سے، قبر کے عذاب سے اور قیامت کی گرمی سے، جہنم کی آگ سے محفوظ فرما
پُل صراط کا راستہ آسان کردے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرما
تنگدستی و خوف گھبراہٹ اور قرض کے بوجھ کو دور فرما
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے طریقے ہم کو سکھا دے اور ان کے پیارے صحابہ کے عملوں کی جِلا ہمارے ہر کام میں پیدا کر دے
ہمارے بچوں کو علمِ دین کی دولت سے سرفراز فرما اور نیک و صالح بنا دے
ہم گناہوں کے بوجھ سے دبے ہوئے ہیں صرف تیری رحمت کا آسرا ہے تو ہم کو اپنی رحمت سے بخش دے
اے غفور الرحیم! ہمارے گناہوں کو معاف فرما ہم گناہوں سے توبہ کرتے ہیں تو ہماری خطاؤں کو معاف فرما
ہم گناہوں سے شرمندہ ہیں
جو گناہ جان کر کیے یا جو انجانے میں ہوئے سب کو معاف فرما
ہمارے مَردوں اور عورتوں کو نماز کا پاپند بنادے
ہماری عبادتوں کو قبول فرما
سب مسلمانوں کو نیک بنا دے
ہم کو ہر قسم کی بد اخلاقی سے بچا دے
آخرت میں تیرا دیدار نصیب ہو
اسلام کا بول بالا ہو۔مسلمانوں کی تمام مشکلیں حل فرما اور ہماری ہر مشکل آسان فرما دے
ہمیں چَین اور راحت عطا فرما
مسلمانوں کو دین و دنیا میں عزت عطا فرما۔
بیماروں کو شِفا عطا فرما۔ کمزوروں کو طاقت عطا فرما
بچھڑوں کو مِلا دے اور روٹھوں کو منا دے۔
ہماری تمام جائز دلی تمناؤں کو پورا فرما دے مسلمانوں کو پردیس میں چَین اور سلامتی عطا فرما۔
تنگدستوں کی تنگدستی دور فرما دے۔
جو بے اولاد ہیں ان کو اولاد عطا فرما اور ہماری اولاد اور اُن کی نسل سے جو ان کے بعد ہیں سب کو نیک کیجئے۔
ہمارے مُردوں کی مغفرت فرما اُن کی قبروں میں رحمت نازل فرما۔ ان کی قبروں کو ٹھنڈا کر، اُن کے درجات بلند فرما۔
اپنے کُل مسلمانوں کو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرما۔
آخرت میں دیدار نصیب ہو۔
ہمیں اچھی صحت دے تاکہ ہم تیری عبادت کر سکیں
مرتے وقت کلمہ شریف نصیب فرما اور ہماری دعاؤں کو قبول فرما۔
آمین ثم آمین


مجھے کسی نے کمپوز کرنے کیلئے دی تھی۔ مَیں اسے آپ تک پہنچانا اپنے لیے باعث سعادت سمجھتا ہوں۔ عبدالرزاق قادری

اتوار، 11 جنوری، 2015

اللہ رحم فرمائے

الیکشن کے ڈبے کھل گئے، عمران خان کا گھر بس گیا، فوجی عدالتیں بن گئیں، گرفتاریاں اور پولیس مقابلے ہو رہے ہیں۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے پچھلے پورا ہفتے  میں سے نصف سے زائد وقت لاہور میں تنگ کیا۔ گیس کی سپلائی کئی ماہ سے جزوی تعطل کا شکار ہے۔ صنعت بند ہے۔ کاروبار جام ہے۔ تعلیمی ادارے بند ہیں

مذہب کے نام پر منافرت جاری ہے۔ احتجاج جاری ہیں۔ بم دھماکوں میں غیر مسلح، بے قصور افراد جاں بحق ہو رہے ہیں۔  بہت غلط رویہ ان پاکستانی مذہبی سیاسی جماعتوں کا ہے جو فوجی عدالتوں کے بارے میں صرف اس لئے تحفظات رکھتی ہیں کہ طالبان ان کے مسلک کے لوگ تھے۔ یعنی انسانیت کا قتل عام دردناک طریقے سے کرنا فضل الرحمٰن اور جماعتِ اسلامی کا مسلک ہے۔
 یورپ، اپنے پیرس میں بارہ بندوں کے قتل پر سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ مسلمان ملکوں میں فرقہ واریت اور دہشت گردی کی آگ لگی ہوئی ہے۔ لوگ پریشانیوں سے پھٹنے کو ہیں۔ دنیا میں غم ہی غم ہیں۔ کسی ملک کے ہوائی جہاز تباہ ہو رہے ہیں۔ کہیں بسوں کو حادثات درپیش ہیں۔ مشرق وسطی میں ایک ظالم ناسور، داعش، اسلامی ریاست کے نام پر ظلم و تشدد کی گھناؤنی داستان رقم کر رہا ہے۔وینزویلا میں قتل ہو رہے ہیں۔ افریقہ کے ملکوں میں بوکو حرام اور الشباب جیسی دہشتگرد تنظیمیں انسانیت کا بے دریغ قتل عام کر رہی ہیں۔ انسان مذہب سے باغی ہو رہے ہیں، اللہ کے موجود ہونے سےانکار کر رہے ہیں یا اس کی قدرت کو چیلنج کر رہے ہیں۔ مذہبی سکالرز پر میں کوئی رائے نہیں دے رہا، ورنہ جب بھی رائے دیتا ہوں حتیٰ کہ کسی کی بات کا اقتباس بھی پیش کرتا ہوں تو فتووں اور دھمکیوں کی زد میں آ جاتا ہوں۔ یہ دنیا کیسے سنورے گی۔ یہ مایوسیوں کے بادل کیسے چھٹیں گے۔
خدارا! اس کے لئے جس سے مرضی رائے لے لینا۔ لیکن ابلیس کی رائے عین وہی ہوگی جو طالبان نواز ملکوں، تنظیموں اور عسکری گروپس کی ہوگی، ان کے افکار سے بچنا۔ مثال کے طور پر القاعدہ، اخوان المسلمون، جماعۃ الدعوہ، حزب التحریر، جماعت اسلامی، تمام دیوبندی جماعتیں، بوکو حرام، النصرہ فرنٹ، داعش (اسلامی ریاست)، الشباب اور اسی طرح بہت سی تنظیمیں اور جماعتیں جیسے تنظیمِ اسلامی، لشکر جھنگوی کی سسٹر تنظیم، تنظیم اہلسنت والجماعت، افریقہ کے ایک ملک میں بھی اہلسنت والجماعت (وہی بوکو حرام) کے نام سے طالبان کی ذہنیت والی ایک تنظیم موجود ہے اور لندن میں بھی اسی نام سے ان خوارج کی ایک جماعت ہے۔
ان مذکورہ بالا نام نہاد اہلسنت والجماعت تنظیموں کا مسلمانوں کے سوادِ اعظم اہلسنت والجماعت (حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی) سے تعلق ہونا تو درکنار، یہ انہی اصلی سنی لوگوں کے خون کے پیاسے ہیں۔ ساتھ ساتھ شیعہ کے خون سے بھی ان کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔ اپنے ادوار میں شیعہ حکومتوں نے بھی کچھ کم مظالم نہیں ڈھائے لیکن وہابیہ تنظیموں کے نام نہاد جہاد سے شاید کچھ کم ہی ہوں۔سلفی عقیدے کے لوگ، دوسرے لفظوں میں وہابی یا نام نہاد اہلحدیث یہ تمام دہشت گردوں کے پشت پناہ ہیں یا خود ان دہشتگردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ مسلم دنیا کو پچھلی تین صدیوں میں سب سے زیادہ نقصان اسی وہابی خوارجی ذہنیت کے لوگوں سے اٹھانا پڑا۔ اس کے علاوہ مسلمانوں پر جدیدیت کے نام سے کئی عفریتوں نے حملہ کیا تھا لیکن مسلمان ان پر قابو پا گئے۔ اب یہ ظالم سوچ کے حاملین مسلمانوں کو زندہ تو ہرگز نہیں چھوڑنا چاہتے۔ بلکہ یوں لگتا ہے کہ یہ ان کے جنازوں کو کندھا دینے اور دفنانے والا بھی کوئی نہیں چھوڑنا چاہتے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جنازے ہی نہیں چھوڑنا چاہتے۔ جس بے دردی اور درندگی سے یہ لوگوں کو قتل کرتے ہیں اور پھر ان کے وڈیوز بنا کر انٹرنیٹ پر نشر کرکے دنیا میں خوف و ہراس پھیلاتے ہیں وہ انتہائی قابلِ مذمت ہے۔ یہ غیر انسانی افعال ہیں۔
نجانے دوسری اقوام (مغربی دنیا)  کے لوگ مطالعہ کیوں نہیں کرتے اور حالاتِ حاضرہ سے واقفیت کیوں نہیں رکھتے۔ وہ  رات کی زندگی کو پسند کرتے ہیں اور اپنے نیوز میڈیا پر نجانے کیوں آنکھیں بند کرکے یقین کر لیتے ہیں۔ انہیں غیر جانبدار ہو کر تحقیق کرنی چاہئے۔ وہ کبھی مسلمان بزرگوں کی تعلیمات کو دیکھیں اور جانچیں کہ وہ انسانیت کے کتنے بڑے خیر خواہ دین و مذہب کے لوگ تھے۔ خدارا! اسامہ بن لادن اور اس کی ذہنیت رکھنے والے لوگوں کو مسلمان کہنا چھوڑ دیجئے انہوں نے غیر مسلموں کو کم اور مسلمانوں کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ مزید برآں مسلمانوں کو غیر مسلمانوں نے کم اور ان نام نہاد مجاہدین نے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ تمدنی طور پر مسلمان تنزل میں ہیں۔ اس کا بہت سا کریڈٹ فرقہ واریت اور دہشت گردی کی جنگ کی سرپرستی کرنے والے ممالک کو جاتا ہے چاہے وہ امریکا (یو-ایس) ہو اس کے اتحادی ہوں، دیگر غیر مسلم ممالک ہوں یا فرقہ پرست مسلم ممالک مثلاً سعودی عرب، ایران وغیرہ۔
اب مجھے کوئی صاحب نیچے کمنٹس کرکے یہ مت بتائے کہ امریکہ نے عراق اور افغانستان میں کتنے لوگ قتل کیے اور اسرائیلیوں نے فلسطین میں کتنے مظالم ڈھائے یا بھارتی عسکری افواج نے کشمیر میں کیا کِیا اس کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیاء کے سوالات مجھ سے مت کرے کیونکہ وہ سب انسانیت کا بے دریغ قتل تھا اور ہے اور قابلِ مذمت ہے، اس قتلِ عام کی سب سے بڑی وجہ شاید وہابیہ کا ہمفرے ساختہ 'نیا دینِ اسلام' ہے۔ اسی نام نہاد اسلام کے نفاذ میں پچھلی تین صدیوں سے لاکھوں مسلمان لوگ موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے جن میں سعودی عرب کے قیام سے قبل اور مابعد کے حالات گواہ ہیں۔ جہاں اہل بیتِ عظام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مقدس قبریں وہابیوں کے ظالم نظریات کی وجہ سے زمین بوس ہو گئیں اور ان کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ ابھی حالیہ داعش (اسلامک سٹیٹ) کا کردار دیکھ لو حضرت یونس علیہ السلام کا مزار اور مسجد جو کہ نجانے کتنی صدیوں سے قائم تھے شہید کر دیئے گئے۔ امام رفاعی کبیر سمیت کتنے بزرگان کے مزارات شہید ہوئے۔ اور شامی علاقہ جات میں اہل بیت کرام میں سے کتنے مزارات شہید ہوئے۔
پوری مسلم دنیا میں کتنی مساجد پر دورانِ عبادت وہابیہ نے حملے کیے۔ (وہابیہ سے مراد تمام دہشتگرد گروپس اور تنظیمیں ہیں جو اسلام کے نام پر ظلم و تشدد کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ کیونکہ یہ سب محمد بن عبد الوہاب نجدی کے پیروکار ہیں۔) کیا یہ ان کا اسلام ہے؟ ہرگز نہیں؟ یہ تو سراسر کفر ہے۔ کتنے بے گناہ سویلین لوگوں کو قید کرنے کے بعد قتل کرکے ان کے فوٹیج بنا کر دنیا کے سامنے پیش کئے گئے۔ عید والے دن کتنے نوجوانوں کو غیر وہابی اور غیر ظالم ہونے کی سزا ملی۔ کتنی عورتیں نکاح مسیار (جہاد النکاح، جنسی جہاد) کی نذر ہو گئیں اور کتنی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ کتنے معصوم بچے یتیم ہوئے۔ کتنی بستیاں اجاڑ دی گئیں۔ ایزدی / یزیدی فرقہ والوں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا؟ ان کی کہانی کیا تھی؟ نجانے کتنے ظلم اسلام کے نام پر ان لوگوں نے کیے جنہیں خود امریکہ شامی حکومت کے خلاف مکمل امداد دیتا رہا، برطانیہ افرادی قوت، تربیت اور مالی قوت فراہم کرتا رہا، اسرائیلی انہیں تربیت دیتے رہے اور سعودی امراء انہیں مال و دولت بطورِ فنڈ دیتے رہے۔
اللہ رحم فرمائے اور سب کو ہدایت عطا فرمائے۔ جن کے نصیب میں ان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہدایت نہیں ہے انہیں اللہ عزوجل غرق فرمائے اور ہمیشہ کیلئے عبرت کا نشان بنا دے۔ اللہ عزوجل ہمیں اچھے انسان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ بجاہ سید المرسلین۔ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم۔
نوٹ: میری تحاریر میری ذاتی آراء ہیں۔ ان سے کسی تنظیم، ادارے، جماعت، پبلشر، ویب سائٹ یا فورم وغیرہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ اور میرے سوا کوئی میری آراء کا ذمہ دار نہیں۔ ایک آدھ جملہ یا پیرا گراف کاٹ کر تنقید کرنے والوں سے میں بری ہوں۔
الیکشن کے ڈبے کھل گئے، عمران خان کا گھر بس گیا، فوجی عدالتیں بن گئیں، گرفتاریاں اور پولیس مقابلے ہو رہے ہیں۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے پچھلے پورا ہفتے  میں سے نصف سے زائد وقت لاہور میں تنگ کیا۔ گیس کی سپلائی کئی ماہ سے جزوی تعطل کا شکار ہے۔ صنعت بند ہے۔ کاروبار جام ہے۔ تعلیمی ادارے بند ہیں
مذہب کے نام پر منافرت جاری ہے۔ احتجاج جاری ہیں۔ بم دھماکوں میں غیر مسلح، بے قصور افراد جاں بحق ہو رہے ہیں۔  بہت غلط رویہ ان پاکستانی مذہبی سیاسی جماعتوں کا ہے جو فوجی عدالتوں کے بارے میں صرف اس لئے تحفظات رکھتی ہیں کہ طالبان ان کے مسلک کے لوگ تھے۔ یعنی انسانیت کا قتل عام دردناک طریقے سے کرنا فضل الرحمٰن اور جماعتِ اسلامی کا مسلک ہے۔
یورپ، اپنے پیرس میں بارہ بندوں کے قتل پر سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ مسلمان ملکوں میں فرقہ واریت اور دہشت گردی کی آگ لگی ہوئی ہے۔ لوگ پریشانیوں سے پھٹنے کو ہیں۔ دنیا میں غم ہی غم ہیں۔ کسی ملک کے ہوائی جہاز تباہ ہو رہے ہیں۔ کہیں بسوں کو حادثات درپیش ہیں۔ مشرق وسطی میں ایک ظالم ناسور، داعش، اسلامی ریاست کے نام پر ظلم و تشدد کی گھناؤنی داستان رقم کر رہا ہے۔وینزویلا میں قتل ہو رہے ہیں۔ افریقہ کے ملکوں میں بوکو حرام اور الشباب جیسی دہشتگرد تنظیمیں انسانیت کا بے دریغ قتل عام کر رہی ہیں۔ انسان مذہب سے باغی ہو رہے ہیں، اللہ کے موجود ہونے سےانکار کر رہے ہیں یا اس کی قدرت کو چیلنج کر رہے ہیں۔ مذہبی سکالرز پر میں کوئی رائے نہیں دے رہا، ورنہ جب بھی رائے دیتا ہوں حتیٰ کہ کسی کی بات کا اقتباس بھی پیش کرتا ہوں تو فتووں اور دھمکیوں کی زد میں آ جاتا ہوں۔ یہ دنیا کیسے سنورے گی۔ یہ مایوسیوں کے بادل کیسے چھٹیں گے؟
خدارا! اس کے لئے جس سے مرضی رائے لے لینا۔ لیکن ابلیس کی رائے عین وہی ہوگی جو طالبان نواز ملکوں، تنظیموں اور عسکری گروپس کی ہوگی، ان کے افکار سے بچنا۔ مثال کے طور پر القاعدہ، اخوان المسلمون، جماعۃ الدعوہ، حزب التحریر، جماعت اسلامی، تمام دیوبندی جماعتیں، بوکو حرام، النصرہ فرنٹ، داعش (اسلامی ریاست)، الشباب اور اسی طرح بہت سی تنظیمیں اور جماعتیں جیسے تنظیمِ اسلامی، لشکر جھنگوی کی سسٹر تنظیم، تنظیم اہلسنت والجماعت، افریقہ کے ایک ملک میں بھی اہلسنت والجماعت (وہی بوکو حرام) کے نام سے طالبان کی ذہنیت والی ایک تنظیم موجود ہے اور لندن میں بھی اسی نام سے ان خوارج کی ایک جماعت ہے۔

ان مذکورہ بالا نام نہاد اہلسنت والجماعت تنظیموں کا مسلمانوں کے سوادِ اعظم اہلسنت والجماعت (حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی) سے تعلق ہونا تو درکنار، یہ انہی اصلی سنی لوگوں کے خون کے پیاسے ہیں۔ ساتھ ساتھ شیعہ کے خون سے بھی ان کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔ اپنے ادوار میں شیعہ حکومتوں نے بھی کچھ کم مظالم نہیں ڈھائے لیکن وہابیہ تنظیموں کے نام نہاد جہاد سے شاید کچھ کم ہی ہوں۔سلفی عقیدے کے لوگ، دوسرے لفظوں میں وہابی یا نام نہاد اہلحدیث یہ تمام دہشت گردوں کے پشت پناہ ہیں یا خود ان دہشتگردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ مسلم دنیا کو پچھلی تین صدیوں میں سب سے زیادہ نقصان اسی وہابی خوارجی ذہنیت کے لوگوں سے اٹھانا پڑا۔ اس کے علاوہ مسلمانوں پر جدیدیت کے نام سے کئی عفریتوں نے حملہ کیا تھا لیکن مسلمان ان پر قابو پا گئے۔ اب یہ ظالم سوچ کے حاملین مسلمانوں کو زندہ تو ہرگز نہیں چھوڑنا چاہتے۔ بلکہ یوں لگتا ہے کہ یہ ان کے جنازوں کو کندھا دینے اور دفنانے والا بھی کوئی نہیں چھوڑنا چاہتے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جنازے ہی نہیں چھوڑنا چاہتے۔ جس بے دردی اور درندگی سے یہ لوگوں کو قتل کرتے ہیں اور پھر ان کے وڈیوز بنا کر انٹرنیٹ پر نشر کرکے دنیا میں خوف و ہراس پھیلاتے ہیں وہ انتہائی قابلِ مذمت ہے۔ یہ غیر انسانی افعال ہیں۔


نجانے دوسری اقوام (مغربی دنیا)  کے لوگ مطالعہ کیوں نہیں کرتے اور حالاتِ حاضرہ سے واقفیت کیوں نہیں رکھتے۔ وہ  رات کی زندگی کو پسند کرتے ہیں اور اپنے نیوز میڈیا پر نجانے کیوں آنکھیں بند کرکے یقین کر لیتے ہیں۔ انہیں غیر جانبدار ہو کر تحقیق کرنی چاہئے۔ وہ کبھی مسلمان بزرگوں کی تعلیمات کو دیکھیں اور جانچیں کہ وہ انسانیت کے کتنے بڑے خیر خواہ دین و مذہب کے لوگ تھے۔ خدارا! اسامہ بن لادن اور اس کی ذہنیت رکھنے والے لوگوں کو مسلمان کہنا چھوڑ دیجئے انہوں نے غیر مسلموں کو کم اور مسلمانوں کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ مزید برآں مسلمانوں کو غیر مسلمانوں نے کم اور ان نام نہاد مجاہدین نے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ تمدنی طور پر مسلمان تنزل میں ہیں۔ اس کا بہت سا کریڈٹ فرقہ واریت اور دہشت گردی کی جنگ کی سرپرستی کرنے والے ممالک کو جاتا ہے چاہے وہ امریکا (یو-ایس) ہو اس کے اتحادی ہوں، دیگر غیر مسلم ممالک ہوں یا فرقہ پرست مسلم ممالک مثلاً سعودی عرب، ایران وغیرہ۔

اب مجھے کوئی صاحب نیچے کمنٹس کرکے یہ مت بتائے کہ امریکہ نے عراق اور افغانستان میں کتنے لوگ قتل کیے اور اسرائیلیوں نے فلسطین میں کتنے مظالم ڈھائے یا بھارتی عسکری افواج نے کشمیر میں کیا کِیا اس کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیاء کے سوالات مجھ سے مت کرے کیونکہ وہ سب انسانیت کا بے دریغ قتل تھا اور ہے اور قابلِ مذمت ہے، اس قتلِ عام کی سب سے بڑی وجہ شاید وہابیہ کا ہمفرے ساختہ 'نیا دینِ اسلام' ہے۔ اسی نام نہاد اسلام کے نفاذ میں پچھلی تین صدیوں سے لاکھوں مسلمان لوگ موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے جن میں سعودی عرب کے قیام سے قبل اور مابعد کے حالات گواہ ہیں۔ جہاں اہل بیتِ عظام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مقدس قبریں وہابیوں کے ظالم نظریات کی وجہ سے زمین بوس ہو گئیں اور ان کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ ابھی حالیہ داعش (اسلامک سٹیٹ) کا کردار دیکھ لو حضرت یونس علیہ السلام کا مزار اور مسجد جو کہ نجانے کتنی صدیوں سے قائم تھے شہید کر دیئے گئے۔ امام رفاعی کبیر سمیت کتنے بزرگان کے مزارات شہید ہوئے۔ اور شامی علاقہ جات میں اہل بیت کرام میں سے کتنے مزارات شہید ہوئے۔

پوری مسلم دنیا میں کتنی مساجد پر دورانِ عبادت وہابیہ نے حملے کیے۔ (وہابیہ سے مراد تمام دہشتگرد گروپس اور تنظیمیں ہیں جو اسلام کے نام پر ظلم و تشدد کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ کیونکہ یہ سب محمد بن عبد الوہاب نجدی کے پیروکار ہیں۔) کیا یہ ان کا اسلام ہے؟ ہرگز نہیں؟ یہ تو سراسر کفر ہے۔ کتنے بے گناہ سویلین لوگوں کو قید کرنے کے بعد قتل کرکے ان کے فوٹیج بنا کر دنیا کے سامنے پیش کئے گئے۔ عید والے دن کتنے نوجوانوں کو غیر وہابی اور غیر ظالم ہونے کی سزا ملی۔ کتنی عورتیں نکاح مسیار (جہاد النکاح، جنسی جہاد) کی نذر ہو گئیں اور کتنی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ کتنے معصوم بچے یتیم ہوئے۔ کتنی بستیاں اجاڑ دی گئیں۔ ایزدی / یزیدی فرقہ والوں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا؟ ان کی کہانی کیا تھی؟ نجانے کتنے ظلم اسلام کے نام پر ان لوگوں نے کیے جنہیں خود امریکہ شامی حکومت کے خلاف مکمل امداد دیتا رہا، برطانیہ افرادی قوت، تربیت اور مالی قوت فراہم کرتا رہا، اسرائیلی انہیں تربیت دیتے رہے اور سعودی امراء انہیں مال و دولت بطورِ فنڈ دیتے رہے۔

اللہ رحم فرمائے اور سب کو ہدایت عطا فرمائے۔ جن کے نصیب میں ان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہدایت نہیں ہے انہیں اللہ عزوجل غرق فرمائے اور ہمیشہ کیلئے عبرت کا نشان بنا دے۔ اللہ عزوجل ہمیں اچھے انسان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ بجاہ سید المرسلین۔ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم۔

نوٹ: میری تحاریر میری ذاتی آراء ہیں۔ ان سے کسی تنظیم، ادارے، جماعت، پبلشر، ویب سائٹ یا فورم وغیرہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ اور میرے سوا کوئی میری آراء کا ذمہ دار نہیں۔ ایک آدھ جملہ یا پیرا گراف کاٹ کر تنقید کرنے والوں سے میں بری ہوں۔


ہفتہ، 3 جنوری، 2015

درست طریقہ جشن عید میلاد النبی منانے کا

یہ جو سال گزرا ہے یعنی اسلامی کیلنڈر کے مطابق 1435 ہجری قمری تھا اس میں شب قدر جو کہ ایک بہت بابرکت رات ہوتی ہے، میں نے لاہور میں عالمگیری، بادشاہی مسجد کو مغربی جانب سے دیکھا وہ دلہن کی طرح سجی ہوئی تھی۔ میرے دل میں کوئی بغض یا نفرت ہرگز پیدا نہ ہوئی۔ لیکن جو لوگ ان دنوں بادشاہی مسجد لاہور میں بطور مذہبی رہنما تعینات ہیں ان کے لئے ایک سوال میرے دل میں آیا اور میں نے ایک میسیج موبائل پر لکھ کر لوگوں کو بھیجا کہ کیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ایسا ثابت ہے کہ انہوں نے کسی بادشاہ (عالمگیر کی طرح کا بادشاہ) کی بنوائی ہوئی مسجد کو شب قدر کو دلہن کی طرح سجایا ہو اور اس طرح خوشی کا اظہار فرمایا ہو۔ میں نے آگے لکھا کہ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ اگر کوئی مسجد کو سجا کر شب قدر کو مناتا ہے اور خوشی محسوس کرتا ہے۔
 یہ سوال دل میں آنے کی وجہ بڑی واضح اور ایک تنقیدی نکتہ نظر کی وجہ سے تھی کہ دنیا بھر میں مسلمان لوگ بارہ ربیع الاول کو نبی پاک صاحبِ لولاک صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ ولادت اپنے گھر اور مسجدیں سجا کر مناتے ہیں تو کچھ مشہورِ زمانہ سکالرز ان لوگوں کے خلاف جہاد کرنے کی تر غیب دیتے ہیں۔ سکالر کا نام میں لکھ سکتا ہوں لیکن فی الوقت نہیں لکھ رہا اگر کوئی پوچھے گا تو ضرور بتاؤں گا بلکہ وڈیو موجود ہے دکھا بھی سکتا ہوں۔ وہ جناب کہتے ہیں ایک حدیث پاک کا حوالہ دے کر کہ پہلے انبیاء کرام علیہم السلام کے اصحاب یا حواری ہوتے تھے جو ان نبیوں سے دین سیکھ کر لوگوں کو بتاتے ان کے بعد کچھ ایسے ناخلف لوگ آ جاتے تھے جو وہ کام کرنے کا حکم دیتے تھے جو خود نہیں کرتے اور کرتے وہ تھے جس کا حکم ہی نہیں مِلا ہوتا تھا۔ یہ سکالر صاحب اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ عید میلاد النبی منانے کا حکم نہیں ہے تو حدیث پاک کے مطابق مؤمن وہ ہوگا جو ان کے خلاف جہاد کرے گا قوت سے، زبان سے یا دل سے برا مانے گا جو رائی کے برابر ایمان کی مثال ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ آج شام کو میں نے موبائل پر ایک سوال لوگوں کو بھیجا تھا کہ جب بھی مسلمانوں کے مذہبی تہوار ہوتے ہیں تو مسلم ملک میں رہتے ہوئے انہیں دہشت گردی کی زد میں آ جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ یہ خدشات مسلمانوں کو اپنے ممالک میں کن لوگوں سے ہیں؟ کیا دہشت گرد مسلمان ہیں؟ یا کیا مسلمان دہشت گرد ہو سکتے ہیں؟؟؟ ان سوالات کا جواب مجھے ابھی ابھی سکالرز کی وڈیوز دیکھ کر ملا ہے۔ ان میں سے کوئی عید میلاد النبی منانے والوں کے خلاف جہاد کی ترغیب دے رہا ہے۔ اور کوئی دوسرا کہہ رہا ہے کہ اگر ان محافل میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو خدا سے بڑھا کر بیان نہ کیا جائے تو ٹھیک ہے! واٹ نان سینس ہی اِز۔ کیا وہ سکالر خدا تعالی کی شان کو محدود مانتا ہے جو کہتا پھرتا ہے کہ معاذاللہ نبی پاک کی شان کو بڑھا کر پیش کِیا جاتا ہے؟ کیا اللہ عزوجل کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا درست ہے کہ اللہ کی شان کی کوئی حد ہوتی ہے۔ کس طرح کی بات کرتے ہیں جناب دانشور! ایک تیسرے صاحب ہیں جو کہتے ہیں کہ عام انسان یا بچے کی سالگرہ منانا مباح یا مستحب یا مکروہ ہے جسے حرام قرار نہیں دیا جا سکتا۔ وہ کہتا ہے کہ لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔ انبیاء کرام علیہم کی ولادت کی سالگرہ منانا شِرک کی طرف لے جاتا ہے۔ لیکن اس سکالر صاحب نے اس بات کو واضح نہیں کیا کہ یہ کیسے شِرک کی طرف لے جاتا ہے۔ بس لے جاتا ہے۔ کیونکہ کہہ جو دیا کہ لے جاتا ہے۔ کمال ہے! یہ کیا منطق ہوئی کہ اللہ کے پاک پیغمبر علیہ السلام کی یاد میں ایک دن منانا شِرک کی طرف لے جاتا ہے؟ ان  سکالرز  نےایک بات 'اور' کہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسولِ پاک کو روزانہ یاد کرنا چاہئے۔ صرف ایک سالانہ پروگرام ترتیب دینا یہ کیسے ثابت یا ظاہر کرتا ہے کہ آپ عاشقِ رسول ہیں یا اس ایک دن کو منا لینے سے آپ لوگ کہاں سچے اور باعمل مسلمان بن جاتے ہیں۔۔۔۔۔ یہ بات ان کی منطقی ہے۔ بھئی سکالرز صاحبان، احترام کے ساتھ! آپ تو بہت اچھا نکتہ بیان فرما رہے ہیں چلو ایسا کرتے ہیں۔ جن لوگوں کو سال کے بعد صرف ربیع الاول میں نبی پاک کی یاد ، زیادہ آتی ہے وہ 12 ربیع الاول سے پہلے اور چند روز بعد تک جشن منا لیا کریں گے۔ بس آپ ذرا ہمت کیجیے اور دیگر مہینوں میں زیادہ نہیں تو ہر ہفتے کو ایک محفل پاک منعقد کرنے کے لئے کوشش فرمائیے۔ آہستہ آہستہ لوگ آپ کے عمل کو دیکھ کر یہ سمجھنا شروع کر دیں گے ہمیں پُورا سال  اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے کہ اس نے ہمیں اپنا محبوب عطا فرمایا اور پیارا دین عطا فرمایا۔ اس میں تو بہت زیادہ ہم آہنگی اور محبتوں کو بڑھانے والی بات پوشیدہ ہے کہ آپ سال بھر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہتے ہیں کہ یا اللہ! تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دنیا میں بھیج کر تُو نے ہم پر احسان عظیم فرمایا ہے۔ اب ہم سال بھر جشن آمدِ رسول منایا کریں گے۔ جس میں نہ صرف نعرے ہوں گے بلکہ اس کا عکس ہماری عملی زندگی سے بھی جھلکے گا۔ ہماری روزمرہ کی حرکات سے بھی۔ ہمارے کاروبارِ حیات سے بھی۔ تو آئیے آج یہ عہد کریں کہ آج کے بعد پورا سال نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد میں ہم غریبوں کا بہت خیال رکھیں گے۔ ناداروں اور مفلسوں کی مدد کریں گے۔ ہمسائیوں کے حقوق کا خیال رکھیں گے۔ کسی کا دل نہیں دکھائیں گے۔ ہم عملی مسلمان بن کر دنیا کے لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کریں گے۔ اور تجدیدِ عہد پھر اگلے سال ربیع الاول یا رمضان شریف میں کر لیں گے۔ کہ جس طرح سانحہ پشاور، سانحہ واہگہ بارڈر، سانحہ نشتر پارک، سانحہ مون مارکیٹ، سانحہ جامعہ منہاج القرآن، سانحہ راولپنڈی، سانحہ ہزارہ قبائل اور دیگر بہت سے واقعات میں جن لوگوں کا دل دُکھا ہے۔ ہم ان کے غم گسار بن جائیں گے۔ ہم لوگوں کو سُکھ دیں گے۔ پیار دیں گے۔ محبتیں بانٹیں گے۔ ہم اپنی حکومت سے یہ مطالبہ کریں گے کہ اپنی خارجہ پالیسی میں غیر ملکیوں کے ڈرونز کے لئے کوئی گنجائش نہ رکھی جائے ۔ ہم اپنے معاملات خود دیکھ لیں گے۔ اور آئیں آج عہد کریں کہ ہم دہشت گردانہ سرگرمیوں کی روک تھام کے لئے پوُرا سال کوشش کریں گے۔ کیونکہ ہم سارا سال نبی پاک کی یاد میں گزارنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا ہم عید، محرم ، شب معراج، شب برات اور دیگر بہت سے مذہبی و غیر مذہبی تہواروں پر شر پسندانہ کارروائیوں کی حوصلہ شکنی کریں گے۔ اور دینی مسائل کے حل کے لئے ایم۔بی۔بی۔ایس ڈاکٹرز کی بجائے دینی علوم کے ماہرین سے رجوع کریں گے اور طبی مسائل کے حل کے لئے ڈاکٹرز یعنی ماہرین طب کی خدمات حاصل کریں گے۔ آئیں آج عہد کریں کہ ہم رشوت دینے والے اور لینے والے کو نبی پاک کا وہ واضح فرمان سُنا کر اس سے روکیں گے جس میں نبی پاک نے راشی اور مرتشی دونوں کو جہنمی قرار دیا ہے۔ اور ہم ملاوٹ کرنے والوں کو بھی وہ حدیث سُنا کر دھوکہ بازی سے باز رہنے کا درس دیں گے۔ جس میں سرکار دو عالم نے فرمایا کہ "وہ ہم میں سے نہیں جو ملاوٹ کرے"۔ اسی طرح ہر شعبہ زندگی اور ہر مرحلے پر دینِ متین کی تعلیمات کی رہنمائی میں سارا سال آقائے دوجہاں کی یاد میں گزاریں گے اور جنہیں صرف سال کے بعد ربیع الاول شریف میں یہ خوشی منانا یاد آتا ہے انہیں اپنے عمل سے بتائیں گے کہ یہ ایک مثالی کردار ہے۔ یہ ہے درست طریقہ جشنِ عید میلاد النبی منانے کا۔

جمعہ، 2 جنوری، 2015

جہیمان عتیبی

ویکیپیڈیا سے


پیدائش 16 ستمبر 1936
صوبہ القصيم, سعودی عرب
وفات 9 جنوری 1980 (عمر 43 سال)
حیثیت پھانسی دی گئی
اولاد 3

جہیمان عتیبی (عربی زبان: جهيمان بن محمد بن سيف العتيبي) (16 ستمبر 1936ء تا 9 جنوری 1980ء) ایک مذہبی کارکن اور عسکریت پسند تھا اس کی قیادت میں 400 سے 500 مردوں کے ایک منظم گروپ نے خانہ کعبہ پر قبضہ کر لیا تھا ۔اس نے یکم محرم 1400 ہجری بمطابق 20 نومبر 1979ء کی صبح نماز فجر کی جماعت کے اختتام کے وقت اپنے مسلح ساتھیوںسمیت مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام (بیت اللہ) پر حملہ کیا اور کئی لوگوں کو یر غمال بنا لیا ۔ مسجد الحرام (خانہ کعبہ) دو سے زائد ہفتے ان کے قبضے میں رہی اور کئی بے گناہ لوگوں کو بچوں اور عورتوںسمیت شہید کردیا گیا ۔ شہداء کی تعداد کا اندازہ ایک سو سے لے کر چھ سو افراد تک لگایا جاتا ہے۔ پھر سعودی حکومت نے سپیشل فورسز کو خانہ کعبہ میں داخل کر دیا۔ فورسز نے ایک آنسو گیس (سی بی) کا استعمال کیا جو عمل تنفس کو سست کرتی اور جارحانہ جذبات کو روکتی ہے ۔ ٹینکوں کے ذریعے طاقت کا استعمال کرکے خانہ کعبہ (مسجد الحرام) کے گیٹ توڑے گئے اور جہیمان عتیبی کو پھانسی دی گئی۔ اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری جیسے شدت پسند عناصر کے علاوہ کئی دیگر دہشتگرد تنظیموں کے لوگ جہیمان عتیبی کے طریقہ واردات سے متاثر ہوئے۔ اور آج تک دنیا میں آگ لگائے ہوئے ہیں۔ یہ اسلام کے نام پر ظلم کا بازار گرم کرنے والے جہیمان عتیبی کے نظریاتی پیروکار ہیں۔ اسے اور اس کے ساتھیوں کو اس کی زندگی میں خوارج کہا جاتا تھا۔ آج کے دہشت گردوں کو بھی ان کے اعمال و علامات کی وجہ سے خوارج کہا جاتا ہے