پیر، 30 مئی، 2016

تھامس ایڈورڈ لارینس المعروف لارنس آف عریبیہ

تھامس ایڈورڈ لارینس 1888 میں پیدا ہوا اور 1935 میں اپنی ساختہ موٹر سائیکل (انتہائی تیز رفتار انجن اس نے خود مرمت کیا تھا، ان دنوں دوسری ریٹائرمنٹ کے بعد اس کا یہی مشغلہ تھا) کے حادثے میں مرا

اس پر افسانوں کے علاوہ 1962 میں ایک فلم بنی "لارنس آف عریبیہ"

تاریخ نجد و حجاز، کتاب ميں اس فلم پر تنقید کی گئی ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ کتاب علامہ غلام رسول سعیدی کی تصنیف ہے۔

مجھے 2010 میں ایک اردو کتاب "لارنس آف عریبیہ" ملی، وہ انگریزی کا ترجمہ تھا۔ اُسے اردو بازار سے چھاپا گیا تھا۔ یہ کتاب لارنس کے ایک دوست نے لارنس کی سوانح عمری کے طور پر لکھی تھی ۔
حسنین شاہ نے کہا تھا کہ یہ کتاب تو لارنس کو ایک طلسماتی شخصیت کے طور پر پیش کرتی ہے۔ اسے پڑھ کر قاری، لارنس کو ہیرو قرار دیتا ہے۔

پھر وہ کتاب میرا ایک خیرخواہ لے گیا اس کے گھر سے اس کی بہن لے گئی

سچ تو یہ ہے کہ سلطنتِ عثمانیہ کے سقوط میں اکیلے لارنس نے وہ کردار کیا جو پانچ صدیوں سے لاکھوں کروڑوں فوجیوں پر مشتمل افواج کی جنگییں نہ کر پائیں۔

جدید عرب ممالک کے حدود اربع کے نقشے میں لارنس کا کردار پورے برطانیہ، فرانس اور جرمنی سے زیادہ ہے۔

لارنس کے بارے ميں بہت سے افسانہ جات مشہور ہیں۔
ایک افسانہ یہ تھا کہ وہ افغانستان کے بادشاہ سے ملا تھا اور ملاقات کرکے فلاں فلاں سازشیں جنم دی تھیں۔
ایک افسانہ یہ تھا کہ وہ لاہور میں ایک طویل عرصہ تک جعلی پیر بن کے لوگوں کو بیوقوف بناتا رہا تھا۔

وہ برطانوی فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ "شاہ" کے نام بھرتی ہوگیا تھا

جارج برنارڈ شا نے اپنے نام کے ساتھ "شا" کا لاحقہ لارنس کی عقیدت میں لگایا تھا

وہ منفی درجہ حرارت میں کئی دنوں تک بھوکا اور ننگا زندہ رہ لیتا تھا۔ اور گرم جھلستے ریگستانوں میں پیاسا کئی روز زندہ رہ لیتا۔

پانی میں کئی گھنٹے سانس ڈوب کر زندہ رہ لیتا۔

وہ چاروں الہامی کتابوں کا حافظ تھا۔

اسے ایک لقب دیا جاتا تھا "درندے کی کھوپڑی میں دانشور کا دماغ"

وہ ایک ماہر آثار قدیمہ، ملٹری آفیسر (دوسری مرتبہ عام سپاہی) اور سفارت کار تھا، اس نے سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف عرب بغاوت کے لیے صحرائے سینا اور فلسطینی علاقہ جات میں عثمانی سلطنت کے خاتمے کیلئے عربوں کو بھڑکایا، مواصلات کے ذرائع خصوصاً ریلوے کی پٹڑیوں کو بموں کے ذریعے اس وقت اڑایا جب عثمانی افواج کے دستے ان جگہوں سے گزر رہے ہوتے، عربوں کو ترکی کی کاغذی کرنسی کے خلاف بھڑکا کر سونے کے سکوں کا لالچی بنایا، عرب قوم پرستی کا نعرہ لگوا کر مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کروایا، سازشوں کے لمبے چوڑے جال بننے میں کامیاب رہا

یہ پہلی عالمی جنگ کا دورانیہ تھا۔ مصر پر بھی برطانیہ کا قبضہ تھا اور قاہرہ میں ان کی افواج کا ہیڈ کوارٹر تھا ۔ لارنس ان سے تعلق رکھتا تھا مصر والی برطانوی ایجنسیاں عربوں کو خود مختاری کے نام پر گمراہ کر کے ترکیہ سے آزادی دلوا کر سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے کرنا چاہتی تھیں جبکہ متحدہ ہندوستان پر قابض برطانوی ایجنسی ایسی صورت حال کے اس لیے خلاف تھی کہ اگر عرب آزاد ہو گئے تو ہندوستانی لوگ بھی آزادی کے لیے بہت شدت سے مطالبہ کریں گے۔

اُدھر لارنس اینڈ کمپنی نے ترکی کے ٹکڑے کر کے جہاں جرمنی کو ناکوں چنے چبوا دیئے وہاں ساتھ ساتھ فرانس کو دھوکہ دے دیا اور عربوں کی آزاد حکومت کا ڈرامہ رچا دیا

دوسری جانب ہندوستان میں مقیم برطانوی ایجنسیوں نے آل سعود کے بدمعاشوں کو دوبارہ سے طاقتور بنا کر عرب نیشلزم کے لڑا دیا اور نجد و حجاز مقدس پر قومیت پرستی کی بجائے وہابی فرقہ پرستوں کی حکومت قائم کرا دی، اس ظلم کے بدلے آل سعود سے ایک آزاد یہودی ریاست کے قیام کے لیے  فلسطین کی سرزمين پرقبضہ کرکے (ملکِ اسرائیل بنانے کیلئے) ایک معاہدے پر دستخط کروائے جس کی رو سے فریقین (مملکت سعودی عرب اور ریاست اسرائیل) ایک دوسرے کی بقا کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔

تصاویر:  بشکریہ وکیپیڈیا

جمعرات، 19 مئی، 2016

ندیم بھابھہ میری زندگی کا مؤثر ترین شاعر

ندیم بھابھہ میری زندگی کا مؤثر ترین شاعر ہے، میں اُسے تمام لوگوں کے لئے سب سے عظیم شاعر قرار نہیں دے رہا، دراصل مجھے شاعری کے فنی محاسن کا ادراک نہیں، پر اسے پڑھنے میں لطف و سرور پاتا ہوں بچپن سے لے کر اپنی سوچوں کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ شاعری میں سے نت نئے مفاہیم و مطالب اخذ ہوتے رہے ہیں، آج کل مجھے اکثر شعرا کا (نیا/پرانا) کلام سیاسی لگتا ہے۔ مجھے کسی بھی غزل یا نظم میں سے اُس (کہے جانے کے) دور کے سیاسی حالات کے بارے شاعر کے خیالات کا اندازہ ہوجاتا ہے، ممکن ہے یہ مبالغہ آرائی ہو، بہرحال سیاست، معاشرت اور سماج کا اثر کلام میں جھلکنا ایک فطری امر ہے۔
مجھے ولی دکنی اور خواجہ درد کے کلام کو سمجھنے کے لئے جس ذہنی کاوش کی ضرورت تھی اس سے ذرا تہی دامن/سہل پسند رہا ہوں کیونکہ
؎                 اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
بہرحال مرزا غالب سے جیسے میری یاری رہی ہو، حقیقتاً کلامِ غالب میں سے بھی میں نے چند اردو اشعار پڑھے ہیں۔ رہی بات فارسی کی تو اس کے میں قریب نہیں گیا، پھر بھی غالب جیسے دل پہ اثر کرتا ہے بیسویں صدی میں فیضؔ اور ساغر صدیقی کا کلام مجھے چھو کر گزرا، البتہ فیض کے سیاسی نظریات کا میں ہوبہو قائل نہیں اس کی اردو دانی کا معترف ہوں (پڑھے لکھے حضرات سے گزارش ہے کہ میں ”چھوٹا منہ بڑی بات“ کر رہا ہوں کیوںکہ میں نے کلامِ فیض میں سے بھی ایک، دو غزلیں ہی پڑھی ہیں) جبکہ ساغرؔ میرے دل کی بات کرتا ہے، ساغر جیسے عظیم لوگ واقعی صدیوں کے بعد پیدا ہوتے ہیں وہ بیسویں صدی کا سب سے مظلوم شاعر ہے مجھے نہیں معلوم شعراء (نقادوں) نے اُسے آج تک ”داخل دفتر“ کیوں رکھا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ انیسویں صدی کا غالبؔ بھی ایک طویل مدت تک اسی ظُلم کا شکار رہا پھر بیسویں صدی میں جاکر شعرا اور ادیبوں نے اسے اپنا امام مانا۔
بہرنو، اب محمد ندیم بھابھہ کی بات کرتا ہوں ان کی شاعری کی پہلی کتاب ”میں کہیں اور جا نہیں سکتا“ مجھے منظور کے ردی کے گودام سے (تقریباً 2003ء یا 2004ء میں) ملی، ہم لوگ بچپن سے دیکھتے آئے ہیں کہ ردی پیپرز کا کام ہمارے گھروں تک پہنچا ہوا تھا۔ ردی ورقوں سے وابستہ ہونے کی وجہ سے بچپن سے مختلف النوع کتب و رسائل (بیشتر پرانے) پڑھنے کو ملے بلکہ جو ملا پڑھ ڈالا۔
میں اس کتاب کو گھر لے گیا، گھر ہمارا کیا تھا لاہور میں چوہان روڈ کے (بند روڈ) پار ایک سڑک دربارِ رفاعیہ کو جاتی ہے اس پر ایک بدبودار جگہ پہ (بطورِ کرایہ دار) بسیرا تھا۔ ان دنوں میں حفظِ قرآن پاک کا طالب علم تھا اور ”جامعہ حنفیہ عنایت صدیق“ میں زیرِ تعلیم تھا۔ سن 2003ء سے پہلے امی اور بہن گاؤں میں تھے پھر یہاں آئے تو ایک کمرہ نما گھر کرائے پر لیا، میں نے 2003ء کے اکتوبر تک چھبیس پارے حفظ کرلئے تھے بعد میں لاہور کی سڑکیں ماپنا شروع کر دیں ان دنوں ندیمؔ بھابھہ کی کتاب مجھے مل گئی، بچپن سے میں نے اپنی روح کو ایک گہری اداسی کا شکار پایا تھا جسے میں نہ آج تک جان پایا ہوں اور نہ ہی اس معمے کا کوئی حل مل سکا ہے۔
کتاب میں پہلے نعت تھی جسے پڑھ کر بہت راحت ہوئی، پھر
میں ایسے موڑ پر اپنی کہانی چھوڑ آیا ہوں
کسی کی آنکھ میں پانی ہی پانی چھوڑ آیا ہوں
ایسی غزل سے کتاب کا آغاز ہورہا تھا تو تن بدن میں آگ لگنا ایک لازمی امر تھا اس کے بعد اکثر غزلوں پھر نظموں نے دِل موہ لیا۔ سن 2004ء میں میرا ایک خالہ زاد مدثر شریف وہاں آتا تو اسے میں بھابھہ صاحب کا کلام سناتا اور وہ جھرجھریاں لے کر رہ جاتا اور ہمیشہ میری سوجھ بوجھ کو ”انڈر مائن“ کرتا رہتا۔
شاید اس کتاب کی غزلوں کو کئی بار پڑھا تھا اور نظموں کو روح میں اتارا تھا جن میں اداسی اداسی کی کہانیاں مندرج تھیں، اسی لئے اس کتاب کے کئی مصرعے اور شعر سن 2010ء تک یاد رہے، کیونکہ میں نے وہ کتاب پھر واپس جاکر منظور کے حوالے کردی تھی کہ ”دیکھو یار! اس بندے نے کیا شاعری کی ہے وغیرہ وغیرہ“ اور وہاں سے وہ کتاب گم ہوگئی۔
سن 2010ء میں مجھے انٹرنیٹ تک رسائی ہوئی تو گوگل کیا ندیم بھابھہ، پھر وہ جناب فیس بک پر بھی مل گئے۔
اب محمد ندیمؔ بھابھہ کی ایک غزل پیش کرکے اجازت چاہتا ہوں۔

اس کی باتیں، اس کا لہجہ اور میں ہوں
نظم پڑی ہے مصرعہ مصرعہ، اور میں ہوں

ایک دیا رکھا ہے ہوا کے کاندھے پر
جس کا لرزتا، جلتا سایا اور میں ہوں

اس گاؤں کی آبادی بس اتنی ہے
شہر سے بھاگ کے آنے والا اور میں ہوں

چاروں جانب تنہائی کے لشکر ہیں
بے ترتیب سا ایک ہے کمرہ اور میں ہوں

ویسے تو سب لوگ یہاں پر مردہ ہیں
اس نے مجھ کو زندہ سمجھا، اور میں ہوں

منگل، 17 مئی، 2016

تکیوں کا سہارا

پنجاب، پاکستان میں 2015ء کے اکتوبر نومبرمیں بلدیاتی انتخابات ہوئے جس کے فوراً بعد گلی محلوں میں نوسربازی کی مختلف النوع وارداتوں کا سلسلہ تیزی سے جاری ہوا۔ ایک واردات کا فیصل آباد شہر سے پتہ چلا، ایک شاہدرہ لاہور سے وکی نے بتائی اور تیسری ہمارے اپنے بھانجے ”محسن“ نامی بچے کے ساتھ ہوگئی۔ چند روز قبل یہاں میری گلی میں رات کے دس بجے (بارونق مقام پر) دو لوگوں سے نقدی اور موبائلز چھین کر لے گئے۔
اپریل 2016ء میں خبر آئی کہ گیارہ دہشت گرد (خود کش بمبار) پاکستان میں داخل ہوگئے۔۔۔۔ ہماری بہترین خفیہ ایجنسیوں نے کسی ایک بندے کو میڈیا پر لاکر اپنے منہ سے کالک پونچھنے کی سی کی کہ بھئی یہ دیکھو، ہمارا کارنامہ۔۔۔۔۔۔۔۔! لیکن میرا گمان ہے کہ اس مرتبہ دہشت گردوں نے بم کی بجائے کھانوں میں زہر ملانے کا طریقہ واردات اپنایا ہے۔
سب سے پہلے شاید ضلع لیہ سے مٹھائیوں میں زہر کی ملاوٹ کی خبریں آئیں، پھر ڈیرہ غازی خان میں بارات کا کھانا کھا کر لوگ موت کی وادی میں چلے گئے، اور فیصل آباد شہر میں رات کے گلیوں بازاروں میں سوئے ہوئے لوگوں کو کوئی قتل کرگئے اور ہماری نمبر ون خفیہ ایجنسیاں بھی خوابِ خرگوش کے مزے لیتی رہیں۔
پھر فیصل آباد میں دودھ سوڈے میں زہر کی ملاوٹ سے معاملہ گڑبڑ ہوا تو ”اے ٹی وی“ کے سقراطوں نے جا کر صفائی کے گھٹیا انتظامات کو نشانہ بنا ڈالا۔
پھر ایک خبر آئی کہ فلاں علاقے میں زہریلی کھیر کھانے سے لوگ موت کی وادی میں چلے گئے۔
اب سن لیں، نہ تو بلدیاتی الیکشن کے بعد میں لوکل سیاست دانوں اور ان کے پالتو کتوں کو موردِ الزام ٹھہراتا ہوں اور نہ ہی (میرے اندازے کے مطابق) بھارتی جاسوسوں کی طرف سے کھانوں میں زہر کی ملاوٹ پر مسندِ اقتدار پر براجمان ”حکمرانوں“ کو کچھ کہتا ہوں اور امریکہ کی دھمکی سُن کر چائینہ کی گود میں جاکر بیٹھنے والے ”گدیلے“ بچے کو کچھ بھی نہیں کہتا۔ صرف یہ کہے دیتا ہوں کہ،
تکیوں کا سہارا لینے والے ہی ڈوبا کرتے ہیں

اتوار، 1 مئی، 2016

Pakistani Blood پاکستانی خون

پاکستانی خون بہت سستا ہے، بلکہ مفت ہے! ارے نہیں! یہ تو مستحق ہے اسی بات کا کہ اسے ندی نالوں کی طرح بہایا جائے، چاہے اُسے آرمی بہائے، سیاستدان، پولیس، غنڈے، دہشتگرد یا کوئی بیرونِ ملک بیٹھا ہوا پاکستانی نژاد اِسے گالی بک دے اس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ اسے بھارتی بہا سکتے ہیں، ایرانی جبکہ سعودی  درندے اسے اپنا جدی پُشتی حق سمجھتے ہیں بلکہ وہ نجدی پلید تو ساری دُنیا کے مسلمانوں کو قتل کرنا چاہتے ہیں پھر بھی ان کی پیاس نہیں بجھےگی کیونکہ وہ خوارج ہیں اور یہ ان کا ازل سے ابد تک کا وطیرہ ٹھہرا۔

امریکی ایجنسیاں ساری دنیا کے انسانوں کو اپنے باپ کی جائیداد سمجھتی ہیں وہ کسی کو کہیں بھی  بوجوہ یا بلا وجہ قتل کرنے کا استحقاق رکھتی ہیں۔ کیا کبھی پاکستان یہ جرأت کرسکتا ہے کہ وہ کسی بھارتی، ایرانی، افغانی، روسی، امریکی یا سعودی قاتل یا ثابت شدہ مجرم کو سزائے موت دے؟

ایسا ممکن ہی نہیں! اس کی وجوہات سب کو معلوم ہیں۔

لیکن دنیا میں پاکستان سے باہر 80 لاکھ پاکستانی ہیں۔ اگر ایک ہی دن میں سارے بلاوجہ قتل کردیئے جائیں تو پاکستان کی نمبرون انٹیلیجنس اور نمبر ون سیاست کے کان پر جوں نہیں رینگے گی۔

بلکہ 26 کروڑ پاکستانی جو اندرون ملک رہائش پذیر ہیں، ان میں سے 98فیصد عوام کو دوفیصد خواص اگر ایک دن موت کے گھاٹ اتار دیں تو کوئی قیامت نہیں آئے گی تو پھر آپ ”پاکستان کے عام شہری پاکستان کے 'مالک' کیسے ہیں“؟