جمعہ، 4 نومبر، 2022

ترجمانی اور بیانیے

بھئی!

کچھ لوگوں نے مجھے عمران خان کا ترجمان سمجھ لیا ہے۔

تو وضاحت کے طور پر عرض ہے کہ میں تحریک انصاف کا ترجمان نہیں ہوں اور نہ ہی کسی کے پورٹ فولیو کا ذمہ دار ہوں۔

اور جو کچھ میں یہاں لکھتا ہوں وہ میرے ذاتی خیالات ہیں۔

میں نے ساری زندگی کسی ایک بھی بندے سے نہیں کہا کہ عمران خان کی جماعت جوائن کرو یا طاہر القادری کا فلسفہ مانو!

لیکن انعام کے حق دار میرے وہ دوست ہیں جو میرے عمران خان کی گھڑی چوری ہو جانے کی خبر دیتے ہیں اور طاہر القادری کے ٹویٹر اکاؤنٹ کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہیں۔

پاکستان کے قانون میں موجود ہے کہ جس سرکاری ملازم کو بیرون ملک سے کوئی تحفہ ملتا ہے وہ اس کو اگر رکھنا چاہے تو آدھی قیمت حکومت کے خزانے میں جمع کروا کے رکھ لے۔ عمران خان کہتا ہے کہ میں نے ہر تحفے کی آدھی قیمت ادا کر دی تھی۔ یہی ارشد شریف کی آخری وڈیو تھی کہ جس میں وہ دوسرے سرکاری ملازموں کی تفصیلات کے غائب ہونے کی بات کر رہا تھا لیکن خود غائب کر دیا گیا۔

محترمہ مریم نواز کا بیان گردش کر رہا تھا کہ عمران خان نے تحفوں کی وجہ سے اتنے کروڑ روپے کمائے یا بچائے ہیں تو شاید وہ یہ کہنا چاہ رہی تھیں کہ آدھی قیمت ادا کر کے بھی خان صاحب کو کروڑوں کا فائدہ ہو چکا ہے۔

لیکن اگر مریم صاحبہ یہ کہنا چاہتی ہیں کہ تحفوں کی قیمت سرکاری خزانے میں جمع ہی نہیں کروائی گئی تو بہت آسان طریقہ ہے کہ اس کی تفصیلات عدالت میں لے جائیں اور کیس کر دیں(حکومتی کاغذات آپ کے ہاتھ ہیں آج کل آپ کے چچا جان وزیراعظم ہیں)۔ تاکہ جج صاحبان کوئی فیصلہ کر دیں۔ لیکن اگر آدھی قیمت سے پیسے بچانے کا غصہ ہے تو یہ سراسر حسد ہے۔

اب ایک مزےدار صورتحال یہ ہے کہ کل سے تحریک لبیک کے لوگ ٹویٹر پر کہیں نظر نہیں آ رہے۔

پہلے مریم نواز کا میڈیا سیل جو پوسٹ ان بے چاروں کو بنا دیتا اور رانا ثناء اللہ بیان دے دیتا وہ ان کا مؤقف بن جاتا لیکن اب وہ نون لیگ کے بھی خلاف ہو چکے ہیں تو ان کا مائی باپ کوئی نہیں رہا۔

اور ایک مزےدار سچ یہ تھا کہ مفتی منیب الرحمان کا جو کالم صبح اخبار میں شائع ہوتا، شام کو اسحاق ڈار لندن سے وہی بیان جاری کر دیتا۔

لیکن اب ڈار صاحب وزیر خزانہ بن گئے ہیں تو مفتی صاحب کے کالم شاید اب کوئی بھی نہیں پڑھتا۔

جو حالت کل کور کمانڈر ہاؤس پشاور اور جی۔ ایچ۔ کیو راولپنڈی میں ہوئی ہے۔ افواج پاکستان نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھی تھی کہ عوام پاکستان کبھی اس طرح ان کے دفتروں پر چڑھ دوڑیں گے۔

پچھتر سالہ تاریخ میں فوج نے ہی عوام کو مکے دکھائے۔ کبھی عوام نے فوج کو مکے نہیں دکھائے۔

کیا یہ سچ نہیں کہ پاکستان کی افواج میں پاکستان ہی کے شہری ہیں۔

اور فوجی بھائی اپنے گھر والوں کے اثرات بھی لیتے ہیں۔ لہٰذا ثابت ہوتا ہے فوج کے لوگ اسی ملک میں سے ہیں اور ان کو بھی ملک میں ہونے والے سب حالات کی خبر ہے۔

جب افواج پاکستان کا سپہ سالار کہہ رہا ہے کہ فوج نیوٹرل اور غیر سیاسی ہے تو لوگ افواج کے دفتروں پر کیوں دھاوا بول رہے ہیں۔

یعنی لوگوں کو فوج کے بیانات پر اعتبار کیوں نہیں ہے؟

دنیا کی "نمبر ون" آئی ایس آئی کے آفیسرز جب فیض آباد کے پہلے دھرنے کے بعد عدالت میں "خفیہ" رپورٹ لے کر گئے تو ڈان اخبار کی خبر کے مطابق جج نے کہا کہ یہ سب باتیں تو پہلے ہی اخبارات میں شائع ہو چکی ہیں۔ تم خفیہ کون سی لائے ہو؟

یہ جج صاحب کا جملہ معترضہ تھا، کچھ طبقات کا خیال ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے اس دور میں "ختم نبوت" کے قانون کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ کی تھی۔ حالانکہ یہ جھوٹ ہے۔ وہ کوئی خاص معاملہ نہیں ہوا تھا۔ جب حل ہو گیا، ختم ہو گیا تو مولوی خادم صاحب کو کسی نے سجھایا کہ اب تم اسلام آباد جاؤ اور دنیا میں نام و نمود حاصل کرو

مریم نواز کے میڈیا سیل کا خیال ہے کہ اس تبدیلی یا کمیٹی کا سربراہ تو شفقت محمود تھا۔

جبکہ جب دھرنا طول پکڑا تو شاہ محمود قریشی بھی وہاں گیا اور عمران خان نے بھی خادم رضوی کی حمایت کی تھی۔

لیکن بعد میں وہی خادم رضوی کا ایٹم بم عمران خان کے خلاف بھی استعمال کیا گیا۔

ڈاکٹر محمد اقبال جس کو آپ علامہ اقبال کہتے ہیں انہوں نے بلاوجہ تو نہیں کہا تھا کہ، دین _ ملا فی سبیل اللہ فساد۔

پہلے اس کام کے لیے مولانا مودودی، حق نواز جھنگوی، حافظ سعید اور قاضی حسین جیسے کردار موجود تھے ہمارے آج کے دور نے خادم صاحب کی صورت میں چابی والا کھلونا دیکھ لیا۔ جب چابی 🔑 دی گئی تو ناچنا شروع کر دیا

پھر چاہے اس میں ختم نبوت کا حوالہ لگا لو، فرانس یا نیدرلینڈز کا لگا لو۔ یا امریکا کی مخالفت۔ نقصان تو پاکستانی عوام کی اخلاقیات کا کر دیا اور مجاہد یہ بن گئے۔

جمعرات، 3 نومبر، 2022

کسی کی موت کا دکھ

تحریر:عبدالرزاق قادری
جتنے ”مُلّا“ گیت گا گا کر امام حسین کی شان بیان کر رہے ہوتے ہیں ان سے پوچھا جائے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ پر یہ وقت کیوں آیا۔

اس کی تاریخی، سیاسی، اور قبائلی وجوہات کیا تھیں تو فوراً ان کی زبان زہر اگلنا شروع کر دے گی۔

آٹھ، نو اور دس محرم کو تقریبا سارے ہی بریلوی مکتب فکر کے مبلغین نے اپنے واٹس ایپ سٹیٹس پر مولوی خادم کا یہ وڈیو قول لگایا تھا، کہ "سانوں کربلا دے شہیداں دا کوئی دکھ نہیں"۔

یعنی مولوی خادم اور اس کے عقیدت مندوں کو سانحہ کربلا کا دکھ ہی نہیں تھا۔ تو پھر پاکستان میں بندے مروانے کے بعد کیوں مشتعل ہوتے ہیں۔

ابھی چند دن پہلے میں نے طیب نورانی کا وڈیو کلپ لگایا تھا کہ اس کے خیال میں ملک کو انتشار سے بچانے کے لیے خان صاحب کو گرفتاری دے دینی چاہیے تھی۔ وہ تو کورٹ سے ضمانت لے گیا۔ لیکن پھر تم نے اس وڈیو کے فورا بعد قانون ہاتھ میں لیا، انتشار پھیلایا اور اپنے بندے قتل کروائے (جو کہ بادی النظر میں مفتی منیب الرحمان کے بقول ایک منصوبے کے تحت نظر آتے ہیں)۔ پھر بہت دکھ ہوا۔

یہ ایسا کیوں ہے کہ جامعہ منہاج القرآن میں بندے قتل ہوں تو ن لیگ، بریلوی وہابی اور دیوبندی خوش ہوتے ہیں۔

لال مسجد میں قتل ہوں تو دوسرے تمام فرقے خوش کیوں ہوتے ہیں۔

یتیم خانہ میں قتل ہوں تو سب کو دکھ کیوں نہیں ہوتا۔ سادھوکے میں ہیلی کاپٹر سے گولیاں ماری جائیں تو دکھ کیوں نہیں ہوتا۔

25 مئی کو تحریک انصاف کے بندوں پر ظلم ہو تو خوشی کیوں ہوتی ہے۔ دکھ کے واقعے پر دکھ نہیں منا سکتے تو خوشی منانے کا رواج تو بند کیا جائے!

سدھو موسے والا کا مجھے علم نہیں کہ وہ کون تھا، لیکن اگر وہ ریاست کے ظلم کے خلاف کھڑا تھا تو اس کے قتل پر دکھ ہوتا ہے۔ ہر انصاف پسند اور اس کے مداح کو دکھ ہوگا۔

نیلسن منڈیلا اور مارٹر لوتھر کنگ (جونئیر) کی تحریک بالکل اسی طرز پر انسانی حقوق کی ترجمانی کے لیے تھی جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی حقوق کے لیے انقلاب برپا کیا۔

سورہ الممتحنہ کی آیت 8 میں اللہ نے فرمایا ہے کہ اللہ تمہیں (مکہ کے) ان غیر مسلموں کے ساتھ دوستی رکھنے سے منع نہیں فرماتا جنہوں نے عقیدے کے نام پر تمہارے ساتھ دشمنی نہیں کی، اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا، لیکن اگلی آیت میں فرماتا ہے جو غیر مسلم عقیدے کے نام پر تمہارے دشمن بنے اور تمہیں گھروں سے نکالا (ہجرت پر مجبور کیا) ان کے ساتھ دوستی رکھنے سے اللہ منع فرماتا ہے۔

لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ‎﴿٨﴾‏ إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَىٰ إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ‎﴿٩﴾‏

ترجمہ:

اللہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین میں نہ لڑے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہ نکالا کہ ان کے ساتھ احسان کرو اور ان سے انصاف کا برتاؤ برتو، بیشک انصاف والے اللہ کو محبوب ہیں، (8) اللہ تمہیں انہی سے منع کرتا ہے جو تم سے دین میں لڑے یا تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا یا تمہارے نکالنے پر مدد کی کہ ان سے دوستی کرو اور جو ان سے دوستی کرے تو وہی ستمگار ہیں، (9)

سورہ ممتحنہ

۔

اس کے علاوہ فتح مکہ کے دو سال بعد نازل ہونے والی سورہ توبہ کی آیت نمر 4 میں بھی یہی فرمایا گیا ہے کہ جن مشرکین کے ساتھ معاہدہ کیا جا چکا ہو، ان کے ساتھ لڑائی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

۔

جو غیر مسلم بلا وجہ مسلمانوں کے ساتھ دشمنی نہیں کرتے، اللہ بھی ان کے ساتھ دشمنی رکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔

تو یہ مولوی کون ہوتے ہیں جو مذہب کے نام پر نفرت پیدا کر کے لوگوں کے درمیان نفرت پھیلانے والے؟

اسلام کے ساتھ ان زہر آلود زبان والے مولویوں سے بڑی غداری کس نے کی ہے؟

اگر غیر مسلموں کے ساتھ دشمنی کرنا ہی اسلام کا مقصد ہوتا ہے تو فتح مکہ کے دن مکہ کی گلیوں میں خون کی ندیاں بہہ جاتیں۔

لیکن آج مؤرخین کہتے ہیں کہ کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا اور خون بھی نہیں بہایا گیا۔

اگر تو سدھو موسے والا، مسلمانوں کا اس لیے دشمن بنا ہوا تھا کہ اسے مسلمانوں کے عقیدے سے تکلیف تھی تو اس کا موت کا سوگ منانے سے منع کرنا حق بنتا ہے۔

لیکن اگر اس بے چارے کا بھی وہی پیغام تھا جو مسلمانوں کا ہے کہ بھارت کی حکومت انسانوں پر ظلم بند کرے تو، پھر تو بندہ ہی "ویری گڈ" ہے۔

اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی یہودی کے جنازے کے لیے موت کے دکھ میں کھڑے ہونے کا درس دیتے تو مولوی کیوں نفرت پھیلاتا ہے۔ (حوالہ: سنن ابو داؤد حدیث نمبر 3174)

منگل، 1 نومبر، 2022

حضرت رٹے شاہ

 عبدالرزاق قادری 

میرا ایک دوست دانش المفتی کہتا ہے کہ تم علماء کے خلاف ہو۔ تمہارے اندر ان کے خلاف کوئی بغض ہے۔ حالانکہ یہ بات اس کو اچھی طرح معلوم ہے کہ میں نے کسی کے غلط کام کو ہی غلط کہا۔ یعنی کسی کے جھوٹ کا پول کھولا۔

اب اس نے روپ خواہ مولوی کا دھار لیا ہو، جو خود کو خدا کا نمائندہ سمجھتا ہے اور عوام کے اذہان پر ایسے مسلط ہیں جیسے یہ روٹیاں کمانے کی خاطر مدرسے میں پڑھنے والے کوئی امام غزالی بن گئے۔۔۔!!!

اپریل سے لے کر اب تک یہ نیم ملائیت زدہ طبقہ مجھے عمران خان کا حمایتی کہتا رہا، اب پچھلے ماہ سے جب وزیراعظم شہباز شریف کے متعلق ان کی "کافر" والی بات وائرل ہوئی ہے تو میں ان سے کہہ رہا ہوں کہ بھائی جان! آپ اسے کافر نہیں کہہ سکتے تو کیا اب میں ن لیگ کا رکن ثابت ہو گیا؟

مسئلہ یہ ہے کہ ان جاہلوں کو دین و مذہب کا علم نہیں ہے حتی کہ یہ اردو کتابیں پڑھنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔ اس لیے انہیں گالیاں دینا بہت آسان کام لگتا ہے۔

اب بات کو دوسرے زاویے سے دیکھتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ میں بھی مذہب کا طالب علم ہوں۔

لیکن یہ نام نہاد ٹھیکے دار آج کل مجھے جو کتابیں اور باتیں تجویز کر رہے ہیں وہ چیزیں تو میں بچپن میں پڑھ چکا تھا

یہ بے چارے فاضل درس نظامی ہو کر، اگر محض اردو پڑھنے کے قابل ہو جائیں تو بڑی بات ہے وگرنہ ان کا تو سارا علم ہوائی طور پر سنی سنائی گپیں ہیں۔

ہاں یہ حقیقت ہے کہ یہ لوگ، گپ اچھی طرح سے مار لیتے ہیں اور سامعین کو قصے کہانیاں، دوہڑے ماہیے سنانے میں ید طولی رکھتے ہیں۔

یہ *بارہ مہینوں کی تقریریں*

اور *ابرار خطابت* جیسی شعلہ بیانی کی کتابوں سے تقریر کا فن رٹ کر خود کو امام اعظم سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔

تقریر کا فن سارا ہی رٹا ہے۔

پہلے مجھے ستائیس برس تک ضلع لیہ سے فیصل آباد اور وہاڑی سے لاہور تک کے تمام وہابی مقررین کے طرز بیان پر غور کرنے کا موقع ملا، انہوں نے تین چار کیسٹیں یاد کی ہوئی تھیں،  پورے فرقے کے پاس چند گپیں ہیں وہی ہر جگہ بولتے رہتے ہیں جن کا ہزارہا بار رد بھی ہو چکا ہے۔

دیوبندی مقررین کے پاس اپنے پچھلے صدی کے اکابرین کے جھوٹے قصیدے بنانے کے علاوہ کوئی بات نہیں ہے،  وہ ایسے ہی فلمیں گھڑ کر سناتے رہتے ہیں،  مثلا

"اللہ! کیا عظیم لوگ تھے، حضرت شیخ الہند اپنے دور کے غزالی اور رازی سے بڑھ کر تھے۔ سبحان اللہ"۔

بس یہ فلم

نہ قرآن نہ حدیث

۔۔

اب شیعہ فرقہ کے ذاکرین کا کیا کہنا! ان کے متعلق ان کے اپنے علامہ جواد نقوی کے بیانات سن لیں وہی کافی ہیں کہ "شیعہ نے اسلام ذاکر سے سن کر سیکھا ہے نہ کہ کسی کتاب سے پڑھ کر"

اب اس سے زیادہ میں کیا کہوں

۔۔۔اب آتی ہے باری ہمارے فرقے کی

تو پیر مکی، داتا علی ہجویری کے دو صدی بعد پیدا ہوئے۔ لیکن ہمارے مبلغین کہتے ہیں کہ پہلے پیر مکی دربار پر حاضری دو، کیونکہ وہ داتا صاحب کے سینئر ہیں۔ تو صدی بعد پیدا ہونے والا کیسے پہلے دفن ہو گیا۔

یہی جھوٹ میراں زنجانی کے متعلق پھیلایا گیا، وہ بھی داتا صاحب کی وفات کے بعد پیدا ہوئے، خواجہ معین الدین چشتی سے ملاقات رہی 125 سال بعد فوت ہوئے۔

اسی طرح کی بے شمار جھوٹی کہانیاں مسجدوں میں اور محفلوں میں نشر ہوتی رہتی ہیں اور یہ لوگوں کے عقائد کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔

مزے کی بات یہ کہ، یہ شعر بھی بابا فرید گنج شکر کا ہے۔

"چل اوتھے وسیے جتھاں ہون سارے انھے

نہ کوئی ساڈی ذات پچھانے نہ کوئی سانوں منے"

لیکن ہر کوئی اس کو بلھے شاہ کے شعر کے طور پر پیش کرتا ہے۔

پانچ روز قبل میرے ہمسائے مکان کی چھت پر محفل میلاد میں ایک کسی نئے دور کے مقرر نے جو تقریر کی وہ آج سے بیس برس قبل ہمارے پاس کیسٹ ہوتی تھی، علامہ خان محمد قادری (قرآن یونیورسل) کی وہ تقریر جسے ہم 2001ء میں کیسٹ پلیئر پر سنتے تھے وہ مکمل طور پر رٹا لگا کر اس مولوی نے یہاں سنا دی۔

سبحان اللہ

جب علامہ خان محمد قادری نے وہ تقریر سن 2000ء میں جامعہ محمدیہ غوثیہ بادامی باغ (داتا نگر) لاہور میں سوچ کر بنائی ہوگی، اس دور میں ہمارا آج کے دور کا یہ مبلغ *حضرت رٹے شاہ* کوئی چار پانچ برس کا ہوگا۔

اب اس نے یاد کر کے بیان کر لیا ہے تو وہ شاہ ولی اللہ اور مجدد الف ثانی سے بھی بڑا بزرگ بن چکا ہے۔

اس کے بعد دوسرا مولوی سٹیج پر آیا، وہ تقریر بھی کوئی بیس برس پہلے میں نے سنی ہوئی تھی، یعنی شاید دونوں مبلغین آپس میں دوست تھے اور اکٹھے ہی کیسٹیں خرید کر یاد کر کے رٹا لگاتے ہوں گے۔

اب ان لوگوں نے اصلاح امت کا ٹھیکہ اٹھایا ہوا ہے اور یہ ہمیں بتائیں گے کہ عمران خان فرانس کا یار ہے اور نعوذبااللہ شہباز شریف "کافر" ہے۔۔۔۔!!!۔۔۔؟؟؟؟۔

جاہل المجہول سے ایک قدم پیچھے

 تحریر: عبدالرزاق قادری

لوگو!

پاکستان میں ان تین قسم کے شدت پسندوں کے علاوہ بھی بہت سے لوگ موجود ہیں، پاکستان کے بقیہ لوگ اگر کوئی معقول بات کر بیٹھیں تو خدارا کسی جملے کی بنیاد پر کسی بندے کو

1۔ پٹواری

2۔ یوتھیا

3۔ ملا متشدد قاری

نہ کہہ دیا کریں

ممکن ہے کہ بندہ ایک علیحدہ سوچ رکھنے والا ہو۔

ملا متشدد قاری کی اصطلاح، جاہل قسم کے ایسے نادان دوستوں کے لیے ہے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ درس نظامی کے آٹھ سال کے پیپر نقل کر کے رٹا لگا کر پاس کرنے والا علامہ صاحب بن جاتا ہے اور اس کے منہ سے نکلا ہر حرف عین شریعت ہوتا ہے۔ ایسے جاہلوں کو سمجھانا ایک دقیق عمل ہے کہ جو لوگ آج ائمہ یا علماء کے نام سے تاریخ کا حصہ ہیں وہ ان سب روایتی رسوم و رواج سے بری اور مستغنی ہوتے تھے جو اس زمانے کے علماء، صوفیاء اور محدثین نے اپنائے ہوتے تھے۔

جس بندے کو یہ وہم ہو جائے کہ "میں علم سے بھرا ہوا ایک ڈرم ہوں"، دراصل وہی شخص جہالت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔

تعلیم و تعلم دراصل اپنی اندر چھپی جہالت سے واقف ہونے کا نام ہے۔ کتابیں تو دنیا میں کروڑوں موجود ہیں لیکن شاید اگر کوئی بندہ اپنے اندر کی جہالت سے ناواقف رہے تو وہ ہزاروں کتابیں پڑھ کر بھی جاہل المجہول کہلائے گا۔

یعنی وہ بندہ جو اپنی جہالت سے بھی بے خبر ہو۔

اپنی کم علمی کا اعتراف ہونا دراصل ایک نعمت ہے جس کا فائدہ یہ ہے کہ انسان کو معلوم ہوتا ہے میں نے کس مقام پر اور کس موضوع پر زبان کو بند رکھنا ہے۔

وگرنہ انسان کی باتیں تضادات کا مجموعہ ہوتی ہیں اور وہ جس شعبے کا ماہر ہونے کا ڈھونگ رچا رہا ہو، اسی میں جھوٹا ثابت ہو جاتا ہے۔

میں نے "متکبرین" کی اصطلاح ایسے لوگوں کے لیے ایجاد کی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ آواز بلند کر دینے سے مدمقابل کی دلیل چھوٹی پڑ جائے گی۔

یا ہٹ دھرمی دکھانے سے حقائق بدل جائیں گے

یا یہ کہ "ہم کسی تحقیق کو نہ تو مانتے ہیں اور نہ ہی تحقیق کرنے کی اجازت دیتے ہیں کیونکہ جو وہم ہمیں ہو چکا وہی عین حق ہے"۔

اللہ نے قرآن پاک کی سورہ لقمان میں فرمایا کہ لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی، کہ "بے شک آوازوں میں سے بد ترین آواز گدھے کی ہے"۔

اب آپ غور کریں کہ کتنے لوگ ایسی شدید آواز نکال کر خود کو سچا ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جن کی آواز گدھے کی آواز سے کہیں زیادہ آگے نکل جاتی ہے بلکہ ان کی شدت کے مقابلے میں گدھے کی آواز میں ایک ردھم محسوس ہوتا ہے۔

قرآن پاک کے مطابق ہٹ دھرمی سب سے بڑا کفر ہے۔ جس بندے کو حق سمجھ آ جائے اسی پر اس کو مان لینا فرض ہے۔

لیکن اگر کسی کو حق کا یقین ہو گیا پھر بھی ہٹ دھرمی کی وجہ سے منکر رہا تو اسے کافر کہا جاتا ہے۔

جب کسی مفسد مبلغ کی خود کی بات غلط ثابت ہو جائے تو ہٹ دھرمی اختیار کر کے وہاں اٹک جاتا ہے اور قرآن پاک کے "جہالت" کے متعلق دئیے ہوئے پیمانے پر پورا اترنے کی کوشش کرتا ہے۔

اور طرفہ تماشا یہ کہ جن اقوام کو حق سمجھ نہیں آیا اور اس کا یقین نہیں ہوا ان کو منہ پھاڑ کر کافر کہا جاتا ہے، جس کی قرآن و حدیث(سنت، سیرت) کی رو سے اجازت نہیں ہے۔

یہ کھلا تضاد اور جہالت کی انتہا ہے۔

اب ٹی۔ ایل۔ پی۔ کی قیادت اپنی مبینہ کرپشن چھپانے کے لیے اپنے ماننے والوں کو طفل تسلیاں یوں دے رہی ہے کہ، "جی جمعے کے خطبے میں سعد رضوی نے وزیراعظم شہباز شریف کو کافر کہہ دیا تھا، یہی ہمارا ردعمل تھا فرانس کے صدر کے ساتھ ملاقات پر"۔

تو پھر سوال یہ ہے کہ پچھلے سال بھی یہی کر لیتے!!!

ویسے بھی شریعت اسلامیہ کی رو سے وزیراعظم شہباز شریف کو اس معاملے کافر کہنے کی ممانعت صلح حدیبیہ کی مثال سے ملتی ہے۔

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں رہتے تھے تو مکہ میں کئی گستاخ موجود تھے۔

لیکن چھ ہجری کو انہی مکہ والوں کے ساتھ صلح حدیبیہ کا معاہدہ کیا گیا۔ اور فتح مکہ ایک خاص طریقہء کار تحت 8 ہجری کو برپا کی گئی جس کے بعد ایسے ناہنجاروں کو سزا دی گئی۔

تمہارے پاس کیا لائحہ عمل ہے؟

صرف گالیوں سے بھری زہر آلود زبان؟؟؟؟ وہ بھی مسلمانوں کے خلاف۔۔۔

حالانکہ حدیث پاک کے مطابق مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ جبکہ ملا متشدد جیسی سوچ رکھنے والوں نے خود اپنے آپ کو کیا ثابت کیا ہے؟

مدینہ میں منافق موجود تھے جو کہ گستاخ _ رسول ہی تھے، تو ان کو کیا سزا دی گئی؟

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تو عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ تک پڑھی۔

مجھے ایک جعلی مولوی صاحب کہنے لگے کہ فتح مکہ (8 ہجری) کے بعد کسی غیر مسلم کو زندہ رہنے کا حق ہی حاصل نہیں ہے۔ اور اسی طرح کی بات ایک "مبلغہ" نے یوٹیوب پر میرے کمنٹ کے جواب میں کہی۔

حالانکہ سورہ توبہ 10 ہجری کے حج _ اکبر میں نازل ہوئی اور آیت نمبر 4 میں اللہ نے فرمایا ہے کہ جن مشرکین کے ساتھ معاہدہ ہو گیا ہے ان کے ساتھ جنگ نہیں کرنی۔

تحریک لبیک اور ن لیگ کے جنونی نوجوان مجھے یوتھیا کہتے ہیں جبکہ میں ان جھوٹے مولویوں کے ساتھ جنگ کر رہا ہوں کہ وزیراعظم شہباز شریف کو کافر مت کہو، تو اب میں کس پارٹی کا ہوا۔

حالانکہ لوگ تو مجھے ایک حافظ قرآن، پھر قرآن پڑھانے والا، اور صاحب مطالعہ ہونے کی وجہ سے مولوی ہی سمجھتے ہیں۔

لیکن خدارا۔۔۔!!! ان جاہلوں کے ٹولے کا حصہ نہ سمجھا جائے۔

میں کم از کم اپنی جہالت سے واقف ہوں۔