جمعرات، 14 جنوری، 2016

کچھ بانی نوائے منزل کے بارے میں: محمد کامران اختر۔ ایک ہمہ جہت شخصیت

تاریخ میں بہت کم لوگ ایسے ملتے ہیں جو علم دوست ہوں اور ساتھ ساتھ اچھے منتظم بھی ہوں، ہمارے زمانے میں تعلیم حاصل کرنا، علوم تک رسائی حاصل کرنا، اپنے لئے روزگار کے مواقع تلاش کرنا اور معاشرے میں ایک کامیاب فرد کی حیثیت سے خود کو منوانا ایک معرکے سے کم نہیں ہے ۔ لہٰذا اس نفسا نفسی کے دور میں کامیابیوں کے راستے میں جہاں رہنمائی کا فقدان ہے وہاں کسی ابھرتے ہوئے ستارے سے حسد کرنے والے اور اس کے راستے میں روڑے اٹکانے والوں کی کمی نہیں ہوتی۔ آج میں اپنے دور کے ایک کامیاب انسان کی زندگی کے چند گوشوں کو احاطہء تحریر میں لانے کی کوشش کروں گا، میری مراد ماہنامہ نوائے منزل لاہور کے چیف ایڈیٹر اور کیڈٹ کالج  سکردو کے لکچرر (اردو) جناب محمد کامران اختر ہیں۔ جیسا کہ ان کی اور میری پہلی ملاقات کا تفصیلی احوال ایک بار نوائے منزل میں چھپ چکا ہے لہٰذا اسے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے پھر بھی میں اس تعارفی کہانی کو سن 2009ء کے اکتوبر ہی سے شروع کروں گا۔ اس وقت کامران صاحب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی۔اے (ماس کام) کے تیسرے سمسٹر میں زیرِ تعلیم تھے اور ایک مقامی اکیڈمی میں پڑھانا شروع کررکھا تھا، 2010ء میں میرے بی۔اے کے امتحانات بھی ہونے والے تھے،لیکن جناب کا دعویٰ ہے کہ وہ مجھ سے چھوٹے ہیں ان کی ذہنی پختگی دیکھ کر کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ وہ عمر میں مجھ سے بڑے ہیں۔ بہرحال سن 2010ء سے ماہنامہ نوائے منزل کا آغاز ہوا،یہ نومبر کا مہینہ تھا۔ رجسٹریشن کے قواعد و ضوابط کے مطابق میگزین کی پہلی اشاعت اکتوبر سے شروع ہوجانا لازمی تھی لہٰذا پہلے رسالے کو دونوں مہینوں کا اکٹھا رسالہ متصور کیا گیا اور اس کی پیشانی پر اکتوبر، نومبر 2010 لکھا گیا۔
کامران نے میٹرک کے بعد کمپیوٹر کی بنیادی تعلیم کا ایک ڈپلومہ کر رکھا تھااور بی ۔اے سے پہلےڈی۔ کام، سی۔کام کیا ہوا تھا اور بی۔اے کے ساتھ ساتھ وہ ہومیو پیتھی کا کورس (DHMS) بھی کررہے تھے بلکہ ایک مقامی کلینک میں اس کی پریکٹس کے لئے بھی جاتے۔ انٹرمیڈیٹ کی تعلیم انہوں نے میانوالی کے کسی کالج سے حاصل کی تھی اور ان کےبقول وہاں کے مقامی اخبارات سے انہوں نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا۔ اپنا ایک رسالہ شائع کرنا اُن کا ایک دیرینہ خواب تھا جس کی تعبیر انہوں نے دیکھ لی، وہ صحافت کو ایک مقدس مشن قرار دیتے ہیں جبکہ اسے ایک پیشہ بنا لینے والوں سے تھوڑا سا شکوہ کناں بھی ہیں۔ 2012ء میں جب میں ایم۔اے اردو کی تیاری کررہا تھا تو کامران نے مجھے ایک بار کہا کہ ہائی سکول کی تعلیم کےدوران، میں ایک ڈائری نما کتاب لکھتا تھا جس کا نام ”ادب ِاختر“ تھا، قادری صاحب! اگر آپ اس کتاب میں لکھے تمام الفاظ کے معانی بتانے کا دعویٰ کرسکتے ہیں تو میں آپ کو ایم۔اے اردو پاس قرار دے سکتا ہوں۔ اُس وقت وہ کتاب لاہور میں موجود نہ تھی لیکن مجھے معلوم تھا کہ میں اُس میں درج تمام اردو الفاظ کے معانی بتانے کا اہل نہ تھا، میں نے کامران سے کہا کہ ایم۔اے اردو میں الفاظ معانی نہیں ہوتے (کامران صاحب ان دنوں ماس کمیونیکیشن میں ایم۔ ایس۔ سی کا آغاز کر چکے تھے)، انہوں نے کہا کہ جو بھی ہے اگر آپ اُس کتاب کی وضاحت کردیتے تو میں آپ کو آج ہی ایم۔ اے اردو پاس مان لیتا۔ درحقیقت کامران اختر کی اردو کافی  اچھی ہے جس کا ہمیں پورا پورا اعتراف ہے، وہ بولتے بھی اردو ہیں۔ ہم چونکہ پنجابی بولنے والے ہیں لہٰذا ہمارے لئے اردو بولنا ایک فیشن ہے لیکن کامران کے لئے یہ عادت ہے۔ ویسے بھی ان کی مادری زبان اٹک کی پوٹھوہاری یا اسی طرح کا کوئی لہجہ ہے لیکن کبھی کبھی وہ ماجھی لہجہ بھی اچھا بول لیتے ہیں اور سرائیکی وغیرہ کے لہجوں سے بھی سمجھ لینے کی حد تک مانوس ہیں البتہ ہمارے سادہ لوح دوست انہیں ایک پٹھان سمجھتے ہیں جبکہ شاید کامران کو پشتو زیادہ نہیں آتی ہو، پچھلے دو سال سے ان کے کالج کے رفقاء میں پختون لوگ ایک بڑی تعداد میں ہیں اس وجہ سے ہوسکتا ہے کہ روزمرہ کے چند ایک الفاظ آتے ہوں۔
کامران نے میرے دیکھتے ہی دیکھتے ایم۔اردو بھی کھڑکا لیا اور لاہور سے سکردو کو جست بھرلی، ماس کام بھی ہوگیا، ڈی ایچ ایم ایس کے بعد بی ایڈ بھی کرلیا۔ لاہور کے چند نامور سکولوں میں تدریس بھی کرلی جس کا آغاز لاہور سکول آف ایکسیلینس سے ہوا تھا پھر لاریل بینک سکول اور آخر میں کِپس میں بھی تدریس کرلی۔ ان سکولز کے علاوہ کئی اکیڈیمیز میں بھی تدریسی فرائض سرانجام دیتے رہے اور پھر ایک دن بستہ باندھ کر شمالی علاقہ جات کی طرف چل نکلے اور کوہِ ہمالیہ اور کوہِ قراقرم کے سنگھم پر جا کر رُکے۔ چین کے ہمسایہ ہونے کے باوجود کامران صاحب پاک سرزمین میں تدریس کرتے ہیں انہیں حب الوطنی کا جذبہ گھٹی میں ملا ہے ان کی اتنے طویل فاصلے پر جدائی مجھے تڑپاتی ہے، مجھے وہ کامران بھی یاد جسے لوگ صرف اس لئے بلانا چھوڑ دیتے تھے کہ مبادا کھانا کھلانا پڑ جائے گا۔ اور وہ کامران بھی یاد ہے جس کے لئے لوگوں کے دروازے آج ایک عرصے سے منتظر ہیں، اور آج لوگ کامران سے اُدھار لینا بھی فخر سمجھتے ہیں۔ شاید میرے لئے ان کی لاہور میں موجودگی ایک ٹرانسفارمر یا مہمیز کا کام دیتی ہے جب یہ سکردو چلے جاتے ہیں تو میرا لکھنے کا تخلیقی کام رُک جاتا ہے جب سردیوں میں یہاں تشریف لاتے ہیں اور میں پٹڑی پر آنے لگتا ہوں تو یہ پھر پرواز کر جاتے ہیں۔ زندگی ایک ”چڑیوں کا چنبہ“ ہے جس میں ہر کسی کی ایک لمبی "اڈاری“ ہوتی ہے۔ لیکن ایک بار اڑان بھر لینے والے کو کون روک پایا ہے، موت تو بار بار کی جدائی سے پڑتی ہے۔ جب کامران اختر لاہور سے نکل کر سکردو کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو دل کئی وسوسوں کا شکار ہوجاتا ہے کیونکہ اکثر ان پہاڑوں کی طرف جانے والے راستوں میں ہی دفن ہوجاتے ہیں ایک بار کامران اُدھر سے واپس آرہے تھے تو کہیں ان کے موبائل کے سگنل ڈراپ ہوگئے اور راولپنڈی سے محترمہ طاہرہ نسیم نے مجھ سے رابطہ کرکے پوچھا کہ کامران کا کچھ اَتا پتا ہے۔ حالانکہ راولپنڈی ان پہاڑوں میں ہے جدھر سے کامران آ رہے تھے لیکن خیر کی امید میں لاہور سے رابطہ کرکے اپنے دل کو ڈھارس بندھائی جا رہی تھی۔ 26 اکتوبر 2015ء کو زلزلہ آیا تو مجھے کوئی بھی یاد نہ آیا میں نے صرف کامران کا نمبر ڈائل کرکے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ وہاں کیا ہوا؟ ان کا نمبر بند تھا پھر تھوڑی دیر تک ان کے میسیج آنا شروع ہوگئے تو تسلی ہوئی کہ وہاں خیریت تھی۔
اب کامران صاحب خیر سے ایم۔ایڈ کے امتحانات دے رہے ہیں اور تیسرے ایم۔اے کے لئے پر تول رہے ہیں کچھ  مسائل کی وجہ سے ان کا ایم۔فل ابھی شروع نہیں ہوا۔ آج کے دور میں جو بندہ پرائمری پاس کرکے چار دن کسی ڈسپنسر کو چائے پانی پلا دیتا ہے وہ بھی اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھتا ہے لیکن کامران نے ڈی ایچ ایم ایس کے بعد بھی یہ سابقہ اپنے نام کے ساتھ نہیں لگایا شاید وہ پی۔ایچ۔ڈی کے بعد لگانا پسند کریں۔ کامران صاحب تقریر کرتے ہوئے من و عن ڈاکٹر طاہرالقادری دکھائی دیتے ہیں ممکن ہے وہ مستقبل کے ”طاہرالقادری“ ہو جائیں۔
ان کی بہت سی کامیابیاں ہیں جنہیں صرف اس ایک مضمون میں نہیں سمویا جا سکتا لیکن گزشتہ روز ، وہ اپنی ملازمتیں حاصل کرلینے والی صلاحیت کا راز فاش کررہے تھے۔ انہیں کبھی کہیں سے یہ فقرہ سننے کو ملا تھا کہ نوکریاں کیوں نہیں ملتیں لوگ سی۔وی جمع کرواتے نہیں اور گھر بیٹھتے سفارش اور رشوت کو کوستے رہتے ہیں۔ تب سے کامران نے، انٹرنیٹ سے اور جہاں سے بھی خالی آسامیوں کا پتہ چلا، وہاں اپنا سی۔وی بھیجا خواہ وہ ڈاک کے ذریعے، دستی یا پھر انٹرنیٹ کے ذریعے لیکن سی۔وی وہاں تک ضرور پہنچایا۔ اس کے بعد نوکریاں قطار میں لگ گئیں اور کامران اپنی مرضی سے ان کا انتخاب کرتے رہے اور چھوڑ کر آگے بڑھتے رہے۔ آج اس کامیاب نوجوان کی زندگی سے یہی درس ملتا ہے کہ مسلسل محنت اور جدوجہد کی جائے اور حتی الامکان ہر کوشش کی جائے کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے تو کامیابیاں ہمارا مقدر بنتی ہیں۔

پیر، 4 جنوری، 2016

معذرت کے ساتھ!

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ کے ایک ضلع مردان کے صدر مقام شہرِ مردان میں 29 دسمبر 2015ء بروز منگل کو نادرا کے دفترپر خود کش حملہ ہوا جس میں 26 افراد جاں بحق ہوئے اور بیسیوں زخمی ہوئے، سینکڑوں لوگ بالواسطہ یا بلاواسطہ متاثر ہوئے، کسی پاکستانی یا فیس بکی افلاطون کے کان پر جوں نہیں رینگی پھر مقابلے کرتے ہیں فرانس اور یورپ کے! وہاں 12 لوگ قتل ہوئے تھے 40 ملکوں کے حکمران سڑکوں پر آگئے پورے یورپ میں ماتم کا سماں تھا ابھی حال میں جب پیرس میں پھر حملے ہوئے تو فرانس نے شام میں بمباری شروع کردی، آپ ان کے نظریات سے اختلاف کرتے ہیں ضرور کریں۔ مجھے بھی چارلی ایبڈو کے میگزین سے نفرت ہے لیکن ان کے قتل ہونے کے بعد ان کی قوم نے 'درد' محسوس کیا ہے جبکہ پاکستان میں ایک دن میں سینکڑوں جنازے اٹھ جائیں لوگ دو دو روپے کے دھوکے فراڈ سے چلائی جانے والی اپنی دکانیں بند نہیں کر سکتے، یہ صرف اپنے سسرال کے گھر جاسکتے ہیں یا کیبل-ٹی-وی پر کوئی فلم دیکھ سکتے ہیں یا فیس بک پر جعلی اکاؤنٹس بنا کر وقت ضائع کرسکتے ہیں، کچھ زیادہ 'غم' منانے کا موڈ ہوا تو کسی سہیلی سے موبائل پر 'جانو، جانو' کھیل لیا اور گھر سے باہر آکر علامہ، مفتی، محدث، مفسر، محقق، فقیہہ اور مجتہد سب کے عہدے سنبھال لئے۔
اگر کوئی اور دلچسپی باقی نہ رہی تو یہی عہدے فیس بک پر سنبھال لئے۔
بھئی دیکھو! پیرس میں حملے ہوئے، فیس بک کے مالک نے اپنی پروفائل پکچر میں فرانس کا جھنڈا لگا لیا دوسرے لوگوں نے بھی لگا لیا، ہمارے افلاطونوں نے اسے غلط قرار دے کر مذکورہ بالا عہدوں کے فرائضِ منصبی سے اپنا دامن بری کر لیا۔ جب امریکہ میں صدارتی امیدوار 'ڈونلڈ ٹرمپ' کے اشتعال انگیز بیان حد سے بڑھتے ہوئے نظر آئے تو فیس بک کے مالک سمیت بہت سے مشہور و معروف غیر مسلموں نے مسلمانوں کی حمایت میں پورے زور سے آواز بلند کی، اس وقت فرانس کے جھنڈے پر فتوے دینے والے افلاطون کہاں سوئے تھے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ بات چاہے مشرق کی ہو یا مغرب کی۔ آسمان کی ہو یا زمین کی، ہمارے افلاطون اسے اپنے ذمے ضرور لے کر 'سوموٹو' ایکشن لیں گے اور اگلے دن گوگل سے ڈاؤنلوڈ کرکے فوٹو شاپ کردہ کچھ تصاویر ضرور دِکھائیں کہ یہ دیکھو کشمیر، فلسطین، شام اور برما میں مسلمانوں پر کیا کیا ظلم و ستم ڈھائے جا رہے ہیں۔ میں شرط لگانے کو تیار ہوں کہ یہ لوگ اپنے گھر سے بیٹھ کر ان ملکوں کی درست سمت کا تعین نہیں کرسکتے، انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کراچی ایک ملک ہے یا پاکستان کا ایک شہر! انہیں سینیٹ، اسمبلی، مقننہ، عدلیہ ، انتظامیہ اور میڈیا کی ڈیفینیشن بھی نہیں آتی۔ انہیں شاید یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے صوبے میں کتنے اضلاع ہیں۔ لاہور میں بسنے والے بیشتر افلاطون یہ بھی نہیں جانتے ہوں کہ صبح سورج ان کے گھر کی کس دیوار کی طرف سے طلوع ہوتا ہے۔
میرا ایک دوست عزیر، مردان سے تعلق رکھتا ہے، حادثے والے دن صرف وہی ایک بندہ مجھے اس حوالے سے مختلف چیزیں پوسٹ اور شیئر کرتا دکھائی دِیا، باقی سب کی عزت تیل لینے گئی ہوئی تھی۔
میں کہنا چاہتا ہوں، او ظالم درندو! او پاکستان کے مردہ ضمیر باسیو! سینکڑوں لوگوں پر قیامت گزر گئی اور تمہیں معلوم تک نہ پڑا، میں سو فیصد دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ خدانخواستہ پاکستان میں کوئی کتنا بڑا حادثہ کیوں نہ ہوجائے۔ نائن الیون سے زیادہ لوگ کیوں نہ مرجائیں۔ یہ مردہ دل بے غیرت افلاطون ایسے ہی منہ میں الائچیاں ڈال کر گونگے بن کے بیٹھے رہیں گے، اور کوئی اپنے بچوں کے تحفظ کے چیخ و پکار نہیں کرے گا۔ جب اس پر مصیبت آئے تو کوئی دوسرا نہیں بولے گا۔ جب دوسرے پر آفت آئے گی۔ تیسرا بھی چُپ رہے گا۔ ایسے ہی یہ سلسلہ بڑھتا چلا جائے گا۔

ڈاکٹر غافر شہزاد کے جوابات

ڈاکٹر غافر شہزاد سے میری پہلی ملاقات 30 دسمبر 2015ء کے روز ہوئی اس کی روداد کی پہلی قسط مندرجہ ذیل لنک پر موجود ہے۔ لنک
دوسری ملاقات بھی اسی شام پاک ٹی ہاؤس میں ہوئی (میں دسمبر میں کئی بار پاک ٹی ہاؤس گیا ہوں اور ایک آدھ ادبی محفل میں بھی شریک ہوا ہوں)۔ بہرحال میں نے ان سے جو سوالات پوچھے، ان کے جوابات اپنے الفاظ میں دے رہا ہوں یعنی جوابات کا مفہوم کم و بیش یہی ہے۔

1۔ آپ کے نام کا عبدالغفور سے غافر شہزاد تک کا سفر کیسے طے ہوا؟
جواب: میری تعلیمی اسناد میں میرا نام عبدالغفور ہے ہائی سکول میں ادبی ذوق کی وجہ سے کسی 'ادبی' لفظ کی جستجو تھی جسے قلمی نام کے طور پر لکھا جائے انہی دنوں مجھے کہیں راستے میں ایک ورق پڑا ہوا مِلا، اس پر سورہ غافر (سورۃ مؤمن 40 نمبر سورت) کے کچھ الفاظ لکھے ہوئے تھے، جن میں ایک لفظ 'غافر' تھا۔ یہ بھی اللہ عزوجل کا ایک نام ہے اور غفور کا ہم معنیٰ ہے مجھے یہ نام پسند آیا اور اُس دور میں میری کچھ چیزیں "عبدالغفور غافر" کے نام سے چھپیں لیکن سکول پھر کالج کے کاغذات میں 'عبدالغفور' ہی رہا، بعد ازاں میں نے 'غافر چودھری' لکھنا شروع کردیا یہ نام بھی چھپتا رہا، پھر ادبی دنیا کے مزاج سے مطابقت کے لئے لفظ 'چودھری' لکھنا چھوڑ دیا اور لفظِ 'شہزاد' اپنا کر غافر شہزاد لکھنا شروع کردیا اور اب مکمل دفتری نام "عبدالغفور غافر شہزاد" ہے جبکہ تعلیمی اسناد پر صرف 'عبدالغفور' لکھا ہوا ہے۔ جھنجھٹ سے بچنے کے لئے اُسے تبدیل نہیں کروایا۔ 

2۔ آپ نے 52 برس کی عمر تک اتنا تحقیقی کام کیا کہ آپ خود ایک حوالہ بن گئے آپ اپنی زندگی کی ان کامیابیوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔
جواب: مجھے یوں لگتا ہے کہ ابھی بہت کام کرنا باقی ہے جتنا ہو پایا وہ بہت قلیل ہے کچھ سینئرز سے یہ درس ملتا ہے کہ وہ طویل وقت تک لکھتے رہے جیسا کہ انتظار حسین صاحب اور احمد ندیم قاسمی مرحوم کی مثالیں موجود ہیں۔ میری ایک خوبی یہ ہے کہ میں جس کام کو شروع کرتا ہوں اسے مکمل ضرور کرتا ہوں، اب میں شعوری طور پر کئی مضامین لکھ کر انہیں ایک کتاب کی شکل دینے کی کوشش کرتا ہوں، جیسا کہ قیام پاکستان کے بعد کی تعمیرات کی تحقیق پر بہت کام کی ضرورت ہے۔

3- داتا دربار میں مزار کہیں نیچے ہے یا شروع سے قبر مبارک اوپر ہی ہے؟
جواب: دراصل یہ مزار ایک ٹیلے پر تھا، بعد میں کچھ ناگزیر وجوہ کی بنا پر اس ٹیلے کے نچلے حصے کو چاروں اطراف سے دیوار بنا کر محفوظ کرنا پڑا، اس لئے 1960ء- 1970ء کی دہائیوں میں نچلا حصہ دیکھنے والے کچھ لوگ اس کنفیوژن میں ہیں کہ شاید پہلے قبر نیچے تھی، دراصل یہ قبر اپنی اصل جگہ پر اوپر اونچائی پر واقع ہے۔ (ڈاکٹر صاحب نے اس کی مزید تفصیلات سے بھی وضاحت کی)

4۔ آپ کی شاعری کی کتنی کتب ہیں؟
جواب: دو کتابیں ہیں، لیکن ابھی سٹاک ختم ہوا ہے جلد ہی ایک بار پھر شائع ہو جائیں گی۔

5۔ دو سال قبل ایک بار کسی اخبار میں پڑھا تھا کہ حلقہ ارباب ذوق کی مجلس (ایوانِ اقبال) میں ڈاکٹرغافر شہزاد خوب گرجے برسے، شاید کسی فن پارے پر تنقید کا کوئی مسئلہ تھا (قارئین کو مطلع کیا جاتا ہے کہ میں اُسی خبر کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کے پاس ڈرا سہما بیٹھا رہا کہ کہیں گرج برس کا امکان کہیں سے ایک بار پھر نہ پیدا ہو جائے)

جواب: ہاں یاد آیا! وہ کسی محترمہ کی ایک مطبوعہ غزل پر بحث ہونے جا رہی تھی جس سے میں نے منع کیا کیونکہ حلقہ اربابِ ذوق کے آئین کے مطابق مطبوعہ غزل پر تنقید  کرنا منع تھا تو صدرِ محفل نے مجھے کہا اگر آپ کو کوئی مسئلہ تو آپ باہرچلے جائیں، میں نے جواب دیا کہ آپ اس تنظیم کے رکن ہونے کا جیسا حق رکھتے ہیں ویسا حق میں بھی رکھتا ہوں پہلے آپ باہر تشریف لے جائیں، پھر میں بھی باہر چلتا ہوں۔ میں نے کہا کہ اُن کی غزل ہم نے سن لی ہے یہی کافی ہے حالانکہ میں اُسے پہلے سے چھپا ہوا دیکھ چکا تھا، چھپنے کے بعد حلقہ اربابِ ذوق میں تنقید نہیں ہوسکتی۔ تو اس بات کا ذکر کسی اخبار میں آیا ہوگا

6۔ میرے لئے آپ کا کوئی پیغام؟
جواب: آپ ویکیپیڈیا پر لکھنے کا بہت اچھا کام کر رہے ہیں، آج شاید آپ کو اندازہ ہو یا نہ ہو ایک وقت آئے گا یہی کام آپ کی پہچان بن جائے گا۔

سوال نمبر پانچ کے جواب کے بعد مجھے تھوڑا سا اطمینان ہوگیا کہ ڈاکٹر صاحب مجھے ماریں گے نہیں، ورنہ میں ان سے ڈرتا بھی تھا/ہوں۔ جیسا کہ ممتاز مفتی نے 'تلاش' میں اس لاحاصل احترام (ڈر) کی خوب کلاس لگائی ہے۔ میرے ہاتھ میں 'ماہنامہ نوائے منزل لاہور' کے ایک گزشتہ شمارے کی کئی کاپیاں تھیں لیکن ڈاکٹر صاحب کو ایک بھی نہ دے کر آیا، دفتر سے باہر نکلتے ہی میں حسیب کو کال کرکے یہ 'بھولنے' والا واقعہ بتا کر کہا، "مینوں کوئی گالھ کڈھ"، آج زندگی میں پہلی بار خود کوئی گالی سننے کو جی چاہا کہ ایک رسالہ دِکھا کر پھر تھیلے میں ڈال کر لے آیا، بہرحال رات کے وقت 'پاک ٹی ہاؤس' میں محمد کامران اختر کے ہمراہ ملاقات میں میگزین کو موصوف کے ہاتھوں میں جانے کا شرف حاصل ہوا۔
ڈاکٹر صاحب ایک شائستہ سنجیدگی سے ملے، انداز فرینک لیکن مہذبانہ تھا۔ میں خود بھی کافی حد  (جتنا مجھ سے ممکن تھا) تک تہذیب کے دائرے میں رہا۔ میں وہاں وکیپیڈیا پر ان کی حیاتی لکھنے کی غرض سے مواد لینے گیا تھا، لہٰذا وہ بھی مل گیا۔ ابھی اس کی ترتیب دینا باقی ہے، پھر اردو وکیپیڈیا پر ایک جامع مضمون نظر آئے گا۔ ان شاء اللہ-

نوٹ: تحریر میں جوابات کے الفاظ میرے اپنے ہیں، ڈاکٹر صاحب کم و بیش یہی کہنا چاہتے تھے، جو باتیں میں نے حذف کی ہیں وہ احتیاطاً کی ہیں