قومیں ایسے تو نہیں بنا کرتیں۔ کیا قوم ایسی ہوتی ہے کسی
ایک کا منہ مشرق کو اور کسی دوسرے کا رخ مغرب کو۔ کوئی دہشتگردی کو ختم کرنا چاہتا
ہے کوئی انسانیت کا جنازہ نکالنا چاہتا ہے۔ کوئی اس قوم کے صبح جاگنے سے پہلے ان
کی گلیاں محلے صاف کرکے اس میں چونا بکھیرتا ہے اور 'خاکروب' کہلاتا ہے دوسرا صرف
گندگی پھیلاتا ہے اور نعرے لگاتا ہے۔ کسی کو عوامی فلاحی منصوبوں میں سے دھوکہ دہی
کے ذریعے 'مال' نکال کر اپنے بچوں کو کھلانے سے لطف آتا ہے۔ کسی دوسرے کو زبردستی
رشوت پکڑا دی جاتی ہے ورنہ پستول کی گولی حاضر ہے۔ یہاں کتنے کیس عدالتوں میں 'حل'
ہوئے ہیں۔
ایک دہائی سے زائد
عرصہ اخبار بینی میں صرف ایک منڈی ڈھاباں ، صفدر آباد کے دیہاتوں کا کیس نظر آیا
تھا جس میں کسی لڑکی کے ساتھ ظلم کرنے والوں کو پھانسی کے پھندے تک پہنچایا گیا
تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مظلوم کے اہل خانہ نے مجرموں کو معاف کر دیا تھا لیکن
سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے ظالموں کی معافی کی اپیل رد کر دی تھی۔ اس کے بعد صرف
ایک اصغر خان کیس کا فیصلہ اس معاملے کے بیس برس بعد اور کیس دائر ہونے کے تقریباً
سولہ برس بعد آیا تھا اس پر عمل نہیں ہوا۔ آپ دیکھیں کہ اس میں تمام 'مجرم'
کردارنہ صرف آپ کی بلکہ خطے کی سیاست پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ ایک آخری فیصلہ شاہ
زیب قتل کیس کا تھا جو قومی میڈیا، سوشل میڈیا اور بھر پور عوامی دباؤ کے نتیجے
میں آیا لیکن وہ 'ظالم' وکٹری کا نشان بنا کر متاثر فیملی کو منا کر یہ جا اور وہ
جا۔ یہ ہے تقریباً ڈیڑھ دہائی کی کُل عدالتی کارروائی۔ اس کے باوجود لاہور ہائی
کورٹ بار کے وکلاء اور ان کی چہیتی عاصمہ جہانگیر ملٹری کورٹس کا 'رد' کر رہے ہیں۔
یعنی دہشتگردوں کو قانون کے جاننے ماننے
والے پناہ فراہم کر رہے ہیں۔
سولہ دسمبر کو
پشاور میں وہ قیامت خیز سانحہ ہوا تو قیامت کیوں نہیں آئی۔ قوم کو بُدھو بنایا ہوا
ہے۔ کیا سولہ کی شام دسمبر تک دہشت گردوں کے تمام پشت پناہ مدارس ، وکلاء اور
سیاسی کرداروں کو ٹکڑے کرکے کتوں کے آگے نہیں پھینکا جا سکتا تھا۔ جیلوں میں
ہزاروں دہشتگرد جو قوم کے ٹیکس سے 'پل' رہے ہیں اور ہر طرح کے جرائم میں وہاں سے
بھی ملوث ہیں انہیں پٹرول چھڑک کر آگ نہیں لگا دینی چاہئے تھی، بھیا! کیا قومیں
ایسی ہی ہوتی ہیں۔ ایک مہینہ گزر گیا۔ چلیں چھوڑیں اس بات کو بھی! پیرس میں جو
ہوا، اس کے بعد یورپ کے چونتالیس ممالک سمیت آدھی سے زیادہ دنیا حرکت میں نہیں
آگئی۔ پاکستان میں سیاست دانوں کو رہنے دیں عوام الناس نے کتنے احتجاج کئے سانحہ
پشاور کے لئے۔ ارے کوئی ہے جو ان دہشت گردوں کی حمایت کرنے والوں اور ان کی وکالت
میں برین واشنگ کرکے قوم کو گمراہ کرنے والوں کو 'لگام' ڈالے؟ نہیں ہے۔ یہاں کتیا
چوروں کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ اللہ عزوجل کی بارگاہ کے علاوہ کسی سے کوئی امید نہیں۔
یہ تو ایسے گئے گزرے ہیں کہ گھٹیا سے گھٹیا الفاظ بھی ان کے سامنے ہیچ ہیں اور ان
کے کرتوت انتہائی بھیانک ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں ان کا 'آج' نہیں ہے یہ آنے والے کل
کو سنواریں گے۔ یہ قوم کے رکھوالے ہیں یہ کریں گے قوم کے مستقبل کے فیصلے جو ہر آن
اُڑنے کو تیار رہتے ہیں۔ پنڈ نوں اگ لگی، کتا روڑی تے۔ یہاں رہنا تو قوم نے ہے۔ کس
قوم نے نجانے کس قوم نے۔ جسے آج تک ہوش نہیں آ سکا کہ قوم ہوتی کیا ہے۔ جنہیں
انسانیت کا درس کسی نے دیا ہی نہیں۔ صرف سکھایا گیا ہے زیادہ سے زیادہ 'مال'
کمانا۔ یا اس کے لئے ہر جائز و ناجائز ذریعے کو اختیار کرنا۔ یہ لوگ کِدھر کو جا
رہے ہیں ان کی ستر فیصد نوجوان نسل کدھر جا رہی ہے۔ کسی کو خبر ہے!
ٹی وی سکرین کے
سامنے یا اخبار کے ایک کالم میں کتنی دنیا کو سنوارا جا چکا ہے۔ ایک سو بیس ٹی وی
چینلز میں سے کتنے ہیں جو قوم کو اچھی زندگی بسر کرنے کا درس دے رہے ہیں۔ کس نے
قوم کو پچھلے اڑسٹھ برس سے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ کون ہے جس کے شکنجے سے ہم
آزاد نہیں ہو سکے۔ اگر ابھی تک پتہ نہیں چل سکا تو جناب! معلوم کیجئے۔ حالات ایسے
نہیں سُدھرا کرتے۔ قومیں ایسے نہیں بنا کرتیں۔ زندگیاں ایسے نہیں سنورا کرتیں۔
نہیں ایسے نہیں ہوا کرتا۔ کنویں سے باہر آجائیے کسی سمندر نہیں تو کم از کم دریا
جیسی وسعت کا نظارا کیجیے کیونکہ اب چھوٹی موٹی نہر کی وسعت سے یہ معاملات حل ہونے
والے نہیں۔ دنیا کو بہت سے بندوں (حدود) سے آزاد ہوکر دیکھئے۔ کیا یہی اصولِ زندگانی ہے
جو ہم نے اپنایا ہے۔ کیا ٹی وی پر غمزدہ تصاویر دکھانے سے 'سب ٹھیک ہوجائے گا'۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں