یہ جو سال گزرا
ہے یعنی اسلامی کیلنڈر کے مطابق 1435 ہجری قمری تھا اس میں شب قدر جو کہ
ایک بہت بابرکت رات ہوتی ہے، میں نے لاہور میں عالمگیری، بادشاہی مسجد کو
مغربی جانب سے دیکھا وہ دلہن کی طرح سجی ہوئی تھی۔ میرے دل میں کوئی بغض یا
نفرت ہرگز پیدا نہ ہوئی۔ لیکن جو لوگ ان دنوں بادشاہی مسجد لاہور میں بطور
مذہبی رہنما تعینات ہیں ان کے لئے ایک سوال میرے دل میں آیا اور میں نے ایک
میسیج موبائل پر لکھ کر لوگوں کو بھیجا کہ کیا صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین سے ایسا ثابت ہے کہ انہوں نے کسی بادشاہ (عالمگیر کی طرح کا
بادشاہ) کی بنوائی ہوئی مسجد کو شب قدر کو دلہن کی طرح سجایا ہو اور اس طرح
خوشی کا اظہار فرمایا ہو۔ میں نے آگے لکھا کہ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں
کہ اگر کوئی مسجد کو سجا کر شب قدر کو مناتا ہے اور خوشی محسوس کرتا ہے۔
یہ سوال دل میں آنے کی وجہ بڑی واضح اور ایک تنقیدی نکتہ نظر کی وجہ سے تھی
کہ دنیا بھر میں مسلمان لوگ بارہ ربیع الاول کو نبی پاک صاحبِ لولاک صلی
اللہ علیہ وسلم کا یومِ ولادت اپنے گھر اور مسجدیں سجا کر مناتے ہیں تو کچھ
مشہورِ زمانہ سکالرز ان لوگوں کے خلاف جہاد کرنے کی تر غیب دیتے ہیں۔
سکالر کا نام میں لکھ سکتا ہوں لیکن فی الوقت نہیں لکھ رہا اگر کوئی پوچھے
گا تو ضرور بتاؤں گا بلکہ وڈیو موجود ہے دکھا بھی سکتا ہوں۔ وہ جناب کہتے
ہیں ایک حدیث پاک کا حوالہ دے کر کہ پہلے انبیاء کرام علیہم السلام کے
اصحاب یا حواری ہوتے تھے جو ان نبیوں سے دین سیکھ کر لوگوں کو بتاتے ان کے
بعد کچھ ایسے ناخلف لوگ آ جاتے تھے جو وہ کام کرنے کا حکم دیتے تھے جو خود
نہیں کرتے اور کرتے وہ تھے جس کا حکم ہی نہیں مِلا ہوتا تھا۔ یہ سکالر صاحب
اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ عید میلاد النبی منانے کا حکم نہیں ہے تو
حدیث پاک کے مطابق مؤمن وہ ہوگا جو ان کے خلاف جہاد کرے گا قوت سے، زبان سے
یا دل سے برا مانے گا جو رائی کے برابر ایمان کی مثال ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ آج شام
کو میں نے موبائل پر ایک سوال لوگوں کو بھیجا تھا کہ جب بھی مسلمانوں کے
مذہبی تہوار ہوتے ہیں تو مسلم ملک میں رہتے ہوئے انہیں دہشت گردی کی زد میں
آ جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ یہ خدشات مسلمانوں کو اپنے ممالک میں کن لوگوں سے
ہیں؟ کیا دہشت گرد مسلمان ہیں؟ یا کیا مسلمان دہشت گرد ہو سکتے ہیں؟؟؟ ان
سوالات کا جواب مجھے ابھی ابھی سکالرز کی وڈیوز دیکھ کر ملا ہے۔ ان میں سے
کوئی عید میلاد النبی منانے والوں کے خلاف جہاد کی ترغیب دے رہا ہے۔ اور
کوئی دوسرا کہہ رہا ہے کہ اگر ان محافل میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی
شان کو خدا سے بڑھا کر بیان نہ کیا جائے تو ٹھیک ہے! واٹ نان سینس ہی اِز۔
کیا وہ سکالر خدا تعالی کی شان کو محدود مانتا ہے جو کہتا پھرتا ہے کہ
معاذاللہ نبی پاک کی شان کو بڑھا کر پیش کِیا جاتا ہے؟ کیا اللہ عزوجل کے
بارے میں یہ عقیدہ رکھنا درست ہے کہ اللہ کی شان کی کوئی حد ہوتی ہے۔ کس
طرح کی بات کرتے ہیں جناب دانشور! ایک تیسرے صاحب ہیں جو کہتے ہیں کہ عام
انسان یا بچے کی سالگرہ منانا مباح یا مستحب یا مکروہ ہے جسے حرام قرار
نہیں دیا جا سکتا۔ وہ کہتا ہے کہ لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔ انبیاء کرام علیہم کی ولادت
کی سالگرہ منانا شِرک کی طرف لے جاتا ہے۔ لیکن اس سکالر صاحب نے اس بات
کو واضح نہیں کیا کہ یہ کیسے شِرک کی طرف لے جاتا ہے۔ بس لے جاتا ہے۔
کیونکہ کہہ جو دیا کہ لے جاتا ہے۔ کمال ہے! یہ کیا منطق ہوئی کہ اللہ کے
پاک پیغمبر علیہ السلام کی یاد میں ایک دن منانا شِرک کی طرف لے جاتا ہے؟
ان سکالرز نےایک بات 'اور' کہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسولِ پاک کو روزانہ
یاد کرنا چاہئے۔ صرف ایک سالانہ پروگرام ترتیب دینا یہ کیسے ثابت یا ظاہر
کرتا ہے کہ آپ عاشقِ رسول ہیں یا اس ایک دن کو منا لینے سے آپ لوگ کہاں سچے
اور باعمل مسلمان بن جاتے ہیں۔۔۔۔۔ یہ بات ان کی منطقی ہے۔ بھئی سکالرز
صاحبان، احترام کے ساتھ! آپ تو بہت اچھا نکتہ بیان فرما رہے ہیں چلو ایسا
کرتے ہیں۔ جن لوگوں کو سال کے بعد صرف ربیع الاول میں نبی پاک کی یاد ،
زیادہ آتی ہے وہ 12 ربیع الاول سے پہلے اور چند روز بعد تک جشن منا لیا
کریں گے۔ بس آپ ذرا ہمت کیجیے اور دیگر مہینوں میں زیادہ نہیں تو ہر ہفتے
کو ایک محفل پاک منعقد کرنے کے لئے کوشش فرمائیے۔ آہستہ آہستہ لوگ آپ کے
عمل کو دیکھ کر یہ سمجھنا شروع کر دیں گے ہمیں پُورا سال اللہ تعالیٰ کا
شکر ادا کرتے رہنا چاہیے کہ اس نے ہمیں اپنا محبوب عطا فرمایا اور پیارا
دین عطا فرمایا۔ اس میں تو بہت زیادہ ہم آہنگی اور محبتوں کو بڑھانے والی
بات پوشیدہ ہے کہ آپ سال بھر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہتے ہیں کہ یا
اللہ! تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو
اس دنیا میں بھیج کر تُو نے ہم پر احسان عظیم فرمایا ہے۔ اب ہم سال بھر
جشن آمدِ رسول منایا کریں گے۔ جس میں نہ صرف نعرے ہوں گے بلکہ اس کا عکس
ہماری عملی زندگی سے بھی جھلکے گا۔ ہماری روزمرہ کی حرکات سے بھی۔ ہمارے
کاروبارِ حیات سے بھی۔ تو آئیے آج یہ عہد کریں کہ آج کے بعد پورا سال نبی
پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد میں ہم غریبوں کا بہت خیال رکھیں گے۔
ناداروں اور مفلسوں کی مدد کریں گے۔ ہمسائیوں کے حقوق کا خیال رکھیں گے۔
کسی کا دل نہیں دکھائیں گے۔ ہم عملی مسلمان بن کر دنیا کے لوگوں کو اسلام
کی طرف راغب کریں گے۔ اور تجدیدِ عہد پھر اگلے سال ربیع الاول یا رمضان
شریف میں کر لیں گے۔ کہ جس طرح سانحہ پشاور، سانحہ واہگہ بارڈر، سانحہ نشتر
پارک، سانحہ مون مارکیٹ، سانحہ جامعہ منہاج القرآن، سانحہ راولپنڈی، سانحہ
ہزارہ قبائل اور دیگر بہت سے واقعات میں جن لوگوں کا دل دُکھا ہے۔ ہم ان
کے غم گسار بن جائیں گے۔ ہم لوگوں کو سُکھ دیں گے۔ پیار دیں گے۔ محبتیں
بانٹیں گے۔ ہم اپنی حکومت سے یہ مطالبہ کریں گے کہ اپنی خارجہ پالیسی میں
غیر ملکیوں کے ڈرونز کے لئے کوئی گنجائش نہ رکھی جائے ۔ ہم اپنے معاملات
خود دیکھ لیں گے۔ اور آئیں آج عہد کریں کہ ہم دہشت گردانہ سرگرمیوں کی روک
تھام کے لئے پوُرا سال کوشش کریں گے۔ کیونکہ ہم سارا سال نبی پاک کی یاد
میں گزارنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا ہم عید، محرم ، شب معراج، شب برات اور دیگر
بہت سے مذہبی و غیر مذہبی تہواروں پر شر پسندانہ کارروائیوں کی حوصلہ شکنی
کریں گے۔ اور دینی مسائل کے حل کے لئے ایم۔بی۔بی۔ایس ڈاکٹرز کی بجائے دینی
علوم کے ماہرین سے رجوع کریں گے اور طبی مسائل کے حل کے لئے ڈاکٹرز یعنی
ماہرین طب کی خدمات حاصل کریں گے۔ آئیں آج عہد کریں کہ ہم رشوت دینے والے
اور لینے والے کو نبی پاک کا وہ واضح فرمان سُنا کر اس سے روکیں گے جس میں
نبی پاک نے راشی اور مرتشی دونوں کو جہنمی قرار دیا ہے۔ اور ہم ملاوٹ کرنے
والوں کو بھی وہ حدیث سُنا کر دھوکہ بازی سے باز رہنے کا درس دیں گے۔ جس
میں سرکار دو عالم نے فرمایا کہ "وہ ہم میں سے نہیں جو ملاوٹ کرے"۔ اسی طرح
ہر شعبہ زندگی اور ہر مرحلے پر دینِ متین کی تعلیمات کی رہنمائی میں سارا
سال آقائے دوجہاں کی یاد میں گزاریں گے اور جنہیں صرف سال کے بعد ربیع
الاول شریف میں یہ خوشی منانا یاد آتا ہے انہیں اپنے عمل سے بتائیں گے کہ یہ
ایک مثالی کردار ہے۔ یہ ہے درست طریقہ جشنِ عید میلاد النبی منانے کا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں