28 نومبر کو ہم نے واہگہ کے راستے بارڈر کراس کیا ، دل میں عجیب وسوسے تھے لیکن کنور رنجیت سنگھ چوہان کی دعوت میں محبت ہی اتنی تھی کہ خطروں اور وسوسوں کی کوئی پرواہ نہ رہی ، 2 بجے کے قریب ہم نے انڈیا میں اپنا پہلا قدم رکھا اور دل سے اللہ اکبر کی صدا گونجی ، بارڈر پر پرویز نام کے ایک عیسائی دوست لینے آئے ہوئے تھے 15 سے 20 منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہم امرتسر پہنچ گئے کھانا وغیرہ کھاتے ہی ہماری ٹرین کا وقت ہوگیا اور ہم شتابدی نامی ٹرین میں سوار ہو گئے ۔ ٹرین کے انتظامات دیکھ کر ہماری آنکھیں پھٹی رہ گئیں بلاشبہ بھارت نے ٹرین کے نظام کو بہت اچھا بنایا ہوا ہے سفر وہاں بہت سستا ہے شتابدی وہاں کی ہائی کلاس ٹرین ہے جس نے ہمیں 5.30 گھنٹوں میں دہلی پہنچا دیا دہلی اسٹیشن پر رنجیت ہمارا انتظار کر رہے تھے اور یوں ہم ان کی ہمراہی میں ہوٹل پہنچ گئے واہگہ سے لے کر دہلی تک ہمیں کوئی دقت نہیں ہوئی اللہ پاک کے کرم سے ہم خیریت کے ساتھ اپنی منزل تک پہنچ گئے تھے لیکن اس دوران ہمیں ٹرین کی سہولیات دیکھ کر اپنی پاکستانی ریلوے کی وزارت پر بہت غصہ بھی آیا اور افسوس بھی ہوا کہ انگریز کے بعد آج تک ہم نے کوئی نیا ٹریک ہی نہیں بنایا ۔۔۔ صاحبان ٹرین کا سفر دنیا میں محفوظ ترین سفر تصور کیا جاتا ہے ہم نے یورپ میں بھی سامان اور مسافروں کے لیے ٹرین کا استعمال کا رواج عام پایا اور انڈیا میں بھی لیکن پاکستان کی بدقسمتی کہ مسافران کے لیے بسوں کے علاوہ کوئی سواری نہیں اور بسیں غیر سرکاری ہیں جو اپنی مرضی کا کرایہ وصول کرتی ہیں اگر ہم ٹرین کا سسٹم اچھا بنا لیں تو سالانہ روڈ رپیئر کے نام پر نکالے جانے والا اربوں کی مالیت کا پیسہ بھی بچا سکتے ہیں اور اور سفر کو محفوظ ترین بنا سکتے ہیں ساتھ ہی پاکستان کی حکومتی آمدنی کو بھی بڑھا سکتے ہیں مگر ہمارے سیاست دان تو دنیا کی نمبر 1 ائیر لائن کا بھی بیڑہ غرق کر چکے ہیں
29 نومبر کو کانفرنس اور مشاعرے کا آغاز ہوا کانفرنس کے سیشن سنے تو اندازہ ہوا عوامی مسائل وہاں اور یہاں کے ایک جیسے ہیں مگر سیاست دان قدرے مختلف ہیں یہاں کے سیاست دان اپنے فائیدے کے لیے ملک کا سودا بھی کر سکتے ہیں مگر وہاں کے سیاست دان اپنے ملک کا سودا نہیں کرتے باقی کھانا پینا ایک جیسا ہے ۔۔۔
مشاعرے میں اللہ پاک نے بہت نوازا جب ہم اشعار سنا کر واپس نشست پر جانے لگے تو سارا ہال کافی دیر تک تالیاں بجاتا رہا اور ہماری آنکھوں سے شکر کے آنسو نکلتے رہے مشاعرے کے بعد کھانے کا انتظام تھا پاکستان سے ہم تین لوگ تھے محترمہ کشور ناہید ، علی یاسر اور فقیر ، اس قدر دار کے بعد ہمارے مداحین نے ہمیں گھیرے میں لے لیا اور کافی دلچسپ گفتگو ہوتی رہی کچھ لوگوں کو ہمارے اشعار پہلے سے یاد تھے جن کو سن کر ہمیں حیرت ہوتی رہی
اگلے دن ہم نے دہلی گھومنا تھا سب سے پہلے ہم نے لال قلعہ دیکھا پھر جامع مسجد اتنے میں شام ہوگئی اور رات کا کھانا ہم نے پرویز خان صاحب کے ہاں کھانا تھا لہٰذا سیر چھوڑ کر پیٹ کی طرف متوجہ ہوئے
اگلے روز ہم نے صبح سویرے حضرت سید عبدالرحمان گیلانی دہلوی کی بارگاہ میں حاضری دینا تھی مگر راستہ نہ ملنے کی وجہ سے ہم حاضر نہ ہوسکے لیکن اسی بہانے ہم نے دہلی کا صدر بازار بہت گھوما اور چند مزارات پر فاتحہ خوانی بھی کی
وہاں سے فارغ ہوکر ہم 11 بجے ہوٹل واپس پہنچے جہاں ریختہ والے زمرد صاحب ہمارا انٹرویو کرنے کے تشریف لانے والے تھے اور یوں ہم 3 بجے تک انٹرویو میں کھوئے رہے جس کے بعد ہم حضرت نظام الدین کی بارگاہ میں پہنچے جہاں بہت کمال حاضری ہوئی سرکار نے بہت کرم کیا اور وہاں کے منتظمین نے بہت عزت کے ساتھ ہمیں زیارت کرائی حضرت امیر خسرو کی دربار حضرت نظام الدین کے قدموں کی طرف تھی وہاں بھی حاضری دی اور غالب کو بھی سلام پیش کیا اور یوں ہم رات 7 بجے دہلی سے امرتسر واپس روانہ ہوئے
امرتسر پہنچ کر ہم نے سکھوں کا گولڈن ٹمپل دیکھا وہاں کی صفائی اور انتظامات دیکھ کر بہت حیران ہوئے ہم لوگ قطاروں میں پورے نظم و ضبط کے ساتھ صبح سویرے حاضری دے رہے تھے ہمیں جان کر خوشی ہوئی کہ گولڈن ٹمپل کی بنیاد حضرت میاں میر صاحب کے مبارک ہاتھوں سے رکھائی گئی تھی اس سے ہمیں اندازہ ہوا کہ سکھ اولیا اللہ کا کتنا احترام کرتے ہیں ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ سکھ ننگے سر گرودوارہ میں نہیں جانے دیتے اور اپنی کتاب گرنتھ کو گرنتھ صاحب کہہ کر اس کا احترام کرتے ہیں گرنتھ صاحب کا زیادہ تر حصہ حضرت بابا فرید گنج شکر کے کلام پر مشتمل ہے اور اب سکھ کتاب کو ہی اپنا گرو مانتے ہیں ہمیں اندازہ ہوا کہ سکھوں میں اور اسلام میں بہت مماثلت ہے
سکھ ازم کے بانی گرونانک تھے جن کے بارے کہا جاتا ہے کہ مسلمان انہیں مسلمان سمجھتے تھے اور یہ بھی کہا جاتا ہے ایک حافظ قرآن ہر وقت ان کے ساتھ ہوتا تھا جو انہیں قرآن پڑھ کر سناتا تھا
امرتسر میں کئی کسانوں سے بھی ملاقات ہوئی اور ان کی خوشحالی کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ، پاکستان کے کسانوں کی بدحالی اب ہم سے کہاں چھپی ہوئی ہے لہٰذا موازنہ کرنے کے لیے معلومات اکٹھی کیں تو ایک بار پھر یہاں کی حکومت پر غصہ آیا وہ معلومات آپ کے ساتھ بھی شئیر کرتا چلوں
10 ہارس پاور کی ٹیوب ویل وہاں حکومت کا بجلی کا محکمہ کسان کو بغیر اجرت کے خود لگا کر دیتا ہے جس کا بل ہے 1000 ماہانہ اور مزے کی بات یہ ہے کہ جس مہینے بارشیں ہوجائیں کسانوں سے 1000 روپیہ بھی نہیں لیا جاتا جبکہ پاکستان میں 25 ہارس پاور کی ٹیوب ویل کا بل 40000 روپے تک آتا ہے اور بجلی ایسی کہ 24 گھنٹوں میں صرف 8 گھنٹے وہ بھی مسلسل نہیں ملتی عین بجائی کے وقت بل نہ ادا کرنے پر کنکشن کاٹ لیا جاتا ہے
یوریا کھاد وہاں 380 روپے سے 400 تک ہے جبکہ یہاں 1800 روپے تک ہے
ڈی اے پی وہاں 850 روپے کی ہے جبکہ یہاں 4000 تک ہے اور اصلی تو شاید ملے
وہاں گندم جسے وہ گیہوں کہتے 1400 روپے من فروخت ہوتی ہے جبکہ یہاں سرکاری ریٹ 1300 روپے ہے مگر سرکار خریدتی نہیں اس لیے پرائیویٹ خریدار 1100 سے 1200 روپے تک ہی خریدتے ہیں اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہماری لاگت فصل اور بچت کا حساب یوں ہوگا
زمین کی تیاری بحساب ڈیزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 3500
2 بوری یوریا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 3600
1 بوری ڈی اے پی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 3800
گندم بیج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2000
4 پانی + راونی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 8000
مزدوری کٹائی بجائی وغیرہ اندازا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 6000
کل لاگت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 26900
آمدن 35 من بحساب 1300 روپے ۔۔۔۔۔۔ 45500
بچت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 18600 اگر گندم 1300 کے ریٹ پر بک جائے تو اور گندم کا یہاں بکنا بھی بہت مشکوک ہوتا ہے
اب انڈیا کا اندازہ کرتے ہیں یاد رہے وہاں ڈیزل 46 روپے لیٹر ہے تقریبا جبکہ یہاں 85 روپے ہے
زمین کی تیاری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1800
2 بوری یوریا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 760
1 بوری ڈی اے پی ۔۔۔۔۔۔ 850 بلکہ اس سے بھی کم لیکن ہم اندازے میں زیادہ سے زیادہ ریٹ لگا رہے ہیں
گندم بیج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1800
پانی راونی وغیزہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فری
مزدوری کٹائی وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 4000
کل لاگت فی ایکڑ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 9210
آمدن 35 من فی ایکڑ بحساب 1400 روپے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 49000
بچت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 39790 یاد رہے وہاں کا ایک روپیہ ہمارے 2 روپے کے برابر ہے
دوستو ان حالات کو دیکھتے ہوئے اپنے ملک کی قسمت اور حکمرانوں کی عیاشیوں پر بہت غصہ آیا مانا کہ انڈیا ہمارا دشمن ملک ہے پر دشمن کی اچھائی کی تعریف نہ کرنا بھی بد دیانتی ہے ہم 20 کروڑ کو خوشحال نہ کر سکے اور انہوں نے 120 کروڑ کو بھی خوشحال کرنا شروع کردیا ہے اور وہ کامیاب ہوتے جا رہے ہیں
ایک بات عام پھیلائی جاتی ہے کہ وہاں 12.5 ایکڑ کے زمیندار ہیں اس لیے زراعت اچھی تو بھائی اس کا بھی سن لیں وہاں گھر کا فی فرد 12.5 ایکڑ کا مالک ہے اور ایک ایک گھر کے 20 سے 30 افراد ہیں وہاں کا ایکڑ بھی ہمارے ایکڑ سے رقبے کے لہاظ سے بڑا ہے
خیر میری عرض ہے کہ تمام پاکستان کے شہریوں پر فرض ہے کہ وہ اپنے کسانوں کو بچائیں کیونکہ انٹرنیشنل پلاننگ کی وجہ سے ہمارے ملک کی زراعت کو ختم کیا جا رہا ہے اور اس کے لیے آئی ایم ایف بہت حرکت میں ہے
اللہ پاک ہمارے ملک کو اور ہمارے ملک کی عوام کو سلامت رکھیں اور ان سب لٹیروں سے بچائیں
آمین
یہ تحریر جلدی میں لکھی گئی ہے مکمل باتیں کبھی فرصت میں لکھوں گا کہ وہاں کے مذہبی رجحانات اور سیاسی و سماجی و عوامی رجحانات کیا ہے
ندیم بھابھہ