جمعرات، 16 اگست، 2012

ہر ملک ملک ما است

جس بندے نے کتابیں ’’جب امرتسر جل رہا تھا‘‘ مصنف خواجہ افتخار ’’شہاب نامہ‘‘ مصنف قدرت اللہ شہاب ’’خاک اور خون‘‘ مصنف نسیم حجازی نہیں پڑھیں اسے شاید ان حقائق سے آگاہی نہ ہو جو قیام پاکستان کے دوران تھے دراصل 14 اگست 1947 بمطابق 27 رمضان 1366بروز جمعرات یا اگلا دن کہہ لیں، یعنی کہ جس دن آزاد پاکستان قائم ہونے کا اعلان تھا کیونکہ ہندوستان پر تو تب بھی ماؤنٹ بیٹن کی حکومت تھی، آزاد تو صرف پاکستان تھا، بھارت تو اس دن بھی غلام ہی رہا۔ میرامطلب اس دن دہلی پر پاکستان کا پرچم لہرایا تھا۔ لیکن بد قسمتی سے تین دن بعد چاند رات کو آل انڈیا ریڈیو دلی(دہلی) کی سماچار کے مطابق اہنسا کے دیوتا کے پجاری دہلی، جونا گڑھ، حیدرآباد دکن،فیروز پور، گورداس پور، اور دیگر بیشتر علاقہ جات کو ماؤنٹ بیٹن اور ریڈ کلف کی بد دیانتی اور بنیے کی فسطائیت والی سوچ کے بل بوتے پر کائنات کی پرامن قوم امت مسلمہ سے چھین کر لے جا چکے تھے۔ لیکن لوگ جس کو تقسیم کہتے ہیں در اصل وہ آزادی تھی۔ لیکن جن اساتذہ نے سرحد پار بھی مشرقی پاکستان کے بچوں کو فکری طور پر یرغمال بنا کر قومیت کے نام پر اپنے اسلامی ملک کو دو ٹکڑے کرنے تک مشتعل کر دیا تھا انہوں نے انڈیا میں بسنے والے بچوں کے افکار کے ساتھ کیا کیا سلوک نہ کیا ہو گا اب آج 2012 میں بلوچستان کی مثال ہمارے سامنے ہے اگر ریڈ کلف اینڈ کمپنی یہ مکروہ دھندہ کر کے ’’خاک اور خون کی نئی لکیر‘‘ نہ کھینچتی تو کیا دس لاکھ مسلمان شہید ہوتے کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ 14 اگست 1947 سے تین دن تک مسلمانوں نے اعلان کردہ اپنے حصے میں ایک بھی ہندو یا سکھ پر ظلم کیا ہو؟ غیر متعصب مؤرخ سے ثابت کیا جائے۔۔۔۔۔۔ ! یا پاکستانی مسلمانوں نے جوابی طور پر بھی ظلم کیا ہو؟ غیر متعصب مؤرخ سے جواب۔۔۔ ؟ کشمیر تو ڈوگرہ راج کے ظلم کی نذر ہوا، جونا گڑھ اور حیدرآباد دکن کے معاملے میں کیوں نا انصافی برتی گئی؟ پاکستانی بچے بچیاں اس معاملے میں اس لیے نہیں بولتے کیونکہ ظاہر ہے کہ وہ میٹرک، ایف اے، بی اے میں بھی ’’مطالعہ پاکستان‘‘ کو مجبورا پڑھتے ہیں خدارا آپ ریسرچ کیجیے میں کیا کیا اور کہاں تک لکھوں آپ کو محمد علی جناح اور اہنسا کے دیوتا کے اصلی چہرے تحقیق کے بعد نظر آئیں گے آخر میں کشمیر پر یہ کہوں گا کہ ہم بد طنیت لوگ ہیں اگر ’’ماڈرن ورلڈ اینڈ پاکستان‘‘ 1950 والی تقریر والے دورہ امریکہ کی بجائے، روس کا دورہ رد نہ کیا ہوتا تو شاید کشمیر کا کوئی نہ کوئی حل ابتدائی ایام میں ہی نکل آتا اور صورت حال کچھ مختلف ہوتی پھر ہمارا ’’نمبردار‘‘ایک ہی رہتاچاہے وہ بھی اشتراکیت اور دہریت میں ڈوبا ہوا تھا لیکن دو طرفہ یا چومکھی پردانسی کے گھیراؤ سے پاکستان بچ جاتا اور شاید فیصلے کرنے کا کچھ اختیار خود بھی رکھ لیتا جس طرح انڈیا 15 اگست 1947 کو آزاد نہ ہوا بلکہ ماؤنٹ بیٹن کی تحویل میں رہا بالکل اسی طرح ہماری پاک فوج بھی جنرل گورسی کی کمانڈ میں تھی ورنہ کشمیر 1947 والے جہاد میں آزاد ہو چکا ہوتا اور ہمارا عقیدہ ہونا چاہیے کہ جنوبی کوریا کے مسمانوں سے لے کر ایشیا، افریقہ، یورپ و امریکہ اور نیوزی لینڈ تک کے مسلمان ’’خودمختار اور آزاد‘‘ تو ضرور ہونے چاہئیں مگر بنگال اور بلوچستان کی طرح باغی نہیں میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ ہم نے اپنے بنگالی بھایؤں اور بلوچ بھایؤں کے ساتھ ہر گز انصاف نہیں کیا لیکن وہ بھی فکری یرغمال ضرور ہوئے ہیں ہم سب ایک ہیں سب کو ’’انما المؤمنون اخوۃ‘‘کی تصویر ہونا چاہیئے ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ کے مصنف کے بارے میں میرے جملہ تاثرات محفوظ ہیں یہ فرق فکری تربیت کا ہوتا ہے ان شاء اللہ اب ہم اسلامی خطوط پر امت مسلمہ کی فکری اور عملی تربیت کریں گے اور آنے والا وقت ہمارا ہے کشمیر بھی ہمارا ہے ڈھاکہ و دہلی وغرناظہ بھی ہمارا ہو گا ان شاء اللہ! اب وہ وقت تھوڑی ہی دور رہ گیا ہے جب کشمیر فسطائیت کے ظلم سے نجات پائے گا تو امریکی ایجنٹ دہشت گرد تنظیموں کی گرفت میں نہیں، رسول اللہ کے غلاموں کی حفاظت میں ہو گا۔ ’’وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین‘‘ کے مصداق اگر ہم آج اپنی نیتیں صاف کر لیں تو اللہ عزوجل ہم پر عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا کوئی ایک غلام حکم بنا دے گا۔ اور قرون اولیٰ کی یاد تازہ ہو جائے گی پھر ہم کہیں گے ان شاء اللہ ’’ہر ملک ملک ما است‘‘