پیر، 23 مارچ، 2015

سوئے حجاز ۔ خطبات نورانی کی آواز

کالم نگار  |  ڈاکٹر محمد اجمل نیازی
22 مارچ 2015

بردارم ملک محبوب الرسول قادری نے مجھے خطبات نورانی پر مشتمل کتاب دی۔ کتاب کے نام سے لگتا ہے کہ یہ روشنائی سے لکھے ہوئے خطبے ہیں۔ قلم کی سیاہی کے لئے اللہ کے رسول رحمۃ للعالمین، محسن انسانیت، نور کی ساری حقیقتوں کے شناسا حضرت محمدؐ نے فرمایا جبکہ وہ روشنیوں کا مرکز تھے، خود نور سے بنے ہوئے تھے۔ میرے خیال میں روشنی اور نور میں فرق ہے۔ یہ فرق عشق اور عشقِ رسولؐ کی کیفیتوں کی سر مستیوں سے لبالب بھرے ہوئے لوگ جانتے ہیں۔ یہ کتاب جمعیت العلمائے پاکستان کے صدر حضرت مولانا شاہ احمد نورانی کے خطبات پر مشتمل ہیں۔ مجاہد ملت حضرت مولانا عبدالستار خان نیازی جنرل سیکرٹری تھے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے لیڈر تھے۔ دونوں کو ایک دوسرے کا اتنا احترام کرتے دیکھا کہ کوئی دوسرا اس کا تصور نہیں کر سکتا۔ عشقِ رسولؐ دونوں کی ایسی سانجھ تھی جو کبھی نہ ٹوٹ سکی۔ دونوں کے درمیان کچھ شکر رنجی بھی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی مگر عشقِ رسولؐ کو ایمان کا درجہ دینے والوں کے لئے رنج بھی شکر (شوگر) بن جاتا ہے۔ حضرت شاہ احمد نورانی قائدِ اہلسنت تھے۔ انہوں نے سیاست میں عشقِ رسولؐ اور عشق و مستی کو رلانے ملانے کی کوشش کی۔ ناموسِ رسالتؐ کی تڑپ رکھنے والے لوگ آج تک اُن کی رفاقت اور قیادت کے نشے میں چُور ہیں، جن میں لاکھوں لوگ ہیں۔ ملک محبوب الرسول نمایاں لوگوں میں سے ہیں۔ وہ ایک رسالہ نکالتے ہیں اُس کا نام ’’سوئے حجاز‘‘ ہے۔ عشقِ رسولؐ والے جہاں بھی ہوں، جس راستے پر ہوں وہ دیکھتے ’’سوئے حجاز‘‘ ہیں۔ اُن کی نظر گنبدِ خضریٰ پر رہتی ہے۔
تحفظِ ناموس رسالتؐ کے لئے اپنی زندگیاں محبوب الرسول قادری جیسے لوگوں نے وقف کی ہوئی ہیں۔ وہ بار بار عمرے کے لئے جاتے ہیں۔ اس میں یہ آرزو بھی دل میں تڑپتی رہتی ہے کہ روضۂ رسول پر حاضری نصیب ہو گی۔ حضورؐ کی خدمت میں حاضری حضوری ہے۔ قادری صاحب نے کتاب دیتے ہوئے مجھے کہا کہ عشقِ رسولؐ اور ناموسِ رسالتؐ کے حوالے سے خطبات نورانی پر کچھ لکھئے۔ اُن کی سب باتیں عشقِ رسولؐ کے دائرے میں گھومتی ہیں اور جھومتی ہیں۔ میں آپ کا یہ کالم روضۂ اطہرؐ کے سامنے حضور نبی کریم رحمۃ للعالمین حضرت محمدؐ کی خدمت میں پیش کروں گا۔ یہ الفاظ سیدھے میرے دل میں اُتر گئے۔ ہم تو اُن لوگوں میں سے ہیں جو عشق رسولؐ کو ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں بلکہ اصل ایمان ہی یہی ہے۔
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نر سیدی تمام بوالہبیت
نورانی صاحب نے عشقِ رسولؐ کو حلاوت ایمان قرار دیا ہے۔ اُن کے اٹھارہ خطبات میں عشقِ رسولؐ کا چراغ جل رہا ہے۔ ان روشنیوں کو قادری صاحب نے مرتب کر کے ’’خطباتِ نورانی‘‘ کے نام کتابی صورت میں شائع کر دیا ہے۔ یہ کتاب پڑھتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں حضرت نورانی صاحب کی خدمت میں موجود ہوں، ان کا خطاب ہو رہا ہے، ان کی آواز کسی نورانی راز کی طرح میری سماعتوں کے سارے دروازوں پر دستک دے رہی ہے۔
عبدالستار خان نیازی سے میری عزیز داری تھی۔ وہ میرے دادا جہاں خان ذیلدار موسیٰ خیل ضلع میانوالی کے لئے بیٹوں کی طرح تھے۔ میرے والد کریم داد خان اور نیازی صاحب کلاس فیلو تھے۔ میں نے عشقِ رسولؐ کی روشنی اپنے ابا مرحوم سے لی ہے۔ میری زندگی میں ایسا لمحہ کبھی نہ آیا کہ والد صاحب کے سامنے کسی نے آپؐ کا نام لیا ہو اور وہ روئے نہ ہوں۔ ہم نے اپنے گھر میں صرف کتابیں دیکھی تھیں۔ شعر و ادب اور مختلف علوم پر مشتمل کتابیں تھیں۔ زیادہ تعداد سیرت النبیؐ کے حوالے سے کتابوں کی تھی۔ اُن کے انتقال کے بعد وہ سب کتابیں میں لاہور لے آیا ہوں۔ مولانا نیازی کے ساتھ میانوالی کے لوگ صرف عشقِ رسولؐ کی وجہ سے عشق کرتے تھے اور انہوں نے میانوالی کے لوگوں کو نیازی بنایا۔ اس سے پہلے لوگ اپنے نام کے ساتھ خان تو لکھتے تھے نیازی نہیں لکھتے تھے۔ مگر نورانی صاحب کے ساتھ نسبت میں نیازی صاحب کی دوستی بھی تھی مگر عشقِ رسولؐ کی نسبت رشتہ داری سے آگے نکل گئی۔ میں کہا کرتا ہوں کہ نسبت نسب سے بڑھ کر ہے اور عقیدت عقیدے سے بڑی ہے۔
چچا شیر احمد خان لاہور میں جمعیت العلمائے پاکستان کے آفس سیکرٹری تھے، ان کی دعوت پر ہمارے گائوں بھی نورانی صاحب تشریف لائے تھے۔
اس موقع پر ایک عاشق رسولؐ ایڈووکیٹ برادرم منصور الرحمن آفریدی یاد آئے ہیں۔ انہوں نے اپنی عظیم ماں سے عشقِ رسولؐ کی خوشبو پائی۔ ایک بار روضۂ رسولؐ کے سامنے اپنی ماں کو جا کھڑا کیا تو درود و سلام کی لوریوں سے آفریدی صاحب کی پرورش کرنے والی ماں نے جذب و کیف کی مستی میں اپنے سچے بیٹے سے کہا کہ مانگ جو کچھ تُجھے چاہئے۔ تم صدرِ پاکستان یا وزیراعظم بننا چاہتے ہو۔ آفریدی صاحب نے عرض کی، ماں جی! آپ عشقِ رسولؐ کے صدقے میں یہ دعا فرمائیے اور حضورؐ کی خدمتِ اقدس میں درخواست کیجئے کہ وہ دونوں جہانوں کے سردار ہیں۔ مجھے اللہ دونوں جہانوں میں عزت، ایمان اور عشقِ رسولؐ کی دولت سے سرفراز فرمائے۔ اب یہ دولت اتنی آفریدی صاحب کے پاس ہے کہ اُن سے سنبھالی نہیں جاتی۔ میں نے بھی ملک محبوب الرسول قادری سے گزارش کی کہ وہ میرا سلامِ نیاز اُن کی خدمت میں پہنچا دے۔
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہی تو ہو

بشکریہ: نوائے وقت

منگل، 17 مارچ، 2015

American CIA is behind Al Qaeda

سی آئی اے ’القائدہ‘ کی مالی امداد میں ملوث نکلی
March 15, 2015 14:43 
واشنگٹن: امریکی ایجنسی سی آئی اے کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیم القائدہ کو ہتھیار خریدنے اور دہشت گردی کی کاروائیاں کرنے کے لئے بھاری رقوم فراہم کرتی رہی ہے۔

امریکی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ سی آئی اے نے افغان حکومت کے خفیہ فنڈ میں 10 لاکھ امریکی ڈالر فراہم کئے جن میں سے پانچ لاکھ ڈالر پاکستان سے اغوا کیے گئے افغان قونصل جنرل عبدالخالق فاراہی کی رہائی کے لئے استعمال کیے گئے۔

امریکی اخبار کے مطابق 2011 میں جب نیوی کمانڈوز نے پاکستان میں اسامہ بن لادن کو مارگرایاتومکان کی تلاشی کے دوران وہاں سے ایسے دستاویزات برآمد ہوئے جن کی رو سے سی آئی اے افغان صدرحامد کرزئی کو القاعدہ کے لئے رقوم فراہم کرتی رہی ہے۔

اخبار کے مطابق القائدہ کے سینئر کمانڈروں کے ساتھ ہونے والی خط وکتابت پر تحقیق کے ذریعے یہ پتا چلا کہ القائدہ اغوا برائے تاوان کے ذریعے حاصل کردہ رقم کو ہتھیار خریدنے ، دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی اور تنظیم کے جنگجوؤں کے خاندانوں کی مالی کفالت میں استعمال کرتی رہی ہے۔

امریکی اخبار نے افغانستان کےایک سرکاری حکام کے بیان کے مطابق دعویٰ کیا ہے کہ سی آئی اے کی جانب سے فراہم کردہ رقوم القائدہ ، دیگر جنگجو گروہوں کے رہنماؤں اور پارلیمانی نمائندوں کو صدارتی محل سے فراہم کی جاتی رہیں ہیں اور نو منتخب افغان صدر اشرف غنی کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد اس سلسلے میں کمی آئی ہے۔

اخبار نے مزید کہا کہ یہ تحقیق افغان اور یورپی حکام سے کی گئی گفتگو کے نتیجے میں مرتب کی گئی ہے جبکہ سی آئی اے نے اس معاملے میں کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔

اتوار، 15 مارچ، 2015

قیام پاکستان کے مخالف مولوی کون؟

Anti Pakistan Ulema during Independence Movement
ابھی ابھی فیس بک پر ایک تحریر نظر سے گزری جس میں کسی صاحب کی مولویوں پر کی گئی کسی تنقید کے جواب میں جوابی تنقید اور مولویوں کی وکالت تھی۔ جس پیج والوں نے مولویوں کی وکالت کرنے کا بیڑہ اپنے کندھوں پر اٹھایا انہوں نے ایک بات یہ لکھی

"عارف کسانہ صاحب نے اپنی تحریر میں لکھا ہے کہ مولویوں کے کفر کے فتووں کی وجہ سے مسلمانوں کا خون سب سے زیادہ بہا ہے۔ کسانہ صاحب نے کسی تاریخی واقعے کی جانب اشارہ نہیں کیا اور تیر بھی چلا دیا۔ شاید ہٹلر کے مشیرِ خاص گوئبلز نے اسی اندازِ گفتگو کو پروپیگنڈے سے تعبیر کیا ہے۔ علامہ اقبال اور قائد اعظم پر مولویوں نے کفر کے فتوے لگائے مگر کوئی ان کفر کے فتوے لگانے والے مولویوں کے نام بھی جانتا ہے؟ لوگ تو اشرف علی تھانوی کو جانتے ہیں، سلیمان ندوی کو جانتے ہیں، شبیر احمد عثمانی کو جانتے ہیں جنہوں نے تحریکِ پاکستان میں قائدِ اعظم کا ساتھ دیا۔ اگر کوئی شعبدے باز، مفاد پرست، چال باز، دشمن ایجنٹ مولوی کے روپ میں کوئی ایسا کام کرے جو مسلم امہ کے مفاد میں نہ ہو تو بجائے یہ کے اس کام پر تنقید کرتے ہوئے ایسے لوگوں کی نشان دہی کر کے صفوں سے باہر کیا جائے، اپنے ہی علما پر تنقید نابالغی اور مضحکہ خیزی کے زمرے میں آتی ہے۔ مولویوں کا تشخص استعمال کر کے لوگوں کو گمراہ کرنا اسلام دشمن قوتوں کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے۔" وغیرہ وغیرہ
اب میں نے مناسب سمجھا کہ چند حوالے دے کر قوم کو بتا دوں کہ پاکستان کے مخالف مولوی کون تھے۔ چنانچہ 
 جہاں تک سوال ہے دیوبندی مکتبہ فکر کے اکابر کا، تو انہوں نہ صرف دو قومی نظریہ کی مخالفت کی بلکہ قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو کافرِ اعظم تک قرار دیا اور پاکستان کو ناپاکستان یا پلیدستان کے القابات سے پُکارا۔ ذیل میں تحریک آزادی کے حوالے سے اُن کا کردار تفصیل کے ساتھ آ رہا ہے۔

دیوبند کون ہیں؟ 
تحریک دیوبند پہلے دن ہی سے وہابیت سے متاثر ایک مذہبی جماعت ہے انیسویں صدی میں مولوی مملوک علی (جو پہلے حنفی سنی تھا) حج کرنے گیا اور وہاں سے وہابیت کے جراثیم لے کر آیا اور ایک نیا مکتبہ فکر وجود میں آ گیا، اس کے خیالات سے متاثر لوگوں میں سے قاسم نانوتوی ، رشید احمد گنگوہی اور یعقوب نانوتوی وغیرہم نے جامعہ دیوبند قائم کیا جس کے قیام کے متعلق بے شمار افسانوں سے کتابوں کے صفحات سیاہ ہوئے پڑے ہیں ان میں سے بشارت نامی ایک رسالے کا حوالہ بھی ملتا ہے جس سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ شاید یہ مدرسہ انگریزوں نے خود قائم کروایا تھا تاکہ برصغیر کے مسلمانوں کا رشتہ ان کے علماءِ اہلسنت سے توڑا جا سکے، دریں اثناء 1857ء کی جنگ آزادی میں انگریز نے بے شمار علماءِ اہلسنت کو شہید کردیا تھا اور کالے پانی کی سزائیں دی تھیں۔  1919ء میں مسٹر گاندھی کی سربراہی میں چلنے والی تحریک خلافت (جو بعد میں تحریک ہجرت اور پھر تحریک ترک موالات میں بدل گئی) اس میں دیوبندی حضرات نے گاندھی کی خوب کاسہ لیسی کی اسے تقریباً نبی کے برابر بھی کہا اور مساجد میں لے جا کر اس کی تقاریر کرواتے رہے ان لوگوں نے انگریزوں کے ساتھ موالات ترک کرنے کا بہانہ بنا کر مشرکوں سے گٹھ جوڑ بنائے رکھا اور ساتھ ساتھ دیوبندی مولوی، سنی عوام پر شرک کے فتوے بھی لگاتے رہے 1919ء میں ان لوگوں نے جمعیت علمائے ہند قائم کی جس کا بنیادی مقصد مسٹر گاندھی کی سربراہی میں نظریہ وطنیت کی حفاظت کرنا تھا اور ہندوستانی قومیت کا پرچار کرنا تھا۔ دیوبندی علماء کے ایک بہت بڑےگروپ  نے مسلم اور غیرمسلم کے نام پر ہونے والی سیاست کی مخالفت کی، جس  کی سربراہی قائد اعظم محمد علی جناح فرما رہے تھے اور ان کا مقصد برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ آزاد مملکت کا حصول تھا۔ جمعیت علماءِ ہند کی طرح مجلس احرار اسلام، ایک دیوبندی  سیاسی پارٹی کی بنیاد 29 دسمبر 1929ء کو لاہور میں  رکھی گئی۔ جس کے بانیان میں سے چودھری افضل حق، سید عطاء اللہ شاہ بخاری، حبیب الرحمن لدھیانوی، مظہر علی اظہر، ظفر علی خان اور داؤد غزنوی قابل ذکر ہیں۔ اس پارٹ کے قیام کا مقصد بھی قائد اعظم  محمد علی جناح کی مخالفت اور ایک آزاد اسلامی مملکت پاکستان کے قیام کی مخالفت کرنا تھا۔ اس کے بعد جمعیت علمائے اسلام کا قیام 1945ء میں اس وقت عمل میں آیا جب جمعیت علمائے ہند نے تقسیم ہند کے حوالے سے انڈین نیشنل کانگریس کے موقف کی حمایت کی، یوں اس موقف سے اختلاف پر علامہ شبیر احمد عثمانی کی زیر قیادت جمعیت علمائے اسلام وجود میں آئی۔ ان سیاسی سرگرمیوں اور ان تحاریک کے متعلق تحقیقی مواد غیر جانب ذرائع سے حاصل کیا گیا ہے جس میں انگریزی وکیپیڈیا سرفہرست ہے اور وہاں ان باتوں میں سے ایک ایک کے  ثبوت کے لئے کئی کئی حوالے موجود ہیں چنانچہ ذیل میں اصل متن دیا جا رہا ہے

Deobandi Movement 
The Deobandi Movement has been influenced by Wahhabism from its early days. A large group of Deobandi scholars opposed Pakistan being established along sectarian lines, particularly the demands of Muhammad Ali Jinnah's Muslim League for the Partition of British India into Muslim and non-Muslim sections. The Deobandi movement advocated a notion of a composite nationalism according to which Hindus and Muslims constituted one nation.

Jamiat Ulema-e-Islam
Jamiat Ulema-e-Islam (JUI) is a Deobandi organization, part of the Deobandi movement. The JUI formed when members broke from the Jamiat Ulema-e-Hind in 1945 after that organization backed the Indian National Congress against the Muslim League's lobby for a separate Pakistan. The first president of the JUI was Shabbir Ahmad Usmani.

Majlis-e-Ahrar-e-Islam
Majlis-e-Ahrar-e-Islam (Urdu: مجلس احرارلأسلام‎), also known in short as Ahrar, was a conservative Deobandi political party in the Indian subcontinent during the British Raj (prior to the Partition of India) founded December 29, 1929 at Lahore. Chaudhry Afzal Haq, Syed Ata Ullah Shah Bukhari, Habib-ur-Rehman Ludhianvi, Mazhar Ali Azhar, Zafar Ali Khan and Dawood Ghaznavi were the founder's of the party. The Ahrar was composed of Indian Muslims disillusioned by the Khilafat Movement, which cleaved closer to the Congress Party. The party was associated with opposition to Muhammad Ali Jinnah and establishment of an independent Pakistan.

Jamiat Ulema-e-Hind
Jamiat Ulema-e-Hind is a Deobandi organizations in India. It was founded in 1919 by Abdul Mohasim Sajjad, Qazi Hussain Ahmed, Ahmed Saeed Dehlvi, and Abdul Bari Firangi Mehli.

قیام ِ پاکستان کے حامی دیوبندی
تحریکِ پاکستان کی حمایت کرنے والے دیوبندی حضرات کی تعداد اتنی کم ہے کہ انہیں بیان کرنے کے لئے صرف چند سطور ہی کافی ہیں۔ ان میں ایک بڑا  نام  علامہ شبیر احمد عثمانی  کا ہے۔ وہ  1944ء میں، مسلم لیگ کے رکن بن گئے اور پاکستان کے قیام کی حمایت کی، ان کا مقصد جمعیت علمائے ہند کے پروپیگنڈے اور سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے، انہوں نے 1945ء میں جمعیت علمائے اسلام کی بنیاد رکھی اور وہ تاحیات اس کے صدر رہے۔ لیکن بعد میں جمعیت علمائے اسلام ان لوگوں کے ہاتھوں  میں چلی گئی جو جمعیت علمائے ہند کا حصہ تھے اور قیامِ پاکستان کے بدترین دشمن تھے۔ مثال کے طور پر مفتی محمود اور مولوی غلام غوث ہزاروی وغیرہما۔

Shabbir Ahmad Usmani
During the Balkan War, Usmani held a prominent position collecting donations for the Hilal-e-Ahmar Fund. In 1944, he became a member of the Muslim League and was one of the few Deobandis who supported the creation of Pakistan. In order to counteract the propaganda and activities of the Jamiat Ulema-e-Hind, he founded the Jamiat Ulema-e-Islam in 1945. He served as JUI's president until his death.


دیوبندی اکابرین کی قادیانیت نوازی 
دیوبندی اکابرین کی سیاسی عبقریت کے مزید حالات جاننے سے پہلے مذہب میں ان کے عقائد اور معلومات پر ایک نظر ڈالنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا تاکہ اس بات کااندازہ لگایا جاسکے کہ مذہبی طور پر یہ کس قدر راسخ العقیدہ لوگ ہیں۔ گزشتہ صدی میں قاسم نانوتوی سے لے کر اس فرقے کے مولویوں نے جو گستاخیاں سرورِ دوعالم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شان میں کی ہیں ان سے اکثر لوگ واقف ہیں اب  حبیب الرحمٰن لدھیانوی  کا بیٹا انیس الرحمٰن لدھیانوی فیصل آباد سے ایک رسالہ  ماہنامہ“ملیہ” شائع کرتا ہے اس میں وہ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے خلاف زہر افشانی کرتا رہتا ہے،(یاد رہے حبیب الرحمان لدھیانوی پہلے فوت ہوچکا ہے۔ آج کل اس کا وارث انیس الرحمان لدھیانوی جامعہ ملیہ فیصل آباد سے شائع ہونے والے شمارے 'ملیہ' میں ایک نئی من گھرٹ تاریخ لکھ رہا ہے جو حقائق سے کافی حد تک ہٹ کر ہے میں نے آصف بھلی کالم نگار کو فون کال کرکے اس واقعے کی طرف توجہ دلائی تھی جس کا شاید کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا لیکن پھر 16 اپریل 2014ء کو یہ معمہ کالم نگار ظفر علی راجا کی نوکِ قلم کی زد میں آگیا، یوں لگتا ہے کہ مندرجہ بالا مضمون حبیب الرحمان لدھیانوی کی کوئی تقریر تھی جو ایک عرصے کے بعد اس کے جانشین نے سپرد قلم کی اور اس پر صادق علی زاہد نے اپنا جواب دیا جسے راجا صاحب نے بیان کیا۔ فقط۔ عبدالرزاق قادری)
چنانچہ نوائے وقت کے کالم نگار ظفر علی راجا 16 اپریل 2014ء کو شائع ہونے والے اپنے کالم(اقبالؒ اور مولانا حبیب لدھیانوی کی “منطق”) میں لکھتے ہیں:۔
اسلام آباد سے شائع ہونے والے ماہنامہ ضیائے حرم کے شمارہ مارچ میں صادق علی زاہد کا ایک مضمون بعنوان علامہ ڈاکٹر محمد اقبال اور فہم عقیدہ نبوت شامل اشاعت ہے۔ اس مضمون میں مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی کی ایک تقریر کو موضوع بنایا گیا ہے جو ماہنامہ ملیہ فیصل آباد کے شمارہ اکتوبر 2013ءمیں شائع ہوئی ہے۔ مولانا لدھیانوی نے علامہ اقبال پر جو تقریری کیچڑ اچھالا ہے اس کا تجزیہ کیا جائے تو علامہ ہی کا ایک شعر ذہن کی تاریکی میں چمکنے لگتا ہے ....
ملا کی نظر نور فراست سے ہے خالی
بے سوز ہے مے خانہ صوفی کے مئے ناب

مولانا لدھیانوی لکھتے ہیں۔ آجکل ہمارے ملک میں ڈاکٹر سر محمد اقبال کے نظریات و افکار کو پیش کرکے عوام الناس کو علماءکے خلاف اکسایا جا رہا ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ اسلام کی جو تشریح علامہ اقبال نے کی ہے وہی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ اس کے بعد مولانا لدھیانوی نے اقبال کے عقیدہ ختم نبوت پر حملہ آور ہوتے ہوئے لکھا ہے کہ علامہ نے ملا کو اپنے اشعار میں ہدف تنقید علماءسے دوری کی وجہ سے بنایا۔ بعد میں علامہ کو انہی علماءکی جوتیوں میں بیٹھ کر اپنے عقیدے کی اصلاح کا موقع ملا۔ اس سے آگے علامہ کے بارے میں ان کا بغض خود ان کے الفاظ میں پڑھئے۔ لکھتے ہیں۔
“ علامہ اقبال مرحوم جو کہ ساری زندگی اپنے آپ کو ایک عاشق رسول کی حیثیت سے متعارف کرواتے رہے وہ ختم نبوت کے عقیدے کو نہ سمجھ سکے۔ اس لئے انکے والد نور محمد اور بڑا بھائی عطا محمد مرزا قادیانی کے ہاتھ پر بیعت ہو گئے تھے بلکہ قادیانیوں کا دعویٰ یہاں تک ہے کہ علامہ اقبال خود بھی مرزا قادیانی کے ہاتھ پر بیعت ہو گئے تھے۔ آگے چل کر خود ہی اپنی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ”اس کے بعد علامہ اقبال نے اپنے والد نور محمد پر محنت کی اور ان کو دوبارہ مسلمان بنایا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ علامہ اقبال نے اپنے والد کا نکاح اپنی والدہ سے دوبارہ خود پڑھایا تھا۔”.... پھر ایک جگہ لکھا:
“ڈاکٹر اقبال شروع شروع میں ملاں کے سخت مخالف تھے۔ وہ ایک عرصہ تک اپنے طور پر مسائل کے حل کے لئے مرزا قادیانی کے جانشین حکیم نور الدین سے فتوے منگواتے رہے۔ اقبال نے کئی مواقع پر ملاں پر اپنے شعروں میں پھبتی بھی کسی جوکہ آجکل اقبال فروش دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب اقبال نے ملاں کی دینی حیثیت کو نہیں پرکھا تھا مگر جب اقبال علمائے کرام کے قریب آیا اور اس نے علماءاسلام کی دینی فقاہت کو دیکھا جوکہ دینی مدارس کا فیض تھا تو اسے پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ملا۔”
صادق علی زاہد نے ثبوتوں کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ ملاں لدھیانوی نے اپنی تقریری تحریر کے ذریعے “فی سبیبل اللہ فساد” پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ جس دور میں علامہ کے والد نے مرزا قادیانی کی بیعت کی تھی اس وقت وہ ایک عالم دین کی حیثیت سے مشہور تھا۔ جبکہ اقبال اس وقت سکول کے طالب علم تھے۔ دعویٰ نبوت کے چھ سال قبل ہی شیخ نور محمد پر مرزا قادیانی کی اصلیت ظاہر ہونے لگی تو 1895ءمیں اس کے نام ایک خط لکھا اور بیعت توڑ ڈالی۔ اس پر مرزا قادیانی نے میر حامد شاہ کے نام خط میں لکھا کہ شیخ نور محمد کو کہہ دیں کہ وہ جماعت سے ہی الگ نہیں بلکہ اسلام سے بھی الگ ہے۔
صادق علی زاہد نے مستند حوالہ جات سے ثابت کیا ہے کہ علامہ کے والد تو مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت سے قبل ہی اسکی جماعت سے الگ ہو گئے تھے لیکن خود لدھیانوی صاحب کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے بزرگ مرزا قادیانی کی عقیدت میں گرفتار رہے۔ رشید احمد گنگوہی نے مرزا قادیانی کو صالح کہا اور اس کے الہامات کی تاویلات پیش کیں۔ اشرف علی تھانوی اسے کافر کہنے کے بجائے مسلمان کہتے رہے اور اس کے حق میں دعائیں کرواتے رہے بلکہ اس کی امامت میں نمازیں بھی پڑھتے رہے۔ مفتی کفایت اللہ نے مرزائیوں کو اہل کتاب قرار دیا اور انکے ہاتھ کے ذبیحہ کو حلال قرار دیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے قادیان میں قادیانی امام کے پیچھے پہلی صف میں کھڑے ہو کر نمازیں پڑھیں۔ مرزا کی وفات پر امرتسر سے لاہور آکر اسکے جنازے کے ساتھ بٹالہ تک سفر کیا۔
مولانا لدھیانوی کے ممدو حسن کا طرز عمل تو یہ تھا جبکہ علامہ اقبال کے بارے میں کتاب سیرت المہدی میں مرزا بشیر قادیانی نے خود لکھا ہے۔“ملک کے نو تعلیم یافتہ طبقہ میں احمدیت کے خلاف جو زہر پھیلا اس کی بڑی وجہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کا مخالفانہ پراپیگنڈہ تھا”
مولانا لدھیانوی تو اقبال کو عقیدہ ختم نبوت کی اصلیت سے ناواقف قرار دیتے ہیں جبکہ 1935ءمیں احمدی عقائد سے متعلق اقبال کے ایک مقالے کی اشاعت پر لکھنؤ کے اخبار “صدق”نے یکم اگست کی اشاعت میں لکھا: .... “علامہ سر محمد اقبال کے اس حقیقت خیز اور ولولہ انگیز مقالے نے ہمالیہ سے راس کماری تک ہلچل مچا دی ہے جس میں انہوں نے مسئلہ ختم نبوت کے فلسفیانہ پہلو کو قدرتی قانون پر منطبق کرکے رسول اللہﷺ کی خدمت گزاری کا عظیم شرف حاصل کیا ہے”؟ صادق علی زاہد کا پندرہ صفحات پر پھیلا ہوا تحقیقی مضمون پڑھنے کے بعد ہم سوچ رہے تھے کہ اقبال کے فہم ختم نبوت کو مشکوک قرار دینے والے کا اپنا فہم نبوت کس درجے کا ہے۔ اقبال نے سچ ہی کہا تھا :
پنجاب کے ارباب نبوت کی شریعت
کہتی ہے کہ یہ مومن پارینہ ہے کافر
________________________________

اکبر اور گاندھی میں مماثلت
جس طرح کی بے دینی و بے حمیتی کا مظاہرہ اکبر مغل نے کیا اور تمام ادیان کو باہم مجتمع کرنے کی مذموم سعی کی بالکل اسی طرح سے گاندھی نے بھی دنیا کو گمراہ کرنے کے لئے اکبری طرز کا فلسفہ اپنایا۔ وہ بظاہر تو اہنسا پرَشاد* کا داعی تھا لیکن قیامِ پاکستان کے وقت لاکھوں مسلمانوں کا خون پی گیا اس نے اور اس کے چیلوں نے مسلمانوں کے دودھ پیتے بچے بھی ذبح کروانے میں ظالموں کی پشت پناہی کی اور عفت مآب مسلمان خواتین کی بے حُرمتی میں بھی درندوں کو شہہ دی ایسے درندہ صفت انسان کو اہنسا پرشاد٭ کے فلسفے کا نام لیتے ہوئے شرم آنی چاہئے جس کے نزدیک کتے بلی تو انتہائی قدر و قیمت رکھتے تھے لیکن مسلمان انسانوں کا خون رائیگاں حیثیت رکھتا تھا۔
٭اہنسا پرَشاد مسٹر گاندھی کا ایک مکر ہے جسے عالمی سطح پر جانداروں کے تحفظ کا فلسفہ مانا جاتا ہے، مسلمانوں کو گائے قربان کرنے سے منع کرنا اصل مقصود تھا ورنہ ہندو ظالم تنظیموں نے گاندھی کی آشیر باد سے لاکھوں مسلمانوں کو ذبح کر ڈالا تھا کیا وہ جاندار نہ تھے! مزید برآں یاد رہے مسٹر گاندھی خاندانی طور پر جین مت کا قائل تھا جس میں گوشت کھانا انتہائی سختی سے منع ہے

 مولانا ضیاء الحامدی نقشبندی مجددی اپنی کتاب پاکستان اور کانگریسی علماء میں لکھتے ہیں:۔
متحدہ قومیت کا فتنہ
برصغیر پاک و ہند میں سلطنت مغلیہ کے شہنشاہ اکبر نے اپنے عہد میں اپنے اقتدار کے استحکام کے لئے متحدہ قومیت کی بنیاد رکھی جس کے خلاف امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ نے جہاد کیا اور بفضلہٖ  تعالیٰ جہانگیری عہد میں متحدہ قومیت کے بُت کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا، ہندوستان کے دورِ غلامی میں متحدہ قومیت کے مردہ کو گاندھی نے پھر زندہ کیا جس پر ابوالفضل اور فیضی جیسے دین فروش علماء سُو ایمان لے آئے، حقیقت یہ ہے کہ جس طرح ابوالفضل اور فیضی نے شہنشاہ اکبر کے دین الٰہی کی حمایت میں قرآن وحدیث میں تحریفیں کی تھیں اور دنیوی مفاد کی خاطر ناموس رسالت (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قربان کردیا اسی طرح گاندھی کی متحدہ قومیت کی حمایت میں مولانا حسین احمد مدنی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی، مفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری اور ان کے رفقاء قرآن و حدیث کو غلط معنیٰ پہنا کر مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی سر توڑ کوششیں کرتے رہے اور گاندھی و نہرو کی قیادت مین لادینی نظام کے قیام کیلئے کوشاں رہے، لیکن بفضلہٖ تعالےٰ برِّصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے قائد اعظم (رحمۃ اللہ علیہ) کی قیادت میں متحدہ قومیت کے فتنہ کا ڈت کر مقابلہ کیا اور پاکستان بنانے میں کامیاب ہوگئے۔
___________________________________


دیوبند خود کو معتدل اور امت وسط قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ ہرگز حقائق کے منافی ہے۔ دراصل دیوبندیت، وہابیت سے بھی اگلے درجے کی منافقت اور خباثت کا نام ہے، موجودہ دور میں ایک طرف وہ عوام الناس کے اذہان کو سنیت اور پاکستان سے متنفر کررہے ہیں تو دوسری جانب انٹرنیٹ پر خود کو پاکستان کا سچا حامی اور بانی ثابت کرنے کے لئے بھی زور رہے ہیں۔ جس طرح اندلس میں لاکھوں مسلمانوں کا قتلِ عام کرکے عیسائیوں نے 1492 میں وہاں قبضہ کرلیا تھا بالکل اسی طرح کے آثار بیسویں صدی کے وسط میں ہندوستان میں نظر آرہے تھے اور ابوعبداللہ جیسے غداروں کی ایک فوج ظفر موج مسٹر گاندھی کے ساتھ تھی چنانچہ اسی حقیقت کو طشت ازبام کرتے ہوئے صحافی، بریگیڈیئر (ر) شمس الحق قاضی اپنے کالم مطبوعہ مورخہ 07 اپریل 2012،روزنامہ  نوائے وقت میں لکھتے ہیں:۔

مولانا ابوالکلام آزاد کے مواعظ 
ایک نجی ٹی وی چینل کے سینئر اینکر نے بتایا کہ 1944ءسے 1947ءکے دوران دہلی میں مولانا ابوالکلام آزاد نے مختلف اوقات پر پاکستان کے مستقل کے بارے میں جو خدشات ظاہر کئے وہ سو فیصد سچ اور درست معلوم ہوتے ہیں ۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے فرمایا کہ پاکستان بن گیا تو یہ مسلمانانِ ہندوستان کو تقسیم کر دے گا۔ اور اس سے مسلمانوں کو بہت بڑا نقصان ہو گا۔
راقم بھی واں موجود تھا مجھے یاد ہے ذرا ذرا
راقم اس دوران 1945ءسے 1947تک تاریخ پاکستان کی جدوجہدکے دوران دہلی میں موجود تھا اور مختلف اوقات میں مولانا ابوالکلام آزاد اور دوسرے پاکستان مخالف مسلمانوں اور کانگریسی لیڈروں کے بیانات اور تقاریر سنتا رہا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی طاقت کو پاکستان بننے کے ذریعے کمزور کرنا پاکستان کی وجہ سے تھا یا مولانا ابوالکلام آزاد اور دوسرے کانگریسی لیڈروں کی خواہشات پر مبنی تھا۔ راقم غالباً وہ واحد فرد موجود ہے جس نے برطانوی پاکستان کی پاکستان تجویز کے بارے میں نئی دہلی میں کانگریس کا جلسہ دیکھا اور سنا۔ اس جلسہ میں مولانا ابوالکلام آزاد سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان اور دوسرے غیر ہندوں لیڈروں نے جو تقاریر کی تھیں ان کاموضوع وہی تھا جو اس چینل نے اپنے پروگرام میں بتایا۔ اس میں جو بات نوٹ کرنے والی تھی وہ اتنا عرصہ گزرجانے کے بعد اب بھی مجھے یاد ہے کہ ہندو لیڈر سردار ولبھ بھائی پٹیل ہوم منسٹر نے بتایا کہ ہندوستان میں مسلمان ہمارے لئے کینسر کی بیماری ہیں جن کو اکھیڑ کر پھینک دینا ہماری صحت کیلئے بہت ضروری ہے اور اسی کانام انگریزوں کی پاکستان تجویز ہے۔ میں اپنی منسٹری میں کسی مسلمان چپڑاسی پر بھی اعتبار نہیں کرسکتا۔ اسلئے انگریز حکومت کی بنائی تجویز ہماری زندگی کیلئے نہایت ضروری ہے چنانچہ اسی دوران ولبھ بھائی پٹیل نے ہندوستان کے مختلف علاقوں دہلی ، بہار، کلکتہ اور اس کے قرب و جوار وغیرہ میں مسلمانوں کا قتل عام کراکے وہ نقشہ دکھایا جو کانگریسی ہندوﺅں کے دل میں تھا۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنی تقریر میں بتایا کہ پاکستان بننے کے بعد پاکستان کے حالات اتنے خراب ہونگے یعنی خراب کر دئیے جائیں گے کہ پاکستان چھ ماہ کے اندر اندر اپنے گھٹنوں کے بل ہو کر دوبارہ ہندوستان میں شامل ہونے کیلئے ہمارے قدم پکڑے گا۔
چنانچہ ہندو کانگریس کا یہ پروگرام تھا کہ ایک طرف تو ہندوستان کے مسلمانوں کو ختم کیا جائے جس میں مولانا آزاد اور دوسرے کانگریسی مسلمان بھی شامل تھے اور دوسری طرف پاکستان کی نئی مملکت کا ناطقہ بند کیا جائے تاکہ وہ ملک چلنے کے قابل ہی نہ رہے اور پنڈت نہرو نے بطور خاص اپنے نمائندے پنڈت درگا پرشاد دھر وغیرہ کو مسلم ہسپانیہ میں یہ دریافت کرنے کیلئے بھیجا کہ ہسپانیہ میں عیسائیوں نے مسلمانوں کی 800 سالہ حکومت کو ختم کرکے مکمل طور پر مسلمانو ں سے کیسے خلاصی حاصل کی اس میں ہندوﺅں اور عیسائیوں کے دوست مسلمان بھی شامل تھے۔ ہسپانیہ اور ہندوستان دونوں علاقوں میں اسلام دشمن عیسائیوں اور ہندووں کو مولانا ابوالکلام آزاد کی طرح کے آلہ کارمہیا تھے جو دشمنوں کا پروگرام آگے چلانے کیلئے تیار تھے مثلاً مولانا ابوالکلام آزاد کونمونے کے طور پر کانگریس کا صدر بنا کر برٹش گورنمنٹ کے ساتھ گفت و شنید کیلئے استعمال کیا گیا قائد اعظم نے مولانا ابوالکلام آزاد کو کانگریس کاشوبوائے بتایاجب پاکستان اور ہندوستان دو آزاد ملک بنانے پر فیصلہ ہو گیا تو مولانا ابوالکلام آزاد کو کھُڈے لائن لگا کر پنڈت جواہر لال نہرو خود کانگریس کا صدر بن کر ہندوستان کا پہلا وزیراعظم بن گیا مولانا ابوالکلام آزاد کو پنجاب کی تقسیم کیلئے ا ستعمال کیا گیا۔ چنانچہ مولانا ابوالکلام آزاد لاہور جا کر وزیراعظم پنجاب سرخضرحیات کے ساتھ ملاقات کر کے اُس کو کانگریس لیڈر کی حمائت کا یقین دلا کر صوبائی اسمبلی سے پنجاب کی تقسیم پاس کرا کر کانگریس کی ایسے خدمت کی جس کےلئے ساری عمر ہندووں پر احسان جتاتے رہے کہ انہوں نے آدھا پنجاب اور کشمیر دونوں کو ہندوستان کیلئے حاصل کر لیا۔ دوسری طرف جب ہندوں کا مقصد پورا ہو گیا تو انہوں نے مولانا ابوالکلام آزاد اور شیخ عبداللہ دونوں کو اپنی INNERکابینہ سے نکال دیا بلکہ شیخ عبداللہ کو قید و بند سے بھی گزرنا پڑا ۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی ابتدائی زندگی کا بیشتر حصہ تفسیر وقرآن اور اُس کے متعلقہ علوم کی تلاش اور اشاعت میں گزرا۔ مثال کے طور پر مولانا ابوالکلام آزاد کی مشہور ترین تالیف ترجمان القرآن جلد اوّل میں 200صفحات سے اوپر صرف سورة فاتحہ کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔ مولانا غلام رسول مہر نے بڑی کاوش سے مولانا ابوالکلام آزاد کی مرتب کردہ کُتب کی فہرست اپنی کتاب باقیات ترجمان القرآن میں درج کی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ زندگی کے کسی مقام پر مولانا ابوالکلام آزاد اپنی اصلی منزل بھول کر ہندووں کی تعریف و توصیف کے ساتھ اُن کے پروگرام کا حصہ بن گئے۔ اسی لیے علامہ اقبال نے لکھا تھا مولانا آزاد کی تفسیر کو احتیاط سے پڑھا جائے اور عمر کے آخری حصہ میں اپنی اس قلا بازی پر اس قدر پشیمان ہوئے کہ اس صدمے کوبھلانے کیلئے انکو شراب کا سہارا لینا پڑا چنانچہ پنڈت نہرو کا پرائیویٹ سیکرٹری اپنی کتاب میں لکھتاہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد آخری عمر میں شراب کے غلام ہو چکے تھے ۔ جن کو انگریزی میں
 AL-COHOLIC
کہتے ہیں یعنی جب تک ان کو طلب کے مطابق شراب نہ دی جاتی تو ان کا بدن بے جان ہو جاتا اور وہ اپنے پیروں پر بھی کھڑے ہونے کے قابل نہ ہوتے ۔ پنڈت نہرو کے سیکریٹری نے لکھا کہ کئی بار مولانا ابوالکلام آزاد کو شراب پلاکر ملاقات کے قابل بنایا اور پھر وہ پنڈت نہرو کی میٹنگ میں شامل ہوئے ۔ چنانچہ مذکورہTVنے 23مارچ کے پروگرام میں جو کچھ بیان کیا واقعی پاکستان کا وہی حال ہے جس کی پیش گوئی مولانا ابوالکلام آزاد نے کی تھی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ مولانا ابوالکلام آزاد اور ان جیسے دوسرے مسلمان لیڈر ہندو کانگریس کے آلہ کار بن کر پاکستان کے موجودہ حالات تک پہنچانے کے لیے ذمہ دار تھے۔ مثلاً دیو بندی علماءمیں سے مولانا مفتی محمود نے پاکستان میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہ تھا۔
بہرحال مولانا ابوالکلام آزاداور دیو بندی علمائے اسلام تو پاکستان کے قیام کو ہندوستان کے مسلمانوں کو تقسیم کر کے مسلمانوں کے نقصان کا ذمہ دار بنا رہے تھے۔ لیکن ہمارے صوبہ سرحد کے باچا خان عبدالغفار صاحب کا کہناتھا کہ آپ کے بیان کردہ نقصانات بجا ہیں۔ مسلمانوں پر پاکستان بننے کا کیا اثر ہو گا۔ ہمیں اس سے غرض نہیں ہے ہمیں تو صرف پختونوں کی فکر ہے۔ اور کانگریس نے پاکستان منظور کر کے ہمیں پاکستانی بھیڑیوں کے آگے ڈال دیا ہے۔ چنانچہ خان عبدالغفار کی دلجوئی کے لئے کانگرس نے صوبہ سرحد کے مجوزہ ریفرنڈم میں صوبہ کو ہندوستان یا پاکستان میں شامل ہونے کے علاوہ آزاد پختونستان بنانے کی بھی اجازت دی جائے وائسرائے کے سٹاف نے اس تجویز کو مسترد کر دیا کہ ہم صوبوں کو آزاد ملک بنانے کو منظور کر کے ہندوستان کو Bulknizationیعنی مشرقی یورپ میں ریاست ہائے بلقان کی طرح تقسیم کر دینے کی اجازت نہیں دے سکتے ۔ خان عبدالغفار خان کی پاکستان سے نفرت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ خان صاحب نے اپنی میت کو بھی پاکستان میں دفن ہونا گوارا نہیں کیا۔ چنانچہ اُن کی وصیت کے مطابق اُنکو افغانستان کے شہرجلال آباد میں دفن کیا گیا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن ہندو آلہ کار لیڈروں کو مسلمانوں کی فکر نہیں تھی کیونکہ اگر ہندو کانگریس اِنکو اپنی پالیسی ساز کابینہ میں شامل رکھتے تو اُن کو پنڈت نہرو ہندوملٹری افسروں سے مل ملٹری کُوکے ذریعے سارے ہندوستان پر قبضہ کرنے کا منصوبہ معلوم ہو جاتا۔ مسلم لیگ ہائی کمان کو نہرو کے اس ملٹری کُو پلان کا علم ہو گیا ۔ ایک طرف قائد اعظم اور نوابزادہ لیاقت علی خان دونوں نے وائسرئے کی پارٹیشن کمیٹی میں علیحدہ علیحدہ احتجاج درج کرایا جس کا ذکر پاکستان ہائی کمیشن لندن میں ہمارے کونسلر جناب قطب الدین عزیز نے اپنی کتاب
 Quaid-i-Azam Jinnah and the Battle for Pakistan
صفحہ92-93پر کیا ہے۔دوسری طرف قائد اعظم نے پنڈت نہرو کے ملٹری کُو منصوبہ کا تدارک کرنے کےلئے راقم کی ڈیوٹی لگائی کہ سینئر مسلمان افسروں کی ملاقات مسلم لیگ ہائی کمان سے کرائی جائے۔ جن کا ذکر میجر محمد سلمان جنجوعہ سگنل کور اور کرنل (ر) مقبول الٰہی درویش نے بھی کتاب “وقت کے ساتھ ساتھ” میں کیا ہے۔ راقم نے جن سینئر مسلمان افسروں کی ملاقات لیاقت علی خان صاحب سے کرائی اُن میں بریگیڈئیر(ر) محمداکبر خان کو لے کر راقم بذاتِ خود فنانس منسٹر کے چیمبر میں گیاواضح رہے کہ یہ بریگیڈیئر (ر) محمد اکبر خان انڈین آرمی میں ہندو، مسلمان، سکھ، اور عیسائی افسروں میں سینئر موسٹ تھے۔ انکی لیاقت علی خان سے ملاقات دلچسپ اور پڑھنے کے قابل ہے۔ اس کی تفصیل میری کتاب “وقت کے ساتھ ساتھ” میں صفحہ 42-43پر دیکھی اور پڑھی جا سکتی ہے۔ مولانا آزاد صاحب نے اپنی کچھ یاداشتیں لکھ کر اس شرط پر حکومت ہند کے حوالہ کر دی تھیں کہ انکی وفات کے 25برس بعد انکی تحریر کو کھول کر پڑھا جائے اخباری اطلاعات کے مطابق مولانا آزاد کی صاحب زادی نے انڈین عدلیہ کو یہ تحریر انکے حوالہ کرنے کی درخواست کی تھی جو کہ نامنظور کر دی گئی تھی اس لیے مولانا آزاد کی تحریر کا علم صرف حکومتِ ہند کو ہے۔ اندازہ ہے کہ ان یاداشتوں میں مولانا آزاد اور دوسرے کانگریسی لیڈروں کی پالیسی کو بے نقاب کیا گیا ہے جو کہ ہندوستان کو تقسیم کرنے کا سبب بنے۔ اور جو ہندوستان میں مسلمانوں کو ہسپانیہ کی طرح مکمل طور پر نیست نابود کرنا چاہتے تھے لیکن پاکستان کے وجود سے ہندووں کو یہ ہمت نہ ہوئی....
دُنیا کو دیکھ ایک ہی شیطان سے گھبر اُٹھی
تو مجھ کو دیکھ کتنے شیطانوں میں گھِرا تھا