کالم نگار | ڈاکٹر محمد اجمل نیازی
22 مارچ 2015
بردارم ملک محبوب الرسول قادری نے مجھے خطبات نورانی پر مشتمل کتاب دی۔ کتاب کے نام سے لگتا ہے کہ یہ روشنائی سے لکھے ہوئے خطبے ہیں۔ قلم کی سیاہی کے لئے اللہ کے رسول رحمۃ للعالمین، محسن انسانیت، نور کی ساری حقیقتوں کے شناسا حضرت محمدؐ نے فرمایا جبکہ وہ روشنیوں کا مرکز تھے، خود نور سے بنے ہوئے تھے۔ میرے خیال میں روشنی اور نور میں فرق ہے۔ یہ فرق عشق اور عشقِ رسولؐ کی کیفیتوں کی سر مستیوں سے لبالب بھرے ہوئے لوگ جانتے ہیں۔ یہ کتاب جمعیت العلمائے پاکستان کے صدر حضرت مولانا شاہ احمد نورانی کے خطبات پر مشتمل ہیں۔ مجاہد ملت حضرت مولانا عبدالستار خان نیازی جنرل سیکرٹری تھے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے لیڈر تھے۔ دونوں کو ایک دوسرے کا اتنا احترام کرتے دیکھا کہ کوئی دوسرا اس کا تصور نہیں کر سکتا۔ عشقِ رسولؐ دونوں کی ایسی سانجھ تھی جو کبھی نہ ٹوٹ سکی۔ دونوں کے درمیان کچھ شکر رنجی بھی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی مگر عشقِ رسولؐ کو ایمان کا درجہ دینے والوں کے لئے رنج بھی شکر (شوگر) بن جاتا ہے۔ حضرت شاہ احمد نورانی قائدِ اہلسنت تھے۔ انہوں نے سیاست میں عشقِ رسولؐ اور عشق و مستی کو رلانے ملانے کی کوشش کی۔ ناموسِ رسالتؐ کی تڑپ رکھنے والے لوگ آج تک اُن کی رفاقت اور قیادت کے نشے میں چُور ہیں، جن میں لاکھوں لوگ ہیں۔ ملک محبوب الرسول نمایاں لوگوں میں سے ہیں۔ وہ ایک رسالہ نکالتے ہیں اُس کا نام ’’سوئے حجاز‘‘ ہے۔ عشقِ رسولؐ والے جہاں بھی ہوں، جس راستے پر ہوں وہ دیکھتے ’’سوئے حجاز‘‘ ہیں۔ اُن کی نظر گنبدِ خضریٰ پر رہتی ہے۔
تحفظِ ناموس رسالتؐ کے لئے اپنی زندگیاں محبوب الرسول قادری جیسے لوگوں نے وقف کی ہوئی ہیں۔ وہ بار بار عمرے کے لئے جاتے ہیں۔ اس میں یہ آرزو بھی دل میں تڑپتی رہتی ہے کہ روضۂ رسول پر حاضری نصیب ہو گی۔ حضورؐ کی خدمت میں حاضری حضوری ہے۔ قادری صاحب نے کتاب دیتے ہوئے مجھے کہا کہ عشقِ رسولؐ اور ناموسِ رسالتؐ کے حوالے سے خطبات نورانی پر کچھ لکھئے۔ اُن کی سب باتیں عشقِ رسولؐ کے دائرے میں گھومتی ہیں اور جھومتی ہیں۔ میں آپ کا یہ کالم روضۂ اطہرؐ کے سامنے حضور نبی کریم رحمۃ للعالمین حضرت محمدؐ کی خدمت میں پیش کروں گا۔ یہ الفاظ سیدھے میرے دل میں اُتر گئے۔ ہم تو اُن لوگوں میں سے ہیں جو عشق رسولؐ کو ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں بلکہ اصل ایمان ہی یہی ہے۔
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نر سیدی تمام بوالہبیت
نورانی صاحب نے عشقِ رسولؐ کو حلاوت ایمان قرار دیا ہے۔ اُن کے اٹھارہ خطبات میں عشقِ رسولؐ کا چراغ جل رہا ہے۔ ان روشنیوں کو قادری صاحب نے مرتب کر کے ’’خطباتِ نورانی‘‘ کے نام کتابی صورت میں شائع کر دیا ہے۔ یہ کتاب پڑھتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں حضرت نورانی صاحب کی خدمت میں موجود ہوں، ان کا خطاب ہو رہا ہے، ان کی آواز کسی نورانی راز کی طرح میری سماعتوں کے سارے دروازوں پر دستک دے رہی ہے۔
عبدالستار خان نیازی سے میری عزیز داری تھی۔ وہ میرے دادا جہاں خان ذیلدار موسیٰ خیل ضلع میانوالی کے لئے بیٹوں کی طرح تھے۔ میرے والد کریم داد خان اور نیازی صاحب کلاس فیلو تھے۔ میں نے عشقِ رسولؐ کی روشنی اپنے ابا مرحوم سے لی ہے۔ میری زندگی میں ایسا لمحہ کبھی نہ آیا کہ والد صاحب کے سامنے کسی نے آپؐ کا نام لیا ہو اور وہ روئے نہ ہوں۔ ہم نے اپنے گھر میں صرف کتابیں دیکھی تھیں۔ شعر و ادب اور مختلف علوم پر مشتمل کتابیں تھیں۔ زیادہ تعداد سیرت النبیؐ کے حوالے سے کتابوں کی تھی۔ اُن کے انتقال کے بعد وہ سب کتابیں میں لاہور لے آیا ہوں۔ مولانا نیازی کے ساتھ میانوالی کے لوگ صرف عشقِ رسولؐ کی وجہ سے عشق کرتے تھے اور انہوں نے میانوالی کے لوگوں کو نیازی بنایا۔ اس سے پہلے لوگ اپنے نام کے ساتھ خان تو لکھتے تھے نیازی نہیں لکھتے تھے۔ مگر نورانی صاحب کے ساتھ نسبت میں نیازی صاحب کی دوستی بھی تھی مگر عشقِ رسولؐ کی نسبت رشتہ داری سے آگے نکل گئی۔ میں کہا کرتا ہوں کہ نسبت نسب سے بڑھ کر ہے اور عقیدت عقیدے سے بڑی ہے۔
چچا شیر احمد خان لاہور میں جمعیت العلمائے پاکستان کے آفس سیکرٹری تھے، ان کی دعوت پر ہمارے گائوں بھی نورانی صاحب تشریف لائے تھے۔
اس موقع پر ایک عاشق رسولؐ ایڈووکیٹ برادرم منصور الرحمن آفریدی یاد آئے ہیں۔ انہوں نے اپنی عظیم ماں سے عشقِ رسولؐ کی خوشبو پائی۔ ایک بار روضۂ رسولؐ کے سامنے اپنی ماں کو جا کھڑا کیا تو درود و سلام کی لوریوں سے آفریدی صاحب کی پرورش کرنے والی ماں نے جذب و کیف کی مستی میں اپنے سچے بیٹے سے کہا کہ مانگ جو کچھ تُجھے چاہئے۔ تم صدرِ پاکستان یا وزیراعظم بننا چاہتے ہو۔ آفریدی صاحب نے عرض کی، ماں جی! آپ عشقِ رسولؐ کے صدقے میں یہ دعا فرمائیے اور حضورؐ کی خدمتِ اقدس میں درخواست کیجئے کہ وہ دونوں جہانوں کے سردار ہیں۔ مجھے اللہ دونوں جہانوں میں عزت، ایمان اور عشقِ رسولؐ کی دولت سے سرفراز فرمائے۔ اب یہ دولت اتنی آفریدی صاحب کے پاس ہے کہ اُن سے سنبھالی نہیں جاتی۔ میں نے بھی ملک محبوب الرسول قادری سے گزارش کی کہ وہ میرا سلامِ نیاز اُن کی خدمت میں پہنچا دے۔
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہی تو ہو
بشکریہ: نوائے وقت
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں