جوگ کتھا
مصنف: سید اویس قرنی المعروف جوگی جادوگر
اشاعت: فروری 2025ء
پبلشر: ألقرون پبلشرز، لاہور
صفحات: 400
تبصرہ نگار: عبدالرزاق قادری
(ألقرون پبلشرز، لاہور+923454809757)
(ألقرون پبلشرز، لاہور+923454809757)
”جوگ کتھا“ سید اویس قرنی کی دوسری تصنیف ہے، جو ادب، فلسفہ، اور روحانیت کا ایک خوبصورت امتزاج ہے۔ یہ کتاب قاری کو صرف ایک سفرنامہ ہی پیش نہیں کرتی بلکہ ایک فکری اور روحانی سفر پر بھی لے جاتی ہے۔ مصنف کی پہلی تصنیف ”طلسماتِ غالب“ کی غیر معمولی کامیابی کے بعد، ”جوگ کتھا“کا شدت سے انتظار کیا جا رہا تھا، اور الحمدللہ! اب یہ کتاب فروری 2025ء سے قارئین کی توقعات کے عین مطابق اعلیٰ پیپر پر مارکیٹ میں دستیاب ہے۔
کتاب کا موضوع :
“جوگ کتھا” بظاہر ایک سفرنامہ ہے جو ٹلہ جوگیاں کے قدرتی، تاریخی، اور روحانی مناظر کا احاطہ کرتا ہے۔ لیکن اس کتاب کی گہرائی قاری کو فلسفیانہ اور روحانی جہتوں میں بھی لے جاتی ہے۔ مصنف نے اپنے سفر کے دوران پیش آنے والے مناظر، تجربات، اور مشاہدات کو ایسے ادبی اسلوب میں بیان کیا ہے کہ قاری خود کو اس سفر کا حصہ محسوس کرتا ہے۔”جوگ کتھا“ مصنف کے ضلع لودھراں کے نواحی قصبے دھنوٹ سے ٹلہ جوگیاں تک کے سفر پر مبنی ہے۔ اس سفر کے دوران، مصنف نے جوگ، جوگی، اور ٹلہ جوگیاں کے موضوعات پر تفصیلی بحث کی ہے۔ مزید برآں، راستے میں آنے والے شہروں کی تاریخ اور ان سے متعلق متنوع معلومات بھی پیش کی گئی ہیں۔مصنف نے پہاڑوں، جنگلوں، تالابوں، اور دیگر قدرتی مناظر کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے، جس سے قاری قدرت کے قریب ہونے کا احساس کرتا ہے۔
ادبی اور فلسفیانہ رنگ:
مصنف نے علامہ اقبال، غالب، اور دیگر شعراء و فلاسفہ کے حوالوں سے کتاب کو ایک ادبی شاہکار بنا دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسفیانہ نکات قاری کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔کتاب میں جا بجا، اُردو، فارسی پنجابی، سرائیکی و دیگر زبانوں کے شعر یا اقتباسات سے مُختلف رنگ بکھیرے گئے ہیں، مصنّف کا کمال یہ ہے کہ آپ کسی بات پر پہلے کلام کرتے ہیں پھر دلائل پیش کرتے ہیں اور پھر اُن دلائل کو تقویت دینے کے قُرآن مجید کی آیات،حدیث پاک کے فرامین یا کسی دوسرے مستند ذریعے سے اُن کی حقّانیت کو واضح کرتے ہیں پھر اِن حوالہ جات کے بعد دوبارہ دلائل کے سلسلے کا آغاز، بعض مقامات پر بہت سے ”مُنہ بولے“ محققین کا قبلہ درست کرتے ہوئے ایک کرارا سا جملہ پیش کرتے ہیں اور آگے نکل جاتے ہیں پھر دلائل و براہین کا انبار لگاتے ہیں، جیسا کہ دھنوٹ شہر کی وجۂِ تسمیہ پر ایک صاحب کی تحقیق کو مُنہ کے بل گراتے ہیں جبکہ دوسرے محقق کی خطا کو خطا ہی قرار دیتے ہیں، اِسی طرح موئن جو دڑّو کے ہم عصر شہروں کی تحقیق میں سرجان مارشل سے ہونے والی خطاؤں کا نوٹس زیادہ سختی سے نہیں لیتے بلکہ اُن کی خطا کو پیش کر کے نظر انداز کرکے اپنی ہاکڑہ تہذیب والی تحقیق کو بالمقابل پیش کرتے ہیں اور ڈاکٹررفیق مغل کی تحقیق کو سلام پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ جبکہ بعض مقامات پر مصنّف قدیم زمانے کے مشاہیر کے متعلق معلومات کی کمیابی کے باعث ایک نرم گوشہ پیش کرتے ہوئے اُن کے امکانات کو قبول کرتے ہوئے ان پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں، اور دیگر محققین کے لئے تحقیق کا راستہ کُھلا چھوڑ دیتے ہیں۔
روحانی تجربات:
“جوگ کتھا” کا ہر صفحہ مصنف کی روحانی جستجو اور باطنی تجربات کی گواہی دیتا ہے۔ مصنف نے مراقبہ، جوگ، اور انسانی روح کی گہرائیوں کو انتہائی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔
تاریخی پس منظر:
سفر کے دوران شہروں کا تذکرہ: سفر کے دوران، مصنف مختلف شہروں سے گزرتے ہیں اور ان کی معلوم تاریخ کی تفصیلات کی بہت سی جزئیات، ثقافت، اور اہم واقعات و شخصیات کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ حصے قاری کو پاکستان کے مختلف علاقوں کی تاریخ اور ثقافت سے متعارف کراتے ہیں۔مصنف نے ٹلہ جوگیاں کے تاریخی اور مذہبی پہلوؤں کو بھی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ اس مقام کی اہمیت، ماضی کی روایات، اور تاریخی واقعات کو دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
زبان اور اندازِ بیان:
کتاب کی زبان سادہ، مگر ادبی ہے۔ تشبیہات، استعارے، اور محاوروں کا خوبصورت استعمال قاری کو کتاب کے ساتھ باندھے رکھتا ہے۔سید اویس قرنی نے کتاب کے اکثر حصوں میں بذلہ سنجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت سے نئے محاورات وضع کیے ہیں اور اُن میں مختلف زبانوں کو مجتمع کر کے ایک نئی لغت بھی ترتیب دی ہے، جو لوگ خصوصاً اُردو ادب کا ایک وسیع مطالعہ رکھتے ہیں اور تسلسل کے ساتھ جوگی جادوگر کی تحاریر پڑھنے کے عادی ہیں، انہیں گزشتہ کتاب کی طرح اس کتاب میں بھی نہایت دلچسپ چاشنی دیکھنے کو ملے گی، عموماً ایک فن کار یا تخلیق کار کا پہلا فن پارہ اگر کامیابی سے ہمکنار ہو جائے تو دوسری تخلیق میں بودا پن دَر آتا ہے، جبکہ یہاں مصنف کی دوسری کتاب میں نہ تو یکسانیت کی تکرار ہے، اور نہ ہی تخلیق میں ایسا پھیکا پن ہے کہ قارئین اُکتاہٹ کا شکار ہو جائیں۔
تفصیلی جائزہ
کتاب کا موضوع چونکہ ہندوستان میں ازمنۂِ قدیم سے انسان کی روحانی جبلت کی تسکین کے لئے جن ناموَر ہستیوں نے مختلف انداز میں تربیتی نصاب وضع کیے اورمقامی زبانوں میں لوگوں کی رہنمائی فرمائی، اُن کی تاریخ اورقدیم کُتب سے دستیاب معلومات کی روشنی میں جانچا پرکھا گیا ہے۔”جوگ کتھا“ نہ صرف فطرت سے محبت کرنے والوں کے لیے دلچسپ ہے بلکہ ان قارئین کے لیے بھی اہم ہے جو فلسفہ، روحانیت، اور زندگی کی گہری معنویت کو سمجھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ کتاب ایک ایسی دعوت ہے جو قاری کو اپنی ذات کی دریافت کے سفر پر لے جاتی ہے۔ ”جوگ کتھا“ ایک غیر معمولی تصنیف ہے جو ادب، تاریخ، فلسفہ، اور روحانیت کو ایک جگہ جمع کرتی ہے۔ یہ کتاب صرف پڑھنے کے لیے نہیں بلکہ محسوس کرنے کے لیے ہے۔ قاری کو یوں لگتا ہے جیسے وہ خود ٹلہ جوگیاں کی پگڈنڈیوں پر چل رہا ہو، قدرت کے حسین مناظر دیکھ رہا ہو، اور روحانی سکون حاصل کر رہا ہو۔
”جوگ کتھا“ سید اویس قرنی کی ایک ایسی تصنیف ہے جو قاری کو ایک نئے فکری سفر پر لے جاتی ہے۔ یہ کتاب یقیناً ادب اور روحانیت کے دلدادہ افراد کے لیے ایک نایاب تحفہ ہے۔ یہ نہ صرف لائبریری کا حصہ بننے کے لائق ہے بلکہ ہر اس شخص کے لیے ضروری ہے جو زندگی کے گہرے رازوں کو سمجھنا چاہتا ہے۔اِس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک باشعور قاری کا ذہن کہتا ہے کہ اُردو دان طبقے میں ہر مکتبِ فکر اور ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات کو بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے اپنے قلوب و اذہان کووسیع المشربی سے روشناس کرانے کے لئے ”جوگ کتھا“ کامطالعہ کریں اور اپنے درونِ خانہ میں پوشیدہ جوگی کو دریافت کریں کہ جوگ کسی خاص مذہب کے ساتھ لاحق ایک عمل یا طرز نہیں بلکہ ایک آفاقی فلسفہ ہے، جو آپ کو اپنا مذہب چھوڑنے کا نہیں کہتا اور دیگر مذاہب کے بانیان کی کھوج لگانے کو جوت آپ کے من میں جگاتا ہے کہ ممکن ہے کہ بہت سے غیر سامی مذاہب کے رہنما بھی اُسی خدا کے فرستادے تھے جسے مسلمان یا سامی مذاہب کے ماننے والے اپنا رب کہتے ہیں، حالانکہ وہ رب العٰلمین ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں