مجھے ایک کتاب بعنوان سید احمد شہید کی صحیح تصویر فروری 2013 میں ایک دکان پر نظر آئی میں اسے خرید کر گھر لے آیا اور اس کا مطالعہ کیا بعد میں انٹرنیٹ پر سرچ کیا تو یہاں بھی مل گئی
اس کے مصنف وحید احمد مسعود ہیں، یہ کتاب رضا پبلی کیشنز لاہور سے شائع ہوئی اس کتاب میں سید احمد شہید رائے بریلی کے حالات زندگی اور ان کی تحریک مجاہدین پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے زیادہ تر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مذکورہ سید احمد صاحب بر صغیر (پاک و ہند) میں پہلے وہابی تھے اور برصغیر میں سب سے پہلےاسماعیل دہلوی نے ان کے ساتھ مل کر وہابی مذہب کی بنیاد ڈالی، جیسا کہ میجر(ر) شکیل اعوان نے اپنے ایک کالم میں بھی تقریباً اسی طرح کا ملتا جلتا مؤقف اختیا کیا گیا ہے ان کے کالم میں سے چند جملے ملاحظہ فرمائیں، ’’رہی بات فرقوں میں بٹنے کی تو بر صغیر کی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ تک بر صغیر میں دو ہی مذہبی مسالک تھے یعنی سنی اور شیعہ۔ اس کے بعد جہاد اور اصلاح کے نام پر اسماعیل دہلوی اور سید احمد بریلوی نے جوفرقہ واریت پھیلائی جس کے اثرات سے آج بھی پاکستان کے درودیوار خون آلود ہیں ۔ پہلی دو کتابیں جو برصغیر میں فرقہ واریت کا باعث بنیں وہ اسماعیل دہلوی کی کتاب "تقویۃ الایمان‘‘ اور سید احمد بر یلوی کی کتاب ”صراط مستقیم‘‘ تھیں۔‘‘[1]
جناب محمد نجم مصطفائی کی کتاب منزل کی تلاش میں بھی اسی طرح کی بحث موجود ہے لیکن وحید احمد مسعود کی اردو میں لکھی گئی کتاب بنام سید احمد شہید کی صحیح تصویر میں ان لوگوں سے قبل بھی وہابیت کی بے جان کھوکھلی بنیادوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، مصنف کے مطابق علماء اہلسنت نے سید احمد شہید بریلوی کا عقائد و مسائل کے حوالے سےجائزہ لے کر تو ضرور تنقید کی ہے لیکن اس کے تصوف کو موضوع بحث نہیں بنایا زیر نظر کتاب میں غلام رسول مہر کا یہ دعویٰ شامل کیا گیا ہے کہ سید احمد شہید کی ذات پر لکھا گیا جتنا مواد انہوں نے پڑھا ہے کسی اور نے نہیں پڑھا ہو گا، لیکن اس کے باوجود مصنف کو سید صاحب کی حیات پر لکھی گئی مختلف کتابوں میں بہت زیادہ تضادہ نظر آیا اور ان میں بے شمار فرضی قصے کہانیاں بھی دکھائی دیں، دین اسلام کے نام پر سید صاحب اور ان کے ساتھیوں کی ایسی ایسی شرمناک حرکتیں نظر آئی جو انسانیت کے لئے عار ہیں چہ جائیکہ وہ لوگ اسلام کے لئے جہاد کرتے یا تصوف کے علمبردار ہوتے یہ کتاب پہلی بار ہندوستان کے ایک رسالے منادی میں بطور خاص نمبر شائع ہوئی رسالے کے مدیر جناب حسن نظامی نے لکھا ہے کہ اس تحریر کے مصنف حضرت مولانا وحید احمد مسعود فریدی ہیں، نظامی صاحب آگے چل کر اس کتاب پر کچھ اس طرح سے تبصرہ کرتے ہیں، "زیر نظر مقالے میں مولانا فریدی نے حضرت سید احمد شہید کی ایک نئی تصویر پیش کی ہے، لیکن یہ تصویر کسی قدر دھندلی ہے، اس کے نقوش واضح نہیں، مولانا کا زیادہ وقت ان تصویروں کو ضائع کرنے میں صرف ہوا ہے جو دوسروں کی بنائی ہوئی ہیں اور جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اصلیت سے کوئی واسطہ نہیں رکھتیں اور لوگوں کے تصورات کی پیداوار ہیں، ان تصویروں سے محروم ہونے پر لوگ کڑھیں گے، کیونکہ یہ تصویریں بہت خوبصورت اور بڑی دلکش تھیں، ان کے بدلے میں میں فریدی صاحب کی بنائی ہوئی جو تصویر لوگوں کو ملے گی وہ بری نہ سہی لیکن اتنی حسین بھی نہیں ہے لیکن حقیقت پسند آدمی کے لئے اس کے سوا چارہء کار بھی کیا ہو سکتا ہے؟ اگر مولانا فریدی کی رائے مان لی جائے اور ان کے فیصلے کو صحیح اور قطعی اور آخری فیصلہ سمجھا جائے تو ہندوستان کی تمام "نیم وہابی‘‘ تحریکوں کا سرچشمہ ایک ایسی تحریک قرار پائے گی جس کو ایک غیر مسلم اور غیر ملکی اقتدار یعنی انگریزوں کی شہ پر شروع کیا گیا تھا اور جس کے بعد کے آنے والے بے سمجھے بوجھے باپ داد کا قابل احترام ورثہ سمجھتے رہے اور جس کی خاطر اپنے اصل راستے سے بھٹک جانے میں بھی انہوں نے کوئی قباحت محسوس نہ کی ۔‘‘ [2]
مصنف نے 1965 کی یکم جولائی (مطابق یکم ربیع الاول 1385) کو اس کتاب کا دیباچہ "فاتحہ‘‘ لکھا جس میں انہوں نے واضح کیا، "یہ رسالہ حضرت سید احمد شہید کی سوانح عمری نہیں ہے بلکہ ان تذکروں کی جو ان کے متعلق اس وقت تک لکھے گئے ہیں، ایک تنقید ہے، سوانح نویسوں نے حضرت سید احمد کو نہیں سمجھا اور کریکٹر کو نباہنے کی طرف توجہ نہیں کی، عقیدت مندی نے ذم کے پہلو کو سمجھنے نہیں دیا، کبھی آسمان کی کہہ دی اور کبھی زمین کی لکھ دی، یہ اپنے دعوے کو ثابت کرنے میں قطعی ناکام ہیں، لہٰذا سید صاحب کی عظیم شخصیت معمہ بن کر رہ گئی، ان کے سوانح یہی ظاہر کرتے ہیں کہ پیش ہر دو ہیچ، نہ انہیں ملا سمجھا جا سکتا ہے نہ ہی طبیب بتایا جا سکتا ہے، نہ ولی کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی اور نہ عالم، ضرورت ہے کہ سب سے پہلے ان کی شخصیت کا تعین کیا جائے کہ وہ کس طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، پھر اسی معیار سے ان پر روشنی ڈالی جائے‘‘ [3]
حوالہ جات:۔
حوالہ [1]: روزنامہ نوائے وقت 21 دسمبر 2013ء اور 22 دسمبر 2013ء
حوالہ [2]: سید احمد شہید کی صحیح تصویر،صفحہ نمبر 11 اور 12
حوالہ [3]: سید احمد شہید کی صحیح تصویر،صفحہ نمبر 13 اور 14
اس کے مصنف وحید احمد مسعود ہیں، یہ کتاب رضا پبلی کیشنز لاہور سے شائع ہوئی اس کتاب میں سید احمد شہید رائے بریلی کے حالات زندگی اور ان کی تحریک مجاہدین پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے زیادہ تر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مذکورہ سید احمد صاحب بر صغیر (پاک و ہند) میں پہلے وہابی تھے اور برصغیر میں سب سے پہلےاسماعیل دہلوی نے ان کے ساتھ مل کر وہابی مذہب کی بنیاد ڈالی، جیسا کہ میجر(ر) شکیل اعوان نے اپنے ایک کالم میں بھی تقریباً اسی طرح کا ملتا جلتا مؤقف اختیا کیا گیا ہے ان کے کالم میں سے چند جملے ملاحظہ فرمائیں، ’’رہی بات فرقوں میں بٹنے کی تو بر صغیر کی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ تک بر صغیر میں دو ہی مذہبی مسالک تھے یعنی سنی اور شیعہ۔ اس کے بعد جہاد اور اصلاح کے نام پر اسماعیل دہلوی اور سید احمد بریلوی نے جوفرقہ واریت پھیلائی جس کے اثرات سے آج بھی پاکستان کے درودیوار خون آلود ہیں ۔ پہلی دو کتابیں جو برصغیر میں فرقہ واریت کا باعث بنیں وہ اسماعیل دہلوی کی کتاب "تقویۃ الایمان‘‘ اور سید احمد بر یلوی کی کتاب ”صراط مستقیم‘‘ تھیں۔‘‘[1]
جناب محمد نجم مصطفائی کی کتاب منزل کی تلاش میں بھی اسی طرح کی بحث موجود ہے لیکن وحید احمد مسعود کی اردو میں لکھی گئی کتاب بنام سید احمد شہید کی صحیح تصویر میں ان لوگوں سے قبل بھی وہابیت کی بے جان کھوکھلی بنیادوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، مصنف کے مطابق علماء اہلسنت نے سید احمد شہید بریلوی کا عقائد و مسائل کے حوالے سےجائزہ لے کر تو ضرور تنقید کی ہے لیکن اس کے تصوف کو موضوع بحث نہیں بنایا زیر نظر کتاب میں غلام رسول مہر کا یہ دعویٰ شامل کیا گیا ہے کہ سید احمد شہید کی ذات پر لکھا گیا جتنا مواد انہوں نے پڑھا ہے کسی اور نے نہیں پڑھا ہو گا، لیکن اس کے باوجود مصنف کو سید صاحب کی حیات پر لکھی گئی مختلف کتابوں میں بہت زیادہ تضادہ نظر آیا اور ان میں بے شمار فرضی قصے کہانیاں بھی دکھائی دیں، دین اسلام کے نام پر سید صاحب اور ان کے ساتھیوں کی ایسی ایسی شرمناک حرکتیں نظر آئی جو انسانیت کے لئے عار ہیں چہ جائیکہ وہ لوگ اسلام کے لئے جہاد کرتے یا تصوف کے علمبردار ہوتے یہ کتاب پہلی بار ہندوستان کے ایک رسالے منادی میں بطور خاص نمبر شائع ہوئی رسالے کے مدیر جناب حسن نظامی نے لکھا ہے کہ اس تحریر کے مصنف حضرت مولانا وحید احمد مسعود فریدی ہیں، نظامی صاحب آگے چل کر اس کتاب پر کچھ اس طرح سے تبصرہ کرتے ہیں، "زیر نظر مقالے میں مولانا فریدی نے حضرت سید احمد شہید کی ایک نئی تصویر پیش کی ہے، لیکن یہ تصویر کسی قدر دھندلی ہے، اس کے نقوش واضح نہیں، مولانا کا زیادہ وقت ان تصویروں کو ضائع کرنے میں صرف ہوا ہے جو دوسروں کی بنائی ہوئی ہیں اور جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اصلیت سے کوئی واسطہ نہیں رکھتیں اور لوگوں کے تصورات کی پیداوار ہیں، ان تصویروں سے محروم ہونے پر لوگ کڑھیں گے، کیونکہ یہ تصویریں بہت خوبصورت اور بڑی دلکش تھیں، ان کے بدلے میں میں فریدی صاحب کی بنائی ہوئی جو تصویر لوگوں کو ملے گی وہ بری نہ سہی لیکن اتنی حسین بھی نہیں ہے لیکن حقیقت پسند آدمی کے لئے اس کے سوا چارہء کار بھی کیا ہو سکتا ہے؟ اگر مولانا فریدی کی رائے مان لی جائے اور ان کے فیصلے کو صحیح اور قطعی اور آخری فیصلہ سمجھا جائے تو ہندوستان کی تمام "نیم وہابی‘‘ تحریکوں کا سرچشمہ ایک ایسی تحریک قرار پائے گی جس کو ایک غیر مسلم اور غیر ملکی اقتدار یعنی انگریزوں کی شہ پر شروع کیا گیا تھا اور جس کے بعد کے آنے والے بے سمجھے بوجھے باپ داد کا قابل احترام ورثہ سمجھتے رہے اور جس کی خاطر اپنے اصل راستے سے بھٹک جانے میں بھی انہوں نے کوئی قباحت محسوس نہ کی ۔‘‘ [2]
مصنف نے 1965 کی یکم جولائی (مطابق یکم ربیع الاول 1385) کو اس کتاب کا دیباچہ "فاتحہ‘‘ لکھا جس میں انہوں نے واضح کیا، "یہ رسالہ حضرت سید احمد شہید کی سوانح عمری نہیں ہے بلکہ ان تذکروں کی جو ان کے متعلق اس وقت تک لکھے گئے ہیں، ایک تنقید ہے، سوانح نویسوں نے حضرت سید احمد کو نہیں سمجھا اور کریکٹر کو نباہنے کی طرف توجہ نہیں کی، عقیدت مندی نے ذم کے پہلو کو سمجھنے نہیں دیا، کبھی آسمان کی کہہ دی اور کبھی زمین کی لکھ دی، یہ اپنے دعوے کو ثابت کرنے میں قطعی ناکام ہیں، لہٰذا سید صاحب کی عظیم شخصیت معمہ بن کر رہ گئی، ان کے سوانح یہی ظاہر کرتے ہیں کہ پیش ہر دو ہیچ، نہ انہیں ملا سمجھا جا سکتا ہے نہ ہی طبیب بتایا جا سکتا ہے، نہ ولی کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی اور نہ عالم، ضرورت ہے کہ سب سے پہلے ان کی شخصیت کا تعین کیا جائے کہ وہ کس طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، پھر اسی معیار سے ان پر روشنی ڈالی جائے‘‘ [3]
حوالہ جات:۔
حوالہ [1]: روزنامہ نوائے وقت 21 دسمبر 2013ء اور 22 دسمبر 2013ء
حوالہ [2]: سید احمد شہید کی صحیح تصویر،صفحہ نمبر 11 اور 12
حوالہ [3]: سید احمد شہید کی صحیح تصویر،صفحہ نمبر 13 اور 14