اگر مسلم قوم و ملت کی تعلیم و تربیت اسلامی انداز میں کی جائے تو عین ممکن ہے کہ سیاسی، معاشی ، سماجی اور ثقافتی سطح پر ہمارے مقدر سنور جائیں۔ اگر کسی کو اس رائے سے اختلاف ہو یا غلط فہمی ہو تو وہ ذرا تاریخ عالم کا جائزہ لے اور بتائے کہ کیا کوئی قوم اپنے نظریہ کے مطابق مطلوبہ تعلیم و تربیت کے بغیر کبھی ترقی کر پائی اور کیا کسی قوم کا ستارہ اپنے نظریہ پر عمل کئے بغیر بام عروج پر پہنچ پایا۔ خواہ زندگی کا کوئی بھی شعبہ کیوں نہ ہو نئی آنے والی نسلوں کو اس میں قابل بنانے کے لیے مناسب تعلیم و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے ہم اگر مفلسی دور کرنا چاہتے ہیں تو اپنے تعلیمی نظام کے ذریعے یہ کام با آسانی ممکن ہے، اگر اس قوم و ملت میں باہمی محبت و خدمت، چاہت، اخوت، ایثار و قربانی کے جذبے دوبارہ سے زندہ کرنا ہے تو اس کی تعلیم و تربیت درست اسلامی خطوط پر کرنا ہو گی، عالم اسلام میں موجودہ دور میں تمام مسلمانوں کو متحد ہو جانے کی ضرورت ہے، باہمی اتحاد ہونا چاہیے سب کو وحدت کی لڑی میں پرویا جانا چاہیے۔ ہر مسلمان دوسرے کو اپنا بھائی سمجھے اسے اس کے حالات سے آگاہی ہو آپس میں بھائی چارہ قائم رکھیں ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوں امیر و غریب، دیہاتی و شہری، ملکی و نسلی، صوبائی و لسانی، رنگ و ذات برادری، فرقہ و مسلک، مذہب و مشرب کے امتیاز سے بالا تر ہو کر کلمہ پڑھنے والے کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھا جائے اسے محبت بھری نگاہ سے دیکھا جائے۔ ضرورت مند کی ضرورت کو سوال کیے بغیر اپنی ملی ذمہ داری سمجھتے ہوئے پورا کیا جائے۔ مفلس رشتہ داروں کی امداد کی جائے۔ کمزوروں اور طاقت وروں پر یکساں قانون کا نفاذ ہو۔ غریب کا استحصال نہ ہو۔ اپنے حق سے زیادہ کما لینے کی خواہش کو اللہ کے حکم کا غلام بنا کر ذبح کر دیا جائے۔
چونکہ انسان اپنے افکار کے مطابق عمل کرتا ہے۔ اور اللہ فرماتا ہے کہ نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ باقاعدہ مسجد میں اس خالق کائنات کے حضور سجدہ ریزی کی جائے تو افکار پاکیزہ ہوں۔ اور نفس کے بے لگام گھوڑے کے تابع نہ ہوں۔ گاہکوں کو مہنگے داموں اشیاء فروخت نہ کی جائیں۔ تعلیم انتہائی سستی بلکہ بلا معاوضہ ہو۔ اہل اقتدار و ثروت ایک جیسا نظام تعلیم بنا کر قوموں کی تقدیریں بدل دینے والے جیسے اہم کام پر غور فرمائیں۔ آہ! اسلامی خلافت راشدہ کے وہ دن بھی کیا دن تھے جب حضرت عمر چھبیس لاکھ مربع میل کی وسیع ریاست میں تمام انسانوں بلکہ ساتھ ساتھ جانوروں کے بنیادی حقوق کو پورا کرنا اپنے اولین فرائض میں شمار کرتے بھی تھے۔ اور حقیقت میں ان کی خدمت کرتے بھی تھے۔ وہ عوام یعنی لو گ بھی کتنے عظیم تھے کہ دو وقت کا کھانا کھا کر اورا للہ کی عبادت کرکے مطمئن زندگی بسر کرتے تھے۔ وہ اپنے معاملات میں کامیابی کے لیے اللہ پر مکمل بھر وسہ کرتے وہ عیاش نہ تھے۔ کھلے عام گناہ کرنے والے فا سق نہ تھے بلکہ متقی لوگ تھے وہ اللہ کی رضا میں اپنی خواہشات کو چھوڑ دیتے اور کوئی ایسا کام نہ کرتے کہ جس سے اللہ نے منع فرمایا اس طرح وہ اللہ کی ناراضگی مول لینے سے محفو ظ رہتے۔ ہماری قوم کی تعلیم وتربیت اسلامی بنیادوں پر نہیں ہوئی۔ اس لیے ہم طرح طرح کے مسائل کا شکار ہیں۔ ہمارے اندر نیک جذبوں کی کمی ہے۔ بھلائی والے کاموں سے ہم لوگوں کی جا ن جاتی ہے۔ غریب جو ہے وہ بھی غریب کا استحصال کرنے سے باز نہیں آتا، ایک بار پھر التجا ہے کہ امتِ مسلمہ کو اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کرنا ہو گی۔ ہر قسم کی تبدیلیاں، انقلاب اور خوش حالیاں اسی جدوجہد میں پوشیدہ ہیں ۔ اللہ عزوجل ہم سب کو حق کی توفیق ارزانی فرمائے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں