نوائے وقت میں 17 جنوری 2014 کو شہ سرخی آئی ہے کہ پشاور میں واقع تبلیغی مرکز میں دھماکہ اور کچھ نماز پڑھنے والے لوگ مر گئے اور کئی ایک زخمی بھی ہوئے، خبر جان کر ذہن میں خیالات آتے ہیں، اس کے لئے میں خبر اور خیال کا ایک سلسلہ شروع کررہا ہوں آئیے دیکھتے ہیں کہ کس خبر پر کیا خیال آتا ہے
خبر[1] طالبان کے رہنما احسان اللہ احسان کی جانب سے دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے مختلف ذرائع ابلاغ کو جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم پشاور کے تبلیغی مرکز میں ہونے والے دھماکے کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور اس دھماکے میں شہید ہونے والے افراد کی مغفرت کیلئے دعاگو ہیں۔
خیال [1] آج تو بہت مذمتیں آ رہی ہیں جناب! کیونکہ وہ طالبان کے ہم عقیدہ وہابی دیوبندی ہیں
خبر [2] احسان اللہ احسان کے نزدیک اس طرح کی کارروائیوں کے بارے میں یہ بات یقینی ہے کہ یہ اسلام دشمن قوتوں* کی کارستانی ہے، اس سے پہلے بھی کفریہ طاقتیں مختلف مقاصد کے لئے اس طرح کی کارروائیاں کر چکی ہیں۔
خیال [2] اسلام کون سا جس میں ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے مسلمانوں والا؟ یا وہابی طالبانوں والا نام نہاد اسلام جس میں ہزاروں جانیں قتل کرنے والا بھی شہید ہوتا ہے؟ اگر تو یہ کسی وہابی دشمن تنظیم کی کارستانی ہے تو یہ اسلام دشمن قوت تو نہ ہوئی ناں! ہاں یاد آیا طالبان تو جمہوریت کے نظام کے خلاف جنگ لڑتے ہیں توطالبان کے لاڈلے منور حسن صاحب، عمران خان صاحب، نواز شریف صاحب خصوصاً فضل الرحمٰن صاحب، سمیع الحق صاحب، ساجد میر اور دیگر اس طرح کے سیاسی لیڈر اسی جمہوری نظام کا حصہ بھی ہیں اور طالبان کے پشت پناہ بھی ہیں تو طالبان کے نزدیک یہ لوگ نظامِ کفرکے نمائندے ہیں لیکن طالبان ان مقدس گائیوں کے دشمن نہیں ہیں بلکہ ان پوتر ہستیوں کی حمایت اور سیاسی قوت کے بل بوتے پر دندناتے پھرتے ہیں اور ان سیاسی لیڈران کو ان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے خواب آتے ہیں وہ شاید اس لیے کہ طالبان اور یہ سیاستدان ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں جس تھیلی کا نام امریکہ ہے
خبر[3] احسان اللہ احسان نے کہا اللہ تعالیٰ اسلامیان پاکستان کی حفاظت کرے۔
خیال [3] اسلامیان پاکستان سے بھی طالبان یقیناً ایک اقلیت محض چند وہابی اور دیوبندی مراد لیتے ہیں باقی 95 فیصد سے زائد پاکستانی مسلمان تو طالبان کے نزدیک مشرک ہیں اور نظام کفر کے قائل ہیں مندرجہ بالا چند مقدس ہستیوں کے بعد کسی کو مسلمان رہنے کی اجازت طالبان دیتے ہی نہیں کیونکہ اسی خبر میں وہ شانگلہ، مانسہرہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ لہٰذا اگر تاریخ میں دیوبندی تبلیغی مرکز پر شاید دوسرا حملہ ہوا ہے وہ اسلامیان پاکستان ہوئے اور باقی ٹھہرے کافران پاکستان!!! کیونکہ طالبان کے اکابرین وہابی دیوبندی اور مودودی صاحب تو پاکستان کو ناپاکستان اور قائد اعظم کو کافر اعظم کہتے آئے ہیں۔
خبر[4] تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ مشاہد نے کہا ہے کہ ہمارا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ تاہم وہ شانگلہ، مانسہرہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ صدر ممنون حسین، وزیراعظم نوازشریف نے تبلیغی مرکز پشاور میں دھماکے کی شدید مذمت کی ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پی کے نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نمازیوں کے ساتھ دہشت گردی کرنے والے مسلمان نہیں ہو سکتے۔
خیال [4] یہ ہوئی ناں بات! جناب پرویز خٹک صاحب کو بہت درد ہوا ہے کہ نمازیوں پر حملہ ہوا ہے اور درد تو ہونا بھی چائیے البتہ خٹک صاحب سمیت تمام سیاستدان جوابدہ ہیں کہ یہ حملہ تو طالبان کے بقول انہوں نے نہیں کیا اور انہوں نے نماز پڑھتے ہوئے پہلے جتنے لوگ شہید کیے ہیں اس کی مثالیں تاریخ میں خال خال ملتی ہیں اور عموماً سیاستدان کہتے ہیں کہ یہ دہشت گردی کرنے والے مسلمان نہیں ہیں تو جناب آپ کے وزیر صوبائی وزیر اطلاعات شاہ فرمان نے کہا کہ دیکھنا ہو گا کہ کون لوگ امن نہیں چاہتے ¾سیکورٹی میں کوتاہی کی تحقیقات کر رہے ہیں اور کوئی کوتاہی ہوئی تو کارروائی کی جائے گی۔ شاہ فرمان نے کہا کہ پاکستان کے تمام لوگ طالبان سے مذاکرت چاہتے ہیں اس کا جواب بھی اسی خبر میں ہے کہ طالبان شانگلہ، مانسہرہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ لہٰذا فرمان صاحب کی اور ان کے آقاؤں کی مشکل طالبان نے حل کر دی ہے کہ وہ امن نہیں چاہتے۔ رہا فرمان صاحب کا یہ دعویٰ پاکستان کے تمام لوگ (پچاس ہزار مقتولین کے وارث بھی) طالبان سے مذاکرات چاہتے ہیں ایک تو ضروری نہیں کہ یہ دعویٰ سو فیصد درست ہو کیونکہ حالیہ انتخابات میں سو فیصد ووٹ کاسٹ نہیں ہوئے اس یہ سیاسی جماعتیں جو ان ظالمان سے مذاکرات کرنا چاہتی ہیں یہ پاکستان کے تمام لوگوں کی نمائندگی نہیں کرتیں، اور اس بحث کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر تمام لوگ مذاکرات چاہتے ہیں لیکن طالبان خون چاہتے ہیں تو حکومت ان کا منہ کیوں تک رہی ہے!
خبر[5] امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے بھی پشاور دھماکے کی مذمت کی ہے۔
خیال [5] صرف اس لیے کہ ممکن ہے کہ یہ کوئی اور طاقت ہو ورنہ وہابی طالبان تو منور حسن کے ماتھے کا جھومر ہیں اور شہید بھی ہوتے ہیں
خبر [6] اے این پی کے رہنما زاہد خان نے کہا ہے کہ حکمران خواب غفلت میں ہوں تو ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور ڈپٹی سپیکر مرتضٰی جاوید نے پشاور دھماکے کی مذمت کی ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ تبلیغی مرکز پشاور میں دھماکہ قابل مذمت ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے بھی پشاور میں بم دھماکے کی شدید مذمت کی ہے۔ امیر جماعة الدعوة پروفیسر حافظ محمد سعید نے پشاور تبلیغی مرکز میں بم دھماکہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے بے گناہ افراد جاں بحق ہونے پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے پشاور میں تبلیغی مرکز میں ہونے والے بم دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں کے درجات کی بلندی اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کی ہے۔
خیال [6] فضل الرحمن اور منور حسن کے نزدیک تو دہشت گرد حملہ آوروں جہاد کرتے ہیں تو اس واردات میں بھی اس دھماکے کو جہاد تصور کر کے بم پھوڑنے والے کو غازی کا لقب کیوں عنایت نہیں فرما دیتے؟
خبر[1] طالبان کے رہنما احسان اللہ احسان کی جانب سے دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے مختلف ذرائع ابلاغ کو جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم پشاور کے تبلیغی مرکز میں ہونے والے دھماکے کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور اس دھماکے میں شہید ہونے والے افراد کی مغفرت کیلئے دعاگو ہیں۔
خیال [1] آج تو بہت مذمتیں آ رہی ہیں جناب! کیونکہ وہ طالبان کے ہم عقیدہ وہابی دیوبندی ہیں
خبر [2] احسان اللہ احسان کے نزدیک اس طرح کی کارروائیوں کے بارے میں یہ بات یقینی ہے کہ یہ اسلام دشمن قوتوں* کی کارستانی ہے، اس سے پہلے بھی کفریہ طاقتیں مختلف مقاصد کے لئے اس طرح کی کارروائیاں کر چکی ہیں۔
خیال [2] اسلام کون سا جس میں ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے مسلمانوں والا؟ یا وہابی طالبانوں والا نام نہاد اسلام جس میں ہزاروں جانیں قتل کرنے والا بھی شہید ہوتا ہے؟ اگر تو یہ کسی وہابی دشمن تنظیم کی کارستانی ہے تو یہ اسلام دشمن قوت تو نہ ہوئی ناں! ہاں یاد آیا طالبان تو جمہوریت کے نظام کے خلاف جنگ لڑتے ہیں توطالبان کے لاڈلے منور حسن صاحب، عمران خان صاحب، نواز شریف صاحب خصوصاً فضل الرحمٰن صاحب، سمیع الحق صاحب، ساجد میر اور دیگر اس طرح کے سیاسی لیڈر اسی جمہوری نظام کا حصہ بھی ہیں اور طالبان کے پشت پناہ بھی ہیں تو طالبان کے نزدیک یہ لوگ نظامِ کفرکے نمائندے ہیں لیکن طالبان ان مقدس گائیوں کے دشمن نہیں ہیں بلکہ ان پوتر ہستیوں کی حمایت اور سیاسی قوت کے بل بوتے پر دندناتے پھرتے ہیں اور ان سیاسی لیڈران کو ان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے خواب آتے ہیں وہ شاید اس لیے کہ طالبان اور یہ سیاستدان ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں جس تھیلی کا نام امریکہ ہے
خیال [3] اسلامیان پاکستان سے بھی طالبان یقیناً ایک اقلیت محض چند وہابی اور دیوبندی مراد لیتے ہیں باقی 95 فیصد سے زائد پاکستانی مسلمان تو طالبان کے نزدیک مشرک ہیں اور نظام کفر کے قائل ہیں مندرجہ بالا چند مقدس ہستیوں کے بعد کسی کو مسلمان رہنے کی اجازت طالبان دیتے ہی نہیں کیونکہ اسی خبر میں وہ شانگلہ، مانسہرہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ لہٰذا اگر تاریخ میں دیوبندی تبلیغی مرکز پر شاید دوسرا حملہ ہوا ہے وہ اسلامیان پاکستان ہوئے اور باقی ٹھہرے کافران پاکستان!!! کیونکہ طالبان کے اکابرین وہابی دیوبندی اور مودودی صاحب تو پاکستان کو ناپاکستان اور قائد اعظم کو کافر اعظم کہتے آئے ہیں۔
خبر[4] تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ مشاہد نے کہا ہے کہ ہمارا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔ تاہم وہ شانگلہ، مانسہرہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ صدر ممنون حسین، وزیراعظم نوازشریف نے تبلیغی مرکز پشاور میں دھماکے کی شدید مذمت کی ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پی کے نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نمازیوں کے ساتھ دہشت گردی کرنے والے مسلمان نہیں ہو سکتے۔
خیال [4] یہ ہوئی ناں بات! جناب پرویز خٹک صاحب کو بہت درد ہوا ہے کہ نمازیوں پر حملہ ہوا ہے اور درد تو ہونا بھی چائیے البتہ خٹک صاحب سمیت تمام سیاستدان جوابدہ ہیں کہ یہ حملہ تو طالبان کے بقول انہوں نے نہیں کیا اور انہوں نے نماز پڑھتے ہوئے پہلے جتنے لوگ شہید کیے ہیں اس کی مثالیں تاریخ میں خال خال ملتی ہیں اور عموماً سیاستدان کہتے ہیں کہ یہ دہشت گردی کرنے والے مسلمان نہیں ہیں تو جناب آپ کے وزیر صوبائی وزیر اطلاعات شاہ فرمان نے کہا کہ دیکھنا ہو گا کہ کون لوگ امن نہیں چاہتے ¾سیکورٹی میں کوتاہی کی تحقیقات کر رہے ہیں اور کوئی کوتاہی ہوئی تو کارروائی کی جائے گی۔ شاہ فرمان نے کہا کہ پاکستان کے تمام لوگ طالبان سے مذاکرت چاہتے ہیں اس کا جواب بھی اسی خبر میں ہے کہ طالبان شانگلہ، مانسہرہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ لہٰذا فرمان صاحب کی اور ان کے آقاؤں کی مشکل طالبان نے حل کر دی ہے کہ وہ امن نہیں چاہتے۔ رہا فرمان صاحب کا یہ دعویٰ پاکستان کے تمام لوگ (پچاس ہزار مقتولین کے وارث بھی) طالبان سے مذاکرات چاہتے ہیں ایک تو ضروری نہیں کہ یہ دعویٰ سو فیصد درست ہو کیونکہ حالیہ انتخابات میں سو فیصد ووٹ کاسٹ نہیں ہوئے اس یہ سیاسی جماعتیں جو ان ظالمان سے مذاکرات کرنا چاہتی ہیں یہ پاکستان کے تمام لوگوں کی نمائندگی نہیں کرتیں، اور اس بحث کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر تمام لوگ مذاکرات چاہتے ہیں لیکن طالبان خون چاہتے ہیں تو حکومت ان کا منہ کیوں تک رہی ہے!
خبر[5] امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے بھی پشاور دھماکے کی مذمت کی ہے۔
خیال [5] صرف اس لیے کہ ممکن ہے کہ یہ کوئی اور طاقت ہو ورنہ وہابی طالبان تو منور حسن کے ماتھے کا جھومر ہیں اور شہید بھی ہوتے ہیں
خبر [6] اے این پی کے رہنما زاہد خان نے کہا ہے کہ حکمران خواب غفلت میں ہوں تو ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور ڈپٹی سپیکر مرتضٰی جاوید نے پشاور دھماکے کی مذمت کی ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ تبلیغی مرکز پشاور میں دھماکہ قابل مذمت ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے بھی پشاور میں بم دھماکے کی شدید مذمت کی ہے۔ امیر جماعة الدعوة پروفیسر حافظ محمد سعید نے پشاور تبلیغی مرکز میں بم دھماکہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے بے گناہ افراد جاں بحق ہونے پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے پشاور میں تبلیغی مرکز میں ہونے والے بم دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں کے درجات کی بلندی اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کی ہے۔
خیال [6] فضل الرحمن اور منور حسن کے نزدیک تو دہشت گرد حملہ آوروں جہاد کرتے ہیں تو اس واردات میں بھی اس دھماکے کو جہاد تصور کر کے بم پھوڑنے والے کو غازی کا لقب کیوں عنایت نہیں فرما دیتے؟
قارئین کرام!
1۔ کیا طالبان کے حامی دیوبندی تبلیغی مرکز پر حملہ قابل مذمت ہو سکتا ہے؟
2۔ اگر یہ قابل مذمت ہے تو وہ دیوبندی 50،000 معصوم انسانی جانوں کے قاتلوں کے حامی اور مددگار کیوں ہیں؟
3۔ رحمان ملک کے بقول دیوبندی تبلیغی مرکز دہشت گردوں کی پناگاہ ہیں تو ان دہشت گردوں پر حملہ کس نے کیا؟ عین ممکن ہے کہ اس تبلیغی مرکز میں طالبان نے دوسروں کے لیے بم سنبھال کر رکھے ہوں اور اچانک اپنے ہی بندے ٹھاہ!!!
4۔ کیا جب معصوم لوگ شہید ہوتے ہیں تو یہ دیوبندی رائیونڈی تبلیغی طالبان کے خلاف بولتے یا عملی طور پر کچھ کرنے دیتے ہیں؟
اس کے علاوہ بھی بہت سے سوال ہیں لیکن اب جائزہ لیتے ہیں کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے کہ کتے کو شہید کہنے والے آج اس دھماکے کی مذمت کر رہے ہیں اور پچاس ہزار معصوم انسانی جانوں کے قاتل کو شہید کہنے والوں کو دکھ ہو رہا ہے میں ذاتی طور پر اس حملے کو ٹھیک نہیں سمجھتا وہابی اور دیوبندی شدت پسند شیعوں پر الزامات لگا کر خود شہید بننے جا رہے ہیں، عین ممکن ہے کہ یہ حملہ سی آئی اے، بلیک واٹر، موساد یا را وغیرہ میں سے کسی نے کروایا ہو جس طرح اسلامی سال کے آغاز محرم کی ابتدائی تاریخوں میں نصیرالدین حقانی کو بلیک واٹر نے مارا [1] دیوبندی مدرسے والوں نے شیعہ کے جلوس پر پتھراؤ کر کے راولپنڈی میں آگ لگائی [2][3] پھر یہ سلسلہ بڑھتا چلا گیا اور اہل سنت بھی اس کی لپیٹ میں آگئے حتیٰ کہ اس عید میلاد النبی پہ وہابیوں اور دیوبندیوں نے میلاد کے جلوسوں پر فائرنگ اور حملے کرکے اپنے خبث باطن کا اظہار کیا
تبصرے کیلئے کوئی کمی چھوڑی ہی نہیں
جواب دیںحذف کریںاس لیے
بلا تبصرہ