جمعہ، 10 جنوری، 2014

امریکہ کو امریکا کیوں کہا جاتا ہے

سقوط غرناطہ اور امریکہ کی وجہ تسمیہ:
تقریباً  یہ مکمل تحریر وکیپیڈیا سے نقل کی گئی ہے، البتہ انٹرنیٹ پر امیریگو ویسپوچی یا امریکو وسپوچی کا تذکرہ یونی کوڈ اردو میں شاید پہلی بار میں ہی پیش کر رہا ہوں کل اردو وکیپیڈیا پر لکھا تھا اور آج اس اندلسی تاریخ کےاضافے کے ساتھ پیش کررہا ہوں، اس کے لیے میں نے دیگر زبانوں کے وکیپیڈین مضامین سے مواد کا ترجمہ کیا ہے مجھے مغربی لوگوں پر تحقیق سے کوئی خاص دلچسپی نہیں، خصوصاً میں ان کو ہیرو نہیں مانتا اس لئے میں مغرب کی مثالیں کم دیتا ہوں، اس تحریر میں ایک تو امریکہ کے نام کی وجہ تسمیہ اور دوسرا مسلمانوں کی لاشوں پر اپریل فول کا تذکرہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے اور میں اسلام کے ان خاص دشمنوں کا سیاہ چہرہ دنیا کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں لیکن یہ تحریر اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے، اس میں کچھ خاص جذبات کا اظہار میری طرف سے شامل نہیں، لیکن یار زندہ صحبت باقی، ان شاء اللہ مجھےتاریخ پر بہت کچھ لکھنا ہے
سپین (ہسپانیہ، اندلس) اور امریکہ کا رشتہ بہت گہرا ہے، کیونکہ بحری مہموں پر بھیجے گئے سراغ رساں جہاز رانوں کو ہسپانوی عیسائی حکومت کی جانب سے ملازمت اور مراعات ملتی تھیں اور نئی دنیا (امریکہ) میں جا کر بسنے والے ابتدائی لوگ اس ملک سے تھے اور ان کا اس میں بہت رجحان تھا حتیٰ کہ امریکہ کو دریافت کرنے والا بھی ان کا نمائندہ تھا اور امریکہ کا نام بھی ان کے ایک نمائندے کے نام پر ہے۔

اندلس (Spain، ہسپانیہ):
اندلس شمالی افریقہ کے بالکل سامنے یورپ کے جنوب مغربی کنارے پر ایک حسین و جمیل جزیرہ نما ہے۔ آج کل اس میں پرتگال اور سپین دو ممالک واقع ہیں۔ کسی زمانے میں یہ ملک مغربی دنیا کے عظیم ترین ممالک میں شمار ہوتا تھا۔ مسلمانوں کی فتح سے پہلے یہاں کی حکومت سلطنت روم کی ہمسر تھی۔ مسلمانوں کے دور میں یہ پورے یورپ کے لیے روشنی کا مینار تھا۔ فتح سندھ کی طرح اس حسین و جمیل خطہ زمین پر بھی ولید بن عبدالملک کے زمانے میں قبضہ کیا گیا ۔ اس فتح کا سہرا طارق بن زیاد اور موسٰی بن نصیر کے سر ہے۔

طارق بن زیاد:
آپ بربر نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمان اور بنو امیہ کے جرنیل تھے جنہوں نے 711ء میں ہسپانیہ (اسپین) میں عیسائی حکومت کا خاتمہ کرکے یورپ میں مسلم اقتدار کا آغاز کیا۔ وہ ہسپانوی تاریخ میں Taric el Tuerto کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ انہیں اسپین کی تاریخ کے اہم ترین عسکری رہنماؤں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ شروع میں وہ اموی صوبہ افریقیہ کے گورنر موسیٰ بن نصیر کے نائب تھے جنہوں نے ہسپانیہ میں وزیگوتھ بادشاہ کے مظالم سے تنگ عوام کے مطالبے پر طارق کو ہسپانیہ پر چڑھائی کا حکم دیا۔ آپ کا انتقال 720ء میں ہوا

موسیٰ بن نصیر:
آپ اچھے جرنیل ہی نہیں بہت اچھے منتظم بھی تھے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ مبلغ اور مصلح تھے۔ بربر قبائل کو جو مسلسل بغاوتوں کے عادی تھے اور سخت سے سخت گورنروں کے مظالم برداشت کرنے کے سبب مسلمانوں سے متنفر ہو رہے تھے۔ ایک ایسے ہی مصلح کی ضرورت تھی جو ان کے نظریات کی تطہیر کر سکے۔ اسلامی اقدار کو ان کے دلوں میں بٹھا سکے اور انہیں اسلام کے مبلغ بنا دے۔ موسٰی بن نصیر افریقہ پہنچے تو انہوں نے قبائل میں گھل مل کر انہیں یقین دلایا کہ مسلمان کی حیثیت سے ان میں اور موسیٰ میں کوئی فرق نہیں اور وہ انہیں میں سے ہیں۔ اس نئے انداز پر بربر قبائل کو خوشگوار حیرت ہوئی موسیٰ کے فوجی کمانڈر طارق بن زیاد خود بربر تھے اور قوت ایمانی اور جذبہ جہاد سے معمور دل رکھتے تھے۔ طارق بن زیاد نے سات ہزار بربر فوج کی دینی و فوجی تربیت کرکے اسے کسی بھی بڑی مہم کے لیے تیار کیا۔ غرض بربر قبائل کو اعتماد میں لے کر انہیں متحد کرکے ان کی تربیت کرکے اور ان میں جذبہ جہاد پیدا کرکے فتح اندلس کا پہلا مرحلہ مکمل کیا گیا


فتح اندلس:
 کاونٹ جولین کی طرف سے اندلس پر حملہ کی دعوت ملنے پر وہ وقت آگیا جس کا مسلمانوں کو انتظار تھا۔ راڈرک کا ظلم واضح ہو چکا تھا۔ اس کی بدکرداری سامنے آگئی تھی۔ اندلس میں نہ صرف یہودی مظلومیت کی زندگی بسر کر رہے تھے بلکہ گاتھ قوم کے عوام بھی تنگ تھے۔ امراء بھی بادشاہ سے تنگ آئے بیٹھے تھے۔ معاشرہ ہر لحاظ سے گل سڑ گیا تھا اور ایک نئے انقلاب کا متقاضی تھا۔ طارق بن زیاد نے اپنے ابتدائی خطاب میں ہی مظلوم کی حمایت میں جنگ اور خدا کا پیغام پہنچانے کے جذبات ابھارے اور مجاہدین سر دھڑ کی بازی لگانے پر آمادہ ہوگئے موسیٰ نے اس موقعہ پر نہایت محتاط طرز عمل اختیار کیا۔ پہلے کاونٹ جولین کی وفاداری کا امتحان کیا اور پہلا حملہ اس سے کروایا۔ پھر طارق بن زیاد کو سات ہزار مجاہدین کے ساتھ بھیجا اور پانچ ہزار بطور کمک روانہ کیے۔ اور جوں ہی گاڈ ایسٹ کی فتح کی خبر ملی خود بھی اندلس پہنچے اور فتوحات میں حصہ لیا


کاونٹ جولین کی دعوت:
اندلس کی فتح کافوری سبب یہ ثابت ہوا کہ سبتہ کا حکمران کاونٹ جولین جس نے دو مرتبہ مسلمانوں کے حملے کو ناکام بنا دیاتھا۔ خود موسٰی کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسے اندلس پر حملہ کرنے کی دعوت دی ۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اندلس میں رواج تھا کہ امراء کی لڑکیاں شاہی محل میں ملکہ کی خدمت گاروں کے ساتھ تعلیم و تربیت پاتی تھیں۔ جولین کی لڑکی فلورنڈا بھی راڈرک کے محل میں تھی۔ فلورنڈا بہت خوبصورت تھی۔ اس وجہ سے راڈرک نے اخلاق و اعتماد کے تمام تقاضوں کو نظرانداز کرکے اس کی عصت دری کی۔ فلورنڈا نے اس بات کی اطلاع اپنے والد کو بھیجی تو وہ دارلحکومت پہنچا ۔ اس نے اپنے جذبات کو بادشاہ پر ظاہر نہ ہونے دیا۔ اور صرف یہ درخواست کی کہ فلورنڈا کی ماں بستر مرگ پر ہے اس لیے اسے واپس جانے کی اجازت دے دی جائے۔ راڈرک نے جولین کی بہت عزت افزائی کی اس کو بہت سے اعزازات سے نوازا ۔ بربروں کے حملے کے بارے میں اس سے مشورے کیے۔ اس کے کہنے کے مطابق ملک کی منتخب فوج اس کے بھیج دی اوررخصت کرتے وقت اس سے فرمائش کی کہ شکار کے لیے عمدہ باز بھیجے جائیں جو لین نے اس کی بات کے جواب میں کہا ’’اس مرتبہ میں ایسے باز بھیجوں گا کہ آپ نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھیے ہوں گے۔‘‘

لذريق (انگریزی میں راڈرک)
لذريق،(ہسپانوی اور پرتاگالی زبان میں:Rodrigo،عربی زبان میں:لذريق،Ludharīq،وفات 712ء), ہسپانیہ میں 710 سے 712 تک، ایک گوتھ بادشاہ تھا۔ وہ تاریخ میں گوتھ کے آخری بادشاہ کے لقب سے مشہور ہےمسلمانوں نے اس سے جنگ کی اور اسے شکست دی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ جنگ میں مارا گیا لیکن کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ جنگ ہارنے کے بعد فرار ہو گیا


ابو عبد اللہ:
(مکمل نام: ابو عبد اللہ محمد الثانی عشر) (1469ء-1533ء) امارت غرناطہ یعنی بنو نصر کا آخری فرمانروا تھا جو اندلس میں مسلمانوں کی آخری حکومت تھی۔ وہ طائفہ غرناطہ کے حکمران مولائے ابو الحسن کا بیٹا تھا۔ 1483ء میں ابو عبداللہ گرفتار ہوکر لوسینا میں قید ہو گیا اور اسے اس شرط پر رہائی نصیب ہوئی کہ امارت غرناطہ عیسائیوں کی باجگذار ہوگی۔ سقوط غرناطہ سے قبل اس نے چند سال اپنے والد مولائے ابو الحسن اور عزیز عبد اللہ الزغال کے خلاف جدوجہد میں گذارے۔ 1489ء میں قشتالہ و ارغون کے شاہ فرڈیننڈ اور ملکہ آئزابیلا نے ابو عبد اللہ کو غرناطہ خالی کرنے کا حکم دیا اور انکار پر شہر کا محاصرہ کر دیا۔2 جنوری 1492ء کو ابو عبد اللہ نے ہتھیار ڈال دیے اور اسپین سے مسلم اقتدار کا خاتمہ ہو گیا۔ بعد ازاں وہ آبنائے جبل الطارق عبور کر کے مراکش آگیا جہاں فاس شہر میں اس کا انتقال ہو گیا۔ 892ھ بمطابق 1492ء میں اسپین میں مسلم اقتدار کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوگیا اور ان کی آخری ریاست غرناطہ بھی عیسائیوں کے قبضے میں چلی گئی۔ اس واقعے کو سقوط غرناطہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسپین میں آخری مسلم امارت غرناطہ کے حکمران ابو عبداللہ نے تاج قشتالہ اور تاج اراغون کے عیسائی حکمرانوں ملکہ آئزابیلا اور شاہ فرڈیننڈ  (فرڈی ننڈ)کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اس طرح اسپین میں صدیوں پر محیط مسلم اقتدار کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہوگیا۔ معاہدے کے تحت مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی کی یقین دہانی کرائی گئی لیکن عیسائی حکمران زیادہ عرصے اپنے وعدے پر قائم نہ رہے اور یہودیوں اور مسلمانوں کو اسپین سے بے دخل کردیا گیا۔ مسلمانوں کو جبرا عیسائی بنایا گیا جنہوں نے اس سے انکار کیا انہیں جلاوطن کردیا گیا کچھ کو بحری جہازوں میں بھر کر یکم اپریل کو سمندر برد کر دیا گیا یہاں سے ہسپانوی عیسائی دنیا سے اس فتح کے حق میں "اپریل فول" منانے کا رواج قائم ہوا


کرسٹوفر کولمبس:
ایک بحری مہم تھا جس نے 15 ویں صدی میں امریکہ کو دریافت کیا۔ وہ 1451ء میں جنیوا اٹلی میں پیدا ہوا۔ سپین کے قشتالوی عیسائی حکمرانوں کی ملازمت میں رہا۔ ملکہ ازابیلا اور فرڈینینڈ نے اسے چھوٹے جہاز دیے جن سے اس نے 1492ء میں امریکہ دریافت کیا۔ کولمبس کی اس دریافت نے دریافتوں، مہم جوئی اور نوابادیوں کا ایک نیا سلسلہ کھولا اور تاریخ کے دھارے کو بدل دیا۔ کولمبس 1506ء  میں فوت ہوا


امیریگو ویسپوچی:
امیریگو ویسپوچی یا امریکو وسپوچی ( اطالوی : Amerigo Vespucci ) ایک اطالوی مُستکشَف تھا جس کے نا م کی نسبت سے براعظم امریکہ کو امریکا یا امریکہ (انگریزی: America) کہا جاتا ہے


تاریخ:
 امریکو وسپوچی ایک اطالوی تاجر ، مہم جو، متلاشی (سراغ رساں) مسافر تھا جس کے نام پر امریکی براعظموں کو امریکہ کہا جاتا ہے۔امریکو وسپوچی کے سفر سے قبل کولمبس سمیت تمام لوگ جنوبی امریکہ کے مشرقی ساحل کو براعظم مشرقی ایشیا سمجھتے رہے اس کے سفر کے بعد اسے نئی دنیا کہا جانے لگا۔ 1497ء میں امریکو وسپوچی نے کرسٹوفر کولمبس کے سفر کے پانچ سال بعد اپنا سفر شروع کیا۔ دونوں نے ہسپانوی حکومت کے لئے کام کیا اور حکومت نے ان کے سفر کے اخراجات ادا کئے،مغربی نصف کرہ نئے براعظم (امریکہ) کا امریکو وسپوچی نے چار بار کرسٹوفر کولمبس سے زیادہ مقامات کا سفر کیا۔امریکو وسپوچی کے لیے 1508ء میں ہسپانیہ (سپین) کے جہازرانی محکمہ میں سردار کا عہدہ تخلیق کیا گیا تھا، اس ذمہ داری کے ساتھ کہ ہسپانوی جہازرانی، انڈیز (ہندوستان) اسفار کے لئے منصوبہ بندی کرے


زندگی:
وہ 9 مارچ ، 1454ء کو فلورنس ، اٹلی میں ایک امیر خاندان میں پیدا ہوا اور 22 فروری 1512 کو فوت ہوا۔ اس کا والد زرمبادلہ تبادلے کا کام کرتا تھا ، گھر میں امریکو وسپوچی تیسرا بچہ تھا۔ اس کے سفر کا غیر تحقیقی ہونا اور اکثر متضاد تاریخیں، خصوصاً اس کے خط عظیم دریافتی دور کی سب سے متنازعہ اعداد و شمار میں سے ایک کے طور پر دلالت کرتے ہیں، 1503ء اور 1505ء کے درمیان اس کے نام کے تحت دو خط شائع ہوئے۔ جن کے مطابق امریکہ کی دریافت اور ایک نئے براعظم کے طور پر اس کی شناخت میں اس کا اہم کردارتھا۔ اس کی وجہ سے 1507ء کے نقشے میں ایک نقشہ ساز مارٹن Waldseemüller نے نئی دنیا کو اس کے اعزاز میں "امریکہ" لکھا


نوٹ: اگر کوئی تحقیقی بات مجھے بعد میں معلوم ہوئی تو اس میں تبدیلی کر دوں گا۔ ان شاءاللہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں