پیر، 30 دسمبر، 2013

مجاہد اعظم جنگ آزادی ہند 1857ء بطل حریت علامہ فضل حق شہید

 میں نے آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا پر ایک طویل مدت میں محنت کرکے یہ تعارف پیش کیا تھا اب یہاں حاضر ہے۔عبدالرزاق قادری

فضل حق خیر آبادی

مجاہد اعظم جنگ آزادی ہند 1857ء بطل حریت علامہ فضل حق شہید (1797ء تا 20 اگست 1861ء) بن مولانا فضل امام خیر آبادی مسلم رہنمائے جنگ علمائے اہل سنت میں سے تھے۔ فضل حق خیر آبادی 1857ءکی جنگ آزادی کے روح رواں تھے۔ وہ ایک فلسفی، ایک شاعر، ایک مذہبی عالم تھے، لیکن ان کے شہرت کی بنیادی وجہ ہندوستان کی جنگ آزادی میں انگریز قبضہ آوروں کے جہاد کا فتوٰی بنا۔

ہفتہ، 28 دسمبر، 2013

اہلسنت والجماعت کون ہیں؟

اس تحریر کے لیے میں نے انگریزی وکیپیڈیا سے بہت سا مواد لیا ہے جو آج 28 دسمبر، 2013ء تک وہاں موجود ہے چاند کے لحاظ سے آج 25 صفر 1435 ہجری ہے۔ آج امام اہل سنت کا عرس ہے لہٰذا میں آج اہل سنت بریلوی جماعت کا تعارف پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں۔ عبدالرزاق قادری

درگاہِ اعلیٰ حضرت
جنوبی ایشیا میں عقیدے کے لحاظ سے ابتدائی اہل سنت وجماعت سنی مسلمانوں کو جدید دور میں بریلوی کہا جاتا ہے۔ انگریزی وکیپیڈیا کے مطابق ان کی تعداد  200 ملین سے زائد ہے۔ انگریزی وکیپیڈیا کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق انڈیا ٹائم کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارت میں مسلمانوں کی اکثریت بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی ہے اسی طرح ہیریٹیج فاؤنڈیشن ، ٹائم اور واشنگٹن پوسٹ کے اندازے کے مطابق اسی طرح کی اکثریت پاکستان میں ہے۔ سیاسیات کے ماہر روہن بیدی کے تخمینہ کے مطابق پاکستان کے مسلمانوں میں سے 60 فیصد بریلوی ہیں جبکہ معروف کالم نگار اوریا مقبول جان کے نزدیک پاکستان کے 80 تا 90 فی صد مسلمان بریلوی ہیں، برطانیہ میں پاکستانی اور کشمیری تارکین وطن (مسلمانوں) کی اکثریت بریلوی ہے، جو دیہات سے آئے ہیں۔ لفظ بریلوی اہل سنت و جماعت کے راسخ العقیدہ مسلمانوں کے لیے ایک اصطلاح (پہچان) ہے۔ اس کی وجہ 1856ء مطابق 1272 ہجری میں پیدا ہونے والے ایک عالم دین کا علمی کام ہے ان کا نام مولانا احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ تھا وہ بھارت (برطانوی ہند) کے شمالی علاقہ جات میں واقع ایک شہر بریلی کے رہنے والے تھے1921ء مطابق 1340 ہجری میں ان کا نتقال ہوابریلی ان کا آبائی شہر تھا۔ انہیں امامِ اہل سنت اور اعلیٰ حضرت کے القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے اکثریتی مسلم علماء کی نظر میں وہ چودھویں صدی کے ابتدائی دور کے مجدد تھے انہیں مجدد دین و ملت کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ آج کے دور میں میڈیا اور تعلیمی ادارے مسلمانوں کی بین الاقوامی اکثریت اہل سنت وجماعت کو بریلوی کے عنوان سے جانتے ہیں۔ یہ وہی جماعت ہے جو پرانے اسلامی عقائد پر سختی سے قائم ہے اور مغربی مستشرقین کے بنائے ہوئے جدید شرپسند اور فتنہ پرور فرقوں کے خلاف پرسرِ پیکار رہتی ہے

                     اہل سنت بریلوی جماعت پرانے دور کے بزرگ صوفیاء اور اولیاء کے طور طریقے اپنائے ہوئے ہے اور جنوبی ایشیا میں صدیوں پہلے سے موجود سنی اکثریت کی نمائندہ ہے البتہ پچھلے چند برسوں سے چند جدید فرقوں کے پروپیگنڈے سے اہل سنت و جماعت کو بریلوی جماعت یا بریلوی مسلک کہا جاتا ہے حالانکہ اپنے عقائد اور طرز عمل میں یہ قدیم اہل سنت و جماعت کی نمائندہ ہے۔ ان کے عقائد قرآن مجید اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے واضح (ثابت) ہیں۔ ان کے عقائد کی بنیاد توحید باری تعالیٰ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی نبوت پر کامل ایمان، تمام نبیوں اور رسولوں پر یقین، فرشتوں پر،عالَم برزخ پر،آخرت پر، جنت اور دوزخ پر، حیات بعد از موت پر، تقدیر من جانب اللہ پراور عالَم امر اور عالَم خلق پر ہے۔ وہ ان تمام ضروریات دین اور بنیادی عقائد پر ایمان رکھتے ہیں جن پر شروع سے اہل اسلام، اہل سنت و جماعت کا اجماع چلا آرہا ہے۔ فقہی لحاظ سے وہ چاروں اماموں کے ماننے والوں کو اہل سنت وجماعت ہی سمجھتے ہیں۔ وہ ائمہ اربعہ امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے باہمی علمی تحقیقی اجتہادی اختلاف کو باعث برکت اور رحمت سمجھتے ہیں اور چاروں مذاہب حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کے ماننے والے راسخ العقیدہ لوگوں کو اہل سنت وجماعت سمجھتے ہیں چاہے ان میں سے کوئی اشعری ہو یا ماتریدی مسلک کا قائل ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ تصوف کے چاروں سلسلوں کے تمام بزرگوں کا احترام کرتے ہیں اور ان کے معتقد ہیں۔ صدیوں سے اہل سنت وجماعت لوگ قادری ، چشتی ، سہروردی یا نقشبندی سلسلوں سے وابستہ رہے ہیں اور ان سلسلوں میں اپنے پیروں کے ہاتھ پر بیعت کرتے رہے ہیں اب بیسویں صدی کے اختتام سے منہ زور میڈیا کے بل بوتے پر ان سب سلاسل کو بریلوی مکتبہ فکر کی شاخیں بتایا جا رہا ہے۔ شاید مغربی میڈیا اور اس کے پروردہ لوگ پاک و ہند سے باہر دنیائے اسلام کو کوئی غلط تاثر دینا چاہتے ہیں اور اہلسنت والجماعت کے نام پر چھوٹی چھوٹی فرقہ ورانہ دہشت گرد جماعتیں بنا کر فتنہ پھیلانا چاہتے ہیں افریقہ کے مسلم ممالک بھی اس قسم کی سازشوں کی زد میں ہیں جیسا کہ نائیجر اور نائیجیریا وغیرہ۔

                     مسلمان ہمیشہ سے اپنے نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم سے بے پناہ محبت کرتے آئے ہیں اور آج اکیسویں صدی کی دوسری دہائی تک یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے، سن 2012 ء میں جب عالم مغرب خصوصاً امریکی انتظامیہ کی درپردہ حمایت میں ایک گستاخانہ فلم منظر عام پر آئی تو ملک مصر سے شروع ہونے والا احتجاج پوری دنیا میں پھیل گیا خصوصاً مسلم ممالک نے اس کا شدت سے رد کیا۔ پاکستان چالیس سے زائد اہل سنت وجماعت بریلوی تحریکوں کے ایک اتحاد نے ایک ہی وقت میں فلم کے خلاف احتجاج کیا اور اس فلم کی شدید مذمت کی۔ اسی جذبہ حب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تحت اہل سنت بریلوی کثرت سے درود پاک پڑھتے ہیں، ان کی ایک پہچان الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اللہ وعلیٰ آلک واصحابک یا حبیب اللہ پڑھنا ہے اپنے محبوب نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں وہ کسی قسم کے نازیبا الفاظ سننے یا کہنے کے قائل نہیں ہیں اس معاملے میں وہ انتہائی حساس پائے گئے ہیں ان کے عقیدہ کے مطابق اللہ عزوجل نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پہلے اپنے نور سے پیدا فرمایا اس کے لیے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی ایک مستند حدیث کا علمی حوالہ بھی دیتے ہیں۔ وہ اپنے نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر لحاظ سے آخری نبی اور آخری رسول مانتے ہیں وہ عیسیٰ علیہ السلام کے ایک امتی کے طور پر لوٹ آنے پر ایمان رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک انبیاء کرام علیھم السلام کی ارواح ظاہری موت کے بعد پہلے سے برتر مقام پر ہیں اور وہ ان کوعام لوگوں سے افضل مانتے ہوئے زندہ سمجھتے ہیں ان کے نزدیک ان مقدس ہستیوں کو اللہ تعالیٰ نے غیب کا علم عطا فرمایا ہوا ہے اور وہ نزدیک و دور سے دیکھنے کی طاقت رکھتے ہیں اہل سنت وجماعت بریلوی کے نزدیک اللہ عزوجل نے انبیاء کرام علیھم السلام کو بہت سے اختیارات دے رکھے ہیں جیسے عیسیٰ علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کر دینا وغیرہ۔

                     اہل سنت وجماعت بریلوی اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی سالگرہ بارہ ربیع الاول کے دن کو عید میلاد النبی کے عوامی جشن کے طور پر مناتے ہیں۔ وہ اللہ کے نیک بندوں کی تعظیم کرتے ہیں اولیاء اللہ کے مزارات پر حاضری دیتے ہیں ان کے لیے ایصال ثواب کرنے کو جائز سمجھتے ہیں اور ان کے اعلیٰ مرتبے کے قائل ہیں ان کے نزدیک اللہ عزو جل جسے اپنا محبوب بنالے اسے دین اسلام کا خادم بنا دیتا ہے۔ وہ لوگ اللہ کی عبادت کرتے ہیں اللہ کے لیے قربانی کرتے ہیں اللہ کے لیے جیتے ہیں اور اللہ کے لیے ہی مرتے ہیں ایسے لوگ جب یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے تو پھر اس پر قائم بھی رہےے ہیں ان پر اللہ کی طرف سے فرشتے اترتے ہیں ان کے لیے نہ دنیا میں کوئی ڈر ہے اور نہ آخرت میں وہ غمگین ہوگے۔ اور ان کے لیے اللہ کے ہاں ایک بہترین مقام جنت ہے جس کا ان کے لیے وعدہ ہے۔ اس دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اللہ عز وجل ان کا دوست ہے۔ اور ان کے لیے آخرت میں جو مانگیں اس کا ان کے رب کی طرف سے وعدہ ہے۔ چونکہ وہ اللہ کے دوست اور اللہ ان کا دوست ہے لہذا ان کے نیک کاموں کا صلہ انہیں ظاہری زندگی ختم ہو جانے کے بعد ملتا ہے۔ کیونکہ اللہ نے ان کے ساتھ اپنی دوستی کا وعدہ دونوں جہانوں میں فرمایا ہے۔ انہیں انبیاء کرام علیھم السلام، صدیقین، شہیدوں اور صالحین کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا اور یہ اللہ کا فضل ہی تو ہے کہ نیک لوگ دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب اور کامران ہیں۔ جب ایسے لوگوں کے لیے اللہ کے انعامات اس قدر ہیں تو وہ بخشش و مغفرت کے بھی ضرور حق دار ہیں۔ اہل سنت وجماعت ان بزرگوں سے دعا کرانے کے قائل ہیں اور ظاہری زندگی ختم ہو جانے کے بعد ان کی عظمت کے قائل ہیں اور ان کے توسل سے اللہ تعالیٰ سے مانگنے کو جائز سمجھتے ہیں بلکہ ان کے نزدیک اگر اللہ چاہے تو یہ مقدس ہستیاں مدد بھی فرما سکتی ہیں

                     ان کے نزدیک اپنے آقا کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ کے اصحاب، اہل بیت کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور نیک مسلمانوں کےمزارات پر حاضری دینا کتاب و سنت کی تعلیمات کےعین مطابق ہے۔ لیکن وہ ان میں سے کسی بھی مزار، دربار یا قبر کی عبادت کفرسمجھتے ہیں اور ان کو تعظیمی سجدہ کرنا حرام جانتے ہیں۔ اہل سنت بریلوی جماعت کے نزدیک مرد حضرات کا ایک مٹھی تک داڑھی رکھنا ضروری ہے اس کا تارک گنہگار ہے۔ امام اہل سنت مولانا احمد رضا خان قادری محدث بریلوی علیہ الرحمۃ الرحمان نے 1904 میں جامعہ منظر اسلام بریلی شریف قائم کیاان کے علمی کام کا پاکستان میں بہت چرچا ہے۔ ان کی تحریک پاکستان کے قیام عمل میں آنے سے قبل کام کررہی تھی بنیادی طور پر یہ تحریک جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کے بنیادی عقائد کے دفاع کے لئے قائم کی گئی تھی عقائد کے دفاع کے لئےاہل سنت بریلوی جماعت نے مختلف باطل مکاتب فکر اور تحریکوں کا تعاقب کیا اور ان کے ڈھول کا پول کھول دیا۔ دیگر تحریکوں کے برعکس خطے میں سب سے زیادہ اہل سنت بریلوی جماعت نے موہن داس کرم چند گاندھی کا ساتھ نہ دیا اور اس ہندو لیڈر کی سربراہی میں تحریک خلافت، تحریک ترک موالات اور تحریک ہجرت کا مقاطعہ (بائیکاٹ) کیا وہ تمام ہر قسم کے کافر و مشرک کو مسلمانوں کا دشمن سمجھتے رہے۔ اہل سنت بریلوی جماعت تحریک پاکستان کے بنیادی حامی تھے اس کے قیام کے لیے انہوں نے بہت جدوجہد کی۔

اتوار، 22 دسمبر، 2013

پاک و ہند برصغیر میں مسلم فرقہ واریت کی وجہ اور تاریخ

مولانا ابو الکلام آزاد فکر و کردار....1/2
21 دسمبر 2013
کالم نگار | میجر(ر) شکیل اعوان​

گزشتہ دنوں 2 دسمبر 2013ء کو محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے مقامی جریدے میں اپنے کالم "سحر ہونے تک"میں ایک صحافی شورش کا شمیری کے حوالے سے مولانا ابوالکلام آزاد کا ایک انٹرویو شائع کیا جو بادی النظر میں دو قومی نظریہ کو منہدم کرنے کے مترادف ہے۔ مولانا آزاد اپنی پوری سیاسی زندگی میں مکمل طور پر ہندؤوں کی نمائندہ جماعت گانگریس کے نہ صرف دل و جان سے وفادار رہے بلکہ گاندھی ، نہرو اور پٹیل کی ہٹ دھرم اور مسلم کش سیاست کے باوجود آخری دم تک اس کوشش میں تھے کہ ہندوستان کسی بھی صورت تقسیم نہ ہو۔ مولانا آزادکے کا نگریسی کردار کی وجہ سے قائد اعظم نے انہیں گانگرس کے شوبوائے "Showboy"کا خطاب عطا فرمایا تھا۔ اب آئیے مولانا آزاد کے دئیے گئے انٹرویو کی جانب جو انہوں نے شورش کاشمیری کو دیا( جسے ڈاکٹر اے کیو خان نے اپنے کالم میں ری پروڈیوس کیا ہے ) ۔ "مولانا آزاد فرماتے ہیں کہ ہندو مسلم منا قشات (اختلافات) کا حل پاکستان ہوتا تو میں خود اس کی حمایت کر تا "۔ اس کے بعد مولانا آزاد نے بات کا رخ تبدیل کر دیا۔ ایک طویل عرصہ ہندو کانگریس کا صدر رہنے کے باوجود ریاست ہندوستان میں پیدا شدہ ہند و مسلم اختلافات کا کوئی حل کیوں نہ دیا؟ پھر مولانا آزاد فرماتے ہیں اب ایک ایسے معاشرے کو جس کی آبادی نوے فیصد ہندو ہو کسی اور سانچے میں کیوں کر ڈھال سکتے ہیں؟۔۔۔ مولانا آزاد ایک طرف اس حقیقت کا اقرار کرتے ہیں کہ غیر منقسم ہندوستان کی نوے فیصد آباد ی ہندو اکثریت پر مشتمل ہے اور یقینا اس کو کسی اور سانچے میں نہیں ڈھالا جا سکتا تو پھر مسلمانان ہند کی اقلیت کا ایک اتنی بڑی اور کثیر ہندو آبادی والے ملک میں کیا مستقبل ہو سکتا تھا؟ کیا دس فیصد مسلمانوں کو نوے فیصد ہندﺅوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا دانش مندی تھی؟
پھر مولانا آزاد فرماتے ہیں کہ "ہندﺅوں اور مسلمانوں کی سیاسی منافرت نے اشاعت اسلام کے دروازے بند کرد ئیے کہ ان کے کھولنے کا سوال ہی نہیں رہا۔ گویا اس سیاست نے مذہب کی دعوت ختم کر دی"۔ دعوت اسلام کی بندش کی بات تو مولانا آزاد نے اس طرح کی جیسے اس سے قبل ہندوستان میں دعوت اسلام کا کام صرف مولانا آزاد ہی سر انجام دے رہے تھے۔ گویا ہند میں مسلمانوں کی سیاسی بیداری سے قبل مولانا آزاد لاکھوں ہندﺅوں کو مشرف با اسلام کر رہے تھے، جو کہ مسلم لیگ کے بننے کے بعد فورا ختم ہو گئی۔ خود مولانا آزاد کے ہاتھ پر کوئی ایک بھی ہندو مسلمان ہوا؟ اوروں کو تو چھوڑئیے اگر دعوت اسلام کی اتنی ہی فکر تھی تو گاندھی یا نہرو میں سے ہی کسی کو دعوت اسلام دے دیتے۔ کیا مولانا آزاد نے گاندھی ، نہرو یا پٹیل جیسے ہندﺅ وں میں سے کسی کو بھی اسلام کی دعوت دی ؟ جواب یقینا نفی میں ہے۔ مولانا آزاد فرماتے ہیں ؛ اور "سرکاری مسلمان انگریزوں کی سیاست کو پروان چڑھانے کے لیے ہندو مسلم نزاع کو وسیع و متحارب نہ کرتے تو عجب نہ تھا کہ مسلمانوں کی تعداد موجودہ تعداد سے ڈیوڑھی ہوتی "ذرا مولانا کے اس جملے کو دوبارہ پڑھیے اور بار بار پڑھیے اور سوچئے کیا یہ شخص مسلمانوں کا طرف دار ہو سکتا تھا؟ یعنی ہندوستان میں مسلمان ہی انگریز کے ایجنٹ تھے اور صرف مسلمان ہی تھے جو پورے ہندوستان میں نوے فیصد ہندﺅوں کی اکثریت سے نہ صرف متحارب تھے بلکہ ہندﺅوں کا قتل عام بھی کرتے رہتے تھے اور نوے فیصد ہندو بے چارے دس فیصد مسلمانوں کے سامنے محض بے بس تھے۔ مولانا آزاد فرماتے ہیں کہ "ہندوستانی مسلمانوں نے دعوت اسلام کو منجمد کر دیا ۔ پھر کئی فرقوں میں بٹ گئے۔ بعض فرقے استعماری پیدوار تھے "مسلمانان ہند پر کتنا بڑا اور گھناﺅنا الزام عائد کیا ہے مولانا آزاد نے۔ حقیقت میں دعوت اسلام کا کام منجمد کرنے کا کام تو خود مولانا آزاد نے کیا تھا جو کافر اور مشرک ہندرہنماﺅں کی پیشوائی اور امامت پر لبیک کہا اور ساری زندگی گاندھی اور نہرو وغیرہ کی دیوزہ گری کر تے رہے اور کبھی ان کو دین اسلام کی دعوت دینے کے بارے میں سوچا تک نہیں۔ 
رہی بات فرقوں میں بٹنے کی تو بر صغیر کی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ تک بر صغیر میں دو ہی مذہبی مسالک تھے یعنی سنی اور شیعہ ۔ اس کے بعد جہاد اور اصلاح کے نام پر اسماعیل دہلوی اور سید احمد بریلوی نے جوفرقہ واریت پھیلائی جس کے اثرات سے آج بھی پاکستان کے درودیوار خون آلود ہیں ۔ پہلی دو کتابیں جو برصغیر میں فرقہ واریت کا باعث بنیں وہ اسماعیل دہلوی کی کتاب "تقویة الایمان" اور سید احمد بر یلوی کی کتاب "صراط مستقیم" تھیں ۔
رہی بات مولا نا آزاد کے الزام کی تو ہم مولانا آزاد سے اور ان کے حواریوں سے یہ پوچھنے کی جرات تو کر سکتے ہیں کہ مولانا آزادبر صغیر پاک و ہند میں علمیت کے جس چبوترے پر بر اجمان تھے اس حوالے سے کیا ان پر یہ فرض عائد نہیں ہوتا تھا کہ وہ مسلمانان برصغیر میں فرقہ واریت ختم کرنے کےلئے کوئی جدو جہد کرتے؟
مولاناآزاد فرماتے ہیں کہ "پاکستان ایک سیاسی موقف ہے ۔ اس سے قطع نظر کہ پاکستان ہندوستانی مسلمانوں کے مسئلے کا حل ہے کہ نہیں اس کا مطالبہ اسلام کے نام پر کیا جا رہا ہے"۔۔۔ مولانا آزاد نے قیام پاکستان کو ہندوستانی مسلمانوں کے مسئلے کا حل کبھی تسلیم ہی نہیں کیا تھا اور نہ ہی کبھی کوئی اور واضح حل بتایا ۔ اگر کوئی حل وضع فرمایا تھا تو وہ کانگریسی لیڈر پٹیل نے مسترد کر دیا تھا ۔ اسکے بعد مولانا آزاد کا سار ا زور اس بات پر ہی صرف ہوا کہ ہندوستان کی سیاست میں کبھی کوئی فیصلہ کانگریس کی ہندو قیادت کی مر ضی کےخلاف نہ ہو۔
(جاری ہے)

مولانا ابو الکلام آزاد فکر و کردار....2/2
کالم نگار | میجر(ر) شکیل اعوان​
22 دسمبر 2013
مولانا آزاد فرماتے ہیں " سوال یہ ہے کہ اسلام نے کہاں اور کب دین کے نام پر جغرافیائی تقسیم کا مطالبہ کیا اور کفر و اسلام کی بستیاں بسائی ہیں کیا یہ تقسیم قرآن میں ہے کہ حدیث میں، صحابہ رضی اللہ عنھم نے کس مرحلے میں اس کی نیو (بنیاد) اٹھائی ؟ خدا کی زمین کو کس نے کفر و اسلام میں بانٹا۔۔۔ مولانا آزاد کے مندرجہ بالا سوال کے جواب میں پہلا سوال تو خود مولانا ہی پر پڑتا ہے کہ اپنے نام کے ساتھ "مولانا" اور "محی الدین" کے القابات لکھنے والے مولانا آزاد یا ان کے حواری واضح کریں کہ خود مولانا آزاد کس قرآنی دلیل یا نص قطعی کے تحت ہندوستان کے خالص مشرک، کافر اور بت پرست ہندو قیادت کرم چندموہن داس گاندھی ، جواہر لال نہرو اور پٹیل وغیرہ کے سیاسی معتقد بنے اور اپنی ساری سیاسی زندگی اور سیاسی جد و جہد مشرکین ہند کی نذر کی؟ کیا مولانا آزاد کا یہ عمل قرآن و سنت سے درست ثابت ہو سکتا ہے؟ کیا مولانا آزاد کا سیاسی نقطہ نظر اور طرز عمل جو کانگرس کی کاسہ لیسی اور ہندﺅوں کی رضا و رغبت پر مشتمل تھا اس کی مثال کہیں بھی سیرت نبویصلی اللہ علیہ وسلم میں نظر آتی ہے ؟ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم یا فقہائے اسلام یا مقتدر اکابرین اسلام میں سے کسی کو بھی بحیثیت مثال پیش کر سکتے ہیں؟ جواب یقینا نفی میں ہے ۔ رہی یہ بات کہ اسلام میں کفر و اسلام کی بنیاد پر تقسیم زمین ہوئی یا نہیں تو اس حوالے سے قرآن پاک سے متعدد آیات پیش کی جا سکتی ہیں۔ مثلا کیا مکہ معظمہ اسلام کی سر زمین نہیں ؟ کیا سورہ پاک براءت میں مشرکین سے بیزاری کا اظہار نہیں فرمایا گیا ؟ کیا سیرت سرور انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم میں حرم مکہ اور حجاز کو سورہ برا ءت کے نزول کے بعد مشرکین سے پاک کرنے کا حکم نہیں دیا گیا؟ معلوم نہیں مولانا آزاد کو اتنی بات کیوں سمجھ میں نہیں آئی کہ جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حکمرانی تھی تو مسلمانوں نے ہر لحاظ سے ہندو اکثریت کی فلاح و بہبود کوسامنے رکھا۔ مسلمان بادشاہوں نے ہندﺅوں کو بڑی بڑی وزارتیں اور عہدے عنایت کیے۔ صوفیائے کرام کے لنگر خانے ہمیشہ ہندو و غرباءکے لیے کھلے رہے لیکن سب جانتے ہیں کہ انگریز کے آنے کے بعد بر صغیر کے مسلمان تقریبا دوسو سال تک زوال کا شکا ر رہے۔ بیسویں صدی میں بر صغیر کی سیاست میں جو سب سے بڑی تبدیلی آئی وہ جمہوری نظام کا آغاز تھا ۔یعنی ایک فرد ایک ووٹ۔ اب بادشاہی کا زمانہ گز چکا تھا۔ اب بر صغیر کے مسلمانوں کے پاس نہ تو کوئی باقاعدہ فوج تھی اور نہ ہی رضا کار مجاہد جو ہندوستان سے انگریزوں کے جانے کے بعد دوبارہ ہندوستان پر قابض ہو کر اپنی حکومت قائم کر تے۔ جدید سیاسی نظام کے تحت اب بر صغیر میں ایک فرد ایک ووٹ کا سیاسی اصول نا فذ ہو چکا تھا تو کیا اس اصول کے تحت نوے فیصد ہندو آبادی اور دس فیصد مسلمان آباد ی کے درمیان کوئی نسبت تناسب بنتا تھا جس سے مسلمان سیاسی طور پر نظام حکومت پر حاوی ہو جاتے؟ اس اصول کے تحت جداگانہ طرز انتخاب اور مسلمانوں کی آزاد اسلامی ریاست کے علاوہ کون سا حل مناسب تھا؟ کیا آج کے دور میں یوگو سلاویہ کی تقسم ارضی اور بو سنیا ہر زےگو ینا اور سربیا کا وجودمذہب کے نام پر قائم نہیں ہوا؟ مولانا آزاد کہنے کو تو ایک مسلمان تھے لیکن وہ اپنے اسلامی اعتقاد اور اپنے عمل و کردار کے تضادات کو سامنے رکھ کر اس کا منصفانہ تجزیہ کر تے تو ان پر واضح ہو جاتا کہ مسلمان اور چیز ہے اور اسلام اور چیز ۔ ہاں اگر وہ حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے فکر و عمل کو سامنے رکھتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ خالص مومن بن جانے سے جو قوت عملی سامنے آتی ہے وہ انقلابی اور موثر ہوتی ہے اور حصول منزل کا یقینی ذریعہ بنتی ہے۔
بوُ علی اندر غبار ناقہ ِگم
دست رومی پردہ محمل گرفت
بر صغیر کی سیاست میں کانگریسی علماء، بشمول مولانا آزاد ، کی حیثیت بوعلی کے فلسفے جیسی ہے جو اپنی منزل نہ پا سکا اور گرد راہ چاٹتا رہا جب کہ حضرت قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور دانائے راز شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر اکابرین تحریک پاکستان کی حیثیت دست رومی رحمۃ اللہ علیہ  کی طرح ہے جن کے عشق و جنون اور قول و فعل کی ہم آہنگی نے پاکستان کی شکل میں اپنی منزل حاصل کر لی۔ اب آئیے مولانا آزاد کی پیشنگوئیوں کی طرف جو انہوں نے پاکستان کے خلاف بیان فرمائی ہیں اور جن سے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان بڑے متاثر ہیں۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ ۔ ۔ مولانا (آزاد) کی پاکستان کے بارے میں پیشنگوئیاں کس طرح حرف با حرف صحیح ثابت ہو رہی ہیں۔ مولانا آزاد کہتے ہیں کہ پاکستان کے مطالبے نے مسلمانوں کو اسلاماً کیا فائدہ پہنچایا ( پھر مولانا آزاد نے خود ہی جواب دے دیا )کہ کچھ نہیں۔۔۔ اگر مولانا آزاد زندہ ہوتے تو میں ان کے پاس جا کر عرض کر تا کہ حضور قیام پاکستان سے مسلمانان پاکستان اور اسلام کو یہ فائدہ ہوا
(1)پاکستان میں قادیانیوں کو قانوناً اقلیت قرار دیا گیا، بھارت میں ایسا نہیں ہوا۔
(2) پاکستان میں شراب پر پابندی ہے جبکہ بھارت میں ایسا نہیں۔
(3)پاکستان میں قرارداد مقاصد کو آئین کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔
(4)پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل قائم ہے۔
(5)پاکستا ن میں وفاقی شرعی عدالت قائم ہے
(6)مملکت خدادا دپاکستان نے افغانستان میں روس جیسی بے دین اور ملحد طاقت کو نہ صرف شکست فاش دی بلکہ وہ ٹکڑوں میں تقسیم ہو گئی۔
(7) پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جو ایٹمی طاقت ہونے کا اعزاز رکھتا ہے۔
مسئلہ یہ تھا کہ مولانا آزاد سولو فلائیٹ پر تھے اور اپنی دانست میں وہ اپنے آپ کو مسلمانا ن ہند کا امام ، عبقری اور نجات دہندہ سمجھتے تھے۔ جب کہ مسلم لیگ اور قائدین مسلم لیگ تو مولانا کے نزدیک بے دین ، مغرب کے دلدادہ اور شتر بے مہارتھے ۔ بعض دفعہ کسی انسان کی جھوٹی اَنا، عالمانہ تکبراور ہمہ دانی اس کو نا عاقبت اندیشی کی کس حد تک لے جاتی ہے ؟ شاید مولانا آزاد کے افکارو نظریات اور کردار و عمل تک ۔۔۔ اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ساری زندگی کانگریسی لیڈروں کی کاسہ لیسی کرنے کے باوجود مولانا آزاد حق کی راہ کو نہ سمجھ سکے اور قیام پاکستان پر ان کو جو روگ لگا اور جو تلملاہٹ ہوئی اور مسلمانان ہند کی اکثریت نے 1946ءکے الیکشن میں جس طرح مولانا آزاد کے سیاسی فلسفے کو رد کیا اس کا دکھ اور تکلیف اس خود ساختہ امام الہند اور سیاسی عبقری کی اس تقریر کے ایک ایک جملے سے ٹپکتا ہے جو انہوں نے 23اکتوبر 1947ء کو جامع مسجد دہلی میں کی۔
ہاں یوں ہی رہے ساقی کچھ دیر نمک پاشی
ہاں زخم جگر یونہی رِس رِس کے مزا دیں گے
آخر میں مخالفین پاکستان اور ان کے مداحوں سے گزارش ہے کہ پاکستان ایک آفاقی حقیقت ہے اور 27رمضان المبارک بمطابق14اگست 1947ءکو قائم ہونے والی یہ مملکت خداداد انشاءاللہ العزیز قائم و دائم رہے گی اور اس کے دشمن خائب و خاسر ہونگے ۔ نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا اور اپنے اس مضمون کو بانی پاکستان حضرت قائد اعظم کے اس ولولہ انگیزقول پر ختم کر تا ہوں کہ مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کر تے۔
(ختم شد)
 بشکریہ: نوائے وقت

مفتی عبدالقیوم ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ

عبدالقیوم ایک بہت عظیم مفتئ اسلام تھے۔ آپ نے جامعہ نظامیہ رضویہ شیخوپورہ کی بنیا رکھی۔ اور کئی ایک کتب لکھیں۔ ان کا پورا نام محمد عبدالقیوم قادری ہزاروی تھا۔ محمد عبدالقیوم ہزاروی ایک عظیم مفتیِ اسلام تھے۔ وہ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور کے مہتمم اور جامعہ نظامیہ رضویہ شیخوپورہ کے مہتمم و بانی تھے۔

داتا دربار لاہور پر حملہ یکم جولائی 2010ء

یکم جولائی 2010ء صوفی مزار، داتا دربار (حضرت سید علی ہجویری گنج بخش) لاہور، پنجاب، پاکستان میں دو خودکش حملہ آوروں نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس میں کم از کم 50 لوگ جاں بحق اور 200 کے قریب بم دھماکوں میں چوٹ لگ کر زخمی ہوئے۔ یہ 2001ء کے بعد سے پاکستان میں ایک صوفی کے مزار پر سب سے بڑا حملہ تھا۔ تصوف اسلام کا ایک حصہ ہے اور صوفی تصوف کی مشق کرنے والے لوگ ہیں۔ گزشتہ چند صدیوں کے اندر اندر یہ وہابی فرقے کی طرف سےشرک کے فتوے/حملے کی زد میں آیا ہے۔ داتا دربار مشہور صوفی سید علی ہجویری کے دفن کی جگہ ہے۔ ان کی کتاب کشف المحجوب (جس کا مطلب 'پردے کی نقاب کشائی' ہے) ملفوظات کے طور پر صوفی ادب میں پہلی کتاب ہے جمعرات کو عقیدت مندوں کی ایک بڑی تعداد مزار پر آتی ہے اور یہ دربار پر مصروف ترین دن ہے۔ مزار زیادہ تر طالبان اور وہابی فرقے کے نزدیک شرک اور بدعت کا اڈا سمجھا جاتا ہے۔ مارچ 2009ء میں طالبان عسکریت پسندوں نے صوفی شاعر رحمان بابا کے مزار پر بمباری کی تھی اور 12 جون 2009ء کو ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی ایک اعتدال پسند عالم نے طالبان پر فتویٰ لگایا اور پھرڈاکٹر صاحب کو خودکش بم حملے میں ہلاک کر دیا گیا

حملہ

پولیس کے مطابق ابتدائی طور پر تین خود کش حملہ آوروں نے مزار پر حملہ کیا۔ ایک حملہ مزار، ایک صحن میں، اور ایک تہ خانے میں گیٹ نمبر 5 میں کیا گیا۔ جب حملہ آوروں نے رات کے وقت دھاوا بولا تب مزار ٹھنڈے موسم کی وجہ سے بہت زیادہ مصروف تھا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کا امکان ہے؛ اور زخمیوں کو میو ہسپتال لاہور میں بھیج دیا گیا، حکام نے ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا۔ پچیس افراد ہسپتال حکام کے مطابق نازک حالت میں تھے

فوری طور پر رد عمل

مشتعل افراد نے فوری ردعمل کا اظہار کیا۔ پولیس نے علاقے کو صاف کرنے کے لئے مزار پر جمع ہوئے لوگوں کو منتشر کرنے کے لئے ہوائی فائرنگ کا سہارا لیا۔ لوگوں نے تحقیقات کے لئے سیکورٹی انتظامات میں کمیشن بنائے جا نے کا مطالبہ کیا۔ اگلے دن تقریبا 2000 لوگوں نے ، "شہباز شریف کو معطل کرو" کے نعرے لگا کر شہر میں احتجاج کیا۔ وسطی پنجاب میں مسلح مذہبی گروہوں کے خلاف ایک سخت کریک ڈاؤن کے مطالبات پر، پولیس کو پاکستان بھر کے مزارات پر ہائی الرٹ کر دیا گیا۔ پنجاب حکومت کے افسران کے استعفی کے لئے بہت سے پاکستانیوں نے مطالبہ کیا۔

 انویسٹی گیشن

 مزار کے منتظمین نے مزار میں داخل ہونے والے تمام لوگوں کو اچھی طرح چیک کرنے کا اور سخت حفاظتی انتظامات کرنے کا حکم دے دیا۔ پولیس کمشنر نے کہا کہ دو خودکش حملہ آوروں کے جسم کے حصے ان کے سروں کے ساتھ ملے ہیں اور خود کش حملہ آور بہت چھوٹے تھے اور ایک خود کش جیکٹ 10-15 کلو تک دھماکہ خیز مواد اٹھا سکتا تھا۔ اصل مجرموں کی شناخت ایک معمہ بنی ہوئی ہے تاہم جولائی 5، پاکستانی حکام نے 12 مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا۔ گولہ بارود اور ہتھیار بھی لاہور کے دو علاقوں میں چھاپوں کے دوران برآمد کیا گیا تھا۔ پانچ پولیس افسروں کو بھی ناقص سکیورٹی کی بناء پر معطل کر دیا گیا تھا۔

ذمہ داری

 کسی جماعت نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم لاہور میں گزشتہ بم دھماکوں کی وجہ سے پاکستانی طالبان پر الزام عائد کیا گیا تھا۔ تاہم پاکستانی طالبان کے ایک ترجمان، نے ان حملوں کی ذمہ داری سے انکار کیا اور انہیں خفیہ غیر ملکی ایجنسیوں کا کام قرار دیا۔ پنجابی طالبان کے ایک ترجمان ، محمد عمر، نے کہا کہ ہم مزارات پر حملوں کی پالیسی کی پیروی نہیں کرتے " اس نے کہا کہ افغانستان میں حکومت کے پانچ سالوں کے دوران، طالبان نے کسی ایک مزار کو منہدم نہیں کیا۔ ہم کسی خود کش حملے کے لیے کسی کو بھیج دیں تو یہ بھی مضحکہ خیز ہو جائے گا۔ ہم ایسا کیوں کریں؟ اگر ہم واقعی وہاں لوگوں کو قتل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں صرف ایک دھماکہ خیز مواد سے بھری کار کھڑی کردینا ہی کافی ہے انہوں نے مزید کہا کہ 'بلیک واٹر' اور جاسوس اجنسیوں کی طرف سے مجاہدین کو بدنام کرنے کی یہ ایک سازش تھی۔ تاہم لاہور میں منعقد احتجاج میں، حملے کے لئے طالبان عسکریت پسندوں پر الزام لگایا گیا۔

 رد عمل

پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے سختی سے دھماکوں کی مذمت کی اور جرائم کی تحقیقات کرنے اور رپورٹ پیش کرنے کے لئے پولیس کو کہا۔ فرح ناز اصفہانی، صدر آصف علی زرداری کی ترجمان نے ایک بیان جاری کیا
 "This sickening poison of extremism will be driven out of our nation and we will not be cowed."

 اہلسنت وجماعت کا احتجاج

حملوں کے بعد اہل سنت وجماعت سنی بریلوی کے مذہبی رہنماؤں نے طالبان کے ساتھ روابط کی وجہ سے پنجاب حکومت الزام لگایا ہے. انہوں نے پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف سے ملاقات کی اس میٹنگ کے بعد، حاجی فضل کریم نے میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے ماضی میں کالعدم عسکریت پسند گروپ سپاہ صحابہ پاکستان، دہشت گردوں کے ساتھ رانا ثناء اللہ کے واضح تعلقات کی وجہ سے پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ خان کے استعفی کا مطالبہ کیا۔ لیکن رانا ثناءاللہ مسلم لیگ نون کا پرانا وفادار تھا اس لئے اس مطالبے کو رد کر دیا گیا۔ اہل سنت وجماعت کی بے شمار جماعتوں بشمول سنی اتحاد کونسل نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے لئے سانحہ کے شہداء کے چہلم پر 8 اگست 2010ء کو داتا دربار کے سامنے سڑک پر ہزاروں افراد پر مشتمل ایک جلسہ کیا۔ لیکن کوئی خاطر خواہ نتائج نہ نکلے اور اہل سنت وجماعت میں یہ محرومی سدا کا روگ بن گئی۔

حوالہ: انگریزی وکیپیڈیا سے ترجمہ

ہفتہ، 21 دسمبر، 2013

سانحہ راولپنڈی میں پہلے مدرسے سے فائرنگ کی گئی ڈیلی انقلاب لاہور 16 نومبر 2013

سانحہ راولپنڈی میں پہلے مدرسے سے فائرنگ کی گئی۔ بالکل راہ چلتے جلوسوں پر حملے کر دینا صریحا برائی ہے شاید کچھ لوگوں کے نزدیک یہ "جہاد" یعنی فساد ہو ان کے نزدیک نبی پاک صاحب لولاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی یاد میں ربیع الاول میں جلوس نکالنے پہ پابندی ہونی چاہئیے البتہ مدرسوں سے جلوسوں پر حملہ اور فائرنگ کرنے کی اجازت بدستور رہنی چاہئیے یہ ہمارے سکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر بھی یہ ایک سوالیہ نشان ہے!!!!! اور صاحبان عقل و دانش کے لیے غور و فکر کا مقام!!!! آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ راولپنڈی میں ہوا کیا تھا

1857 سے 1947 تک علماء و مشائخ اہل سنت والجماعت کا ہندوستان میں تاریخی کردار

تاریخ ہند سے دل چسپی رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ جنگ آزادی 1857ء میں علمائے اہل سنت اور مشائخ طریقت کا نہایت بنیادی کردار رہا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو کچھ مبالغہ نہ ہوگا کہ شمالی ہند میں انگریزوں کے خلاف مسلم رائے عامہ ہموار کرنے اور پورے خطے میں انقلاب کی فضا برپا کرنے کا بنیاد ی کا انہی کی قیادت و سربراہی میں ہوا ان مجاہدین میں مجاہد اعظم جنگ آزادی ہند 1857ء بطل حریت فلسفی شاعرعلامہ مولانا مفتی فضل حق شہید خیر آبادی (1797ء تا 20 اگست 1861ء /م1278ھ)، مفتی صدر الدین خاں آزردہ دہلوی م1285ھ، مولانا سید احمد اللہ شاہ مدراسی م1274ھ 1858ء، مفتی عنایت احمدکاکوری م1279ھ، مولانا رحمت اللہ کیرانوی 1308ھ، مولانا فیض احمد بدایونی، مولانا ڈاکٹر وزیر خاں اکبر آبادی م1289ھ 1873ء، مولانا وہاج الدین مراد آبادی م1274ھ 1858ء، مولانا رضا علی خاں بریلوی م1286ھ 1869ء، مولانا امام بخش صہبائی دہلوی م1273ھ 1857ء، مفتی مظہر کریم دریابادی، حکیم سعید اللہ قادری م1325ھ وغیرہ کے انقلابی کارنامے آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں اورشہیدِ جنگ آزادی حضرت مولانا مفتی سید کفایت علی کافی مراد آبادی علیھم الرحمہ والرضوان کا نام اس فہرست میں بہت نمایاں نظر آتا ہے
انگریز کی آمد اور برعظیم پر مکمل قبضے کے بعد وقت کے تقاضے علماء و مشائخ کو مسند دعوت و ارشاد سے اٹھا کر رسم شبیری ادا کرنے کیلئے میدان عمل میں لے آئے، 1857 کے معرکہ کارزار میں علامہ فضل الحق خیرآبادی، مولانا سیّد کفایت علی کافی، مفتی صدرالدین آزردہ،مفتی عنایت احمد کاکوروی، مولانا فضل رسول بدایونی، مفتی لطف اللہ علی گڑھی، مولانا شاہ احمد اللہ مدراسی،مولانا عبدالجلیل شہید گڑھی، مولانا فیض احمد بدایونی،منشی رسول بخش کاکوری، مولانا رضا علی خان اورمولانا نقی علی خان وغیرہ نے آزادی حریت کی شمع روشن کی،جبکہ 1857 کے بعد مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی نے اِس قافلہ حریت کی فکری آبیاری فرمائی اور دو قومی نظریئے کا شعور دیا۔ آپ کے بعد آپ کے خلفاء اور علمائے اہلسنّت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان، صدرالافاضل مولانا نعیم الدین مرادآبادی، مبلغ اسلام علامہ عبدلعلیم صدیقی،سیّد محمد محدث کچھوچھوی، مولانا امجد علی خان، ابوالحسنات سید محمداحمد قادری، ابوالبرکات سید احمد قادری،علامہ عبدالحامد بدایونی، امیر ملت پیر جماعت علی شاہ، خواجہ قمر الدین سیالوی، مولانا سید احمد سعید کاظمی، مولانا عبدالستار خان نیازی، مولانا عبدالغفور ہزاروی، مولانا ابراہیم علی چشتی، مولانا غلام محمد ترنم، مفتی سرحد مفتی شائستہ گل، پیر عبدالرحیم پیر آف بھرچونڈی شریف، پیر آف مانکی شریف اورپیر آف زکوڑی شریف وغیرہ نے برصغیر کے مسلمانوں میں سیاسی شعور کی بیداری میں بہت اہم کردار ادا کیا اور تحریکِ پاکستان میں ہراوّل دستے کا کردار ادا کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم لیگ اور قائد اعظم محمد علی جناح کے شانہ بشانہ کام کیا، اِن اکابرین اہلسنّت کی یہ تاریخی جدوجہد جماعت رضائے مصطفی، شدھی و سنگھٹن تحریکیں، تحریک خلافت، موالات و ہجرت اور آل انڈیا سنی کانفرنس کے قیام 1925 سے لے کر بنارس سنی کانفرنس 1946 کے تاریخ ساز اجلاس اور 14 اگست 1947 کو قیام پاکستان تک پھیلی ہوئی ہے۔بے شک قیام پاکستان علماء و مشائخ اور عوام اہلسنّت کی لازوال جدوجہد اور قربانیوں کا ثمرہے، کوئی غیر جانبدار مورخ اِس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ تحریک پاکستان کے سفر میں تکمیل پاکستان تک کوئی ایک موڑ بھی ایسا نہیں تھا، جہاں حضرات علماء و مشائخ اہلسنّت قوم کی رہبری و رہنمائی کیلئے موجود نہ تھے

جمعہ، 20 دسمبر، 2013

حضور سیدی داتا گنج بخش سید علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ

تحقیق و ترتیب: عبدالرزاق قادری
اللہ کے دوست 
اللہ عزو جل جسے اپنا محبوب بنالے اسے دین اسلام کا خادم بنا دیتا ہے۔ وہ لوگ اللہ کی عبادت کرتے ہیں اللہ کے لیے قربانی کرتے ہیں اللہ کے لیے جیتے ہیں اور اللہ کے لیے ہی مرتے ہیں ایسے لوگ جب یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے تو پھر اس پر قائم بھی رہتے ہیں ان پر اللہ کی طرف سے فرشتے اترتے ہیں ان کے لیے نہ دنیا میں کوئی ڈر ہے اور نہ آخرت میں وہ غمگین ہوگے۔ اور ان کے لیے اللہ کے ہاں ایک بہترین مقام جنت ہے جس کا ان کے لیے وعدہ ہے۔ اس دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اللہ عز وجل ان کا دوست ہے۔اور ان کے لیے آخرت میں جو کچھ مانگیں اس کا ان کے رب کی طرف سے وعدہ ہے ۔ چونکہ وہ اللہ کے دوست اور اللہ ان کا دوست ہے لہذا ان کے نیک کاموں کا صلہ انہیں ظاہری زندگی ختم ہو جانے کے بعد ملتا ہے۔کیونکہ اللہ نے ان کے ساتھ اپنی دوستی کا وعدہ دونوں جہانوں میں فرمایا ہے۔انہیں انبیاء کرام علیھم السلام، صدیقین، شہیداء اور صالحین کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا اور یہ اللہ کا فضل ہی تو ہے کہ نیک لوگ دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب اور کامران ہیں۔ جب ایسے لوگوں کے لیے اللہ کے انعامات اس قدر ہیں تو وہ بخشش و مغفرت کے بھی ضرور حق دار ہیں
اللہ عز وجل قرآن مجید میں ان نیک لوگوں کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرماتا ہے اس کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔
’’اور جسے اللہ راہ دکھانا چاہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنا چاہے اس کا سینہ تنگ خوب رکا ہوا کر دیتا ہے گویا کسی کی زبردستی سے آسمان پر چڑھ رہا ہے ، اللہ یونہی عذاب ڈالتا ہے ایمان نہ لانے والوں کو۔ اور یہ تمہارے رب کی سیدھی راہ ہے ہم نے آیتیں مفصل بیان کر دیں نصیحت ماننے والوں کے لیے۔ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے اپنے رب کے یہاں اور وہ ان کا مولیٰ ہے یہ ان کے کاموں کا پھل ہے۔‘‘
سورۃ الانعام آیات 125، 126، 127
’’اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اْسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے ، اور اللہ کافی ہے جاننے والا۔‘‘
سورۃ النساء آیات 69، 70
’’ایمان والے نیکو کاروں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کے لئے بخشش اور بڑا ثواب ہے‘‘
سورۃ المائدہ آیت 9
’’تمہارے دوست نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے کہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کو اپنا دوست بنائے توبیشک اللہ ہی کا گروہ غالب ہے۔‘‘
سورۃ المائدہ آیات 55، 56
’’سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم ۔وہ جو ایمان لائے اور پرہیز گاری کرتے ہیں ،انہیں خوشخبری ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں ، اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں یہی بڑی کامیابی ہے ،اور تم ان کی باتوں کا غم نہ کرو بیشک عزت ساری اللہ کے لیے ہے وہی سنتا جانتا ہے ۔‘‘
سورۃ یونس آیات 62، 63،64،65
’’بیشک وہ جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر قائم رہے ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور خوش ہو اس جنت پر جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا تھا ۔ہم تمہارے دوست ہیں دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اور تمہارے لیے ہے اس میں جو تمہارا جی چاہے اور تمہارے لیے اس میں جومانگو۔مہمانی بخشنے والے مہربان کی طرف سے۔اور اس سے زیادہ کس کی بات اچھی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیکی کرے اور کہے میں مسلمان ہوں۔ اور نیکی اور بدی برابر نہ ہو جائیں گی، اے سننے والے برائی کو بھلائی سے ٹال جبھی وہ کہ تجھ میں اور اس میں دشمنی تھی ایسا ہو جائے گا جیسا کہ گہرا دوست ۔اور یہ دولت نہیں ملتی مگر صابروں کو، اور اسے نہیں پاتا مگر بڑے نصیب والا۔‘‘
سورۃ حم السجدہ آیات 30، 31، 32، 33، 34، 35


شہر لاہور کے روحانی تاجدار
علامہ مفتی محمد عبدالحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب نور نور چہرے (صفحہ نمبر168، 169 اور 170 )میں روزنامہ نوائے وقت کے معروف کالم نگار نامور صحافی میاں عبدالرشید شہید رحمہ اللہ تعالیٰ کا تذکرہ لکھا ہے میاں صاحب کا ایک کالم جو 9اکتوبر 1962ء کو شائع ہوا ملاحظہ ہو:
حضرت داتا گنج بخش رحمہ اللہ تعالیٰ
حضرت داتا گنج بخش رحمہ اللہ تعالیٰ ان قافلہ سالارانِ عشق میں سے ہیں جنہوں نے اس سر زمین میں اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا بیج بویا اور محبت کے ذریعہ سے یہاں اسلام روشناس کرایا۔ یہ بھی فاتحین تھے، لوگوں کے نگاہ سے زخمی کرتے اور اعلیٰ اخلاق سے جکڑ لیتے۔ ان کے قلوب عشقِ الہی سے زندہ تھے، اس لئے موت ان کا کچھ نہ بگاڑ سکی، آج بھی ان کا فیض عام ہے۔ خواص عوام دونوں یہاں سے فیض پاتے ہیں۔خواجہ معین الدین چشتی رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہاں چلہ کاٹا، بابا فرید گنجِ شکر رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہاں سے فیض پایا۔ حضرت بو علی قلندرپانی پتی رحمہ اللہ تعالیٰ یہاں معتکف رہے۔میاں شیر محمد شرقپوری رحمہ اللہ تعالیٰ یہاں باقاعدہ حاضری دیتے رہے ۔
بزرگوں کی توجہ سے قلوب میں اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ، طبیعت نیکی کی طرف راغب ہوتی ہے۔اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے جمنیزیم میں رسہ پکڑکر اوپر چڑھنے والے کو نیچے سے سہارا مل جائے ۔حضرت پیرپیران رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:’’ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوتا ہے فلاں کی طرف توجہ رکھو،ہم اسے توجہ دیتے ہیں حکم ہوتا ہے فلاں سے توجہ ہٹالو، ہم ہٹالیتے ہیں۔یہ سارا نظامِ کائنات اللہ تعالیٰ کی توجہ ہی سے چل رہا ہے ۔اللہ تعالیٰ کی وجہ کے تحت ہی بزرگوں کی توجہ بھی کام کرتی ہے ۔
؂ نہ بادہ ہے،نہ صراحی، نہ دور پیمانہ
فقط نگاہ سے رنگین ہے بزمِ جانانہ
لاہور کی فضاان بزگوں کی روحانیت کی خوشبوسے ہی مہک رہی ہے جیسے موسم بہار میں باغ کی فضامیں خوشبوبسی ہوتی ہے ۔اسی وجہ سے لاہور لاہور ہے، اور جو یہاں آجائے، وہ یہیں کاہورہتا ہے۔میرے ایک مرحوم دوست حج کر کے آئے، حضرت صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے مزار پر حاضری کے لئے گئے، توکہنے لگے :ان گلیوں سے تو مدینہ منورہ کی گلیوں کی خوشبو آتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے بندوں میں اللہ تعالیٰ ہی کی صفات کا پرتوہے، البتہ اللہ تعالیٰ کی صفات ان کی اپنی اور لامحدودہیں۔اور بندوں کی صفات اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ اور محدود ہیں۔اللہ تعالیٰ سخی ہیں،ان کے بندوں میں سخاوت کا وصف پایا جاتا ہے ۔داتا سخی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔قطب الدین ایبک کو لکھ داتا کہتے تھے۔داتا گنج بخش کے معنی ایسا سخی ہے جو خزانے لٹادیتا ہے ۔اس میں شرک کی کوئی بات نہیں۔سورہ البقرہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ کے لئے الفاظ ’’اَنْتَ مَوْلَاناَ‘‘ آئے ہیں ، آج کل کے سارے علماء مولانا کہلاتے ہیں۔
کئی برس ہوئے ایک ’’مولانا‘‘نے یہ ہوائی چھوڑی تھی کہ سیدعلی ہجویری رحمۃ اللہ تعالیٰ یہاں مدفون نہیں،بلکہ قلعہ لاہور کے اندر مدفون ہیں۔بعد میں انھوں نے اپنی بات سے رجوع کر لیاتھا۔آج کل پھر کسی نے اس قسم کا مضمون لکھا ہے۔اللہ تعالیٰ کے بیسیوں ایسے بندے ہیں جنہیں کشف القبور حاصل ہے، وہ جانتے ہیں،بلکہ دیکھتے ہیں کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی آخری آرام گاہ یہی ہے۔قلعہ کی زمین دوزقبر والے بزرگ اور ہیں ‘اگرچہ ان کا نام بھی سیدعلی ہے۔

داتا سرکار کا اسم مبارک
آپ سر کار کا نام نامی علی ہے۔آپ کی کنیت ابوالحسن ہے ۔آپ نجیب الطرفین یعنی حسنی حسینی سید ہیں۔ آپ کے والد کا نام سید عثمان ہے۔ لہذا آپ کا مکمل نام سید ابولحسن علی بن عثمان ہے۔ روایت مشہور ہے کہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے مزار شریف پر حاضری دی اور چلہ کاٹا اور بعد میں یہ فرمایا۔
؂ گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
نا قصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما 
لہٰذا عرف عام میں آپ سرکار کو داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اور داتا صاحب کے القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔
آپ کا دور
اسلامی ہجری قمری اعتبار سے یہ پانچویں صدی ہے۔ اکثر تذکرہ نگار اس پر متفق ہیں کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ400ہجری کو پیدا ہوئے۔ اور آپ رحمۃ اللہ علیہ 465ہجری میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ عیسوی شمسی اعتبار سے یہ گیارھویں صدی تھی۔ اور یہ دورانیہ تقریباً 1010 ؁ء سے لے کر 1072 ؁ء تک ہے۔
ہجویری اور جلابی 
داتا حضوررحمۃ اللہ علیہ کوہجویری بھی کہا جاتا ہے۔ عرب ممالک میں آپ کو ’’الہجویری‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہجویر اور جلاب، غزنی شہر کے دوعلاقے یا محلے ہیں۔ جو افغانستان میں واقع ہیں۔ آپ جلاب میں پیدا ہوئے اور ہجویرمیں بھی آپ کا قیام رہا اس لئے آپ کو ’’الجلابی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کے والد محترم سید عثمان رحمۃ اللہ علیہ جلاب کے رہنے والے تھے اور والدہ ماجدہ ہجویر کی رہنے والی تھیں۔والد محترم کی وفات کے بعد آپ ہجویر منتقل ہو گئے تھے۔ 
محکمہ اوقاف کی جانب سے نسیم عباسی صاحب کی تحقیقی تحریر 2011ء میں شائع ہوئی اس کے مطابق آپ علیہ الرحمہ کا سلسلہ نسب اور سلسلہ طریقت کچھ اس طرح سے ہے۔
سلسلہ نسب
آپ حسنی سید ہیں۔آپ کا سلسلہ نسب آٹھ واسطوں سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ تک پہنچتا ہے اس کی تفصیل یہ ہے: حضرت سید علی رحمۃ اللہ علیہ بن عثمان رحمۃ اللہ علیہ، بن علی رحمۃ اللہ علیہ بن عبدالرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ بن شاہ شجاع رحمۃ اللہ علیہ بن ابو الحسن علی رحمۃ اللہ علیہ بن حسین اصغر رحمۃ اللہ علیہ بن سید زیدشہید رحمۃ اللہ علیہ بن حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ بن علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ۔
پیر غلام دستگیر نامی کے نزدیک جو دورِ حاضر کے بڑے ماہر انساب مانے جاتے ہیں، پانچویں بزرگ کا نام عبداللہ ’’ شجاع شاہ ‘‘ ہے اور آٹھویں بزرگ سید زید کے ساتھ جو لفظ ’’ شہید‘‘ لکھا ہے، وہ درست نہیں ہے کیونکہ سید زید شہید امام زین العابدین رضی اللہ عنہ بن امام حسین رضی اللہ عنہ کے فرزند تھے نہ کہ امام حسن رضی اللہ عنہ کے۔
سلسلہ طریقت
آپ کے مرشد حضرت ابو الفضل محمد بن حسن ختلی رحمۃ اللہ علہ ہیں۔ ان کا سلسلہ طریقت نو واسطوں سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے: حضرت سید علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت ابو الفضل ختلی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ ابو الحسن حصری رحمۃ اللہ علیہ،شیخ ابوبکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ داؤد طائی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ حبیب عجمی رحمۃ اللہ علیہ، شیخ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ۔
حصول علم
آپ رحمۃ اللہ علیہ کوعلوم دین، فقہ، تفسیر و حدیث میں تبحر حاصل تھا آپ نے علوم ظاہری و باطنی کی تکمیل کے لئے بہت جدوجہد کی اور وسطِ ایشیا کے کئی ممالک کاسفر کیا۔ اور بہت سے علماء و مشائخ سے فیض حاصل کیا۔ آپ کی تعلیمات سے ان علوم و فنون کی جھلک دکھائی دیتی ہے جن پر آپ کو خاطر خواہ عبور حاصل تھا۔
فقہی مسلک 
فقہی طور پر آپ سراج الائمہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے مذہب پر تھے۔ اور آپ شریعت مطہرہ کے نہایت پابند تھے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب کشف المحجوب میں جابجا شریعت پر عمل پیرا رہنے کی تلقین موجود ہے۔
پیر و مرشد
داتا سرکار حضرت سید علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے پیر و مرشِدکا نام حضرت ابوالفضل محمد بن الحسن ختلی رحمۃ اللہ علیہ ہے۔ جوکہ حضور سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ کے مسلک طریقت پر قائم تھے۔ داتا حضور رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے پیر و مرشد علیہ الرحمہ کا تذکرہ اپنی کتاب میں ان الفاظ میں فرمایاہے۔
حضرت ابوالفضل محمد بن حسن ختلی رحمتہ اللہ علیہ
ائمہ طریقت میں سے زین اوتاد شیخ عباد حضرت ابو الفضل محمد بن حسن ختلی رحمتہ اللہ علیہ ہیں طریقت میں پیروی انہیں سے ہے۔(مرشدسید نا داتا گنج رحمتہ اللہ علیہ) وہ علم تفسیر وروایات کے عالم اور تصوف میں حضرت جنید رحمتہ اللہ علیہ کے مذ ہب پر تھے حضرت خضری کے مر ید حضرت سردانی کے مصاحب تھے، حضرت ابو عمر فزونی، حضرت ابو احسن بن سالبہ رحیم اللہ علیہم کے ہم زمانہ تھے۔ آٹھ سال صادق گوشہ نشینی اختیار کرکے پہاڑوں کے غاروں میں رہے اور اپنا نام لوگوں کے درمیان گم رکھا۔ اکثر لگام نامی پہاڑ پر رہتے۔ عمدہ زندگی گزاری ان کی نشانیاں اور براہین بکثرت ہیں لیکن وہ عام صوفیوں کے رسم لباس کے پابند نہ تھے۔ اور اہل رسوم سے سخت بیزار تھے۔ میں نے اس سے بڑھ کر رعب و دبدبہ والا کبھی کوئی مرد خدا نہ دیکھا۔ ان کا ارشاد ہے 
الدنیا یوم ولنا فیھا صوم
ترجمہ: دنیا ایک دن کی طرح ہے اور ہم اس میں روزہ دار ہیں۔
مطلب یہ کہ ہم نے دنیا سے کچھ حاصل نہیں کیا اور نہ اس کی بندش میں آتے ہیں کیونکہ ہم نے دنیا کی آفتوں کو دیکھ لیا ہے اور اس کے حجابات سے باخبر ہوگئے ہیں ہم اس سے بھاگتے ہیں۔
حکایت: ایک مرتبہ میں ان کے ہاتھوں پر پانی ڈال رہا تھا کیونکہ وہ وضو فرما رہے تھے میرے دل میں خیال گزرا کہ جبکہ تمام کام تقدیر و قسمت سے ہیں تو آزاد لوگ کیوں کرامت کی خواہش میں پیروی کے غلام بنتے ہیں۔ آپ نے فرمایا اے فرزند من! جو خیالات تمہارے دل میں گزر رہے ہیں میں نے ان کو جان لیا ہے تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہر حکم کے لیے کوئی سبب ہوتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی سپاہی بچہ کو تاج و حکومت عطا فرماتا ہے تو وہ اسے توبہ کی توفیق دے کر اپنے کسی دوست ومحبوب کی خدمت میں مشغول فرماتا ہے تاکہ یہ خدمت اس کی درامت کا موجب بن جائے۔ 
اس قسم کے لطیفے بکثرت مجھ پر ہر روز ان سے ظہور پذیر ہوتے تھے۔ جس دن کہ ان کا نتقال ہوا بیت الجن میں تھے یہ بانیاں رود اور دمشق کے مابین گھاٹی کے کنارے ایک گاؤں ہے ان کا سر مبارک میری گود میں تھا۔ اس وقت میرے دل میں اپنے کسی دوست کی طرف سے کچھ رنج تھا جیسا کہ آدمیوں کی عادت ہے۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا اے فرزند! دل کو مضبوط کرنے والا ایک مسئلہ بتاتا ہوں اگر خود کو اس پر درست کرلو تو تمام رنج و فکر سے محفوظ ہو جاؤ گے فرمایا ہر محل اور ہر حالت خواہ نیک ہو یا بد اسے اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا فرمایا ہے لہٰذا اس کے کسی فعل پر جھگڑنا نہیں چاہیے اور دل کو رنجیدہ نہ کرنا چاہیے اس کے سواء کوئی وصیت نہ فرمائی اور جان دے دی واللہ اعلم بالصواب۔
کشف المحجوب، اردو ترجمہ(جو ترجمہ حضرت مفتی سید غلام معین الدین نعیمی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ) ،مطبوعہ لاہور،صفحہ نمبر 241 ،242 
آپ کی تصانیف
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کئی ایک کتب تصنیف فرمائیں جن میں شاعری کا ایک دیوان بھی تھا لیکن دیگر لوگوں نے آپ کی ان علمی خدمات کو اپنے نام سے شائع کردیا۔ ان کتابوں کا ذکر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کشف المحجوب میں کیا ہے۔ ایک چھوٹا رسالہ کشف الاسرار جو آپ رحمۃ اللہ علیہ کے بقول کشف المحجوب کی تلخیص ہے وہ رسالہ اور کشف المحجوب ابھی تک دستیاب ہیں۔ آپ کی چند تصانیف کے نام یہ ہیں۔
1. کشف المحجوب
2. کشف الاسرار
3. منہاج الدین
4. الرعایۃ الحقوق اللہ تعالیٰ
5. کتاب فناء وبقاء
6. اسرار الحزق المؤنات
7. بحر القلوب
8. کتاب البیان لاہل العیان

مشاہیر اسلام کی سوانح عمریاں

قارئین!جیسا کہ بہت سے احباب کے علم میں ہوگا کہ میں گزشتہ دو ایک سالوں سے یہ بلاگ لکھ رہا ہوں۔ اس میں بعض تحریریں میری اپنی لکھی ہوئی ہیں اور کچھ آرٹیکل میں نے کتابوں سے یا انٹرنیٹ کی دیگر ویب سائٹس سے لیے ۔ ان سب کے نشر کرنے کے پس منظر میں اسلام اور مسلمانوں سے محبت کا جذبہ کارفرما ہے چونکہ مجھے امت مسلمہ کی بھلائی مقصود ہے لہٰذا میں ایک مسلمان ہونے کے ناطے میں نے اسلامی معلومات خصوصاً مسلمان مشاہیر کی سوانح حیات تلاش کرکے عوام الناس کے سامنے رکھنے کو اپنے کام کا ایک شعبہ بنایا ہے اسی فکر کو لے کر اردو وکیپیڈیا پر چند سوانح عمریاں کتابوں سے دیکھ کر  لکھیں اور دیگر انٹرنیٹ یا اخبارات کے ذرائع  سے تلاش کرکے لکھیں اب ان سب کو تھوڑی سی بہتری کے ساتھ اپنے بلاگ پر پیش کرنے کا ارادہ ہے دعا فرمائیں کہ میں اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوجاؤں جیسے جیسے  یہ تحریریں بلاگ میں شامل کرتا جاؤں گا ارادہ ہے کہ ان کا لنک اس تحریر کے نیچے دیتا جاؤں اس کام کی غرض و غایت امت مسلمہ کی نئی نسل کو اپنے نیک سیرت بزرگوں سے متعارف کرانا ہے۔ یہ لوگ اللہ عز وجل کے مخلص بندے تھے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام تھے۔

ہفتہ، 14 دسمبر، 2013

Mahana Ruhani Tarbiyyati Ijtema

Mahana Ruhani Tarbiyyati Ijtema Sunday, January 12, 2014 at 10:00am
Shahdara, Punjab, Pakistan-Jamia Islamia Razwia, Ferozewala

Mufti e Azam Pakistan Allama Maulana Muhammad Arshad ul Qadri
About Muhammad Arshad Al Qadri is one of the greatest Muslim Islami Scholars in Pakistan. He earned Degrees of M.A(Islamic Studie, Arabic and History) from University of Punjab. He has been answering the Islamic Questions since 19th of July, 1990 in Masjid of Data Darbar Lahore. And He has Organized an Islamic Movement "Taleem o Tarbiyat e Islami Pakistan". He is Author of hundreds of Books.
He had constructed Jamia Islamia Razwia, Ferozewala, Pakistan. His philosophy is to create Unity,Service and Stability among Muslim Ummah.
His some books are Jannat ka Rasta, Ilmi Muhasibah, Uljha hay pa’on yar ka zulf e draz mien and Sharah Tirmzi Sharif. He is influenced by Imam-e-Azam Abu Haneefah, Imam Ahmad Raza Khan, Dr Mohammad Iqbal, Maulana Shah Ahmad Noorani,Maulana Mohammad Abdul Rasheed Qadri Razwi
Phone 0092-423-7962152
https://www.facebook.com/ArshadalQadri

جمعرات، 12 دسمبر، 2013

فاتحہ و نیاز کا طعام کھانا

سورۂ نساء

(آیت نمبر 8) پھر بانٹتے  وقت اگر رشتہ  دار اور یتیم اور مسکین (ف ۱۸) آ جائیں تو اس میں سے  انہیں بھی کچھ دو (ف ۱۹) اور ان سے  اچھی بات کہو (ف ۲۰)


[Nisa 4:8] And if relatives and orphans and the needy are present at the time of disbursement, give them something from it and speak to them with kindness.

پیر، 9 دسمبر، 2013

حکمت و دانائی سے گفتگو کرنا

قوم افراد کے مجموعے کا نام ہے۔ یعنی عام سی بات ہے کہ لوگوں کا مجموعہ ایک معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔ اب ان کے رویے اس معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ میں عموماً مسلمانوں کی بات کرتا ہوں۔ چونکہ ہم مسلمان ہیں لہٰذا ایک امت ہونے کے ناطے تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اور میں امت مسلمہ کے اتحاد اور وحدت کا خواہش مند اور قائل بھی ہوں۔ اسلام ہمارا دین ہے۔ اسلام محض ایک مذہب نہیں ہے۔ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔