سورۂ نساء
(آیت
نمبر 8) پھر بانٹتے وقت اگر رشتہ دار اور یتیم اور مسکین (ف ۱۸) آ جائیں تو اس
میں سے انہیں بھی کچھ دو (ف ۱۹) اور ان سے اچھی بات کہو (ف ۲۰)
[Nisa 4:8] And if relatives and orphans and the needy
are present at the time of disbursement, give them something from it and speak
to them with kindness.
۱۸۔ اجنبی جن میں
سے کوئی میِّت کا وارث نہ ہو۔
۱۹۔ قبل تقسیم اور یہ
دینا مستحب ہے۔
۲۰۔ اس میں عذرِ جمیل
وعدہ حسنہ اور دعائے خیر سب داخل ہیں اِس آیت میں میت کے ترکہ سے غیر وارث رشتہ
داروں اور یتیموں اور مسکینوں کو کچھ بطورِ صدقہ دینے اور قول معروف کہنے کا حکم دیا
زمانۂ صحابہ میں اِس پر عمل تھا محمد بن سیرین سے مروی ہے کہ اُن کے والد نے تقسیمِ
میراث کے وقت ایک بکری ذبح کرا کے کھانا پکایا اور رشتہ داروں یتیموں اور مسکینوں
کو کھلایا اور یہ آیت پڑھی ابن سِیرین نے اسی مضمون کی عبیدہ سلمانی سے بھی روایت
کی ہے اُس میں یہ بھی ہے کہ کہا کہ اگر یہ آیت نہ آئی ہوتی تو یہ صدقہ میں اپنے
مال سے کرتا۔ تیجہ جس کو سویِم کہتے ہیں اور مسلمانوں میں معمول ہے وہ بھی اسی آیت
کا اتباع ہے کہ اس میں رشتہ داروں اور یتیموں و مسکینوں پر تصدق ہوتا ہے اور کلمہ
کا ختم اور قرآن پاک کی تلاوت اور دعا قول معروف ہے اس میں بعض لوگوں کو بے جا
اصرار ہو گیا ہے جو بزرگوں کے اِس عمل کا ماخذ تو تلاش نہ کر سکے باوجود یہ کہ
اتنا صاف قرآن پاک میں موجود تھا لیکن انہوں نے اپنی رائے کو دین میں دخل دیا اور
عمل خیر کو روکنے پر مُصِر ہو گئے۔ اللّٰہ ہدایت کرے۔
کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن، ترجمہ: امامِ اہل سنت اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلی شریف رحمۃ اللہ علیہ
خزائن العرفان تفسیرِ قرآن مجید : از مولانا سیدنعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں