اتوار، 22 دسمبر، 2013

داتا دربار لاہور پر حملہ یکم جولائی 2010ء

یکم جولائی 2010ء صوفی مزار، داتا دربار (حضرت سید علی ہجویری گنج بخش) لاہور، پنجاب، پاکستان میں دو خودکش حملہ آوروں نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس میں کم از کم 50 لوگ جاں بحق اور 200 کے قریب بم دھماکوں میں چوٹ لگ کر زخمی ہوئے۔ یہ 2001ء کے بعد سے پاکستان میں ایک صوفی کے مزار پر سب سے بڑا حملہ تھا۔ تصوف اسلام کا ایک حصہ ہے اور صوفی تصوف کی مشق کرنے والے لوگ ہیں۔ گزشتہ چند صدیوں کے اندر اندر یہ وہابی فرقے کی طرف سےشرک کے فتوے/حملے کی زد میں آیا ہے۔ داتا دربار مشہور صوفی سید علی ہجویری کے دفن کی جگہ ہے۔ ان کی کتاب کشف المحجوب (جس کا مطلب 'پردے کی نقاب کشائی' ہے) ملفوظات کے طور پر صوفی ادب میں پہلی کتاب ہے جمعرات کو عقیدت مندوں کی ایک بڑی تعداد مزار پر آتی ہے اور یہ دربار پر مصروف ترین دن ہے۔ مزار زیادہ تر طالبان اور وہابی فرقے کے نزدیک شرک اور بدعت کا اڈا سمجھا جاتا ہے۔ مارچ 2009ء میں طالبان عسکریت پسندوں نے صوفی شاعر رحمان بابا کے مزار پر بمباری کی تھی اور 12 جون 2009ء کو ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی ایک اعتدال پسند عالم نے طالبان پر فتویٰ لگایا اور پھرڈاکٹر صاحب کو خودکش بم حملے میں ہلاک کر دیا گیا

حملہ

پولیس کے مطابق ابتدائی طور پر تین خود کش حملہ آوروں نے مزار پر حملہ کیا۔ ایک حملہ مزار، ایک صحن میں، اور ایک تہ خانے میں گیٹ نمبر 5 میں کیا گیا۔ جب حملہ آوروں نے رات کے وقت دھاوا بولا تب مزار ٹھنڈے موسم کی وجہ سے بہت زیادہ مصروف تھا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کا امکان ہے؛ اور زخمیوں کو میو ہسپتال لاہور میں بھیج دیا گیا، حکام نے ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا۔ پچیس افراد ہسپتال حکام کے مطابق نازک حالت میں تھے

فوری طور پر رد عمل

مشتعل افراد نے فوری ردعمل کا اظہار کیا۔ پولیس نے علاقے کو صاف کرنے کے لئے مزار پر جمع ہوئے لوگوں کو منتشر کرنے کے لئے ہوائی فائرنگ کا سہارا لیا۔ لوگوں نے تحقیقات کے لئے سیکورٹی انتظامات میں کمیشن بنائے جا نے کا مطالبہ کیا۔ اگلے دن تقریبا 2000 لوگوں نے ، "شہباز شریف کو معطل کرو" کے نعرے لگا کر شہر میں احتجاج کیا۔ وسطی پنجاب میں مسلح مذہبی گروہوں کے خلاف ایک سخت کریک ڈاؤن کے مطالبات پر، پولیس کو پاکستان بھر کے مزارات پر ہائی الرٹ کر دیا گیا۔ پنجاب حکومت کے افسران کے استعفی کے لئے بہت سے پاکستانیوں نے مطالبہ کیا۔

 انویسٹی گیشن

 مزار کے منتظمین نے مزار میں داخل ہونے والے تمام لوگوں کو اچھی طرح چیک کرنے کا اور سخت حفاظتی انتظامات کرنے کا حکم دے دیا۔ پولیس کمشنر نے کہا کہ دو خودکش حملہ آوروں کے جسم کے حصے ان کے سروں کے ساتھ ملے ہیں اور خود کش حملہ آور بہت چھوٹے تھے اور ایک خود کش جیکٹ 10-15 کلو تک دھماکہ خیز مواد اٹھا سکتا تھا۔ اصل مجرموں کی شناخت ایک معمہ بنی ہوئی ہے تاہم جولائی 5، پاکستانی حکام نے 12 مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا۔ گولہ بارود اور ہتھیار بھی لاہور کے دو علاقوں میں چھاپوں کے دوران برآمد کیا گیا تھا۔ پانچ پولیس افسروں کو بھی ناقص سکیورٹی کی بناء پر معطل کر دیا گیا تھا۔

ذمہ داری

 کسی جماعت نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم لاہور میں گزشتہ بم دھماکوں کی وجہ سے پاکستانی طالبان پر الزام عائد کیا گیا تھا۔ تاہم پاکستانی طالبان کے ایک ترجمان، نے ان حملوں کی ذمہ داری سے انکار کیا اور انہیں خفیہ غیر ملکی ایجنسیوں کا کام قرار دیا۔ پنجابی طالبان کے ایک ترجمان ، محمد عمر، نے کہا کہ ہم مزارات پر حملوں کی پالیسی کی پیروی نہیں کرتے " اس نے کہا کہ افغانستان میں حکومت کے پانچ سالوں کے دوران، طالبان نے کسی ایک مزار کو منہدم نہیں کیا۔ ہم کسی خود کش حملے کے لیے کسی کو بھیج دیں تو یہ بھی مضحکہ خیز ہو جائے گا۔ ہم ایسا کیوں کریں؟ اگر ہم واقعی وہاں لوگوں کو قتل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں صرف ایک دھماکہ خیز مواد سے بھری کار کھڑی کردینا ہی کافی ہے انہوں نے مزید کہا کہ 'بلیک واٹر' اور جاسوس اجنسیوں کی طرف سے مجاہدین کو بدنام کرنے کی یہ ایک سازش تھی۔ تاہم لاہور میں منعقد احتجاج میں، حملے کے لئے طالبان عسکریت پسندوں پر الزام لگایا گیا۔

 رد عمل

پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے سختی سے دھماکوں کی مذمت کی اور جرائم کی تحقیقات کرنے اور رپورٹ پیش کرنے کے لئے پولیس کو کہا۔ فرح ناز اصفہانی، صدر آصف علی زرداری کی ترجمان نے ایک بیان جاری کیا
 "This sickening poison of extremism will be driven out of our nation and we will not be cowed."

 اہلسنت وجماعت کا احتجاج

حملوں کے بعد اہل سنت وجماعت سنی بریلوی کے مذہبی رہنماؤں نے طالبان کے ساتھ روابط کی وجہ سے پنجاب حکومت الزام لگایا ہے. انہوں نے پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف سے ملاقات کی اس میٹنگ کے بعد، حاجی فضل کریم نے میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے ماضی میں کالعدم عسکریت پسند گروپ سپاہ صحابہ پاکستان، دہشت گردوں کے ساتھ رانا ثناء اللہ کے واضح تعلقات کی وجہ سے پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ خان کے استعفی کا مطالبہ کیا۔ لیکن رانا ثناءاللہ مسلم لیگ نون کا پرانا وفادار تھا اس لئے اس مطالبے کو رد کر دیا گیا۔ اہل سنت وجماعت کی بے شمار جماعتوں بشمول سنی اتحاد کونسل نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے لئے سانحہ کے شہداء کے چہلم پر 8 اگست 2010ء کو داتا دربار کے سامنے سڑک پر ہزاروں افراد پر مشتمل ایک جلسہ کیا۔ لیکن کوئی خاطر خواہ نتائج نہ نکلے اور اہل سنت وجماعت میں یہ محرومی سدا کا روگ بن گئی۔

حوالہ: انگریزی وکیپیڈیا سے ترجمہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں