منگل، 30 جولائی، 2013

سوشل میڈیااور کاپی رائٹس

شب برات 1434 ہجری بمطابق24جون 2013 عیسوی سوموار رات دس بج کر بارہ منٹ پرکاپی پر لکھنا شروع کیا اور گیارہ بج کر اکیاون منٹ پر مکمل کیا۔
میں نیا نیا دفتر میں بھرتی ہوا تو ایک رات میں اپنے کمرے سے باس کے کمرے میں گیا اور ان سے پوچھا کہ کاپی رائٹس کی تفصیل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہا ں کسی کو ہیومن رائٹس کی فکر نہیں تمہیں کاپی رائٹس کی پڑی ہو ئی ہے۔ انسانی حقوق کی بات بھی کر لیتے ہیں پہلے میری ساتھ ہونے والے کاپی رائٹس معاملے کو دیکھ لیں۔ میں نے ابتداء میں اپنے بلاگ پر وکیپیڈیا (اردو) اور اِدھر اُدھر سے چند تحریریں شایع کیں۔ اور باقاعدہ حوالے یا لنک دیتا رہا۔ کسی دوسرے بلاگ سے کاپی شدہ مواد کے ساتھ لکھاری کا نام ضرور لکھتا رہا۔ حتیٰ کہ جاپان سے خاور کھوکھرکو میں نے ایک دن وزٹ کی دعوت دی۔ انہو ں نے مجھے اسلام کا دشمن وغیرہ اور چور قرار دیا۔ میں اس سے پہلے بھی لکھتا تھا۔ ماہنامہ نو ائے منزل لاہورمیں اس سے قبل میری تحریر یں شائع ہوتی رہتی تھیں۔ میں نے بعد میں تصاویری شکل میں اپنے کالم مثلاً ’’نصیحت والی توبہ کی ضرورت‘‘ وغیرہ اپنے بلاگ پر پیسٹ کرنا شروع کر دیے۔ اردو محفل فورم میں جا کر میں اردو لکھتا رہتا اور اسے اپنے بلاگ پر پوسٹ کرتا رہتا۔ بعد ازاں انٹرنیٹ سے ملے ہوئے دوستوں مثلاً انکل اعجاز عبید اور حسیب نذیر گل کی کاوشوں اور سمجھانے سے ’’پاک اردو انسٹالر‘‘اور http://urdu.ca/ تک جاپہنچا۔ تب مجھے ان پیج سے یو نی کو ڈ میں تبدیل کرنا آ گیا۔ میں نے نوائے منزل والوں سے (اپنی) ان پیج تحاریر کو لے کر کنورٹ کر کے بے در یغ اردومحفل فورم ، دیگر اردوسوشل ویب سائٹس اور اپنے بلاگ پر پوسٹ کرنا شروع کر دیا۔ اردو محفل فورم پر چونکہ فعال ممبران ہیں۔ اس لیے وہاں خوب بحث مباحثوں میں حصہ لیتا رہا اور وہاں اپنے کالم/مضمون تنقید کے لیے پیش کرتا رہا۔ یو نی کوڈ کاپی/پیسٹ میں آسان ہے۔ لہٰذا میرے بلاگ پر آج تک ’’غازی علم دین شہید‘‘ وکیپیڈیا سے کاپی کیا ہواہے۔ (اب جو مضامین وکیپیڈیا سے کاپی شدہ ہیں وہ وہاں بھی میں نے ہی لکھے ہیں۔ حوالہ) لیکن کیا مجال ہے کہ میں نے آج تک کسی کا ایک جملہ بھی کاپی کر کے اسے اپنا قرار دیا ہو۔ اب دیکھیں معاملے کا دوسر ارُخ!!! چونکہ میرے پاس انٹرنیٹ استعمال کرنے کا و قت انتہا ئی کم ہوتا ہے میں نے اپنی کئی تحریروں کو گوگل سرچ میں تلاش کر کے چیک کیا۔ مثلاً میری زندگی کی پہلی باضابطہ تحریرجونوائے منزل میں چھپی بھی تھی ’’تعلیمی تنزلی آخر کیوں؟‘‘اس کو سنوارنے میں میری رہنمائی صوفی پروفسیرغلام سرور صاحب نے کی تھی اور اسے یہ مناسب ساعنوان میگزین کے چیف ایڈیٹرجناب محمد کامران اختر نے دیا تھا۔ آج ابھی گوگل میں سرچ کر کے دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ تحریر میرے نام کے بغیر فیس بک کے دو صفحات پر ملتی ہے۔ حتیٰ کہ میرے درخواست کر نے کے باوجود بھی میرا نام وہاں نہیں لکھا گیا۔ مجھے تو فیس بک پر ا حتجاج بھی نہیں کرنا آتا۔ محترم محمد بلال محمود (م بلال م) کی ویب سائٹ mbilalm.com پر اردو کی خدمت کا ایک سنہرا باب رقم ہو رہا ہے۔ ان کی تحریریں پڑھ کر بہت کچھ سیکھنے کو ملا ایک بار میرے تاثرات جو ان کی ایک تحریر کے بارے میں تھے انہوں نے پبلش کرنے سے قبل ہی حذف کردیئے۔ میں نے بہت عرصہ بعد ان کی  کاپی رائٹس کی حکمت عملی  پڑھی پھر معلوم ہوا کہ میرے تاثرات ان کی پالیسی سے ہٹ کر تھے۔ ان کی جملہ حقوق کی پالیسی بڑی زبردست ہے۔ اب میر ااپنا ذہن بھی یہی ہے کہ تقریباً انہی الفاظ کو اپنی کاپی رائٹس پالیسی قرار دے دوں۔ میں چونکہ جذباتی قسم کا انسان واقع ہوا ہوں۔ لہٰذامیں نے افکار مسلم کے نام سے کئی بلاگز بنا ڈالے اور کئی سوشل اردو ویب سائٹس کی رکنیت اختیار کر لی۔ سر نعیم قیصر کے لیے بھی ایک بلاگ بنا ڈالا ۔تعلیم وتر بیت اسلامی پاکستان کے لیے کئی بلاگ بنا ڈالے وغیرہ وغیرہ۔ ایک بار سر نعیم قیصر کی ایک نعت کو گوگل میں سر چ کیا تو معلو م ہوا کہ کسی ویب سائٹ پر شاعر کے نام کے بغیر موجود ہے۔ ان کی ویب سائٹ پر رابطہ کیا تو انہوں نے جواب دیا سوشل میڈیا پر یہ سب چلتا رہتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن مجھے خاور کھوکھر یاد آ گیا۔ جس نے میرے اقد ام کو چوری کے مشابہ قرار دیا تھا۔ پھر انٹرنیٹ کی دنیا میں میں شاید پہلا بندہ میں تھا جسے اردو دان طبقے کو ہندی سکھانے کا مفت کا خبط سوار ہوا (تحقیق: میں اس اقدام کا حامل پہلا نہ تھا اگرچہ پہلے والے مجھ سے بھی کم لکھ کر گئے 31 دسمبر 2013 کو یہ اپ ڈیٹ کیا) اور میں نے محنت کر کے اس کا آغاز کیا۔ لیکن اس کے بلاگ، اردومحفل فورم اور القلم فورم کے باوجود میں اس کو کسی مکمل شکل میں پیش نہ کر سکا۔ اس میں میری اپنی کوتاہی یا غلطی سمجھ لیں۔ کیو نکہ میں آج تک اپنا انٹرنیٹ کنکشن نہیں لگوا پایا (تصحیح: اب 26 دسمبر 2013 سے لگ چکا ہے)۔ اور دفتر کے اوقات میں سے انتہائی کم وقت سوشل میڈیا کو دے پاتا ہوں۔ بعض لوگوں نے اس ہند ی زبان والی محنت کو اپنی میراث سمجھ کر بے در یغ میرے نام کے بغیر اپنی ویب سائٹس اور فیس بک پر ’’اردو سے ہندی سیکھیے‘‘کے عنوان سے شائع کر دیا۔ اگر وہ اتنے ہی تحقیقی اور معیاری مقالہ جات کا دم بھر تے ہیں تو ان اسباق سے اگلا سبق لکھ کر کام کو جاری رکھیں ورنہ کاپی /پیسٹ کے ماہر تو میرے دور میں اسلام اور امت کے وارث بنے ہوئے ہیں اور ان کی تصانیف کی فہرست میں روز افزوں اضافہ ہوتا جا رہا ہے یہ رہی کاپی رائٹس کی کہانی !!! اس کے علاوہ ابھی تک میر ے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ اپنی دو سو سے زائد بکھری ہوئی تحاریر کو چیک کرتا پھروں کہ کس کس نے ان پر اپنا جتانے کی کاوش فرمائی ہے۔ ہاں اتنا ہے کہ اس سے مجھے یہ سمجھ ضرور آئی کہ اپنے قیمتی قسم کے خیالات پر ڈاکہ ڈلوانے کے لیے’’آبیل مجھے مار‘‘ کا مصداق نہ ٹھہروں۔ کیونکہ کسی نے کہا تھا کہ علم چوری نہیں ہوتا اس پر ڈاکہ پڑ تا ہے۔ میں تو مو بائل پر آیا ہوا میسیج فارورڈ کرنا گوارا نہیں کرتا۔ خود اپنے خیالات اور تجربے لکھ کر دوستوں کو بھیجتا ہوں۔ بہرحال میری اس تحریر سے تمام کاپی پیسٹ کرنے والوں کو پیغام ہے کہ خدارا کسی کے حقوق پر ڈاکہ نہ ڈالیں اخلاقی طور پر اجازت لیں اور اطلاع دے کر لکھاری کو اعزاز کے ساتھ دنیا کے سامنے لائیں۔ ورنہ بالآخر ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ کس کی لکھت ہے۔ صدیوں بعد بھی تحقیق ثابت کر دیتی ہے کہ فلاں صاحب نے کتنی کتابیں خود لکھی ہیں اور کتنی لکھی لکھائی ان کے نام منسوب کی گئیں۔ اب رہ گئی بات انسانی حقوق یعنی (human rights) کی توان شاء اللہ میر ی اگلی تحریر اسی موضوع پر ہوگی۔ 

11:51pm

پیر، 29 جولائی، 2013

Pages created by ABDUL RAZZAQ QADRI on Urdu Wikipedia

سن 2012ء کے آغاز تک میں صرف اردو وکیپیڈیا پر پڑھ لینے کی حد تک متعارف تھا۔ اسی سال وکیپیڈیا پر لکھنا شروع کر دیا۔ میرے لکھے ہوئے مضامین زیادہ تر سوانح عمریاں اور مذہبی نوعیت کے ہیں۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں۔ اردو وکیپیڈیا پر دیگر صفحات میں لکھنے کے علاوہ میں نے یہ صفحات ابتدا سے تخلیق کیے۔ کبھی اخبارات سے مواد حاصل کیا تو کبھی ہارڈ کاپی کتب سے۔ کبھی انگریزی وکیپیڈیا سے اور کبھی دیگر ویب سائٹس سے۔ بہر حال ان میں سے چند مضامین اچھی حالت میں ہیں۔ بقیہ میں بہتری کی گنجائش ہے۔ صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے۔​

  1. حسن_رضا_خان
  2. امیریگو_ویسپوچی
  3. امریکو_وسپوچی
  4. امجد_على_اعظمى
  5. عبدالحکیم_سیالکوٹی
  6. مفتی_صدرالدین_خان
  7. جامعہ_اسلامیہ_عربیہ_انوار_العلوم
  8. سید_شجاعت_علی_قادری
  9. جماعت_اہل_سنت
  10. آر_اے_نکلسن
  11. خاک_اور_خون
  12. احمد_سعید_کاظمی
  13. مصطفی_رضا_خان
  14. غافر_شہزاد
  15. راجہ_بکرم_اجیت
  16. قاری_سید_صداقت_علی
  17. مفتی_منیب_الرحمان
  18. داتا_دربار_پر_حملہ
  19. محمد_ثروت_اعجاز_قادری
  20. مولانا
  21. فضل_حسین_اعوان
  22. آل_انڈیا_سنی_کانفرنس
  23. قاری_زوار_بہادر
  24. مظفر_بخاری
  25. منیر_احمد_مغل
  26. ملک_محبوب_الرسول_قادری
  27. ڈاکٹر_محمد_حسین_مشاہد_رضوی
  28. جمعیت_علمائے_پاکستان،_نیازی
  29. جمعیت_علمائے_پاکستان،_نورانی
  30. سنی_اتحاد_کونسل
  31. حامد_رضا
  32. جامعہ_نعیمیہ_لاہور
  33. سرفراز_احمد_نعیمی_شہید
  34. حامد_رضا_خان
  35. تحریک_نظام_مصطفیٰ
  36. چاہل
  37. مجاہد_کامران
  38. تنظیم_المدارس_اہل_سنت_پاکستان
  39. جامعہ_رضویہ_منظر_اسلام
  40. حشمت_علی_خان_قادری
  41. ریاض_الحسن_گیلانی
  42. میلاد
  43. ٹیری_جونز
  44. ابو_البرکات_احمد
  45. آسیہ_بی_بی
  46. قانون_توہین_رسالت
  47. یاسر_پیر_زادہ
  48. عطاء_الحق_قاسمی
  49. ارشد_القادری
  50. ورلڈ_اسلامک_مشن
  51. سید_کفایت_علی_کافی
  52. پیر_نصیر_الدین_نصیر
  53. مفتی_غلام_جان_قادری
  54. جامعہ_رضویہ_مظہر_الاسلام
  55. دارالعلوم_حزب_الاحناف
  56. صاحبزادہ_فضل_کریم
  57. محمد_اختر_رضا_خان_قادری
  58. جامع_مسجد_نصرت_مدینہ
  59. جامعہ_نظامیہ_رضویہ_شیخوپورہ
  60. اشرف_آصف_جلالی
  61. ماہنامہ_نوائے_منزل_لاہور
  62. حرمت_رسول
  63. محمد_خان_قادری
  64. محمد_سردار_احمد_قادری
  65. عبد_العلیم_صدیقی
  66. محمد_عبدالحکیم_شرف_قادری
  67. عبدالقیوم_ہزاروی
  68. جامعہ_اسلامیہ_رضویہ
  69. آفتاب_اصغر

      اتوار، 28 جولائی، 2013

      اعتکاف کے فضائل و مسائل از قلم مفتی اعظم پاکستان علامہ مولانا محمد ارشد القادری


      سوال: اعتکاف کس عمر میں واجب ہوتا ہے؟

      جواب: یاد رہے اعتکاف واجب نہیں سنت ہے۔ بلوغ کے بعد ہر مرد و عورت اعتکاف کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی چھوٹا بچہ یا بچی ہے وہ نیکی بدی میں امتیاز سیکھ گئے ہیں جیسا کہ بعض بچے دس برس کی عمر میں بڑے عمدہ خصائل نظر آتے ہیں اور ان کے آداب نہایت اعلیٰ ہوتے ہیں تو ایسے بچے بھی اعتکاف کر سکتے ہیں۔

      ان کو بھی اعتکاف کی اجازت دے دینی چاہئے اگر بچپن ہی میں نیکی کرنے کی عادت پکّی ہو جائے گی تو آئندہ زندگی اتقاء میں گزرے گی۔

      سوال: حالت اعتکاف میں کیا کیا کام ایک معتکفہ ؍ عاکفہ کر سکتی ہے؟

      جواب: حالت اعتکاف میں عاکفہ، اعتکاف کرنے والی، وہ تمام کام سرانجام دے جن سے اعتکاف نہ ٹوٹے، وہ نماز پڑھے، تلاوت کرے، درود شریف پڑھے، درس قرآن و حدیث دے۔ مسائل شرعیہ ضروریہ عورتوں کو سمجھائے اگر اجتماعی اعتکاف کی کوئی صورت ہے اور اگر تنہا ہی اعتکاف کئے ہوئے ہے تو خوب اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے اور اس کے محبوب علیہ السلام پر درود و سلام پڑھے۔ اپنے بچوں سے ضروری بات بھی کر سکتی ہے مگر، اعتکاف کی پابندی پیش نظر ہی رہے۔

      سوال: عورت کم از کم کتنے دن کا اعتکاف کرے؟

      جواب: بہتر یہی ہے کہ عورت، رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف کرے، اس کو اعتکاف کے لئے اپنے شوہر سے اجازت لینا ضروری ہے۔ اگر وہ اجازت دے دے تو اعتکاف کر لے۔ ہاں یہ بات یاد رہے شوہر ایک بار اعتکاف کی اجازت دے دے تو پھر روک نہیں سکتا۔ جہاں تک مطلقاً اعتکاف کا مسئلہ ہے تو اس کی بابت حضرت امام جلال الدین محمد بن احمدمَحِلّیِ، کنز الراّغبین میں رقم طراز ہیں۔

      ھو مستحب کل وقت (کزالراّعبین)

      اعتکاف کسی وقت بھی کر لیا جائے وہ مستحب ہے۔

      اور اگر نذر مان لی جائے تو اعتکاف واجب کے درجے میں آ جاتا ہے اس وجوب کو اگر رمضان المبارک کے آخری عشرے میں پورا کیا جائے تو یہ عمل افضل قرار پائے گا اس لئے کہ اس کے علاوہ اعتکاف پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے مواظبت ثابت نہیں اگر عورت نے عشرہ یا ماہ کا اعتکاف کرنے کی نذر مانی تو اس کو پورا کرنا لازم ہو گا۔ (کنز الراّغبین ص ۱۸۲)

      سوال: اگر حالت اعتکاف میں ماہواری آ جائے؟

      جواب: ہمارے فقہاء نے اس امر کو بڑا بیّن کیا ہے کہ اعتکاف بغیر روزے کے نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے جب ماہواری آئے گی تو روزہ ساکت ہو جائے گا جب روزہ ختم ہوا تو اعتکاف بھی باقی نہ رہالہٰذا ایک اعتکاف اس عورت پر واجب ہوا ، اگلے سال اپنا واجب اعتکاف پورا کرے گی۔

      امام جلال الدین محمد بن احمد مّحِّلی رحمۃ اللہ علیہ نے اعتکاف کی شروط کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے۔

      معتکف کی شرائط:

      ۱۔ الاسلام اسلام یعنی مسلمان ہونا۔

      ۲۔ العقل عقل یعنی دماغی حالت کا درست ہونا۔

      ۳۔ والنقاء من الحیض حیض سے پاک ہونا۔

      ۴۔ النقامِنَ النفاس بچہ کی پیدائش کے بعد پاک ہونا۔

      مندرجہ بالا صفات میں سے کوئی ایک چیز بھی، نہ پائی جائے تو اعتکاف موقوف ہو جائے گا۔

      ۱۰۔ سوال: رمضان المبارک میں عورت کے لئے صلوٰۃ التسبیح پڑھانا کیسا ہے۔ کن اوقات میں صلوٰۃ التسبیح پڑھانا منع ہے؟

      جواب: رمضان المبارک میں صلوٰۃ التسبیح پڑھانا باعثِ ثواب ہے لیکن عورت مرد کی طرح نمایاں کھڑی ہو کر امامت نہیں کرے گی بلکہ عورتوں کی صف کے اندر ہی کھڑی ہو کر امامت کرے گی اگرچہ صلوٰۃ التسبیح پڑھانا جائز ہے لیکن اس کی امامت میں کراہت ہے۔ زوال کے اوقات میں نماز نہ پڑھائے۔ دوپہر کو اس طرح صلوٰۃ التسبیح کا آغاز کرے کہ زوال سے پہلے پہلے نماز مکمل کرے اور اگر وقت زوال شروع ہو جائے تو جب تک زوال ٹل نہ جائے اور وقت ظہر کا ادخال نہ ہو جائے اس وقت تک صلوٰۃ التسبیح کا آغاز نہ کرے۔

      فضائل و مسائل اعتکاف:


      للہ تعالیٰ قرآن حکیم میں ارشاد فرماتا ہے۔

      وَ لَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَ اَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ ڈ فِی الْمَسٰجِدِ

      (القرآن،البقرہ ۲: ۱۸۷)

      اور عورتوں کو ہاتھ نہ لگاؤ جب تم مسجدوں میں اعتکاف سے ہو۔اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے، علامہ ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر مظہری میں رقم طراز ہیں:

      یہ آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اعتکاف صرف اور صرف مسجد میں ہی کیا جا سکتا ہے، وہ مسجد بھی ایسی ہو جہاں جماعت قائم ہوتی ہو، مسجد بیت میں اعتکاف نہیں ہو گا۔ اس آیت کا اطلاق اس بات پر دال ہے کہ تخصیص پر مسجد میں اعتکاف جائز ہے اس میں مسجد حرام، مسجد نبوی شریف اور مسجد اقصیٰ کی اور اسی طرح مسجد جمعہ کی بھی قید نہیں ہے۔

      امّ المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

      ۱۔ معتکف مریض کی عیادت کے لئے نہ جائے۔

      ۲۔ معتکف نماز جنازہ میں شرکت نہ کرے۔

      ۳۔ معتکف عورت کو ہاتھ نہ لگائے۔

      ۴۔ معتکف اپنی بیوی سے مجامعت نہ کرے۔

      ۵۔ اعتکاف والا حاجتِ ضروریہ کے علاوہ باہر نہ نکلے۔

      ۶۔ اعتکاف روزے کے بغیر نہیں ہوتا۔

      ۷۔ اعتکاف صرف مسجد جامع میں ہی ہوتا ہے

      اس کے ساتھ ہی علاّمہ ثناء اللہ ابوداؤد کی حدیث وارد کرتے ہیں:

      لَا اِعْتِکَافَ اِلَّا فِی مَسْجِدِ جَمَاعَۃ

      اعتکاف مسجدِ جماعت میں ہی ہو گا۔ (تفسیر مظہری ،۱؍۲۱۰، مطبوعہ کوئٹہ)

      ۸۔ عورت کا مسجد میں اعتکاف کرنا مکروہ ہے۔ (درمختار)

      ۹۔ خنثیٰ مسجد بیت میں اعتکاف نہیں کر سکتا ۔ (درمختار)

      ۱۰۔ عورت کو اعتکاف کے لئے شوہر سے اجازت لینا ضروری ہے۔

      اعتکاف اصلاً: بندے کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس تعلق کو واضح کرتا ہے جس میں فقط اپنے خالق ہی کی رضا پنہاں ہوتی ہے اس کے علاوہ اور کوئی غرض و غایت نہیں ہوتی۔ اعتکاف میں بندہ اپنے خالق کے ساتھ اپنا تعلق استوار کرتا ہے اور اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کی سچی معافی طلب کر کے آئندہ اپنے مالک اپنے خالق اللہ تعالیٰ کا وفادار بندہ بننے کا عہد کرتا ہے۔ اور اعتکاف سے فارغ ہو کر اپنی زندگی کو سراسر احکامِ ربّ تعالیٰ اور فرامینِ امام الانبیاء علیہ السلام کی مطابعت میں دے دیتا ہے۔ اعتکاف کرنے سے مقصود صرف اور صرف یہ ہے کہ بندے کا وہ تعلق جو اپنے خالق سے ٹوٹ چکا یا کمزور پڑ گیا ہے اس کو ازسر نو بحال کر دیا جائے اور آئندہ یہ تعلق ٹوٹنے نہ پائے۔ اس کی اوّل دلیل یہ ہے کہ بندہ پانچ وقت کی نماز کا پابند ہوجائے اور ساتھ ساتھ وہ تمام افعال ترک کر دے جن سے اللہ و رسول جل علا و صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ناراض ہوتے ہیں۔

      اعتکاف کی لغوی تحقیق:

      میں چاہوں گا، اعتکاف کی تحقیق لغوی بھی پیش کر دوں تاکہ پڑھنے والے خوب لطف پائیں اور اعتکاف کی اصطلاحی و لغوی تحقیق بھی ان کے پیش نظر رہے۔ کسی بھی موضوع پر بات کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے تمام ضروری پہلوؤں کا احاطہ کر لیا جائے اس طرزِ عمل سے بات کرنا بھی آسان ہو جاتی ہے اور بات سمجھنا بھی مشکل نہیں رہتا، یہی طرز سخن زُود اثر ہوا کرتا ہے اسی سے تبلیغ کرنا آسان ہو جاتا ہے اور تفہیم بھی جلد از جلد ہوتی چلی جاتی ہے۔علاّمہ زبیدی لکھتے ہیں۔

      اِعْتَکَفَ: اَقَامَ بِہٖ وَلَازَمَہٗ وَ حَبَسَ نَفْسَہٗ فِیْہٗ لَا یَخْرُجُ مِنْہُ اِلَّالِحَاجَۃِ الْاِنْسَانِ، قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی، وَ اَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ (۱) (بقرہ ۱۸۷)

      اعتکاف کا مطلب ہے۔ اپنے آپ کو الگ جگہ ٹھہرا لینا اور اقامت کو لازم و واجب قرار دے دینا، نیز خود کو ایک مخصوص مقام (مسجد) میں روک لینا اس طرح کہ وہاں سے نہ نکلا جائے مگر صرف اس صورت میں انسان کو کوئی ضروری حاجت لاحق ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ۔ یہ سب کچھ اس وقت ہے جب تم مساجد میں اعتکاف کئے ہوئے ہو۔

      (تاج العروس من جواھر القاموس جلد ۲۴، ص ۹۱ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)

      ہم نے اعتکاف کی تحقیقِ لغوی، علاّمہ زبیدی کی تاج العروس من جواھر القاموس سے کی ہے۔

      علامہ ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

      رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنا سنتِ موکدہ ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں آیا ہے۔ نبی کریم رؤف و رحیم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم رمضان شریف کے آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے تھے یہ عمل مسلسل رہا یہاں تک کہ آپ اپنے ربّ کے حضور حاضر ہو گئے۔ اس کے بعد آپ کی ازواج مطہرات اعتکاف کرتی رہیں۔

      حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ رسول اکرم تاجدار عرب و عجم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے۔

      حضرت انس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ رسول اکرم تاجدار عرب و عجم صلی اللہ علیہ و سلم رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ نبی کریم رؤف و رحیم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم رمضان شریف کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے لیکن ایک سال اعتکاف نہ فرمایا جب اگلا سال آیا تو آپ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔ (رواہ الترمذی، و رواہ ابواداؤد، ابن ماجہ عن ابی بن کعب رضی اللہ عنہ)

      صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کبھی اعتکاف کرتے تھے اور کبھی نہ کرتے تھے:

      ابن نافع کا کہنا یہ ہے کہ اس مسئلہ میں صحابہ کرام کا عمل صوم وصال جیسا تھا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے صرف اعتکاف پر مسلسل عمل حضرت عبد الرحمن ابن ابی بکر رضی اللہ عنھما نے کیا۔ اجلہ صحابہ کرام اعتکاف نہ بھی کرتے تھے۔ بعض حنفیہ کے نزدیک اعتکاف کرنا سنت کفایہ ہے۔ (تفسیر مظہری ، ۱ ؍ ۲۱۱)

      الحمد للہ! میں نے اس مختصر سے مقالہ میں رمضان و روزہ اور اعتکاف کے فضائل و مسائل پر بات کی ہے اور اس کو اس انداز سے ترتیب دیا ہے کہ ہر خاص و عام کو اس سے خاطرخواہ فائدہ پہنچے۔ میری پوری کوشش ہے کہ اس امّت میں انقلاب صالح کی راہیں ہموار ہو جائیں اور یہ ملّت پھر بامِ عروج پر متمکن ہو۔آمین


      بجاہ سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ و الہ و سلم

      محمد ارشد القادری


      کتاب: فضائل و مسائلِ رمضان، روزہ، اعتکاف

      از قلم مفتی اعظم پاکستان علامہ مولانا محمد ارشد القادری
      (بانی جامعہ اسلامیہ رضویہ لاہور، اولڈ راوین، شارح ترمذی)

      جمعرات، 25 جولائی، 2013

      الشاہ عبد العلیم صدیقی

      عبدالعلیم صدیقی مولانا شاہ احمد نورانی کے والد اور ایک بلند پایہ عالم دین تھے۔
      پیدائش
      محمد عبد العلیم صدیقی قادری 15 رمضان المبارک 1310ھ بمطابق 3 اپریل 1893ء کو شہرِ میرٹھ یوپی بھارت میں قاضی مفتی شاہ عبد الحکیم صدیقی قادری علیہ الرحمہ کے ہاں پیدا ہوئے۔
      خاندان
      معروف ادیب و شاعر حضرت مولانا اسماعیل میرٹھی ان کے چچا تھے۔ شاہ عبد العلیم صدیقی نجیب الطرفین صدیقی تھے۔ چنانچہ آپ کا سلسلۂنسب 36 ویں پشت میں حضرت محمد بن ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہما تک اور سلسلۂحسب 32 ویں پشت میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے۔ آپ کے مورث اعلیٰ حضرت مولانا قاضی حمید الدین صدیقی خجندی 1525ء میں ظہیر الدین محمد بابر بادشاہ کے ہمراہ ہندوستان تشریف لائے تھے۔اس طرح آپ کے آبا و اجداد میں سے کئی حضرات قاضی القضات کے منصب پر فائز رہے۔
      تعلیم و تربیت
      آپ نے اردو، عربی اور فارسی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی اپنے والد بزرگوار سے حاصل کی چار سال دس ماہ کی عمر میں قرآن مجید ناظرہ ختم کیا اور صرف سات سال کی عمر میں قرآن پاک مکمل حفظ کر لیا۔ بعد ازاں، مدرسۂ عربیہ اسلامیہ، میرٹھ، میں داخل ہوئے۔ تین جمادی الاخریٰ 1322ھ (اگست 1904ء) کو والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھا، تو بقیہ تعلیم و تربیت آپ کے بھائی علامہ احمد مختار صدیقی نے کی۔ پھر انہوں نے مدرسہ قومیہ عربیہ، میرٹھ، میں داخلہ لیا اور 1326ھ میں امتیازی حیثیت سے درسِ نظامی کی سند حاصل کی۔ دینیات کے موضوع پر نیشنل عربک انسٹی ٹیوٹ سے ڈپلوما کیا۔ بعدازاں بی۔اے کیا اور پھر وکالت کا امتحان پاس کر کے الٰہ آباد یونیورسٹی سے ایل۔ایل۔ بی کی سند حاصل کی۔ میرٹھ کے مشہور حکیم احتشام الدین صاحب سے فن حکمت (علمِ طب) سیکھا

      شیخ الحدیث علامہ محمد عبدالحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ


      شیخ الحدیث علامہ محمد عبدالحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ ایک حنفی سنی عالم دین تھے۔

       

      مولانا محمد عبدالحکیم شرف قادری
      مکمل نام محمد عبدالحکیم شرف قادری
      پیدائش 13 اگست 1944
      مرزاپور ضلع ہوشیار پور ہندوستان
      وفات یکم ستمبر 2007
      لاہور
      عہد دور جدید
      علاقہ لاہور
      مکتبہ فکر اہلسنت والجماعت (بریلوی - حنفی)
      شعبہ عمل قرآن، حدیث، فقہ، تاریخ،سیرت، عقیدہ،فتوی
      افکار و نظریات اتحاد بین المسلین، نشر و اشاعت اسلام
      شہریت پاکستانی
      تصانیف نور نور چہرے ، تذکرہ اکابر اہل سنت ، اصول ترجمۂ قرآن کریم
      مؤثر شخصیات ابو حنیفہRAHMAT.PNG ، احمد رضا خان، محمد اقبال، مولانا محمد سردار احمد قادری
      متاثر شخصیات مولانا محمد ارشد القادری ، مفتی محمد خان قادری




      سلسلہ تعلیم

      ابتدائی تعلیم لاہور سے حاصل کی۔ جامعہ رضویہ مظہرالاسلام لائل پور (فیصل آباد)، جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور ، اور بندیال شریف سے علوم دینیہ میں مہارت حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ میں مولانا سردار احمد قادری چشتی، مفتی عبدالقیوم ہزاروی اور علامہ عطا محمد بندیالوی کے اسماء قابل ذکر ہیں۔


      خدمات

      آپ ایک طویل مدت تک جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور میں تدریس کے فرئض سر انجام دیتے رہے۔ آخر عمر میں چند سال تک مفتی محمد خان قادری کے جامعہ اسلامیہ لاہور کی سرپرستی بھی فرمائی۔ دین اسلام کے لیے آپ کی بہت سی خدمات ہیں۔

      تصانیف

      آپ نے ایک کثیر تعداد میں کتب لکھیں۔ اور قرآن مجید کا ترجمہ بھی کیا۔


      ڈاکٹر سید ریاض الحسن گیلانی

      ڈاکٹر سید ریاض الحسن گیلانی 
      (بی ایس سی، ایم. اے، ایل-ایل-بی. پی ایچ ڈی (الازہر)) سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر وکیل ہیں. وہ 1976ء تا 1977ء میں لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری منتخب ہوئے۔ وہ 1980ء سے لے کر 1984ء تک حکومت پاکستان کے وکیل رہے۔ اور 1984ء سے لے کر 1989ء تک پاکستان کی حکومت کے لئے ڈپٹی اٹارنی جنرل تھے. وہ پاکستان میں سعودی عرب کے سفارت خانے کے قانونی مشیر ہیں.انہوں نے کتاب "Reconstruction of Legal Thought In Islam" لکھی جو پاکستان اور بھارت کے مختلف یونیورسٹیوں میں ایک نصابی کتاب ہے۔ 1990 میں گراہم اور Trotman، لندن / Dordrecht / بوسٹن کی طرف سے شائع کردہ کتاب "اسلام کا خاندانی قانون(Islamic Family Law)" کے شریک مصنف ہیں. انہوں نے حکومت پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے مختلف کانفرنسوں میں شرکت کی.وہ آئینی امور اور انسانی حقوق کے انچارج ہیں. وہ پنجاب یونیورسٹی، لاہور میں اسلامی فقہ کے دورہ کرنے والے پروفیسر ہیں۔ قانون ناموس رسالت 295-Cقانون توہین رسالت کے لیے بھی ان کی خدمات ہیں۔ "ڈاکٹر سید ریاض الحسن گیلانی ڈپٹی اٹارنی جنرل نے خود حکومت پاکستان کی جانب سے پیش ہوئے اور اس موقف سے اتفاق کیا کہ گستاخ رسول واجب القتل ہے۔ ساتھ ہی قانونی اعتراض اٹھایا کہ وفاقی شرعی عدالت کو اس کی سماعت کا اختیار ہی نہیں۔"

      جامعہ رضویہ منظر اسلام

      جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی میں امام احمد رضا خان قادری کا بنایا ہوا مدرسہ ہے۔یہ ادارہ ان تنظیموں اور اداروں میں سے ایک ہے جو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان سے منسلک ہیں۔ 1904ء میں اعلٰی حضرت نے بریلی شریف میں جامعہ رضویہ منظر اسلام کی بنیاد رکھی. یہ عظیم مذہبی ادارہ اب تک مسلم دنیا کی خدمت کر رہا ہے۔ ہر سال اس ادارے سے فارغ التحصیل ہونے والے حفاظ قرآن، قراء، عالم اور فاضل گریجویٹ طالب علموں کی ایک بڑی تعداد ہے. جنوبی افریقہ کے علماء میں سے بہت سے جامعہ رضویہ منظر اسلام کے طالب علم ہیں. ان علماء میں سے مولانا عبدالحامد پالمر القادری، مولانا احمدمقدم القادری، قاری احمد خلیل رضوی، مولانا سید محمد حسین القادری، مولانا محمد خان القادری برکاتی، مولانا غلام محی الدین جعفر، مولانا عبدالہادی القادری ، مولانا زین العابدین القادری رضوی، مولانا محمد مستقیم القادری، مولانا محمد آفتاب رضوی اور مولانا نذیر فاروق رضوی کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

      پیر، 22 جولائی، 2013

      free download pdf adobe reader for Windows

      To Down Load Free PDF Adobe Reader Click here
      It's so easy and faster.
      میں نے سوچا کہ اگر کسی کو پی ڈی ایف ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے اصل لنک نہیں ملتا تو وہ اس لنک سے استفادہ کر لے
      free download pdf adobe reader 10free download pdf adobe reader for window 7free download pdf adobe reader softwarefree download pdf adobe reader version 9free download pdf adobe reader for nokia 5233free download pdf adobe reader 8free download pdf to word converterdownload pdf opener. adobe acrobat reader free download for window 7adobe reader free downloads for windows 7adobe reader free downloads for windows xpfree downloads adobe reader 9free downloads adobe reader 10 for window xpfree downloads adobe reader 8free downloads adobe reader 10 full versionfree adobe page reader download

      پیر، 15 جولائی، 2013

      فدیہ کون دے از قلم مفتی اعظم پاکستان علامہ مولانا محمد ارشد القادری

      فدیہ کون دے

      اگر کوئی شیخ فانی، یا شیخۂ فانیہ ہو جائے، یہ ایسے مرد و عورت ہیں جو اس قدر کمزور ہو جائیں کہ آئندہ صحت ہونے کی امید باقی نہ رہے تو وہ اپنے روزے کا فدیہ یعنی سحری و افطاری کا کھانا کسی مسکین کو دے دیں اس طرح ان کے ذمّے سے روزہ کا حکم یوں پورا ہو جائے گا۔ قرآن کریم میں ہے۔
      فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ وَ عَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْكِیْنٍ ؕ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ ؕ وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (القرآن،البقرہ ۲ : ۱۸۴)
      ’’تو تم میں جو کوئی بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں (پورے کرے) اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو وہ فدیہ دے دیں ایک مسکین کا کھانا، پھر جو اپنی طرف سے نیکی زیادہ کرے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے اور روزہ رکھنا تمہارے لئے زیادہ بھلا ہے اگر تم جانو۔‘‘
      اس آیت کریمہ میں ربّ کائنات نے، چند احکام اپنے بندوں کو دیئے ہیں، جو یہ ہیں:
      ۱۔ مسافر کے لئے روزے کا حکم کیا ہے؟
      ۲۔ بیمار کے لئے روزے کا حکم کیا ہے؟
      ۳۔ فدیہ کون دے؟
      ۴۔ مسافر اگر روزہ رکھ لے تو نیکی میں زیادتی ہے۔
      یوں تو قرآن حکیم نے مسافر اور مریض کو روزہ سے وقتی رخصت دے دی اور دوسرے دنوں میں چھوٹے ہوئے روزے پورے کرنے کی اجازت مرحمت کر دی۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ اگر کوئی مسلمان اپنی طرف سے نیکی میں اور اضافہ کرنا چاہتا ہے تو وہ حالت سفر میں بھی اگر روزہ رکھ لے تو ایسا کرنا اس کے لئے زیادہ نافع ہو گا۔


      روزہ فرض کیوں کیا گیا از قلم مفتی اعظم پاکستان علامہ مولانا محمد ارشد القادری

      روزہ فرض کیوں کیا گیا
      ظاہر ہے ہر ذی شعور انسان کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ روزہ فرض کیوں کیا گیا ہے؟ اس کا جواب، قرآن نے بڑے حکیمانہ انداز میں دیا، اوّلاً تو یہ بیان فرمایا کہ روزہ صرف تم اہل ایمان پر ہی فرض نہیں ہوا بلکہ جو لوگ تم سے پہلے تھے ان پر بھی روزہ فرض تھا، اس کے بعد بتایا گیا کہ ان پر روزہ فرض ہونے اور تم پر روزہ فرض ہونے کی غایت مشترک ہے۔ وہ یہ ہے کہ ان پر روزہ فرض تو اس لئے کیا تھا کہ ان کو پرہیزگار بنا دیا جائے اور اگر تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے تو فقط اس لئے کہ تمہیں بھی پرہیزگار و متقی بنا دیا جائے۔ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کو راحت ملے، فرحت میسّر آئے اور وہ سدا خوش و خرم رہے، اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ دنیا جہاں کی تمام آسائشیں اس کے دامن میں آ جائیں، ان کے حصول کے لئے وہ سخت محنت کرتا ہے، اگر اپنا ملک چھوڑنا پڑے تو وہ بھی چھوڑ دیتا ہے۔ دیّار غیر میں جا بستا ہے صرف اس لئے اس کو دنیوی راحتیں مل جائیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مسلمانوں پر روزہ اس لئے فرض کیا گیا ہے کہ ان لوگوں کو تقوٰی کی دولت مل جائے یقیناً تقوٰی کی دولت سب دولتوں سے بڑی دولت ہے۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
      شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰی وَ الْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ ؕ وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ (القرآن،البقرہ ۲: ۱۸۵)
      رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں رکھے۔
      آیتِ مذکورہ میں جو کچھ بیان ہوااس آیت مقدس میں بڑی صراحت کے ساتھ، چند اہم باتوں کا تذکرہ فرمایا گیا ہے۔ جن کی ترتیب یہ ہے:۱۔ ماہِ رمضان المبارک کا نام لے کر ذکر کیا گیا۔۲۔ قرآن لوگوں کے لئے سراسر ہدایت اور روشن دلیل ہے۔۳۔ حق و باطل کے درمیان واضح فرق۔۴۔ تم میں سے جو کوئی ماہِ رمضان پائے وہ اس کے روزے رکھے۔۵۔ مریض و مسافر کے لئے چھوٹ لیکن دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے۔اس میں کوئی شک نہیں قرآن حکیم ہی ایک ایسی کتاب ہے جو انسانیت کے لئے سب سے بڑی خیرخواہی اور حکمت اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اس کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک جملہ یعنی آیت اپنے اندر اَن گنت اسرار و رموز رکھتی ہے۔ ہر زمانے میں صاحبانِ علم و فن اپنی اپنی استعداد کے مطابق اس سے گوہر نایاب تلاش کرتے رہتے ہیں۔ جتنا بڑا کوئی خواص ہو گا اسی قدر عمدہ موتی تلاش کر کے لائے گا۔ ربّ کریم اہل علم کی عمروں میں برکتیں عطا فرمائے، علمائے حق کا سایہ تا دیر ہمارے سروں پر قائم رکھے آمین!لفظِ رمضان کی تحقیق لُغویمناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس لفظ ’’رَمَضَانُ‘‘ کا تلفظ بھی ذکر کروں اور اس کے معنیٰ پر بھی روشنی ڈال دوں تاکہ اس حوالے سے ایک تحقیق سامنے آ جائے۔ ان شاء اللہ اس سے تمام صاحبان علم و فضل خوش ہوں گے اور قارئین کے لئے ایک نئی طرح ہو گی۔ چنانچہ اس لفظ کا تلفظ (Pronunciation) رَمَضَاَنْ ہے۔ لغت کی کتب میں مذکور ہے۔رَمَضَانُ! کا مطلب ہے گرمی کی تیزی، دھوپ کی شدت نیز گرمی کی شدت اور دھوپ کی حدّت کے سبب زمین کا تپ جانا۔ (المنجد ۴۰۸)اس سے بڑی آسانی کے ساتھ سمجھ آتا ہے کہ رمضان کا مطلب ہے۔ اس مہینے کی مشقت اہل اسلام کو خوب، آزماتی ہے، بعینہٖ جیسے دھوپ کی حدّت زمین کو تپا دیتی ہے اسی طرح رمضان بھی آ کر اپنے ماننے والوں پر شدت کر کے انہیں تپا دیتا ہے لیکن اہل ایمان اس آزمائش میں سے بڑے صبر و استقامت کے ساتھ گذر جاتے ہیں انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ مہینہ ہمارے لئے آزمائش تو ہے لیکن انعام بھی بہت بڑا ہو گا۔ اگر کوئی بندۂ مؤمن اس مہینے کی شدّت برداشت کر لیتا ہے تو ربّ کائنات اس کی بخشش و مغفرت کا اعلان فرما دیتا ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ کا مضمون ہے۔ جس مسلمان نے حالت ایمان میں طلبِ ثواب کے لئے روزے رکھے اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ گناہوں کو معاف فرما دے گا۔
      حدیث شریف کے الفاظ یہ ہیں:
      مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَ اِحْتِسَابًا غُفِرَلَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ
      جس نے رمضان کا ایمان و ایقان سے روزہ رکھا اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے گئے۔
      قرآن میں صرف ماہِ رمضان کا نام آیا ہے
      قرآن حکیم نے رمضان المبارک کے علاوہ کسی مہینے کا نام نہیں لیا، یہ کتنا بڑا انعام ربّانی ہے کہ خالقِ کائنات نے ماہِ رمضان کا نام لے کر اس کی اہمیت کو خوب بڑھایا۔ اس سے اس مہینے کی عظمت بیّن ہوتی ہے۔قرآن کریم میں کسی اور عورت کا نام نہیں آیا لیکن حضرت مریم علیہا السلام کو یہ شرف حاصل ہے کہ ان کا نام قرآن مجید میں آیا ہے۔ اسی طرح قرآن حکیم میں کسی اور صحابی کا نام نہیں آیا مگر یہ شرف حضرت زید رضی اللہ عنہ کو حاصل ہے کہ ان کا نام قرآن میں سورہ احزاب میں آیا ہے۔ بارہ مہینوں میں سے کسی مہینے کا ذکر نام کے ساتھ قرآن شریف میں نہیں آیا لیکن رمضان المبارک کو یہ مقام حاصل ہے کہ اس کا نام قرآن مقدس میں آیا ہے۔رمضان المبارک میں ایک نیکی کا ثواب ستّر گنا بڑھ جاتا ہےاس سے اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ یہ مہینہ کتنا بابرکت ہے کہ اس کو نام لے کر قرآن پاک میں ذکر کیا گیا ہے۔ اس سے اس مہینے کی عظمت کا پتہ چلتا ہے۔ لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے یوں تو وہ تمام مہینوں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں، نمازیں پڑھیں، تلاوت کریں، نیز نیک کام بڑھ چڑھ کر کریں لیکن اس ماہ اقدس رمضان المبارک میں تو خوب اللہ تعالیٰ کی یاد کریں۔ نمازوں کی پابندی کریں تاکہ دوسرے تمام مہینوں میں بھی نماز کی پابندی عادت بن جائے۔ نیکی کو دائمی کریں تاکہ سارا سال نیکی کرنا عادت بن جائے یقیناًاس مہینے کی بڑی برکات ہیں۔ اس میں اگر کوئی بندۂ مؤمن ایک نیکی کرتا ہے تو اس کو ستّر نیکیوں کا ثواب دیا جاتا ہے اگر کوئی بندہ اس ماہ میں ایک روپیہ خیرات کرتا ہے تو اس کو ستّر روپے خیرات کرنے کے برابر ثواب دیا جاتا ہے۔ ایک نفل کا ثواب ایک فرض کے برابر کر دیا جاتا ہے۔ رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جنّت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، ان شاء اللہ تفصیلی احادیث مبارکہ بھی ذکر کروں گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماہِ صیام بڑا ہی بابرکت مہینہ ہے، اس کی جس قدر ہو سکے تعظیم کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عمل عطا فرمائے۔ امین۔