سوال: اعتکاف کس عمر میں واجب ہوتا ہے؟
جواب: یاد رہے اعتکاف واجب نہیں سنت ہے۔ بلوغ کے بعد ہر مرد و عورت اعتکاف کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی چھوٹا بچہ یا بچی ہے وہ نیکی بدی میں امتیاز سیکھ گئے ہیں جیسا کہ بعض بچے دس برس کی عمر میں بڑے عمدہ خصائل نظر آتے ہیں اور ان کے آداب نہایت اعلیٰ ہوتے ہیں تو ایسے بچے بھی اعتکاف کر سکتے ہیں۔
ان کو بھی اعتکاف کی اجازت دے دینی چاہئے اگر بچپن ہی میں نیکی کرنے کی عادت پکّی ہو جائے گی تو آئندہ زندگی اتقاء میں گزرے گی۔
سوال: حالت اعتکاف میں کیا کیا کام ایک معتکفہ ؍ عاکفہ کر سکتی ہے؟
جواب: حالت اعتکاف میں عاکفہ، اعتکاف کرنے والی، وہ تمام کام سرانجام دے جن سے اعتکاف نہ ٹوٹے، وہ نماز پڑھے، تلاوت کرے، درود شریف پڑھے، درس قرآن و حدیث دے۔ مسائل شرعیہ ضروریہ عورتوں کو سمجھائے اگر اجتماعی اعتکاف کی کوئی صورت ہے اور اگر تنہا ہی اعتکاف کئے ہوئے ہے تو خوب اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے اور اس کے محبوب علیہ السلام پر درود و سلام پڑھے۔ اپنے بچوں سے ضروری بات بھی کر سکتی ہے مگر، اعتکاف کی پابندی پیش نظر ہی رہے۔
سوال: عورت کم از کم کتنے دن کا اعتکاف کرے؟
جواب: بہتر یہی ہے کہ عورت، رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف کرے، اس کو اعتکاف کے لئے اپنے شوہر سے اجازت لینا ضروری ہے۔ اگر وہ اجازت دے دے تو اعتکاف کر لے۔ ہاں یہ بات یاد رہے شوہر ایک بار اعتکاف کی اجازت دے دے تو پھر روک نہیں سکتا۔ جہاں تک مطلقاً اعتکاف کا مسئلہ ہے تو اس کی بابت حضرت امام جلال الدین محمد بن احمدمَحِلّیِ، کنز الراّغبین میں رقم طراز ہیں۔
ھو مستحب کل وقت (کزالراّعبین)
اعتکاف کسی وقت بھی کر لیا جائے وہ مستحب ہے۔
اور اگر نذر مان لی جائے تو اعتکاف واجب کے درجے میں آ جاتا ہے اس وجوب کو اگر رمضان المبارک کے آخری عشرے میں پورا کیا جائے تو یہ عمل افضل قرار پائے گا اس لئے کہ اس کے علاوہ اعتکاف پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے مواظبت ثابت نہیں اگر عورت نے عشرہ یا ماہ کا اعتکاف کرنے کی نذر مانی تو اس کو پورا کرنا لازم ہو گا۔ (کنز الراّغبین ص ۱۸۲)
سوال: اگر حالت اعتکاف میں ماہواری آ جائے؟
جواب: ہمارے فقہاء نے اس امر کو بڑا بیّن کیا ہے کہ اعتکاف بغیر روزے کے نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے جب ماہواری آئے گی تو روزہ ساکت ہو جائے گا جب روزہ ختم ہوا تو اعتکاف بھی باقی نہ رہالہٰذا ایک اعتکاف اس عورت پر واجب ہوا ، اگلے سال اپنا واجب اعتکاف پورا کرے گی۔
امام جلال الدین محمد بن احمد مّحِّلی رحمۃ اللہ علیہ نے اعتکاف کی شروط کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے۔
معتکف کی شرائط:
۱۔ الاسلام اسلام یعنی مسلمان ہونا۔
۲۔ العقل عقل یعنی دماغی حالت کا درست ہونا۔
۳۔ والنقاء من الحیض حیض سے پاک ہونا۔
۴۔ النقامِنَ النفاس بچہ کی پیدائش کے بعد پاک ہونا۔
مندرجہ بالا صفات میں سے کوئی ایک چیز بھی، نہ پائی جائے تو اعتکاف موقوف ہو جائے گا۔
۱۰۔ سوال: رمضان المبارک میں عورت کے لئے صلوٰۃ التسبیح پڑھانا کیسا ہے۔ کن اوقات میں صلوٰۃ التسبیح پڑھانا منع ہے؟
جواب: رمضان المبارک میں صلوٰۃ التسبیح پڑھانا باعثِ ثواب ہے لیکن عورت مرد کی طرح نمایاں کھڑی ہو کر امامت نہیں کرے گی بلکہ عورتوں کی صف کے اندر ہی کھڑی ہو کر امامت کرے گی اگرچہ صلوٰۃ التسبیح پڑھانا جائز ہے لیکن اس کی امامت میں کراہت ہے۔ زوال کے اوقات میں نماز نہ پڑھائے۔ دوپہر کو اس طرح صلوٰۃ التسبیح کا آغاز کرے کہ زوال سے پہلے پہلے نماز مکمل کرے اور اگر وقت زوال شروع ہو جائے تو جب تک زوال ٹل نہ جائے اور وقت ظہر کا ادخال نہ ہو جائے اس وقت تک صلوٰۃ التسبیح کا آغاز نہ کرے۔
فضائل و مسائل اعتکاف:
للہ تعالیٰ قرآن حکیم میں ارشاد فرماتا ہے۔
وَ لَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَ اَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ ڈ فِی الْمَسٰجِدِ
(القرآن،البقرہ ۲: ۱۸۷)
اور عورتوں کو ہاتھ نہ لگاؤ جب تم مسجدوں میں اعتکاف سے ہو۔اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے، علامہ ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر مظہری میں رقم طراز ہیں:
یہ آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اعتکاف صرف اور صرف مسجد میں ہی کیا جا سکتا ہے، وہ مسجد بھی ایسی ہو جہاں جماعت قائم ہوتی ہو، مسجد بیت میں اعتکاف نہیں ہو گا۔ اس آیت کا اطلاق اس بات پر دال ہے کہ تخصیص پر مسجد میں اعتکاف جائز ہے اس میں مسجد حرام، مسجد نبوی شریف اور مسجد اقصیٰ کی اور اسی طرح مسجد جمعہ کی بھی قید نہیں ہے۔
امّ المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
۱۔ معتکف مریض کی عیادت کے لئے نہ جائے۔
۲۔ معتکف نماز جنازہ میں شرکت نہ کرے۔
۳۔ معتکف عورت کو ہاتھ نہ لگائے۔
۴۔ معتکف اپنی بیوی سے مجامعت نہ کرے۔
۵۔ اعتکاف والا حاجتِ ضروریہ کے علاوہ باہر نہ نکلے۔
۶۔ اعتکاف روزے کے بغیر نہیں ہوتا۔
۷۔ اعتکاف صرف مسجد جامع میں ہی ہوتا ہے
اس کے ساتھ ہی علاّمہ ثناء اللہ ابوداؤد کی حدیث وارد کرتے ہیں:
لَا اِعْتِکَافَ اِلَّا فِی مَسْجِدِ جَمَاعَۃ
اعتکاف مسجدِ جماعت میں ہی ہو گا۔ (تفسیر مظہری ،۱؍۲۱۰، مطبوعہ کوئٹہ)
۸۔ عورت کا مسجد میں اعتکاف کرنا مکروہ ہے۔ (درمختار)
۹۔ خنثیٰ مسجد بیت میں اعتکاف نہیں کر سکتا ۔ (درمختار)
۱۰۔ عورت کو اعتکاف کے لئے شوہر سے اجازت لینا ضروری ہے۔
اعتکاف اصلاً: بندے کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس تعلق کو واضح کرتا ہے جس میں فقط اپنے خالق ہی کی رضا پنہاں ہوتی ہے اس کے علاوہ اور کوئی غرض و غایت نہیں ہوتی۔ اعتکاف میں بندہ اپنے خالق کے ساتھ اپنا تعلق استوار کرتا ہے اور اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کی سچی معافی طلب کر کے آئندہ اپنے مالک اپنے خالق اللہ تعالیٰ کا وفادار بندہ بننے کا عہد کرتا ہے۔ اور اعتکاف سے فارغ ہو کر اپنی زندگی کو سراسر احکامِ ربّ تعالیٰ اور فرامینِ امام الانبیاء علیہ السلام کی مطابعت میں دے دیتا ہے۔ اعتکاف کرنے سے مقصود صرف اور صرف یہ ہے کہ بندے کا وہ تعلق جو اپنے خالق سے ٹوٹ چکا یا کمزور پڑ گیا ہے اس کو ازسر نو بحال کر دیا جائے اور آئندہ یہ تعلق ٹوٹنے نہ پائے۔ اس کی اوّل دلیل یہ ہے کہ بندہ پانچ وقت کی نماز کا پابند ہوجائے اور ساتھ ساتھ وہ تمام افعال ترک کر دے جن سے اللہ و رسول جل علا و صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ناراض ہوتے ہیں۔
اعتکاف کی لغوی تحقیق:
میں چاہوں گا، اعتکاف کی تحقیق لغوی بھی پیش کر دوں تاکہ پڑھنے والے خوب لطف پائیں اور اعتکاف کی اصطلاحی و لغوی تحقیق بھی ان کے پیش نظر رہے۔ کسی بھی موضوع پر بات کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے تمام ضروری پہلوؤں کا احاطہ کر لیا جائے اس طرزِ عمل سے بات کرنا بھی آسان ہو جاتی ہے اور بات سمجھنا بھی مشکل نہیں رہتا، یہی طرز سخن زُود اثر ہوا کرتا ہے اسی سے تبلیغ کرنا آسان ہو جاتا ہے اور تفہیم بھی جلد از جلد ہوتی چلی جاتی ہے۔علاّمہ زبیدی لکھتے ہیں۔
اِعْتَکَفَ: اَقَامَ بِہٖ وَلَازَمَہٗ وَ حَبَسَ نَفْسَہٗ فِیْہٗ لَا یَخْرُجُ مِنْہُ اِلَّالِحَاجَۃِ الْاِنْسَانِ، قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی، وَ اَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ (۱) (بقرہ ۱۸۷)
اعتکاف کا مطلب ہے۔ اپنے آپ کو الگ جگہ ٹھہرا لینا اور اقامت کو لازم و واجب قرار دے دینا، نیز خود کو ایک مخصوص مقام (مسجد) میں روک لینا اس طرح کہ وہاں سے نہ نکلا جائے مگر صرف اس صورت میں انسان کو کوئی ضروری حاجت لاحق ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ۔ یہ سب کچھ اس وقت ہے جب تم مساجد میں اعتکاف کئے ہوئے ہو۔
(تاج العروس من جواھر القاموس جلد ۲۴، ص ۹۱ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)
ہم نے اعتکاف کی تحقیقِ لغوی، علاّمہ زبیدی کی تاج العروس من جواھر القاموس سے کی ہے۔
علامہ ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنا سنتِ موکدہ ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں آیا ہے۔ نبی کریم رؤف و رحیم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم رمضان شریف کے آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے تھے یہ عمل مسلسل رہا یہاں تک کہ آپ اپنے ربّ کے حضور حاضر ہو گئے۔ اس کے بعد آپ کی ازواج مطہرات اعتکاف کرتی رہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ رسول اکرم تاجدار عرب و عجم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ رسول اکرم تاجدار عرب و عجم صلی اللہ علیہ و سلم رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ نبی کریم رؤف و رحیم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم رمضان شریف کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے لیکن ایک سال اعتکاف نہ فرمایا جب اگلا سال آیا تو آپ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔ (رواہ الترمذی، و رواہ ابواداؤد، ابن ماجہ عن ابی بن کعب رضی اللہ عنہ)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کبھی اعتکاف کرتے تھے اور کبھی نہ کرتے تھے:
ابن نافع کا کہنا یہ ہے کہ اس مسئلہ میں صحابہ کرام کا عمل صوم وصال جیسا تھا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے صرف اعتکاف پر مسلسل عمل حضرت عبد الرحمن ابن ابی بکر رضی اللہ عنھما نے کیا۔ اجلہ صحابہ کرام اعتکاف نہ بھی کرتے تھے۔ بعض حنفیہ کے نزدیک اعتکاف کرنا سنت کفایہ ہے۔ (تفسیر مظہری ، ۱ ؍ ۲۱۱)
الحمد للہ! میں نے اس مختصر سے مقالہ میں رمضان و روزہ اور اعتکاف کے فضائل و مسائل پر بات کی ہے اور اس کو اس انداز سے ترتیب دیا ہے کہ ہر خاص و عام کو اس سے خاطرخواہ فائدہ پہنچے۔ میری پوری کوشش ہے کہ اس امّت میں انقلاب صالح کی راہیں ہموار ہو جائیں اور یہ ملّت پھر بامِ عروج پر متمکن ہو۔آمین
بجاہ سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ و الہ و سلم
محمد ارشد القادری
کتاب: فضائل و مسائلِ رمضان، روزہ، اعتکاف
از قلم مفتی اعظم پاکستان علامہ مولانا محمد ارشد القادری
(بانی جامعہ اسلامیہ رضویہ لاہور، اولڈ راوین، شارح ترمذی)