منگل، 30 جولائی، 2013

سوشل میڈیااور کاپی رائٹس

شب برات 1434 ہجری بمطابق24جون 2013 عیسوی سوموار رات دس بج کر بارہ منٹ پرکاپی پر لکھنا شروع کیا اور گیارہ بج کر اکیاون منٹ پر مکمل کیا۔
میں نیا نیا دفتر میں بھرتی ہوا تو ایک رات میں اپنے کمرے سے باس کے کمرے میں گیا اور ان سے پوچھا کہ کاپی رائٹس کی تفصیل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہا ں کسی کو ہیومن رائٹس کی فکر نہیں تمہیں کاپی رائٹس کی پڑی ہو ئی ہے۔ انسانی حقوق کی بات بھی کر لیتے ہیں پہلے میری ساتھ ہونے والے کاپی رائٹس معاملے کو دیکھ لیں۔ میں نے ابتداء میں اپنے بلاگ پر وکیپیڈیا (اردو) اور اِدھر اُدھر سے چند تحریریں شایع کیں۔ اور باقاعدہ حوالے یا لنک دیتا رہا۔ کسی دوسرے بلاگ سے کاپی شدہ مواد کے ساتھ لکھاری کا نام ضرور لکھتا رہا۔ حتیٰ کہ جاپان سے خاور کھوکھرکو میں نے ایک دن وزٹ کی دعوت دی۔ انہو ں نے مجھے اسلام کا دشمن وغیرہ اور چور قرار دیا۔ میں اس سے پہلے بھی لکھتا تھا۔ ماہنامہ نو ائے منزل لاہورمیں اس سے قبل میری تحریر یں شائع ہوتی رہتی تھیں۔ میں نے بعد میں تصاویری شکل میں اپنے کالم مثلاً ’’نصیحت والی توبہ کی ضرورت‘‘ وغیرہ اپنے بلاگ پر پیسٹ کرنا شروع کر دیے۔ اردو محفل فورم میں جا کر میں اردو لکھتا رہتا اور اسے اپنے بلاگ پر پوسٹ کرتا رہتا۔ بعد ازاں انٹرنیٹ سے ملے ہوئے دوستوں مثلاً انکل اعجاز عبید اور حسیب نذیر گل کی کاوشوں اور سمجھانے سے ’’پاک اردو انسٹالر‘‘اور http://urdu.ca/ تک جاپہنچا۔ تب مجھے ان پیج سے یو نی کو ڈ میں تبدیل کرنا آ گیا۔ میں نے نوائے منزل والوں سے (اپنی) ان پیج تحاریر کو لے کر کنورٹ کر کے بے در یغ اردومحفل فورم ، دیگر اردوسوشل ویب سائٹس اور اپنے بلاگ پر پوسٹ کرنا شروع کر دیا۔ اردو محفل فورم پر چونکہ فعال ممبران ہیں۔ اس لیے وہاں خوب بحث مباحثوں میں حصہ لیتا رہا اور وہاں اپنے کالم/مضمون تنقید کے لیے پیش کرتا رہا۔ یو نی کوڈ کاپی/پیسٹ میں آسان ہے۔ لہٰذا میرے بلاگ پر آج تک ’’غازی علم دین شہید‘‘ وکیپیڈیا سے کاپی کیا ہواہے۔ (اب جو مضامین وکیپیڈیا سے کاپی شدہ ہیں وہ وہاں بھی میں نے ہی لکھے ہیں۔ حوالہ) لیکن کیا مجال ہے کہ میں نے آج تک کسی کا ایک جملہ بھی کاپی کر کے اسے اپنا قرار دیا ہو۔ اب دیکھیں معاملے کا دوسر ارُخ!!! چونکہ میرے پاس انٹرنیٹ استعمال کرنے کا و قت انتہا ئی کم ہوتا ہے میں نے اپنی کئی تحریروں کو گوگل سرچ میں تلاش کر کے چیک کیا۔ مثلاً میری زندگی کی پہلی باضابطہ تحریرجونوائے منزل میں چھپی بھی تھی ’’تعلیمی تنزلی آخر کیوں؟‘‘اس کو سنوارنے میں میری رہنمائی صوفی پروفسیرغلام سرور صاحب نے کی تھی اور اسے یہ مناسب ساعنوان میگزین کے چیف ایڈیٹرجناب محمد کامران اختر نے دیا تھا۔ آج ابھی گوگل میں سرچ کر کے دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ تحریر میرے نام کے بغیر فیس بک کے دو صفحات پر ملتی ہے۔ حتیٰ کہ میرے درخواست کر نے کے باوجود بھی میرا نام وہاں نہیں لکھا گیا۔ مجھے تو فیس بک پر ا حتجاج بھی نہیں کرنا آتا۔ محترم محمد بلال محمود (م بلال م) کی ویب سائٹ mbilalm.com پر اردو کی خدمت کا ایک سنہرا باب رقم ہو رہا ہے۔ ان کی تحریریں پڑھ کر بہت کچھ سیکھنے کو ملا ایک بار میرے تاثرات جو ان کی ایک تحریر کے بارے میں تھے انہوں نے پبلش کرنے سے قبل ہی حذف کردیئے۔ میں نے بہت عرصہ بعد ان کی  کاپی رائٹس کی حکمت عملی  پڑھی پھر معلوم ہوا کہ میرے تاثرات ان کی پالیسی سے ہٹ کر تھے۔ ان کی جملہ حقوق کی پالیسی بڑی زبردست ہے۔ اب میر ااپنا ذہن بھی یہی ہے کہ تقریباً انہی الفاظ کو اپنی کاپی رائٹس پالیسی قرار دے دوں۔ میں چونکہ جذباتی قسم کا انسان واقع ہوا ہوں۔ لہٰذامیں نے افکار مسلم کے نام سے کئی بلاگز بنا ڈالے اور کئی سوشل اردو ویب سائٹس کی رکنیت اختیار کر لی۔ سر نعیم قیصر کے لیے بھی ایک بلاگ بنا ڈالا ۔تعلیم وتر بیت اسلامی پاکستان کے لیے کئی بلاگ بنا ڈالے وغیرہ وغیرہ۔ ایک بار سر نعیم قیصر کی ایک نعت کو گوگل میں سر چ کیا تو معلو م ہوا کہ کسی ویب سائٹ پر شاعر کے نام کے بغیر موجود ہے۔ ان کی ویب سائٹ پر رابطہ کیا تو انہوں نے جواب دیا سوشل میڈیا پر یہ سب چلتا رہتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن مجھے خاور کھوکھر یاد آ گیا۔ جس نے میرے اقد ام کو چوری کے مشابہ قرار دیا تھا۔ پھر انٹرنیٹ کی دنیا میں میں شاید پہلا بندہ میں تھا جسے اردو دان طبقے کو ہندی سکھانے کا مفت کا خبط سوار ہوا (تحقیق: میں اس اقدام کا حامل پہلا نہ تھا اگرچہ پہلے والے مجھ سے بھی کم لکھ کر گئے 31 دسمبر 2013 کو یہ اپ ڈیٹ کیا) اور میں نے محنت کر کے اس کا آغاز کیا۔ لیکن اس کے بلاگ، اردومحفل فورم اور القلم فورم کے باوجود میں اس کو کسی مکمل شکل میں پیش نہ کر سکا۔ اس میں میری اپنی کوتاہی یا غلطی سمجھ لیں۔ کیو نکہ میں آج تک اپنا انٹرنیٹ کنکشن نہیں لگوا پایا (تصحیح: اب 26 دسمبر 2013 سے لگ چکا ہے)۔ اور دفتر کے اوقات میں سے انتہائی کم وقت سوشل میڈیا کو دے پاتا ہوں۔ بعض لوگوں نے اس ہند ی زبان والی محنت کو اپنی میراث سمجھ کر بے در یغ میرے نام کے بغیر اپنی ویب سائٹس اور فیس بک پر ’’اردو سے ہندی سیکھیے‘‘کے عنوان سے شائع کر دیا۔ اگر وہ اتنے ہی تحقیقی اور معیاری مقالہ جات کا دم بھر تے ہیں تو ان اسباق سے اگلا سبق لکھ کر کام کو جاری رکھیں ورنہ کاپی /پیسٹ کے ماہر تو میرے دور میں اسلام اور امت کے وارث بنے ہوئے ہیں اور ان کی تصانیف کی فہرست میں روز افزوں اضافہ ہوتا جا رہا ہے یہ رہی کاپی رائٹس کی کہانی !!! اس کے علاوہ ابھی تک میر ے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ اپنی دو سو سے زائد بکھری ہوئی تحاریر کو چیک کرتا پھروں کہ کس کس نے ان پر اپنا جتانے کی کاوش فرمائی ہے۔ ہاں اتنا ہے کہ اس سے مجھے یہ سمجھ ضرور آئی کہ اپنے قیمتی قسم کے خیالات پر ڈاکہ ڈلوانے کے لیے’’آبیل مجھے مار‘‘ کا مصداق نہ ٹھہروں۔ کیونکہ کسی نے کہا تھا کہ علم چوری نہیں ہوتا اس پر ڈاکہ پڑ تا ہے۔ میں تو مو بائل پر آیا ہوا میسیج فارورڈ کرنا گوارا نہیں کرتا۔ خود اپنے خیالات اور تجربے لکھ کر دوستوں کو بھیجتا ہوں۔ بہرحال میری اس تحریر سے تمام کاپی پیسٹ کرنے والوں کو پیغام ہے کہ خدارا کسی کے حقوق پر ڈاکہ نہ ڈالیں اخلاقی طور پر اجازت لیں اور اطلاع دے کر لکھاری کو اعزاز کے ساتھ دنیا کے سامنے لائیں۔ ورنہ بالآخر ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ کس کی لکھت ہے۔ صدیوں بعد بھی تحقیق ثابت کر دیتی ہے کہ فلاں صاحب نے کتنی کتابیں خود لکھی ہیں اور کتنی لکھی لکھائی ان کے نام منسوب کی گئیں۔ اب رہ گئی بات انسانی حقوق یعنی (human rights) کی توان شاء اللہ میر ی اگلی تحریر اسی موضوع پر ہوگی۔ 

11:51pm