اس دور کے حق گو قلم کا روں کایہ المیہ ہے کہ وہ بات کو کہاں سے شروع کریں اور کہا ں سے نہ کریں۔ بے انتہامسائل، بے شمار موضوعات منہ کھولے ذہنوں پرسوار ہیں اور لاکھوں سوال تشنہ لب ہیں جن کے جواب ندارد ہیں۔ یہ مسئلہ صرف حق گو قلم کاروں کے ساتھ ہے ورنہ’’پانی میں مد ھانی ‘‘ تو ہر جگہ ملتی ہے اور اس کے مقاصد بھی کچھ کچھ سمجھ میں آتے ہیں. میں چونکہ روزنامہ نوائے وقت کا ریڈر ہوں اور اس کو دیگر اخبارات سے اچھا بھی سمجھتا ہوں۔ پھر بھی ہفتوں انتظار رہتا ہے کہ کو ئی اچھا کالم پڑھنے کو ملے اب میری اس تنقید سے نجانے پڑھنے والوں یا آگے بتانے والوں اور ان سے سننے والوں کے ذہن میں کیا خیال آئے۔ لیکن مجھے بہت سی باتیں انتہائی افسوس سے لکھنا پڑتی ہیں۔ لکھتے وقت لکھاری کو بہت سے پہلوؤں کا خیال رکھنا پڑتا ہے اور بہت سے طبقوں، حلقو ں اور فرقوں کی ناراضگی کا لحاظ اور پاس رکھنا پڑتا ہے۔ مضمون نگار اور کالم نگار کو پیٹ بھی لگا ہوا ہے جس کا رازق وہ اللہ کے سوا کسی اور کو جانتا ہے اور اُسے اپنے بیوی بچوں کی جان بھی عزیز ہوتی ہے۔ ورنہ کیا بات ہے جوکر نہیں آتی۔ مجھے انسانی حقوق پربحث کرنا تھی لیکن شاید کسی اور طرف نکل گیا۔ نہیں جناب! یہ انسانی حق ہے کہ آپ کے دور کا لکھاری سچ لکھے اورحق بات کو ڈنکے کی چوٹ پر کہے ورنہ بتایا جائے کہ کتنے کالم برما کے مسلمانوں کے حق میں شائع ہوئے۔ کیا وہاں کوئی ’’ملالہ‘‘ نہیں ہے۔ اِدھر ہونٹوں کی لالی ہے اُدھر جان کے لالے ہیں۔ کیا وہاں کوئی ’’بلاول‘‘ یتیم نہیں ہوا۔ اور کیا وہاں کسی ’’آصفہ‘‘نے اپنی والدہ کی یاد میں درد بھری نظم نہیں لکھی
نہیں جناب! ایک ممبرآف قومی اسمبلی کی گھڑی کی قیمت کا موضوع مسلمان انسانوں کی جان کی قیمت کے موضوع سے زیادہ قیمتی ہے۔ اور’’بھٹو کی بیٹی آئی تھی‘‘ کا موضوع ’’کالا باغ ڈیم ‘‘ سے زیادہ جذبات کو کیش کروانے کی منڈی میں مہنگے بھاؤ بکتا ہے۔ موبائل پر وِد ہولڈنگ ٹیکس کے اضافے کا موضوع اسلامی اقدار کے نکلتے ہوئے جنازے سے زیادہ مقبولیت رکھتا ہے۔ ادا کاراؤں کے حالات زندگی اور دیگر ممالک کے عجیب وغریب کتے ،بلیاں (مزاحیہ خبریں) مسلم ممالک میں ارزاں ترین بہتے ہوئے خون سے زیاد ہ دلکش اور خوش نما ہیں۔ غریبوں کو بھیک اور نوجوانوں کو قرضے کا عادی بنانا، تعلیمی اداروں کے بجٹ کو مستحکم کرنے سے زیادہ ضروری ہے تا کہ غریب کا بچہ تعلیم حاصل نہ کر لے اور سر اٹھا کر جینا سیکھ نہ لے۔ الیکٹرانک میڈیا پر قوم و ملک کی ا صلاح و ترقی کے لیے علمی اور تحقیقی پروگراموں کی بجائے کافر ملکوں کے نیم عریاں رقص دکھانا زیادہ ضروری ہیں۔ اور میوزک کنسرٹ کو اس قوم کا کلچر بتانا وقت کی اشد ضرورت بنی ہوئی ہے۔ محترم ! معاف کیجیے گا! سچ کڑوا ہی لگتا ہے لیکن میں سچ کا کاروبار کس منڈی میں کرنے آگیا۔ یہاں تو چور، ڈاکو، ٹھگ، جھوٹے، مال ودولت کے حریص اور ہوس کے پجاری رہتے ہیں۔ یہاں تو ضمیر کی عدالت کو دیس نکالا دیا جا چکا ہے۔ انسانی حقوق کے نام پر درندوں نے ’’دیہاڑی‘‘لگانا شروع کر دی ہے اور اماوس کی اس کالی رات کا اندھیرا مزید گہرا کرنے اور اسے مزید گھٹا ٹوپ بنانے کی سازشیں اپنے عروج پر ہیں۔ یہاں مسجد وں اور تعلیمی اداروں کے نام پر مجرموں کے لیے پناہ گاہیں موجود ہیں۔ مذہب کے نام پر فرقہ پرستیاں عروج پر ہیں اور سیاست کے نام پر لا دینیت کا پر چار کیا جا رہا ہے۔ صحافت کے نام پر کالا دھندہ ( بلیک میلنگ) ہو رہا ہے اور ثقافت کے نام پر قوم کے اخلاق کو برباد کیا جارہاہے۔ دانشوری کے نام پر استبدادیت کا پہرہ ہے اور حکومت کے نام پر اقربا پروری کا کھیل جاری ہے۔ تعلیم کے نام پر قوم کو مفلوج کیا جا رہا ہے۔ اور صحت کے میدان میں کوڑا کرکٹ پیکٹوں میں ’’ادویہ‘‘ کے نام سے فروخت ہو رہا ہے۔ ریلیف کے نام پر مہنگائی کے ڈرون گرائے جا رہے ہیں اور غریب دوستی کے نام پر اپنی جیب گرم کی جا رہی ہے سہولیات کے نام پر داد عیش دی جا رہی ہے اور ترقی کے نام پر لوٹ مار جاری ہے ایسے حالات میں کیسے ممکن ہے کہ ہمارے دور کا قلم کار اپنی جان کی فکرنہ کرے اور پیٹ کا جہنم بھر نے کے لیے ’’ڈکٹیشن‘‘ کو تحقیق کا نام نہ دے۔ میں ایک بار پھر معذرت خواہ ہو ں کہ مجھے انسانی حقوق پر بات کرنا تھی اور ابھی تک قلم کار تک اُ لجھا ہوا ہوں۔ گزشتہ ایک کالم میں میں نے کاپی رائٹس پر بحث کی تھی۔ اس سے آپ کو اندازہ ہو چکا ہوگا کہ جھوٹ اور دھوکے کے بازار میں کسی کے قیمتی خیالات کی کیا قیمت لگتی ہے! سر نعیم قیصرکا ایک شعر مجھے نہیں بھولتا
نہیں جناب! ایک ممبرآف قومی اسمبلی کی گھڑی کی قیمت کا موضوع مسلمان انسانوں کی جان کی قیمت کے موضوع سے زیادہ قیمتی ہے۔ اور’’بھٹو کی بیٹی آئی تھی‘‘ کا موضوع ’’کالا باغ ڈیم ‘‘ سے زیادہ جذبات کو کیش کروانے کی منڈی میں مہنگے بھاؤ بکتا ہے۔ موبائل پر وِد ہولڈنگ ٹیکس کے اضافے کا موضوع اسلامی اقدار کے نکلتے ہوئے جنازے سے زیادہ مقبولیت رکھتا ہے۔ ادا کاراؤں کے حالات زندگی اور دیگر ممالک کے عجیب وغریب کتے ،بلیاں (مزاحیہ خبریں) مسلم ممالک میں ارزاں ترین بہتے ہوئے خون سے زیاد ہ دلکش اور خوش نما ہیں۔ غریبوں کو بھیک اور نوجوانوں کو قرضے کا عادی بنانا، تعلیمی اداروں کے بجٹ کو مستحکم کرنے سے زیادہ ضروری ہے تا کہ غریب کا بچہ تعلیم حاصل نہ کر لے اور سر اٹھا کر جینا سیکھ نہ لے۔ الیکٹرانک میڈیا پر قوم و ملک کی ا صلاح و ترقی کے لیے علمی اور تحقیقی پروگراموں کی بجائے کافر ملکوں کے نیم عریاں رقص دکھانا زیادہ ضروری ہیں۔ اور میوزک کنسرٹ کو اس قوم کا کلچر بتانا وقت کی اشد ضرورت بنی ہوئی ہے۔ محترم ! معاف کیجیے گا! سچ کڑوا ہی لگتا ہے لیکن میں سچ کا کاروبار کس منڈی میں کرنے آگیا۔ یہاں تو چور، ڈاکو، ٹھگ، جھوٹے، مال ودولت کے حریص اور ہوس کے پجاری رہتے ہیں۔ یہاں تو ضمیر کی عدالت کو دیس نکالا دیا جا چکا ہے۔ انسانی حقوق کے نام پر درندوں نے ’’دیہاڑی‘‘لگانا شروع کر دی ہے اور اماوس کی اس کالی رات کا اندھیرا مزید گہرا کرنے اور اسے مزید گھٹا ٹوپ بنانے کی سازشیں اپنے عروج پر ہیں۔ یہاں مسجد وں اور تعلیمی اداروں کے نام پر مجرموں کے لیے پناہ گاہیں موجود ہیں۔ مذہب کے نام پر فرقہ پرستیاں عروج پر ہیں اور سیاست کے نام پر لا دینیت کا پر چار کیا جا رہا ہے۔ صحافت کے نام پر کالا دھندہ ( بلیک میلنگ) ہو رہا ہے اور ثقافت کے نام پر قوم کے اخلاق کو برباد کیا جارہاہے۔ دانشوری کے نام پر استبدادیت کا پہرہ ہے اور حکومت کے نام پر اقربا پروری کا کھیل جاری ہے۔ تعلیم کے نام پر قوم کو مفلوج کیا جا رہا ہے۔ اور صحت کے میدان میں کوڑا کرکٹ پیکٹوں میں ’’ادویہ‘‘ کے نام سے فروخت ہو رہا ہے۔ ریلیف کے نام پر مہنگائی کے ڈرون گرائے جا رہے ہیں اور غریب دوستی کے نام پر اپنی جیب گرم کی جا رہی ہے سہولیات کے نام پر داد عیش دی جا رہی ہے اور ترقی کے نام پر لوٹ مار جاری ہے ایسے حالات میں کیسے ممکن ہے کہ ہمارے دور کا قلم کار اپنی جان کی فکرنہ کرے اور پیٹ کا جہنم بھر نے کے لیے ’’ڈکٹیشن‘‘ کو تحقیق کا نام نہ دے۔ میں ایک بار پھر معذرت خواہ ہو ں کہ مجھے انسانی حقوق پر بات کرنا تھی اور ابھی تک قلم کار تک اُ لجھا ہوا ہوں۔ گزشتہ ایک کالم میں میں نے کاپی رائٹس پر بحث کی تھی۔ اس سے آپ کو اندازہ ہو چکا ہوگا کہ جھوٹ اور دھوکے کے بازار میں کسی کے قیمتی خیالات کی کیا قیمت لگتی ہے! سر نعیم قیصرکا ایک شعر مجھے نہیں بھولتا
تھجے سچ بولنے کا شوق تھا نا
صلیب ودارتیر ے منتظر ہیں
صلیب ودارتیر ے منتظر ہیں
شب بر ات 1434، 24جون 2013، سوموار 11:53 pm سے لے کر 01:00am ،25-06-2013 تک لکھا
زبردست یار
جواب دیںحذف کریںدل جیت لیا
کیا کہنے ، اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
ویسے 21 جنوری کو کو پوسٹ ہونے والی فدوی کی ایک پوسٹ ضرور پڑھیے گا
کیونکہ کچھ ایسا ہی میں نے بھی محسوس کیا تھا کسی زمانے میں
جزاک اللہ جزاک اللہ جزاک اللہ
شکریہ پا جی!
حذف کریں