اتوار، 25 نومبر، 2012

تخلیق انسان و مسئلہ ارتقاء 08

رہنمائے زندگی۔ جلد اول ۔ تخلیق کائنات و ارتقاء انسان ملک زوار حسین



آٹھویں قسط
ہو مو سپی نیس کی چند قسمیں قرار دی گئی ہیں جن میں سے دو نیندر تھل اور کر ومیگن انسان تو ختم ہو گئے ہیں مگر اس سلسلے کا تیسرا نمائندہ جدید انسان باقی ہے اس اعتبار سے آج سوائے موجودہ انسان کے خاندان کی کوئی بھی نوع یا جدید انسان کا کوئی بھی مورث اعلیٰ باقی نہیں رہ گیا ہے ۔ لہذا اس موقع پر ذہین انسان کے د و نا پید قسموں کا مختصر اَ تذکرہ کیا جارہا ہے ۔
نیندر تھل انسان :
نیندر تھل کا نام وادی نیندر سے ماخوذ ہے جو مغربی جرمنی کے ایک مقام سے قریب واقع ہے جہاں پر انسانی ڈھانچے کے بچے کچھے آثار کا انکشا ف پہلی بار ۱۸۵۲ء میں ہو ا تھا ۔ اس بنا پر اس کو نیندر تھل انسان کے نام سے مو سوم کر دیا گیا ہے ۔ نیندر تھل انسان یورپ کے بیشتر علاقوں کے علاوہ بحیرہ روم کے اطراف و اکناف میں یخ بستگی کے شدید اور آخری دور میں زمین پر آج سے تقریبا ایک لاکھ دس ہزار سال پہلے نمودار ہوا وہ مضبوط جسم کے انسان تھے اور ان کا قد اوسطا 5.5فٹ تھا ۔ ان کے دماغ بڑے سائز کے تھے اوروہ پتھر کے بہت اچھے اوززار بناتے تھے جن کے ساتھ وہ شکار بھی کرتے تھے ۔ اور وہ آگ کا استعمال بھی جانتے تھے اور بغیر کسی شک وشبہ کے مذہب کے ساتھ لگاؤ رکھتے تھے اور اپنے مرُ دوں کو بڑے اہتمام کے ساتھ زمین میں دفن کرتے تھے جس سے اس بات کا گمان ہو تا ہے کہ وہ مو ت کے بعد زندگی کا تصور رکھتے تھے ۔ ان کی عورتیں گھروں میں رہتی تھیں اور مرد شکار کے لئے نکلتے تھے اور یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اس دور میں مر د اور عورتوں کے درمیان لباس میں فر ق و امتیاز ظاہر ہوا۔
یور پ میں حجری دور کا کلچر تقریبا ۲۵ ہزار سال پہلے دفعتا غائب ہو گیا اور نیندر تھل انسان کی جگہ کر ومیگن انسان نے لے لی ۔ نیندر تھل انسان اچانک اور دفعتا روئے زمین سے کس طرح غائب ہو گیا یہ ایک ایسا معمہ ہے جواب تک حل نہیں ہو سکا اور اس کا صحیح حل اب تک سامنے نہیں آیا ۔
کرو میگن انسان :
ہو مو سپی نینس یا ذہن انسان کا دوسرا نمائندہ کر ومیگن انسان مانا جاتا ہے اور یہ نام اس بنا پر دیا گیا ہے کیونکہ فرانس کی جس غار میں پہلی مرتبہ ۱۸۶۸ء کے نمونے ملے تھے اس کا نام کرو میگن تھا اور ایک اندازے کے مطابق ان کا ظہور کوئی ۳۵ ہزار سال قبل از مسیح ہو ا جب کہ پتھر کا زمانہ ( حجری اوزار کے اعتبار سے ) ترقی اور عروج پر تھا ۔ کر ومیگن لو گوں کے سرلمبے ، پیشانیا ں چھوٹی ، چہرے بہت چوڑے ، آنکھیں گہرائی میں اور کا سۂ سر کی گنجائش ۱۶۰۰ مکعب سینٹی میٹر تھی ان کے قد لمبے تھے او ان کا دور انداز ۳۵ ہزار سے لے کر ۱۰ ہزار قبل از مسیح تک تھا ۔ کر ومیکن انسان موجو دہ انسان سے قدرے مختلف تھے اور گروہ کی شکل میں رہتے تھے ۔ خانہ بدوش قبیلے غذا کی تلا ش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ گھومتے تھے ۔ کر ومیگن انسان کا اچانک غائب ہو جانا ایک پیچدہ سوال ہے تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ کرو میگن نسل مابعد کی یور پین آبادیوں میں جذب ہو گئی مگر اس کے برعکس یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نیندر تھل انسان ہی کی طرح کر ومیگن انسان بھی ناپید ہو گیا ۔
انسانی ارتقاء کی گم شدہ کڑی :
برکلے یو نیورسٹی آف کیلی فورنیا کے قدیم حیاتیا ت کے ماہر ٹم وہائٹ کی زیر قیادت ادیس آبابا ( ایتھو پیا ) میں ایک حالیہ تحقیق جو کہ جو لائی ۲۰۰۳ میں منظر عام پر آئی ہے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ موجو دہ دور کی انسانی نسل کے آباؤ اجداد کا تعلق ایتھو پیا سے تھا اور اس دریافت سے انسانی نسل کی تاریخ تیس ہزار سا ل پیچھے پہنچ جاتی ہے ۔ سائنسدانوں کے مطابق انسانی ارتقا کی ٹوٹی ہوئی کڑی مل گئی ہے کیونکہ آج سے پہلے انہیں کبھی بھی ۳لا کھ سے ایک لاکھ سال قبل کے انسانی رکاذات نہیں مل سکے تھے اور حقیقت میں اس دور میں زندگی گزارنے والے انسان ہی مو جو دہ انسان کے بزرگ تھے اس لئے ماہرین اس تحقیق کو بڑی اہمیت دے رہے ہیں ۔
اس جدید تحقیق کی بنیاد ادیس آبابا ( ایتھو پیا ) کے شمال مشر ق میں ۱۴۰ میل دور ہر ٹو (Herto)گاؤں کے قریب کھدائی کے دوران ۲ بڑوں اور ایک بچے کے رکاذات ملے ہیں اور یہ رکا ذات اب تک دریافت ہونے والے قدیم ترین انسانوں کے ڈھانچے ہیں ۔ چھ برس کی محنت و تحقیقات کے بعد ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ یہ انسان آج سے 154000سے 160000قبل سالوں کے درمیان مرے تھے ۔ ان معلومات انسانی ارتقاء کے اس اہم دور پر روشنی پڑتی ہے جس میں انسان کی مو جو دہ نسل وجود میں آئی اور تما م کرہ ارض پر پھیل گئی ۔ اس دریافت سے اس نظریئے کو بھی تقویت ملی ہے کہ موجودہ انسانی نسل کی ابتدا افریقہ سے ہوئی اور پھر یہ نسل تمام دنیا میں پھیل گئی اور ایسا نہیں ہو ا کہ انسانی نسل نے دنیا کے مختلف علاقوں میں ارتقا کی منازل طے کی ہوں ۔ اس دریافت کا تجزیہ کرنے سے اس امر کی بھی تصدیق ہو تی ہے کہ موجودہ انسانی نسل کا تعلق Nenderthal manسے نہیں بلکہ انسانی شجرے کی ایک اور شاخ سے ہے جسے ہومو سپینس ایڈ لنو کہتے ہیں ۔ موجود انسانی نسل کا تعلق ہو مو سپینس سے ہے اور یہ ہر دوایک ہی قسم سے تعلق رکھتی ہیں ۔
ہرٹو انسان سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ 130000سال پہلے افریقہ کے سوا کسی اور علاقے میں انسان مو جو د نہیں تھا ۔ اس لئے یہ بات ناممکن ہے کہ مو جودہ انسان کا یورپ کے Nenderthals سے تعلق تھا ۔ ہر ٹوکی رکا ذات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی شکلیں آج کے انسان کی طرح تھیں اگر چہ وہ نسبتاَ سائز میں بڑی تھیں ۔ ان کے چہر ے چپٹے تھے اور Nenderthalsیا شروع کے دوسرے انسانوں کے مقابلے میں آج کے انسان کے مشابہ تھے ۔ برکلے یٹم کے رکن ہو ویل نے بتایا کہ رکاذات یقیناًNenderthalsکی نہیں ہیں اور ان سے پتہ چلتا ہے کہ موجودہ انسان کا ارتقا افریقہ ہی میں ہوا ۔ اس لئے یہ بھی ثابت ہو تا ہے کہ مو جو دہ انسان کے ارتقا میں Nenderthalsکا کوئی مرحلہ نہیں آیا ۔
ہر ٹو کمیونٹی شکا ر پر زندگی بسر کرتی تھی اور یہ لو گ میٹھے پانی کی جھلیوں کے کنارے آباد تھے ۔ ان جھیلوں میں مچھلیاں ، مگر مچھ اور دریائی گھوڑے موجود تھے اور وہ دریائی گھوڑوں کے بچوں کا شکار کرتے تھے۔ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ موجودہ انسان کا ذہنی ارتقا 70000سے 100000سال قبل ہو ا لیکن ارتقا کا عمل کئی ہزار سال اس سے پہلے ہو چکا ہو گا۔ اس جدید تحقیق نے انسانی ارتقا کے ریکارڈ میں حائل خلا پُر کر دیا ہے اور اس نظریہ کی تصدیق بھی کردی ہے کہ موجودہ انسان کی ابتدا افریقہ سے ہوئی ۔ اگر مزید تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو جائے کہ کرو میگن آج باقی نہیں رہی بلکہ پوری طرح ناپید ہو چکی ہے تو پھر اسلامی نقطہ نظر سے ’’ آدم ‘‘ کے تعین میں کوئی دشواری نہیں ہو گی بلکہ جدید انسان یا موجودہ ہو مو سپی نیس کا اولین نمائندہ ہی آدم قرار پائے گا اور اب تک کی تحقیقات کی رو سے بھی یہی بات زیادہ ترین قیاس معلوم ہوتی ہے اور اس کا ظہور کم و بیش دس بارہ ہزار سال قبل از مسیح ہو ا ہو گا۔
سائنسدانوں اورماہرین کے مندرجہ بالا تجزیات ، قیاسات اور مفروضات سے یہ عیاں ہے کہ آج سے تقریبا ۳۔۲ لاکھ سال پہلے انسان نما جاندار جو دو ٹانگو ں پر چلتے پھر تے تھے اور کھلے میدانوں میں
زندگی کے اچھے واقف اور عادی تھے جنوب مشرقی افریقہ میں رہتے تھے اور چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹ کر شکار کرتے تھے ۔ شکار اور خوراک کی تلا ش میں وہ آہستہ آہستہ گردو نواح میں پھیلتے گئے اور اسی طرح وہ افریقہ سے نکل کر وسط ایشیا میں داخل ہوئے ( جہاں انھو ں نے اپنے ان مٹ اشارات چھوڑے ) ۔ سفر کرتے کرتے براعظم ایشیا کے اضافی جنوبی حصہ جو کہ آج کل جزیرہ جاوا کے نام سے مشہور ہے پہنچ گئے جہاں پر انھوں نے اپنا قیام کیا جس کا ثبو ت حاصل شدہ فاسلز مہیا کرتی ہیں ۔ جزیرہ جاوا میں لاکھو ں سال قیام کے دوران ان انسان نما جانداروں کا دماغی حجم 450-650مکعب سینٹی میٹر سے بڑھ کر اوسط 850مکعب سینٹی میٹر ہو گیا اور ان میں سے جو چین کی طرف ہجرت کر گئے ان کا دماغ کا سائز 1000مکعب سینٹی میٹر تک ہو گیا ۔

تخلیق انسان و مسئلہ ارتقاء 07

تخلیق زندگی 01

تخلیق انسان و مسئلہ ارتقاء 04

کے بعد ساتویں قسط
(۱) راما پیتھی کس : (Rama Pathecus)


اس ( انسان نما بند ریا بندر نما انسان ) کا زمانہ تقریبا ستر لاکھ سال قبل ازمسیح مانا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ قد میں چھوٹا ( تقریباَ چارفٹ ) تھا مگر اس نوع کا کوئی ڈھانچہ نہیں مل سکا جس کی بنا پر اس کے جسم کا صحیح تعین کیا جا سکے ۔ البتہ اب تک صرف جبڑوں اور دانتوں کے کچھ جزوی حفوری ٹکڑے ہی مل سکے ہیں جن کی بنیاد پر مفروضہ قائم کیا گیا ہے۔ چونکہ اس کے بعد والی نوع یعنی ’’ آسٹرالو پیتھی کس ‘‘ دو پاؤں پر چلنے کی صلا حیت پیدا کر چکی تھی ۔ اس لئے یہ اشارہ ملتا ہے کہ چار پیرو ں کی بجائے دو پیروں پر چلنے کی تبدیلی شاید اسی ابتدائی نو ع ’’ راما پیتھی کس ‘‘ کے دور میں ہوئی ہو گی ۔ اس بنا پرا س کا تعلق حیاتیاتی اعتبار سے انسانی خاندان میں کیاجاتا ہے ۔

حال ہی میں امریکہ کی نیشنل سائنس فاؤنڈیشن (NSF)کے ارکان جو پچھلے چالیس سال سے ایتھو پیا کے مرکزی علاقے اداش کے صحرا میں سرگرداں تھے انھوں نے ایک ایسے انسان کی ہڈیاں دریافت کی ہیں جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ یہ انسانوں کا جدا مجد ہو سکتا ہے ۔ یہ انسان ۵۰ سے ۶۰ لاکھ سال قبل اس زمین پر موجود تھا۔ NSFکے ماہرین کے مطابق ان انسانی ہڈیوں کی دریافت سے ڈارون کے نظریئے کو مزید تقویت حاصل ہوتی ہے کہ انسان ابتدا میں بندر تھا کیونکہ ان ہڈیوں کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ یہ انسان چمپنزی سے قدرے مماثلت رکھتا تھا ۔ اس کے چہرے اور ہاتھ پیروں کی بناوٹ موجود ہ انسانو ں سے مختلف اوربندروں کی ترقی یافتہ شکل کہی جاسکتی ہے۔ یہ انسان قدرے جھک کر چلتا تھا اس کے دانت اور جبڑے بہت مضبوط اور بڑے تھے ۔

(۲) آسٹرالو پیتھی کس :(Australo Pathecus)

لا طینی زبان میں اس کے معنی ’جنوبی بندر ‘ کے ہیں کیونکہہ اس کی دریافت پہلے وہاں ہوئی ۔ ۱۹۲۴ء میں ریمانڈ ڈارٹ جو جنوبی افریقہ کی وٹو اٹر سینڈ یونیورسٹی میں اناٹمی کے پروفیسر تھے انھوں نے تونگ کی غار جو کہ ہانسبرگ سے ۲۵۰ میل کے فاصلہ پر ہے میں پائے گئے فاسلز سے اندازہ لگایا ہے کہ وہ ہڈیاں اور دانت کسی انسان نما سیدھا چلنے والے جاندار کی تھیں جو کہ موجو دہ زمانے سے کئی ملین سال قبل اس علاقے میں بستے تھے اور قیاس کیا کہ وہ موجودہ انسان کے پہلے آباؤ اجدادہوں گے ۔ بعد میں ڈاکٹر لوئیس لیکی اور اس کی بیوی نے ۱۹۳۱ء سے ۱۹۷۲ء تک تنزانیہ میں بھی اسی قسم کا انکشاف کیا ۔ اور اپنی معلومات کے پو ٹا سیم آرگون ٹسٹ سے ان کی عمر تقریبا 1.75ملین سال مقرر کی جو کہ بعد میں بھی کی گئی جانچ پر کھ سے ٹھیک ثابت ہوئی ہے ۔ یہ تحتی انسان بن مانسوں کی اعلی قسموں اور انسان کے درمیان ایک سرحد کے طور پر ہے ۔ اس نوع کی خصوصیت یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ بجائے چارپیروں کے واضح طورپر دو پیروں پر چلنے والی تھی اور ماہرین کے مطابق گونگی بھی تھی ۔ جاوا کے تحتی انسان کا شمار بھی اسی خاندان میں کیا جاتا ہے ۔یہ تحت انسان بندرسے تین خصوصیات کی بنا پر ممتاز سمجھاجاتا ہے ۔ اول یہ کہ وہ چارٹانگوں کی بجائے دو ٹانگوں پر چلنے والا تھا ۔ دوم یہ کہ اس کا دماغی حجم بن مانس سے بڑا تھا ۔ سوم یہ کہ وہ پتھر وغیرہ کے اوزار بنانا جانتا تھا ۔ 

۱۸۹۱ء میں ایوجین ڈوبائیس جو کہ ایک ولندیزی ڈاکٹر تھا ۔ اس نے جاوا میں جو کھو پڑی اسے لی وہ انسانی کھوپڑی سے مشابہت رکھتی تھی اس کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اس کا دماغ ۹۰۰ مکعب سینٹی میٹر جوکہ بن مانس کے دماغی سائز 325-685مکعب سینٹی میٹر سے زیادہ ہے لیکن موجودہ انسان کے اوسط 1200-1600مکعب میٹر سے کم تھا ۔ ۱۹۳۰ء میں جاوا میں مزید معلومات کے بعد یہ ثابت کیا گیا کہ جاوا میں قدیمی انسان جو سیدھا چلتا تھا آج سے تقریبا ۵ لاکھ سال سے لے کر ۱۵ لاکھ سال قبل تک رہتا تھا اس طرح جاوا مین کنفرم ہو گیا ۔ 
(۳) ہومو ائیر کٹس :(Homo Erectus)
اس کا لغوی معنی ہیں سیدھا چلنے والا انسان ۔ اگرچہ اس نوع کے بارے میں ماہرین کی رائے مختلف ہیں تاہم گمان کیا جاتا ہے کہ یہ موجودہ انسان کی قریبی پیش رونوع تھی ۔ اس نوع کے آثار و باقیات افریقہ ، ایشیا اور یورپ میں ملے ہیں ۔ یہ نو ع تقریباَ دس لاکھ سال سے دو لاکھ سال پہلے تک کے عرصے میں پائی گئی ہے ۔ اس کی کھو پڑی کچھ محراب نما اور پیشانی سکڑی ہوئی اور نوکدار تھی ا س کے سر کی گنجائش 800-1100مکعب سینٹی میٹر تھی اس کا چہر ہ لمبااور دانت و جبڑے بڑے تھے ۔
چین میں پیکنگ کے تقریبا ۴۰ میل جنوب مغرب میں چا ؤ کا ڈیٹن کے مقام پر غار میں انسانی ہڈیوں کا ایک بڑا ذخیرہ دیکھا گیا ہے اور ۱۹۲۰ء کی کھدائی کے نتیجہ میں قدیمی انسان کے متعلق بہت دلچسپ انکشافات ہوئے ۔ ۷ ۱۹۲ء میں جو باقاعدہ کھدائی ہوئی اس کے نیتجے میں ایک انسانی کھوپڑی ملی جس کے تجزیہ سے اندازہ لگایا گیا کہ وہ آج سے تقریبا ۵لاکھ سال پرانے انسان کی ہے جس کو بعد میں پیکنگ مین نام دیا گیا ۔ مزید کھدائی جو کہ ۱۹۳۴ء کے بعد کی گئی اس سے نیتجہ اخذ کیا گیا کہ پیکنگ مین عقلمند ہو شیار اور سیدھا چلنے والا مکمل انسان تھا جو کہ آج سے تقریبا۵ لا کھ سال پہلے آگ کے باقاعدہ استعمال سے آشنا تھا ۔ ممکن ہے اس دور میں پہلی آگ آسمانی بجلی سے لی ہو جسے انھوں نے جلتے رکھا اور تبرک رکھا ۔ ماہرین کے مطابق پیکنگ مین جاوا مین سے ایک درجہ آگے تھے ۔
۱۹۷۵ء میں پروفیسرمسز صادق نے روس اور ایران میں کھدائی کرنے کے بعد ثابت کیا کہ پہلا سیدھا چلنے والا انسان مراغے آذر بائیجان میں آج سے تقریباَ ۵ سے ۱۰ لاکھ سال پہلے رہتا تھا اور وہ پتھر کے اوزاروں سے بخوبی واقف تھا ۔ ان کے ہاتھ کی انگلیوں اورا نگو ٹھوں کی ساخت موجودہ انسان کی طرح تھی اور گرفت بھی مضبوط تھی ۔ 
(۴) ہومو سیپینس :(Homo Sapiens)
اس کے معنی ہیں ذہین انسان ۔ یہ وہ نوع ہے جس سے مو جو دہ انسان تعلق رکھتے ہیں اور اس سے منسوب ہونے والے انسانی احفوری آثار قریب قریب ساڑھے تین لاکھ سال پرانے ہیں۔ ( ذہین مخلوق ) دوسرے حیوانات اور سابقہ انسانی انواع سے چند خصو صیا ت اور عادات میں ممتاز ہے ۔ مثلا دو پیروں پر چلنے کی چال ڈھال دماغی مقدار ( اوسط ۱۳۵۰معکب سینٹی میٹر ) اونچی پیشانی ، چھوٹے دانت اور جبڑے ۔ برائے نام ٹھوڑی ، تعمیر کے کام سے واقف اور اوزار کا استعمال کرنے والی زبان اور تحریر کی علامتوں کا استعمال کرنے کی قابلیت وغیرہ ۔ ان میں سے بعض خصو صیا ت اس نے اپنی قریب پیشر و ( ہو مو ایر کٹس ) سے حاصل کیں لیکن مجموعی اعتبار سے یہ تمام خصوصیات صرف وہوموسیپنس ہی کی ہیں۔ 
چینی ماہرین کی تحقیق کے مطابق موجودہ شکل میں انسان کی ابتدا افریقہ میں بن مانس ہی سے لا کھ ڈیڑھ لاکھ سال پہلے ہوئی جبکہ آسٹریلو ی ماہرین کہتے ہیں کہ انسان کی موجودہ شکل چین میں منگو نسل کے بن مانس اور اس کے پیش رؤں سے ظہور میں آئی ۔ 

تخلیق انسان و مسئلہ ارتقاء 06


رہنمائے زندگی۔ جلد اول ۔ تخلیق کائنات و ارتقاء انسان ملک زوار حسین




جو سائنسدان ارتقاء کے عمل پر یقین رکھتے ہیں ان کی قیاس آرائی کے مطابق انسان اسی زمین پر پیدا ہونے والی ابتدائی جانداروں کی ایک شاخ ہے جو لاکھوں سال کے دوران تکاہلی عمل کے بعد مو جو د ہ شکل میں ظاہر ہوئی ان کی سوچ کا دارومدار قدیمی فاسلز ( احفوری باقیات ) کے تجزیات پر مبنی ہے ۔ا ن سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ روئے زمین پر بائیبل کے بیان کے مطابق انسان کا وجود صرف چھ ہزار سال سے نہیں بلکہ لاکھوں سال سے ہے اور اس کے ثبوت میں وہ بعض ’انسان رنما مخلوق ‘ کی ہڈیاں پیش کرتے ہیں جن کی نسلیں اب ناپید ہوچکی ہیں ۔ مگر ان ہذیوں اور کھوپڑیوں کے ٹکڑے ایک جسیے نہیں ہیں۔ بلکہ ان کی بناوٹ اور قدامت میں بھی کافی اختلافات ہیں ۔ لہذا ان آثار و باقیات کو سائنسدان مختلف قسموں یا ذیلی خاندانوں اور مختلف ادوار میں تقسیم کرکے ان کی ایک تاریخ مرتب کر رہے ہیں ۔ مگر ان کی بناوٹ اور قدامت میں بھی کافی اختلافات ہیں ۔ لہذا ان آثار و باقیات کو سائنسدان مختلف قسموں یا ذیلی خاندانوں اور مختلف ادوار میں تقسیم کرکے ان کی ایک تاریخ مرتب کر رہے ہیں ۔ مگر ان سب کو وہ انسانی سلسلے ہی کی مختلف انواع تصور کرتے ہوئے ان کو ایک مشترکہ خاندانی نام ’’ ہومی نائیڈ ‘‘ یا ’’ ہومی نائیڈی ‘‘ کا دیا ہے اور اس کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے انسانی حیاتیاتی خاندان کا کوئی فرد کواہ وہ مو جو د ہ انسان ہو یا احضو ری انسان اس طرح یہ اصطلا ح موجو دہ انسان سے پہلے انسان نما مخلوق کی جتنی بھی انواع گزر چکی ہیں ان سب کو شامل ہے ۔ احفوری انسان کا اطلاق اس نا پید شدہ انسان نما مخلوق پر ہوتا ہے جس کے آثار و باقیات آج صرف زمین میں مدفون شدہ شکل میں موجو د ہیں ۔


اب تک اس سلسلے میں جو بھی آثار و نتائج برآمد ہوئے ہیں وہ زیادہ تر قیا سات و مفر وضات ہیں جو صحیح بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی ۔ اس کو زیادہ سے زیادہ ایک گمان کہا جا سکتا ہے اور اس سلسلے میں سائنسدا ن بھی بعض وقت دھوکا کھا جاتے ہیں ۔ چنانچہ اس سلسلے میں ایک بڑا دلچسپ واقعہ ملا حظہ ہو ۔ 

۱۹۱۲ ء میں انگلینڈ کے ایک مقام پلٹ ڈاؤن میں ایک عجیب قسم کا انسانی سر کا حصہ ملا جس کی کھوپڑی کا حصہ تو موجودہ انسان جیسا مگر جبڑے کی ہڈی چمنپزی جیسی تھی اس کو سائنسدانوں نے ’’ پلٹ ڈاؤن ‘‘ انسان کے نام سے متعارف کر ادیا ۔ مگر چالیس سال کی مسلسل بحث اور تجزیہ کے بعد پتہ چلا کہ دراصل یہ ایک جعلسازی تھی اور کسی نے سائنسدانوں کو غلط راہ پر ڈالنے کی غرض سے نہایت ہو شیاری کے ساتھ اس کو بعض دوسری پر انی ہڈیوں اور اوزاروں کے ساتھ غلط ملط کر کے رکھ چھوڑا تھا۔ 
مندرجہ بالا مثال پیش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سائنسدانوں کے اندازوں کے لئے آج تک کوئی مکمل کھوپڑی نہیں مل سکی ۔ بلکہ کھو پڑیوں کے بعض اجزاء کی بنیاد پر قیاس کیا گیا ہے ۔اور اس طرح جزوی مطالعے کے ذریعے کُلی نتائج حاصل کرنے کی کو شش کی جاتی ہے جو صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی یہی وجہ ہے کہ اس بارے میں نہ صرف نظریاتی اختلافات پائے جاتے ہیں بلکہ خو دنظریات بھی بدلتے رہتے ہیں۔ احفوری انسان کو�آثار و باقیات کی بنا پر متعدد قسموں اور سلسلوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن کا تفصیلی جائزہ دیا جارہا ہے ۔

تخلیق انسان و مسئلہ ارتقاء 05


رہنمائے زندگی۔ جلد اول ۔ تخلیق کائنات و ارتقاء انسان ملک زوار حسین

تخلیق زندگی 01

کے بعد پانچویں قسط
یور پ میں اٹھارویں صدی عیسوی تک بائیبل کے تصورا ت پر مبنی نظریہ کہ ہماری دنیا کی تخلیق 4004سال قبل از مسیح ہوئی بہت ہی مسلم اور ناقابل تردید رہا تھا ۔ اس نظریہ کی بنیاد بائیبل کے اس بیان پر مبنی تھی جس کے مطابق چھ دنوں میں امین و آسمان اور تمام لو ازمِ حیات پیدا کئے گئے اور چھٹے دن اللہ نے آدم کو پیدا کیا ۔ یہودی اور عیسائی فضلا ء کی اس سلسلہ میں بنیادی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے چھ دنوں کو چھ مدارج قرار دینے کی بجائے ہمارے دنیاوی دن رات کے مطابق ۲۴ گھنٹے والا ایک دن قرار دے دیا حالا نکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق خدا کا دن ایک ہزار سال ( سورہ حج آیت ۴۷) بلکہ پچاس ہزار سال ( سورہ معارج آیت ۴)کے برابر بھی ہو سکتا ہے ۔اس لحاظ سے چھ دنوں سے مراد ہماری موجود دنیا کا تقریبا ایک ہفتہ نہیں بلکہ ایک طویل مدت سے مراد ہے جس کا صحیح علم خلاق عالم کو ہو سکتا ہے ۔ 

چونکہ تو ریت اور انجیل بھی آسمانی کتابیں ہیں اور آدم کے متعلق ان کی تاریخ اور سنین کے بارے میں جو غلطیاں واقع ہوئی ہیں شاید وہ بعدوالوں نے بطور تفیسر انجیل میں داخل کر دی ہوں ۔ جس کو محققین نے مشکوک قرار دے کر نئی تحقیقات شروع کیں اور بتایا کہ زمین کی عمر بہت زیاد ہ ہے اور اس کی موجودہ سطح کی تراش خراش کو بنانے میں طبعی قوتوں کو کافی عرصہ لگا ہے ۔ اس کی وجہ سے سائنس اورمذہب میں تصادم ہوا اور مغرب کے فضلانے مذہب کی ہر چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کیا اور تخلیق آدم کو چیلنج کیا جانے لگا۔
تخلیق انسان کے بارے میں سائنسدانوں اور دانشوروں کی اکثریت دو نظریات پر زیادہ تر متفق ہے۔ پہلے گروہ کے مطابق پہلا انسان زمین پر کسی نامعلوم سیارے سے وارد ہوا جس نے یہاں موجود بندروں کی ایک خاص نسل سے اختلاط کے ذریعے نسل افزائی کی جبکہ دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ انسان اس زمین پر پیدا ہونے والی ابتدائی جانداروں کی ایک شاخ ہے جو لاکھوں سال کے
دوران تکا ہلی عمل کے بعد موجو د ہ شکل میں ظاہر ہوئی ۔ 
جو سائنسدان پہلے نظریہ پر ایمان رکھتے ہیں انھو ں نے حال ہی میں دنیا کی مختلف اقوام کی ۱۸۹ عورتوں کے زندگی کے بنیادی مادے ڈی ۔ این ۔ اے کا کمپیوٹر کے ذریعے تجزیہ کرنے کے بعد ۱۹۹۱ ء میں نیو یارک ٹائمز میں رپورٹ پیش کی ہے کہ دنیا میں سب اقوام کی زندگی کا بنیادی مادہ ایک جیسا ہے اور اس بنا پر قیاس آرائی کی ہے کہ دنیا کی اس وقت کی کل انسانی آبادی کی بنیاد ایک ہی عورت کے ساتھ ملا ئی جاسکتی ہے جس کے نشانات ہمارے بنیادی مادے پر نمایاں ہیں اور وہ عورت افریقہ میں آج سے تقریباَ ۲ لا کھ سال 166000سے لے کر 249000پہلے رہتی تھی ۔ چونکہ تجزیہ میں وہ مادہ لیا گیا جو ماں کی طرف سے بچے کو ملتا ہے اسی لئے بنیادی فرد بھی عورت ہی ہے ۔ یہ بنیادی عورت اس ماڈرن انسانی نوع کا فرد تھی جو بعد میں اپنے افریقن علاقے سے نقل مکانی کر کے ایشیا اور یورپ میں آباد کم مہذب انسان نما مخلوق پر یاتو مکمل غلبہ پاگئی یا ان کے ساتھ مل کر آبادی میں اضافہ کرگئی ۔ ولیم بوتھ William Boothجو اس رپورٹ کا مصنف ہے اس نے نیو یارک ٹائمز میں ایک بڑا دلچسپ 
ساخاکہ بھی ثبوت کے طور پر پیش کیاہے ۔
ــــــــــــــــــــــ
میں نے وہ خاکہ کمپوز نہیں کروایا۔ پیچیدہ ہے۔ عبدالرزاق قادری

تخلیق انسان و مسئلہ ارتقاء 04

رہنمائے زندگی۔ جلد اول ۔ تخلیق کائنات و ارتقاء انسان ملک زوار حسین

تخلیق زندگی 01

کے بعد چوتھی قسط
تخلیق انسان و مسئلہ ارتقا 
پہلا انسان ہماری دنیا میں کب اور کیسے آیا اس کی حقیقت کا کسی کو بھی صحیح علم نہیں اور اس کے متعلق بحث ابھی تک چل رہی ہے ۔ دنیا کی ہر قوم و مذہب میں اس بارے میں مختلف نظریات و عقائد رائج ہیں ۔ ہر مذہب کی دلیل اور وجہ اپنی اپنی ہے اور تحقیق کا عمل آج بھی جاری ہے ۔ 
انسان کی تخلیق کے حوالے سے مقبول تصور الہامی مذاہب کا ہے جو تھوڑے بہت ردو بدل کے ساتھ تقریبا چھ دنوں میں کی اور ساتویں دن آرام کیا ۔ خدا وند نے حضرت آدم کو مٹی سے پیدا کیا اس میں روح بھر ی کچھ عرصہ بعد حضرت آدم کی دلجوئی کے لئے ان کی بائیں پسلی سے حضرت حوا کو تخلیق کیااور انہیں جنت میں رہنے کی جگہ دی ۔ ایک روز شیطان ابلیس جو حضرت آدم ؑ کی تخلیق سے ناخوش تھا کے چکر میں آکر باغِ عدن کے ایک درخت سے جس کے پھل کھانے سے خداوند نے منع فرمایا تھا خو د بھی کھایا اور حضرت آدمؑ کو بھی کھلا دیا ۔ جس کے نتیجہ میں خداوند نے انہیں دنیا میں بھیج دیا ۔ان کے جڑواں بچے پیدا ہوتے رہے جس سے زمین پر انسانی نسل کا آغاز ہوا۔ مسلمان اس بارے میں قرآن پر یقین رکھتے ہیں جبکہ دوسرے مذاہب میں ہرایک کی اپنی اپنی توجیہ ہے اور مختلف عقیدے پائے جاتے ہیں۔ 
پرانے مصریوں کا عقیدہ تھا کہ ایک دیوتا سمندر کی گہرائی سے باہر آیا ۔ اس نے خشک زمین پیدا کی اور پھر ہیلی پس کی ایک پہاڑی پر بیٹھ کر دیوتا نے مخلوق پیدا کی ۔ مصری تہذیب ہی کی طرح پرانی عراقی تہذیب کے مطابق دیوتا جو پہلے سے موجود تھا نے برائی کی قوتوں کے ساتھ مقابلہ کیا ۔ زمین و آسمان پیدا کئے اور اس کے بعد وہ عبادت میں مصروف ہو گیا جس کے نیتجے میں انسان کی پیدائش عمل میں آئی ۔ 
ہند و تہذیب میں تخلیق آدمیت کا جواز ڈھونڈ جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ کائنات کے خالق برہما دیوتا 
نے سونے کے ایک انڈے سے جنم لیا جس کے بعد اس نے اپنے جسم کو دوحصوں میں تقسیم کیا ۔ ایک حصے سے عورت بنائی اور دوسرے حصہ سے مرد ۔ ہندو مت میں تری مورتی کی عبادت کی جاتی ہے اس سے مراد تین دیوتاؤں کی مورتیاں ہیں ۔ 
افریقہ کے لو گوں کا عقیدہ تھا کہ دیوتا ایک عورت تھی جس نے جڑواں بچوں کو جنم دیا ۔ ان جڑواں بچوں میں ایک چاند اور دوسرا سورج تھا ۔ ان دونوں کے ملا پ سے آسمان و زمین پیدا ہوئے ۔ مقدس ماں نے دیوتاؤں کو جنم دیا ہو گا جو کائنات کے اصل حکمران ہیں۔
امریکہ کے اصل باشندوں ( ریڈانڈینز ) کے مطابق دیوتا نے ساری مخلوق کو ایک بطخ جو سمندروں پر تیرتی رہتی تھی کے پنجوں میں جمی مٹی سے تخلیق کیا ۔ 
چینی تہذیب میں خالق کائنات کے بارے میں عقیدہ تو ہندو تہذیب سے ملتا جلتا ہے مگر اس کی تفصیل بڑی دلچسپ ہے ۔ چینی عقیدے کے مطابق دیوتا انڈ ے سے جنم کیا ۔ اپنی پیدائش کے ۱۸ ہزار برس بعد دیوتا مرگیا اور اس کے مردہ جسم کے مختلف حصوں سے آسمان وجود میں آیا ۔ ہڈیوں سے پہاڑ بنے ، گوشت سے زمین ، دیو تا کا پسینہ بارش کی شکل اختیار کر گیا ۔ سر کے بالوں سے پودوں کی مختلف اقسام وجود میں آئیں اور دیوتا کے سر میں پائی جانے والی جو ئیں انسانوں میں تبدیل ہو گئیں۔

تخلیق زندگی 03

رہنمائے زندگی۔ جلد اول ۔ تخلیق کائنات و ارتقاء انسان ملک زوار حسین

تخلیق زندگی 01

ان کے بعد والی قسط
جدید سائنس دانوں کی تحقیق
پہنچی ہے کہ تما م نباتات و حیوانا ت کی تخلیق پروٹو پلازم’’ نخرمایہ ‘‘سے ہوئی ہے جن کی کیمیائی اجزا آکسیجن ، کاربن ، ہائڈروجن ، نائٹر وجن ، فاسفور س ، سلفر ، کلورین ، کیلشیم ، سو ڈیم اور مینکنیزیم وغیرہ بھی دریافت کر لیے گئے ہیں مگر انتہائی کو شش کے باوجود پوری دنیائے سائنس کو ان کیمیائی اجزاء عناصر کو باہم ملا کر نخرمایہ ( پر وٹو پلازم ) بنالینے میں تاحال کامیابی نہیں ہوسکی وہ ان اجزاو عناصر کو لاکھ طرح سے ملاتے ہیں مگر وہ پرو ٹو پلازم نہیں بنتا جس میں زندگی ہو ۔ ایک سائنسدان نے پورے پندرہ سال تک ان عناصر کو ہر طرح سے ترکیب دینے کی کو شش کی مگر اس میں زندگی کی کوئی تھوڑی سی حرکت بھی نمو دا ر نہ ہوئی ۔ 
زندگی کا خالق
حیوانات ہوں یا نباتات ہر ایک کی ابتدا ایک خلوی پرو ٹو پلازم سے ہوتی ہے ۔ پھر بعد میں بتدریج ان خلیوں کی تعداد بڑھتی ہے یہاں تک ایک مکمل حیوان یا انسان کروڑوں اربوں خلیوں کا مجموعہ ہوتا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ ایک بے جان مادے ایک جاندار اور زندہ خلیہ کیسے وجو د میں آگیا ۔ اور منی کے ایک قطرے یا کسی خشک بیج اور بے جان گٹھلی سے یکا یک حیات کا ظہور نہایت درجہ منظم طریقے سے کیوں کر ہو جاتا ہے ۔ منطقی اور سائنسی نقطہ نظر سے بغیر کسی محرک کے حرکت کا ظہور بغیر کسی خالق کے خو د بخو د ہو گیا ۔ اس سے چارلس ڈارون اور اسکے ہمنواؤں کا نظریہ ارتقا بھی مردہ قرار پاتا ہے ۔ ظاہر ہے جب کسی خالق کے بغیر ایک خلوی جاندار ہی کا وجود ممکن نہیں تو پھر پیچیدہ انواع کا وجود بغیر کسی خالق کے کیوں کر ممکن ہو سکتا ہے ۔ اس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ اس عالم ہست و بود میں ایک بااختیار کار فرمائی جاری و ساری ہے اور وہ بااختیار محرک خدائے بزرگ و برتر کی ذات بابرکات ہے
جو عظیم الشان خوبیوں اور حیرت ناک افعا ل والا ہے ۔ جو بے جان مادے سے زندگی کو وجود میں لاتا ہے اور پھر زندہ ایشا سے بے جان چیزیں نکالتا رہتا ہے جس کے افعال و اسرار کو سمجھنا انسان کے بس کی بات نہیں مو ت دراصل عناصر کا پریشان ہونا ہے

تخلیق زندگی 02

ماہرین نے تاحال جو تحقیقات کی ہیں ان کے مطابق دور قدیم میں جب کرہ ارض پر گیسوں اور خاکی ذرات کے بادل ٹھنڈے ہو کر زمین کی شکل اختیار کر رہے تھے تب تک زندگی کا وجو د ممکن نہیں تھا ۔ اس کے بعد ایک اندازے کے مطابق آج سے تقریبا ۳۵۰۰ ملین سال قبل جب سمندر زمین پر نمو دار ہوئے تو تب زندگی کا آغاز ہوا۔
زندگی کا آغاز کیسے ہوا اس کا صحیح علم کسی کو بھی نہیں ہے ۔ ۱۹۵۳ء میں امریکن سائنسدان سٹینلی ملر نے اندرون لیبارٹری ہائیڈروجن ، ایمونیا ، میتھین گیسز اور پانی کے محلول میں ۲۰ گھنٹے بجلی کی رو گزار نے کے بعد کچھ مرکبات اور ایمنو ایسڈ بنائے جو کہ زندگی کے لئے بہت ضروری جزو ہیں۔ اس کے بعد ٹیکساس امریکہ میں ۷۹ ۱۹ ء میں ایلن بارڈر اور ہیر لڈر چی نے بیرون لیبارٹری ایمونیا ، میتھن گیسز اور پانی کے محلول جس میں پلا ٹینم اور ٹیٹینم او کسائیڈز بھی تھے دھو پ میں رکھ کر ایمنو ایسڈ بنائے ۔ ان تجربات کی رو سے یہ قیاس آرائیاں کی گئیں کہ زندگی کا آغاز زمین کے شروع کے ماحول میں موجو د گیسوں پر آفتابی شعاعوں اور طوفانی بجلی کی تابکار ی کے زیر اثر ہوا ہو گا۔ 
اس کے بعد کے تجربات سے یہ قیاس آرائی ہوئی کہ بعض ایسڈز میں فعل و انفحلا ت کے نتیجہ میں مالیکیولز کسی بھی جاندار میں تبدیل ہو سکتے ہیں ۔ سائنسدانوں نے یہ تو دریافت کر لیا ہے کہ تمام جاندار اشیا ایک خاص قسم کے مادے پر وٹو پلا زم ( مادہ حیات ) کی بنیاد پر قائم و دائم ہیں اور ایک ایسا کیمیائی فارمولا بھی ترتیب دے دیا ہے جس کی مدد سے پرو ٹو پلازم مصنوعی طریقوں سے بنانے کی کو شش کی جاسکتی ہے ۔حقیقتا اس فارمولے کے تحت مختلف عناصر اور مرکبات کے باہمی ملاپ سے پرو ٹو پلازم تو نہیں بس اس قسم کا ایک مادہ بن جاتا ہے لیکن ناکامی کا نقطہ یہ ہے کہ انسانی ذہنوں اور ہاتھوں کی اختراع سے تشکیل پانے والے اس مادہ میں زندگی کے آثار نمودار نہیں ہوتے ۔ 
سائنسدانوں کے تجربات کے مطابق تخلیق حیات ابتدا میں آج سے کرو ڑوں سال پہلے کسی سمندر کی تہہ میں ہوئی ہو گی لیکن زندگی کی ابتدا ئی شک بہت سادہ اور بہت چھوٹی تھی ۔ پہلی جاندار چیزیں پودے تھے ان کی شکل سبز جیلی کے ننھے ننھے ٹکڑوں کی طرح تھی جو سمندروں میں بہتے پھرتے تھے ۔ بعض پودوں نے ایک طویل اور پیچیدہ عمل سے گزرنے کے بعد ابتدائی جانداروں کا روپ دھارا تاہم یہ ابتدائی جاندار ایک خلیے والے جاندار تھے جو اپنے جیسے دوسرے جاندار پیدا کر سکتے تھے ۔
مزید پڑھیے

رہنمائے زندگی۔ جلد اول ۔ تخلیق کائنات و ارتقاء انسان ملک زوار حسین


تخلیق زندگی 01

تخلیق زندگی 
سائنسی تحقیقات کی بنا پر کرہ ارض آغاز سے آج تک مختلف مراحل سے گزرا ہے ا ن کا مختصر جائزہ پچھلے باب میں پیش کرنے کے بعد اب ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ زندگی کیا ہے ؟ہماری دنیا میں زندگی کا آغاز کیسے ہوا؟ اختتام کیسے متوقع ہے ؟ کن کن مراحل سے زندہ چیزیں گزر کر موجود ہ شکل میں ہمارے سامنے آئیں؟ کیا ان کا کوئی خالق ہے ؟ اور یہ زندگی صرف ہمارے کرہ ارض پر کیوں اور دوسرے نظام شمسی کے نزدیکی سیاروں پر کیوں نہیں ؟
ایک شاعر نے زندگی اور موت کے متعلق کچھ یوں لکھا ہے 
زندگی کیا ہے ؟ عناصر میں ظہور ترتیب 
موت کیا ہے ؟ انہی اجزا کا پریشان ہو نا 
یہ بات تو اب مسلمہ ہے کہ مادے اور توانائی کی تخلیق کے بعد سے ان دونوں کا تبادلہ مسلسل جاری ہے ۔ توانائی اپنی شکل بدل کر مادے کا روپ دھارتی ہے اور مادے میں فنائیت بر پا ہو کر توانائی کا باعث بنتی ہے ۔ مادہ ٹھو س سے مائع اور مائع سے گیس بن جاتا ہے ۔ توانائی حرکی توانائی میں ڈھل جاتی ہے۔ پس جسے عام لو گ فنا ، مو ت یا اختتام کہتے ہیں وہ تبادلہ یا ٹرا نسفر ہے ۔ 
دنیا میں خشکی پر اور سمندروں میں لاکھوں مختلف اقسام کے پودے اورجانور پائے جاتے ہیں زندگی زمین پر کیسے اور کب شروع ہوئی ، انسانی ذہن میں یہ پیدا ہونے والا سوال ایک بہت ہی گہرا راز ہے جس کی حقیقت تا حال انسان پر پوری طرح نہیں کھل سکی ۔
Research

رہنمائے زندگی۔ جلد اول ۔ تخلیق کائنات و ارتقاء انسان ملک زوار حسین

رہنمائے زندگی۔ جلد اول ۔ تخلیق کائنات و ارتقاء انسان ملک زوار حسین

نوجوانوں کے نام جو قوم کے مستقبل کے محافظ ہیں
رہنمائے زندگی
جلد اول
تخلیق کائنات و ارتقاء انسان
مصنف
ملک زوار حسین
اظہار سنز 19۔ اردو بازار لاہور
مطبع: اظہار سنز پرنٹرز ریٹی گن رود لاہور
طابع: سید اظہار الحسن رضوی
ناشر: سید محمد علی انجم رضوی
تعاون خصوصی: اظہار ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف پاکستان لاہور

ملک زوار حسین
پیدائش: 1927، وزیر آباد(گوجرانوالہ)
1946 ایف۔ ایس۔سی، مرے کالج سیالکوٹ
1950 وٹرنری کی آنرز ڈگری، وٹرنری کالج پنجاب یونیورسٹی میں اول پوزیشن(اب یہ کالج خود ایک یونیورسٹی ہے)
فروری 1951 سرکاری سروس کا آغاز، وٹرنری ڈاکٹر، راولپنڈی ڈویژن پاکستان
جولائی 1951 میں ٹی۔ڈی۔اے(تھل ڈویلوپمنٹ اتھارٹی) رکھ غلاماں کلور کوٹ میانوالی پاکستان میں واقع بین الاقوامی لائیو سٹاک فارم
اور 1958 سے 1960 تک اسی فارم کے ڈائریکٹر
ان دس سالوں میں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی اعلیٰ تعلیم کی درس گاہوں میں فنی مہارت حاصل کرنے کا موقع پایا
1963 ریڈنگ یونیورسٹی انگلینڈ(یو۔کے) سے ایم۔ اسی۔سی کی ڈگری حاصل کی
پاکستان میں مختلف فارمز پر انچارج کی حیثیت سے خدمات
نیشنل ہارس اینڈ کیٹل شوز میں 200 سے زائد انعامات کا حصول
مزید اعلیٰ مہارت کے لیے 1969 میں افغانستان، روس، وسط ایشیائی ریاستوں میں بین الاقوامی سیمینار میں شرکت
1971 عیسوی سے 1973 تک پنجاب سول سیکریٹریٹ میں فنی خدمات
1973 کے وسط سے 1987 تک اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ادارہ ایف۔اے۔او کے ساتھ منسلک ہوئے۔ جہاں پر ایران وفجی میں بحیثیت لائیو سٹاک آفیسر اور بعد میں ریجنل کو آرڈینیٹر، بحرالکاہل کے مختلف جزائر میں خدمات
اور فروری 1987 میں سروس سے ریٹائرمنٹ
2004 میں یونیورسٹی آف ویٹرنری سائنسز کی انتظامیہ نے مصنف کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایواارڈ دیا
اور لائیو سٹاک پروڈکشن اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بہادر نگر اوکاڑہ نے بیسٹ سپرنٹنڈنٹ ایوارڈ دیا
1995 تک کی تصویر کتاب میں موجود ہے(مع پوتے پوتیاں)
بقول مصنف بحرالکاہل کے کسی جزیرے میں اپنے تجربات کو قوم کے لیے وقف کرنے کا خیال آیا
جو پانچ جلدوں کی کتاب بن گیا


جو 2005 میں چھپی

یہ کتاب میں نے (ہندی پڑھنے آتے جاتے) ناصر باغ کے فٹ پاتھ بمقابل گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے ایک پرانی کتب بیچنے والے سے خریدی۔ ابھی تک میرے پاس ہے۔ اس میں تخلیق کائنات،پروٹوپلازم،نظریہ ارتقاء،اسلامی نظریہ تخلیق،انسان اس جیسے موضوعات پر جو مواد ڈاکٹر ملک زوار حسین کی فکر کے مطابق ملا۔ اسے کمپوز کروا لیا۔ اور استفادہ عام کے لیے پیش خدمت کرنے کا ارادہ ہے ان شاءاللہ

ہفتہ، 3 نومبر، 2012

بریلوی ہی اہل سنت ہیں

بریلوی ہی اہل سنت ہیں۔ بریلوی کوئی نیا فرقہ نہیں ہے۔ اہل سنت وجماعت بریلوی حضرات کے قائد امام احمد رضا خان کو اس "فرقے" کا بانی یا پہلا پیشوا کہنا مناسب نہیں۔ عقائد اہل سنت نئے دور کی بدعت نہیں ہیں. حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمۃ اللعٰلمین ہونے کو اور بے مثل ہونے کو قرآن و حدیث کی رو سے درست مانا جاتا ہے۔ اور حضرت حسان بن ثابت کی نعت کا حوالہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم بے مثل ہیں۔ نبی پاک کی حدیث کے مطابق کہ آپ کو کھلایا پلایا جاتا ہے اس حدیث کے حوالے سے آپ عظیم ترین انسان ، سید البشر اور افضل البشر ہیں۔ ان باتوں کو ماننا نئے عقائد نہیں ہیں۔ مولانا احمد رضا خان قادری نے اسی فکر کو سامنے رکھتے ہوئے منکرین کا رد بڑے زور دار طریقے سے کیا۔ کیونکہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان کے دور میں منکر موجود تھے۔ اُن کی فکر یا عقائد تیرھویں ،چودھویں صدی کی اختراع نہیں۔ اہل سنت کے عقائد عہدِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، سیرت سے ثابت ہیں۔ اُس دور میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات کے منکر نہیں تھے۔ صحابہ کے دور اور تابعین کے دور اور بعد میں بھی آقا کریم کی شان کے منکر (کلمہ گو) موجود نہ تھے۔ مولانا احمد رضا خان قادری کو اس لیے محبت رسول میں اتنا قلم چلانا پڑا کہ انگریز حکومت کے زیرِ سایہ باطل فرقوں کے اکابرین نے انکار عظمت رسول کرنا شروع کر دیا تھا۔ جس طرح بانیِ دیوبند قاسم نانوتوی نے تو سیدھا سیدھا عقیدہ ختم نبوت کا انکار کیا۔ حالانکہ ان کے اکابرین حاجی امداداللہ مہاجر مکی اہل سنت عقائد کے ہی تھے۔ آج اہل سنت کو "جدید فرقہ بریلوی بریلوی" نجانے کیوں کہا جا رہا ہے۔ نظر آتا ہے کہ یا تو تحقیق کی کمی ہے یا واضح طور پر جانب داری کا مظاہر ہے۔ "کرامات اہلحدیث" کتاب وہابی/نجدی/طالبان/ظالم فرقے کے گھر ہی کی ہے۔ اس میں بے شمار(وہابی اکابرین کی) کرامات ایسی درج ہیں جن کی بنا پر اہل سنت کو آج کل مشرک ہونے کا طعنہ دیا جا رہا ہے۔ اُس پر بھی غور فرما لیا جائے۔

اہلسنت و جماعت سنی بریلوی تحریک

جمعہ، 2 نومبر، 2012

بریلوی نیا فرقہ نہیں اہل سنت وجماعت ہیں

میں نے اردو وکیپیڈیا کی اس تحریر کو دیکھا "دوبارہ یا از سر نو لکھنے کی ضرورت" لکھا ہوا تھا۔ تبادلہ خیال دیکھا، بہت زیادہ گفتگو تھی۔ ساری نہیں پڑھی۔ پھر تحریر کو مکمل پڑھا۔ دراصل میرے پاس آن لائن حوالہ جات اس وقت نہیں ہیں۔ ورنہ میں حوالے بھی پیسٹ کرتا۔ ان شاءاللہ تلاش کرنے کے بعد ضرور لکھوں گا۔ تحریر میں اگرچہ اہل سنت و جماعت کے عقائد و نظریات ہی لکھے ہوئے ہیں اور اہل سنت کو صرف بریلوی ، بریلوی کہا گیا ہے۔ اوپر ایک حوالہ درکار تھا۔ مجھے وہاں حوالہ باقاعدہ لکھنا بھی نہیں آتا۔ ان میں سے ایک یہ کہ علامہ محمد ارشد القادری نے اپنی ایک کتاب "عید میلا د البنی صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی شرعی حیثیت" میں اس اعتراض کہ "میلاد کا لفظ ہی نئے دور کی بدعت ہے" کا جواب لکھا ہے کہ امام ترمذی اپنی جامع میں ایک باب کا عنوان میلاد یا مولدالنبی وغیرہ جیسا باندھا ہے اور امام ترمذی کی سوانح حیات سے پتا چل سکتا ہے کہ کس دور میں مسلمان میلاد کو مانتے تھے ۔ حالانکہ خود ساختہ اہل سنت(غیر مقلد اور دیوبندی) جو کہ اصل میں ہمفرے کی محنت سے نو آبادیاتی نظام نے تیار کروائے وہ کبھی دیوبندی کہلوائے کبھی برطانوی ہند کی کافر حکومت سے اہل حدیث کا سر ٹیفکیٹ لیا۔ اب آ جا کے جب دیکھا کہ عوام تو اہل سنت ہی کو اہل حق مانتے ہیں تو اپنی تنظیموں کے نام اہل سنت والجماعت وغیرہ رکھ لیے۔ اور اہل سنت کے نام پر قبضہ جمانے کی کوشش میں مصروف ہو گئے۔ اعلی حضرت احمد رضا خان قادری اہل سنت تھے۔ اور وہی پچھلی صدی کے مسلمان مجدد تھے۔ انہوں نے مجتہد ہونے تک کا دعوی نہیں کیا۔ اگر بریلوی ایک جدید مسلک یا فرقہ مانا جائے تو پاکستان کی قومی اسمبلی میں جب مرزائیوں(قادیانیوں) کو اقلیت قرار دلوانے کے حوالے سے مولانا شاہ احمد نورانی کا بل 30 جون 1974 میں پیش کیا گیا تھا۔ جس پر بحثیں ہوئیں۔ پھر مرزائی تنظیم کے سربراہوں کو صفائی کو موقع دیا گیا۔ جب اس وقت کے مرزائی سربراہ نے ایک طویل عرصہ تک سوالات کے جوابات کے بعد اپنے علاوہ دیگر کو کافر کہا تو 7 ستمبر 1974 کو وہ بل پاس ہو کر آئین کا حصہ بنا۔ تب اس نے دیوبندی فرقہ کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی کی "تخذیرالناس" کا حوالہ دے کرغلو خلاصی چاہی تو مولانا شاہ احمد نورانی نے مفتی محمود صاحب اور سید ابوالاعلی مودودی کی جانب اشارہ کیا کیونکہ وہ ہی صاحب تخذیرالناس کے ماننے والے تھے۔ ان دونوں حضرات سے جواب نہ بن پڑا۔ اور پاکستان کی قومی اسمبلی میں حق عیاں ہو گیا۔ قادیانی نمائندہ دونوں کو باطل فکر کا ترجمان ثابت کر گیا۔ حالانکہ وہ خود کو صحیح ثابت کرنا چاہتا تھا۔ دیوبندیت کی چھتری میں پناہ لینا چاہتا تھا۔ لیکن ان کی باطل فکر نہاں ہو گئی۔ اس طرح کل کلاں کو کوئی اور ایک "نورانی فرقہ" بھی کہہ ڈالے گا۔ یہ سراسر زیادتی ہے۔ اور مولانا قاسم نانوتوی دیوبندی فرقے کے اکابرین میں سے تھے نہ کہ اہل سنت وجماعت کے۔ ہاں ویسے میں نے مولانا رشید احمد گنگوہی کے فتاوی میں انہیں خود کو اہل سنت وغیرہ کہتا دیکھا ہے لیکن وہ محمد بن عبدالوہاب کو بھی ٹھیک مانتے تھے یعنی وہابی الاصل عقائد کے حامل تھے۔ اور فرقہ وہابیہ ہمفرے کی محنت سے تیار ہوا۔ اس کے پیچھے مستشرقین جو کہ اسلام کے دشمن ہیں ان کا فکری کام تھا۔ اور ابن تیمیہ ، ابن کثیر اور ابن قیم کے غیر مقلدانہ عقائد کی کھچڑی کا امتزاج تھا۔ حالانکہ وہ اہل سنت نہ تھے بلکہ غیر مقلد تھے اور قرآن کی ڈائریکٹ ذاتی تفسیر کے قائل تھے۔ کہ ہر بندہ وحی الہی کو خود سمجھ سکتا ہے۔ اسی طرز پر برصغیر میں شاہ اسماعیل شہید دہلوی نے اپنی کتاب "تقویۃ الایمان" کا آغاز اسی فکر سے کیا۔ کہ عام لوگ خود قرآن کو ترجمہ کرکے سمجھ لینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ شاہ صاحب دلیل لائے کہ آقا کریم کو اللہ عزوجل نے عام لوگوں کی طرف بھیجا اور اب ہر ایرا غیرا نتھو کھیرا بذات خود مفسر اور مترجم ہو سکتا ہے۔ اس طرح کی بنیاد پر پروان چڑھنے والے اہل حدیث وہابی، سلفی، نجدی، دیوبندی،مودودی، ذاکر نایکی، نیچری، چکڑالوی، آزاد کلامی، مشرقی، جدیدی، بنیاد پرست، جدت پسند، صلح کلی، اور نجانے کیا کیا آج خود کو سنی اور سنیوں کو بریلوی کہہ کر ایک کونے سے لگانا چاہتے ہیں۔ یہ زیادتی ہے۔ حوالے مجھ پر اُدھار رہے۔ اس کے بعد امید ہے کہ اس صفحے کو اہل سنت اور باطل جدید فرقوں کو اہل بدعت لکھا جائے گا۔ اگر میری تحریر میں جانب داری کا شبہ یا جانب داری نمایاں ہے تو عرض ہے کہ یہ تبصرہ کیا ہے نہ کہ صفحہ تخلیق کیا۔ اور یہ حقائق ہیں۔ بریلوی دراصل اہل سنت وجماعت ہیں۔ اگر اعمال میں خرافات مثلا دربار پر ڈھول ڈمکا وغیرہ ہے یا چرسی بھنگی ہیں تو ان کا رد بریلوی اہل سنت علماء نے بڑے زوردار طریقے سے کیا ہے۔ بریلوی اہل سنت علماء کے نزدیک سجدہ صرف اللہ کو ہے۔ تعظیمی بھی حرام ہے۔ شرک اس سے آگے کا فتوی ہے۔ علامہ محمد ارشد القادری نے اپنی کتاب "الجھا ہے پاؤں یار کازلفِ دراز میں" وہابی اہل حدیث علماء کی کتاب "کرامات اہلحدیث" سے وہ سارے افعال ان کے گھر سے بھی دکھائے ہیں جن کی بناء پر بریلوی سنیوں کو مشرک کہا جاتا ہے۔

اہلسنت و جماعت سنی بریلوی تحریک

 

جمعرات، 1 نومبر، 2012

اہل سنت و جماعت حنفی بریلوی مسلک کامختصر تعارف‘ مختصر تاریخ حضرت علامہ مفتی ابو الفضل بہاء الدین محمد نعمان شیراز السنی الحنفی القادری العراقی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم متحدہ پاک و ہند میں ہمیشہ اہل سنت و جماعت حنفی کی غالب اکثریت رہی ہے۔ سرزمین ہند میں بڑے بڑے نامور اور باکمال علماء و مشائخ پیدا ہوئے جنہوں نے دین اسلام کی زریں خدمات انجام دیں اور ان کے دینی اور علمی کارنامے آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ تیرہویں صدی ہجری کے آخر میں افق ہند پر ایک ایسی شخصیت اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ نظر آتی ہے جن کی ہمہ گیر اسلامی خدمات اسے تمام معاصرین میں امتیازی حیثیت عطا کرتی ہیں۔ شخص واحد جو عظمت الوہیت‘ ناموس رسالت‘ مقام صحابہ و اہل بیت اور حرمت ولایت کا پہرا دیتا ہوا نظرآتا ہے۔ عرب و عجم کے ارباب علم جسے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ہماری مراد ہے امام اہل سنت اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا قادری محدث بریلوی قدس سرہ العزیز جنہوں نے مسلک اہل سنت اور مذہب حنفی کے خلاف اٹھنے والے نت نئے فتنوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا اور ﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہر مرحلے پر سرخرو ہوئے۔ اہل سنت و جماعت کے عقائد ہوں یامعمولات جس موضوع پر بھی انہوں نے قلم اٹھایا‘ اسے کتاب و سنت ائمہ دین اور فقہاء اسلام کے ارشادات کی روشنی میں پائے ثبوت تک پہنچایا۔ آپ کی سینکڑوں تصانیف میں سے کسی کو اٹھا کر دیکھ لیجئے ہر کتاب میں آپ کویہ انداز بیان مل جائے گا۔ یہاں یہ بتادینا میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کے افکار و نظریات کی بے پناہ مقبولیت سے متاثر ہوکرمخالفین نے ان کے ہم مسلک علماء و مشائخ کو ’’بریلوی‘‘ کا نام دے دیا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ دوسرے فرقوں کی طرح یہ بھی ایک نیافرقہ ہے جوسرزمین ہند میں پیدا ہوا ہے۔ مبلغ اسلام حضرت علامہ سیدمحمدمدنی میاں کچھوچھوی فرماتے ہیں۔ ’’غورفرمایئے کہ فاضل بریلوی کسی نئے مذہب کے بانی نہ تھے از اول تا آخر مقلد رہے۔ ان کی ہر تحریر کتاب و سنت اور اجماع و قیاس کی صحیح ترجمان رہی نیز سلف صالحین و ائمہ مجتہدین کے ارشادات اور مسلک اسلام کو اضح طور پر پیش کرتی رہی وہ زندگی کے کسی گوشہ میں ایک پل کے لئے بھی ’’سبیل مومنین صالحین‘‘ سے نہیں ہٹے۔ اب اگر ایسے کے ارشادات حقانیہ اور توضیحات و تشریحات پر اعتماد کرنے والوں انہیں سلف صالحین کی روش کے مطابق یقین کرنے والوں کو ’’بریلوی‘‘ کہہ دیا گیا تو کیا ’’بریلویت‘ و ’’سنیت‘ْ‘ کو بالکل مترادف المعنی نہیں قرار دیا گیا؟ اور بریلویت کے وجود کا آغاز فاضل بریلوی کے وجود سے پہلے ہی تسلیم نہیں کرلیاگیا (تقدیم‘ دور حاضر میں بریلوی اہل سنت کا علامتی نشان‘ ص ۱۱۔۱۰‘ مکتبہ حبیبیہ لاہور) خود مخالفین بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں ’’یہ جماعت اپنی پیدائش اور نام کے لحاظ سے نئی ہے لیکن افکار و عقائد کے اعتبار سے قدیم ہے (البریلویہ ص ۷) اب اس کے سوا اور کیا کہاجائے کہ ’’بریلویت‘‘ کا نام لے کر مخالفت کرنے والے دراصل ان ہی عقائد و افکار کو نشانہ بنا رہے ہیں جو زمانہ قدیم سے اہل سنت و جماعت کے چلے آرہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں اتنی اخلاقی جرات نہیں ہے کہ کھلے بندوں اہل سنت کے عقائد کو مشرکانہ اورغیر اسلامی قرار دے سکیں۔ باب عقائد میں آپ دیکھیں گے کہ جن عقائد کو ’’بریلوی عقائد‘‘ کہہ کر مشرکانہ قرار دیا گیا ہے وہ قرآن و حدیث اور متقدمین علماء اہلسنت سے ثابت اور منقول ہیں۔ کوئی ایک ایسا عقیدہ بھی تو نہیں پیش کیا جاسکا جو ’’بریلویوں‘‘ کی ایجاد ہوا ور متقدمین اہل سنت و جماعت سے ثابت نہ ہو۔ امام اہل سنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی کے القاب میں سے ایک لقب ہی ’’عالم اہل السنتہ‘‘ تھا… اہل سنت و جماعت کی نمائندہ جماعت ’’آل انڈیا سنی کانفرنس‘‘ کا رکن بننے کے لئے سنی ہونا شرط تھا اس کے فارم پر ’’سنی‘‘ کی یہ تعریف درج تھی۔ ’’سنی وہ ہے جو ’’ماانا علیہ و اصحابی‘‘ (سرکار کریمﷺ نے فرمایا: نجات پانے والا گروہ ان عقائد پر ہوگا جن پر میں اور میرے صحابہ ہیں) کا مصداق ہوسکتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ائمہ دین ‘ خلفاء اسلام اور مسلم مشائخ طریقت اور متاخرین علماء دین سے شیخ عبدالحق صاحب محدث دہلوی‘ حضرت ملک العلماء بحر العلوم صاحب فرنگی محلی‘ حضرت مولانا فضل حق صاحب خیر آبادی‘ حضرت مولانا فضل رسول صاحب بدایونی‘ حضرت مولانا ارشاد حسین صاحب رامپوری‘ اعلیٰ حضرت مولانا مفتی احمد رضا خان رحمہم اﷲ تعالیٰ کے مسلک پر ہو‘‘ (خطبات آل انڈیا کانفرنس ص ۶و۸۵ مکتبہ رضویہ لاہور) خود مخالفین بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ لوگ قدیم طریقوں پر کاربند ہیں۔ مشہور مورخ سلیمان ندوی جن کا میلان طبع اہل حدیث کی طرف تھا‘ لکھتے ہیں۔ ’’تیسرا فریق وہ تھا جوشدت کے ساتھ اپنی روش پر قائم رہا اور اپنے آپ کو اہل سنت کہتا رہا‘ اس گروہ کے پیشوا زیادہ تر بریلی اور بدایوں کے علماء تھے‘‘ (حیات شبلی‘ ص ۴۶‘ بحوالہ تقریب تذکرہ اکابر اہل سنت ص ۲۲) شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں ’’انہوں (امام احمد رضا بریلوی) نے نہایت شدت سے قدیم حنفی طریقوں کی حمایت کی ‘‘ (موج کوثر ص ۷۰) اہل حدیث کے شیخ الاسلام مولوی ثناء اﷲ امرتسری لکھتے ہیں۔ ’’امرتسر میں مسلم آبادی‘ غیر مسلم آبادی (ہندو سکھ وغیرہ) کے مساوی ہے۔ اسی سال قبل پہلے سب مسلمان اسی خیال کے تھے جن کو بریلوی حنفی خیال کیا جاتا ہے (شمع توحید ص ۲۰) آج جن کے نام سے مسلک اہل سنت و جماعت پہچانا جاتا ہے ان کی مختصر سوانح ماہ و سال کے آئینہ میں حیات امام احمد رضا ماہ و سال ولادت باسعادت ۱۰ شوال ۱۲۷۲ھ ختم قرآن کریم ۱۲۶۷ھ/۱۸۶۰ء پہلی تقریر ربیع الاول ۱۲۷۸ھ/۱۸۶۱ء پہلی عربی تصنیف ۱۲۸۵ھ/۱۸۶۸ء دستار فضیلت شعبان ۱۲۸۶ھ/۱۸۶۹ء عمر تیرہ سال دس ماہ پانچ دن آغاز فتویٰ نویسی ۱۴ شعبان ۱۲۸۶ھ/۱۸۶۹ء آغاز درس و تدریس ۱۲۸۶ھ/۱۸۶۹ ازدواجی زندگی ۱۲۹۱ھ/۱۸۷۴ء فرزند اکبر مولانا محمد حامد رضا خان کی ولادت ربیع الاول ۱۲۹۳ھ/۱۸۷۵ء فتویٰ نویسی کی مطلق اجازت ۱۲۹۳ھ/۱۸۷۶ بیعت و خلافت ۱۲۹۴ھ/۱۸۷۷ء پہلی اردو تصنیف ۱۲۹۴ھ/۱۸۷۷ء پہلا حج و زیارت حرمین شریفین ۱۲۹۵ھ/۱۸۷۸ء شیخ احمد بن زین بن دحلان مکی سے اجازت احادیث ۱۲۹۵ھ/۱۸۷۸ مفتی مکہ شیخ عبدالرحمن سے اجازت حدیث ۱۲۹۵ھ/۱۸۷۸ء شیخ عابد السندی کے تلمیذ امام کعبہ شیخ حسین بن صالح مکی سے اجازت حدیث ۱۲۹۵ھ/۱۸۷۸ء امام احمد رضا کی پیشانی میں شیخ موصوف کا مشاہدہ انور الہیہ ۱۲۹۵ھ/۱۸۷۸ء مسجد خیف (مکہ مکرمہ) میں بشارت مغفرت ۱۲۹۵ھ/۱۸۷۸ء زمانہ حال کے یہود و نصاری کی عورتوں سے نکاح کے عدم جواز کافتویٰ ۱۲۹۸ھ/۱۸۸۱ء تحریک ترک گائوکشی کا سدباب ۱۲۹۸ھ/۱۸۸۱ پہلی فارسی تصنیف ۱۲۹۹ھ/۱۸۸۲ء اردو شاعری کا سنگھار ’’قصیدہ معراجیہ‘‘ کی تصنیف قبل ۱۳۰۳ھ/۱۸۸۵ء فرزند اصغر مفتی اعظم ہند محمد مصطفی رضا خاں کی ولادت ۲۲ ذولحجہ ۱۳۱۰ھ/۱۸۹۲ء ندوۃ العلماء کے جلسہ تاسیس (کانپور) میں شرکت ۱۳۱۱ھ/۱۸۹۳ء تحریک ندوہ سے علیحدگی ۱۳۱۵ھ/۱۸۹۷ء مقابر پر عورتوں کے جانے کی ممانعت میں فاضلانہ تحقیق ۱۳۱۶ھ/۱۸۹۸ء قصیدہ عربیہ ’’آمال الابراروآلام الاشرار‘‘ کی تصنیف ۱۳۱۸ھ/۱۹۰۰ء ندوۃ العلماء کے خلاف ہفت روزہ اجلاس پٹنہ میں شرکت رجب ۱۳۱۸ھ/۱۹۰۰ علماء ہند کی طرف سے خطاب ’’مجدد مائتہ حاضرہ‘‘ ۱۳۱۸ھ/۱۹۰۰ء تاسیس دارالعلوم منظر الاسلام بریلی ۱۳۲۲ھ/۱۹۰۴ء امام کعبہ شیخ عبداﷲ میر داد اور ان کے استاذ شیخ حامد مکی کا مشترکہ استفتاء اور امام احمد رضا کا جواب ۱۳۲۴ھ/۱۹۰۶ء علماء مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کے نام سندات اجازت و خلافت ۱۳۲۴ھ/۱۹۰۶ء کراچی آمد اور مولانا عبدالکریم درس سندھی سے ملاقات ۱۳۲۴ھ/۱۹۰۶ء امام احمد رضا کے عربی فتویٰ کو شیخ اسماعیل خلیل مکی کا زبردست خراج عقیدت ۱۳۲۵ھ/۱۹۰۷ء شیخ ہدایت اﷲ سندھی کا اعتراف مجددیت ۱۴ ربیع الاول ۱۳۳۰ھ/۱۹۱۲ء قرآن کریم کا اردو ترجمہ (کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن) ۱۳۳۰ھ/۱۹۱۲ء شیخ موسیٰ علی شامی ازہری کی طرف سے خطاب (امام الائمۃ المجدد لہذہ الامۃ‘‘ یکم ربیع الاول ۱۳۳۰ھ/۱۹۱۲ء شیخ اسماعیل خلیل مکی کی طرف سے خطاب ’’خاتم الفقہاء و المحدثین‘‘ ۱۳۳۰ھ/۱۹۱۲ء علم المربعات میں ڈاکٹر سرضیاء الدین (علی گڑھ یونیورسٹی انڈیا) کے مطبوعہ سوال کا فاضلانہ جواب قبل ۱۳۳۱ھ/۱۹۱۳ء ملت اسلامیہ کے اصلاحی و انقلابی پروگرام کا اعلان ۱۳۳۱ھ/۱۹۱۳ء بہاولپور ہائی کورٹ کے جسٹس محمد دین کا استفتاء اس کا فاضلانہ جواب ۲۳ رمضان ۱۳۳۱ھ/۱۹۱۳ء مسجد کانپور کے قضیہ پر برطانوی حکومت سے معاہدہ کرنیوالوں کے خلاف ناقدانہ رسالت ۱۳۳۱ھ/۱۹۱۳ء ڈاکٹر سرضیاء الدین (وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) کی آمد اور استفادہ علمی مابین ۱۳۳۲ھ/۱۹۱۴۔۱۳۳۵ھ/۱۹۱۶ء انگریزی عدالت میں جانے سے انکار اور حاضری سے استثنائ ۱۳۳۴ھ/۱۹۱۶ء صدر الصدور صوبہ جات دکن کے نام ارشاد نامہ ۱۳۳۴ھ/۱۹۱۶ء تاسیس جماعت رضائے مصطفی بریلی قریبا ۱۳۳۶ھ/۱۹۱۷ء سجدہ تعظیمی کی حرمت پر فاضلانہ تحقیق ۱۳۳۷ھ/۱۹۱۸ء امریکی ہیئت داں پروفیسر البرٹ ایف پورٹا کو شکست فاش ۱۳۳۸ھ/۱۹۱۹ء آئزک نیوٹن اور آئن اسٹائن کے نظریات کے خلاف فاضلانہ تحقیق ۱۳۳۸ھ/۱۹۲۰ء رد حرکت و زمین پر 105 دلائل اور فاضلانہ تحقیق ۱۳۳۸ھ/۱۹۲۰ء فلاسفہ قدیمہ کا رد بلیغ ۱۳۳۸ھ/۱۹۲۰ء دو قومی نظریہ پر حرف آخر ۱۳۳۹ھ/۱۹۲۱ء تحریک خلافت کا افشائے راز ۱۳۳۹ھ/۱۹۲۱ء تحریک ترک موالات کا افشائے راز ۱۳۳۹ھ/۱۹۲۱ء انگریزوں کی معاونت و حمایت کے الزام کیخلاف تاریخی بیان ۱۳۳۹ھ/۱۹۲۱ء وصال پر ملال ۲۵ صفر المظفر ۱۳۴۰ھ /۲۸ اکتوبر ۱۹۲۱ء مدیر ’’پیسہ اخبار‘و کا تعزیتی نوٹ یکم ربیع الاول ۱۳۴۰ھ سندھ کے ادیب شہیر سرشار عقیلی کا تعزیتی مقالہ ۱۳۴۱ھ/ستمبر۱۹۲۲ء بمبئی ہائی کورٹ کے جسٹس ڈی۔ ایف۔ ملا کا خراج عقیدت ۱۳۴۹ھ/۱۹۳۰ء شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال کا خراج عقیدت ۱۳۵۱ھ/۱۹۳۲ (ماخوذ… خلفائے محدث بریلوی رحمتہ اﷲ علیہ) ۳۔ مسلک کے بنیادی عقائد ‘ممیزات اہل سنت و جماعت حنفی ’’بریلوی‘‘ حضرات کے عقائد وممیزات عقیدہ: ﷲ تعالیٰ وحدہ لاشریک ہے ہمیشہ سے ہے ہمیشہ رہے گا۔ جس طرح سے اس کی ذات قدیم ازلی ابدی ہے اس کی صفات بھی قدیم ازلی ابدی ہیں۔ ذات و صفات کے علاوہ سب چیزیں حادث ہیں یعنی پہلے نہیں تھیں پھر موجود ہوئیں۔ عقیدہ: ﷲ تعالیٰ جھوٹ نہیں بول سکتا۔ قرآن مجید میں ﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ومن اصدق من ﷲ قیلا (سورہ النساء ۴/۱۲۲) ’’اور ﷲ سے زیادہ کس کی بات سچی‘‘ (کنزالایمان) نیز ایک اور مقام پر فرماتا ہے۔ ومن اصدق من ﷲ حدیثا (سورہ النساء ۴/۸۷) ’’اور ﷲ سے زیادہ کس کی بات سچی‘‘ (کنزالایمان) صدر الافاضل علامہ سید نعیم الدین مراد آبادی قدس سرہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ ’’یعنی اس سے زیادہ سچا کوئی نہیں اس لئے کہ اس کا کذب ناممکن و محال ہے کیونکہ کذب عیب ہے اور ہر عیب ﷲ پر محال ہے‘ وہ جملہ عیوب سے پاک ہے‘‘ (تفسیر خزائن العرفان) عقیدہ: ﷲ تعالیٰ کا علم غیب ذاتی ہے… ﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ترجمہ ’’وہی ﷲ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں‘ ہر نہاں و عیاں کا جاننے والا وہی ہے‘ بڑا مہربان رحمت والا (سورہ الحشر ۵۹/۲۲) (کنزالایمان) ترجمہ: ’’ہر چھپے اور کھلے کا جاننے والا سب سے بڑا بلندی والا‘‘ (سورہ الرعد ۱۳/۹) (کنزالایمان) ترجمہ: ’’بے شک توہی ہے سب غیبوں کا جاننے والا‘‘ (سورہ المائدہ ۵/۱۰۹‘۱۱۶) (کنزالایمان) عقیدہ: حضورﷺ خاتم الانبیاء ہیں۔ ﷲ تعالیٰ نے سلسلہ نبوت آپﷺ پر ختم کردیا۔ حضورﷺ کے زمانہ میں یا بعد کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا۔ حضورﷺکے زمانہ میں یا حضورﷺ کے بعد کسی کو نبوت ملنا مانے یا جائز جانے‘ کافر ہے۔ ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ترجمہ: ’’محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں ﷲ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے‘‘ (سورہ الاحزاب ۳۳/۴۰) (کنزالایمان) عقیدہ: حضورﷺ نور ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ترجمہ: بے شک تمہارے پاس ﷲ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب (سورہ المائدہ ۵/۱۵) (کنزالایمان) حضرت عبدﷲ ابن عباس رضی ﷲ عنہماکی تفسیر یہ ہے کہ اس آیت میں نور سے مراد حضور پرنورﷺ ہیں۔ جمہور مفسرین کا یہی قول ہے ملاحظہ ہوں (تفسیر بیضاوی‘ تفسیر مظہری‘ تفسیر خازن‘ تفسیر مدارک‘ تفسیر روح البیان‘ تفسیر جلالین‘ تفسیر روح المعانی و غیرہا) صدر الافاضل علامہ سید نعیم الدین مراد آبادی قدس سرہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’سید عالمﷺ کو نور فرمایا گیا کیونکہ آپ سے تاریکی کفر دور ہوئی اور راہ حق واضح ہوئی‘‘ (خزائن العرفان) عقیدہ: حضورﷺ بے مثل بشر ہیں۔ حضورﷺ ارشاد فرماتے ہیں۔ ’’میں تمہاری مثل نہیں‘‘ (صحیح بخاری ۲/۲۴۶‘ جامع الترمذی ۱/۹۷٭ حضرت سیدنا علی رضی ﷲ عنہ ارشاد فرماتے ہیں ’’میں نے رسول ﷲ کی مثل نہ پہلے کسی کو دیکھا نہ بعد میں (ترمذی ۱۲/۸۹ تاریخ کبیر‘ خصائص کبریٰ) عقیدہ: حضورﷺ شافع محشر ہیں۔ وہ ﷲ تعالیٰ کے اذن سے اپنی امت کی شفاعت فرمائیں گے۔ ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’وہ کون ہے جو اس کے یہاں سفارش کرے مگر اس کے حکم سے جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے (سورہ البقرہ ۲/۲۵۵) (کنزالایمان) ’’قریب ہے کہ تمہیں تمہارا رب ایسی جگہ کھڑا کرے جہاں سب تمہاری حمد کریں‘‘ (سورہ الاسراء ۱۷/۷۹) (کنزالایمان) جمہور مفسرین فرماتے ہیں کہ اس آیت میں مقام محمود سے شفاعت مراد ہے۔ عقیدہ: عبدالمصطفی‘ عبدالنبی‘ غلام رسول اور غلام نبی وغیرہ نام رکھنا جائز ہے اور باعث برکات بھی ہے۔ ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’تم فرمائو اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ﷲ کی رحمت سے ناامید نہ ہو‘‘ (سورہ الزمر ۳۹/۵۳) (کنزالایمان) ﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں حضورﷺکو حکم فرمایا کہ یاعبادی (اے میرے بندوں) کہیں جس سے یہ ثابت ہوا کہ لفظ عبد غیر ﷲ کے ساتھ مل کر استعمال ہوسکتا ہے۔ یعنی جس طرح عبدﷲ اور عبدالرحمن نام ہوسکتے ہیں اسی طرح عبدالمصطفی اور عبدالنبی نام میں کچھ حرج نہیں ہے جو لوگ غیر ﷲ کی طرف اضافت کے سبب شرک کی بات کرتے ہیں وہ اس آیت کا کیا جواب دیں گے اس میں بندوں کی اضافت ضمیر واحد متکلمی کی طرف کی گئی ہے جس سے قطعا حضورپرنور سید عالم صاحب لولاک ﷺکی ذات ستودہ صفات مراد ہے۔ عقیدہ: یارسول ﷲ‘ یا حبیب ﷲ لفظ ندا سے پیارے آقا و مولیٰﷺ کو پکاریا یاد کرنا جائز ہے۔ امام المحدثین محمد بن اسمعیل بخاری قدس سرہ روایت فرماتے ہیں کہ: ’’حضرت عبدﷲ ابن عمر رضی ﷲ عنہا کا پاوں سن ہوگیا تو ایک شخص نے ان سے کہا کہ اس شخص کو یاد کریں جو آپ کو سب سے محبوب ہے‘ تو انہوں نے کہا ’’یامحمدﷺ‘‘ (الادب المفردلام بخاری ۱/۳۲۵) عقیدہ: حضور سرور کون و مکاں دور و نزدیک سے اپنے امتیوں کی آواز و فریاد کو سنتے ہیں۔ شافع محشر‘ ساقی کوثر احمد مجتبیٰﷺ کا فرمان ہے۔ ’’جو کچھ میں سنتا ہوں تم نہیں سنتے‘‘ (المستدرک علی صحیحین ۲/۵۵۴‘ سنن الترمذی ۴/۵۵۶‘ سنن البیہقی الکبری ۵۲۷‘ مسند البزار ۹/۳۵۸‘ مسند احمد ۵/ ۱۷۳‘ شعب الایمان ۱/۴۸۴) اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ اپنے مشہور و معروف ’’سلام‘‘ میں فرماتے ہیں۔ دور و نزدیک کے سننے والے وہ کان کان لعل کرامت پہ لاکھوں سلام عقیدہ: حضور سرور کونینﷺ کو ﷲ تعالیٰ نے نفع و نقصان کا مالک بنایا ہے۔ ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ’’اور انہیں کیا برا لگا یہی نہ کہ ﷲ اور ﷲ کے رسولﷺ نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا (سورہ التوبہ ۹/۷۴) (کنزالایمان) ’’اور کیا اچھا ہوتا اگر وہ اس پر راضی ہوتے جو ﷲ و رسول نے ان کو دیا اور کہتے ﷲ کافی ہے اب دیتا ہے ہمیں ﷲ اپنے فضل سے اور ﷲ کا رسول ہمیں ﷲ ہی کی طرف رغبت ہے‘‘ (سورہ التوبہ ۹/۵۹) (کنزالایمان) ’’اور اے محبوب یاد کرو جب تم فرماتے تھے اس سے جسے ﷲ نے نعمت دی اور تم نے اسے نعمت دی (سورہ الاحزاب ۳۳/۳۷) (کنزالایمان) حضورﷺ ارشاد فرماتے ہیں: ’’ہم تقسیم فرمانے والے ہیں اور اﷲ تعالیٰ دیتا ہے‘‘ (صحیح البخاری ۱/۱۲۶ مشکورہ المصابیح) اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ سرکاردوعالمﷺ من جانب ﷲ پوری کائنات میں تقسیم فرمانے والے ہیں اور جو قاسم ہوتا ہے یقینا وہ نفع رساں ہوتا ہے۔ عقیدہ: انبیاء کرام‘ اولیاء کرام اور نیک ہستیوں کا وسیلہ مانگنا جائز ہے۔ ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ’’اے ایمان والو! ﷲ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پائو‘‘ (سورہ المائدہ ۵/۳۵) (کنزالایمان) حضور اکرم نور مجسمﷺ نے ایک نابینا صحابی رضی اﷲ عنہ کوایک دعا تعلیم فرمائی جس میں ان صحابی رضی ﷲ عنہ نے حضورﷺ کے وسیلہ سے دعا مانگی۔ وہ دعا یہ ہے اللھم انی اسئلک واتوجہ الیک بمحمد نبی الرحمۃ یامحمد انی قد توجہت بک الی ربی فی حاجتی ہذہ لتقضی اللھم فشفعہ فی‘‘ اے ﷲ بیشک میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف اپنے حضرت محمد مصطفیﷺ نبی رحمت کے وسیلہ سے متوجہ ہوتا ہے‘ یا محمدﷺ بے شک میں آپﷺ کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں۔ اپنی اس حاجت کے لئے تاکہ میری حاجت پوری ہو۔ اے ﷲ حضور اکرمﷺ کی شفاعت میرے حق میں قبول فرما‘‘ (سنن ابن ماجہ ۴/۲۹۶) علامہ سید احمد بن زینی دحلان مکی فرماتے ہیں۔ ’’اہل سنت و جماعت کے نزدیک وسیلہ مانگنے کے جائز ہونے پر اجماع ہے‘‘ (الدر السنیۃ ص ۴۰) عقیدہ: حضور سید عالمﷺ معلم کائنات ہیں اور آپﷺ کی اطاعت سب پر لازم ہے۔ ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اس نے ﷲ کا حکم مانا‘‘ (سورہ النساء ۴/۸۰) (کنز الایمان) ’’اور جو کچھ رسول تمہیں عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو‘‘ (سورہ الحشر ۵۹/۷) (کنزالایمان) ’’اور ہم نے ہر رسول اس کی قوم ہی کی زبان میں بھیجا کہ وہ انہیں صاف بتائے‘‘ (سورہ ابراہیم ۱۴/۴) (کنزالایمان) شیخ سلیمان الجمل قدس سرہ حاشیہ جلالین میں لکھتے ہیں ’’اور رسول اﷲﷺ ہر قوم سے ان کی زبان میں خطاب فرمایا کرتے تھے‘‘ (تفسیر جمل ۲/۵۱۲) ’’اور تمہیں کتاب و حکمت سکھاتے ہیں اور تمہیں خوب ستھرا کرتے ہیں اور تمہیں وہ سکھاتے ہیں جو تم نہیں جانتے تھے‘‘ (سورہ البقرہ ۲/۱۵۱) (کنزالایمان) ان آیات و تفسیر سے معلوم ہوا کہ حضورﷺ تمام لغات کے جاننے والے ہیں اور آپﷺ معلم کائنات ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ آپﷺ نے کوئی علم یا کوئی زبان کسی مخلوق سے سیکھی ہو۔ عقیدہ: حضورﷺ کو ﷲ تعالیٰ نے ہر چیز کا علم عطا فرمایا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ’’اور تمہیں سکھا دیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور ﷲ کا تم پر بڑا فضل ہے‘‘ (سورہ النساء ۴/۱۱۳) (کنزالایمان) صحابی رسولﷺ حضرت ابو زید رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں ’’نبی پاکﷺ نے ہم کو جو کچھ بھی پہلے ہوچکا تھا اور جو کچھ آئندہ ہونے والا تھا‘ تمام بیان فرمادیا‘‘ (صحیح مسلم ۲/۳۹۰) نیز سرکار کریمﷺ نے ارشاد فرمایا ’’پس جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے‘ میں اس کو جان گیا ہوں‘‘ (جامع ترمذی ۲/۱۵۵) نیز سرکار کریمﷺ نے ارشاد فرمایا ’’کیا حال ہے ان قوموں کا جنہوں نے میرے علم میں طعن کیا ہے۔ قیامت تک کی جس چیز کے بارے میں تم مجھ سے پوچھو گے میں تمہیں بتادوں گا‘‘ (تفسیر خازن ۱/۳۸۲‘ مطبوعہ مصر) عقیدہ: نماز جنازہ کے بعد دعا مانگنا جائز ہے۔ ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا‘‘ (سورہ غافر ۴۰/۶۰) (کنزالایمان) اس آیت میں کوئی قید نہیں ہے جب بھی ہم دعا مانگیں اﷲ تعالیٰ قبول فرمانے والا ہے۔ خواہ عام فرض نمازوں کے بعد دعا کی جائے یا نماز جنازہ کے بعد بالکل جائز اور حکم قرآن کے عین مطابق ہے۔ چنانچہ حضور اقدس سیدعالمﷺارشاد فرماتے ہیں۔ ’’جب تم نماز جنازہ پڑھ لو تو میت کے لئے خالص دعا مانگو‘‘ (ابن ماجہ ۴/۴۴۷‘ سنن ابی دائود ۸/۴۹۱) حضرت سیدنا عبدﷲ ابن عمر رضی ﷲ عنہما ایک جنازے پر نماز جنازہ کے بعد پہنچے تو انہوں نے نمازیوں سے فرمایا ’’اگر تم نے مجھ سے پہلے نماز پڑھ لی ہے تو دعا میں تم مجھ سے سے آگے نہ برھو‘‘ (المبسوط الامام شمس الائمۃ السرخسی ۲/۶۷) عقیدہ: محفل میلاد شریف کرنا جائز اور باعث برکت ہے۔ ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ’’تم فرمائو کہ ﷲ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اس پر چاہئے کہ خوشی کریں‘‘ (سورۃ یونس ۱۰/۵۸) کنزالایمان) ’’اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو‘‘ (سورۃ الضحی ۹۳/۱۱) (کنزالایمان) ان آیات سے یہ بات نہایت واضح کہ ﷲ تعالیٰ کے فضل‘ رحمت اور نعمت پر خوب خوشی کا اظہار کرو اور چرچا بھی کرو۔ اب کون سا مسلمان ہے جو سرور عالم نور مجسم شفیع اعظمﷺ کی ذات بابرکات کو ﷲ تعالیٰ کا فضل اس کی رحمت اور اس کی نعمت نہیںسمجھتا؟ یقینا تمام مسلمانان عالم حضورﷺ کو ﷲ تعالیٰ کی طرف سے رحمتہ اللعالمین اور ﷲ تعالیٰ کی نعمت عظمیٰ سمجھتے ہیں جن کی بعثت شریفہ کا ﷲ تعالیٰ نے احسان جتایا ہے۔ ’’بے شک ﷲ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا‘‘ (سورہ آل عمران ۳/۱۶۴) (کنزالایمان) لہذا آپﷺ کے میلاد کی خوشی منانا ﷲ تعالیٰ کی نعمت کا چرچا کرنا ہے۔ اور محفل میلاد منعقد کرنا صرف پاکستان یا ہندوستان تک محدود نہیں ہے بلکہ تمام عالم اسلام اپنے اپنے زمانے میں محفل میلاد منعقد کرتے آئے ہیں۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ لکھتے ہیں ’’اور اہل اسلام ہمیشہ سے حضورﷺ کی ولادت شریف والے مہینہ میں محافل میلاد منعقد کرتے رہے ہیں‘‘ (ماثبت من السنۃ ص ۴۰ مطبوعہ لاہور) عقیدہ: حضور اکرم نور مجسمﷺ اور تمام انبیاء کرام اپنے اپنے مزاروں میں زندہ ہیں۔ ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں‘‘ (سورہ البقرہ ۲/۱۵۴) (کنزالایمان) علامہ احمد بن حجر عسقلانی رحمتہ اﷲ لکھتے ہیں: ’’اور جب قرآنی ارشادات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ شہید لوگ زندہ ہیں اور یہی عقل سے بھی بادلیل ثابت ہے تو وہ انبیاء کرام علیہم السلام جن کا درجہ شہداء سے بلند اور بالاتر ہے ان کی حیات بطریق اولیٰ ثابت ہوگئی‘‘ (فتح الباری شرح صحیح البخاری ۱۰/۲۴۳) عقیدہ: بزرگان دین کے اعراس میں جو جانور نیاز اور ارواح کے ایصال ثواب کے لئے ذبح کیا جاتا ہے‘ وہ حلال ہے۔ قرآن مجید میں جو آیت ہے (اور وہ جو غیر خدا کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو‘‘ (سورہ البقرہ ۲/۱۷۳) (کنزالایمان) تو اس آیت کی تفسیر میں مفسرین فرماتے ہیں کہ اس آیت میں وہ جانور مراد ہے جس پر ذبح کے وقت غیر ﷲ کا نام لیا جائے۔ مندرجہ ذیل تفاسیر میں یہ بیان موجود ہے (تفسیر بیضاوی‘ تفسیر مظہری‘ تفسیر خازن‘ تفسیر مدارک‘ تفسیر روح البیان‘ تفسیر جلالین‘ تفسیر روح المعانی وغیرہا) لہذا حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کی گیارہویں شریف ان کے ایصال ثواب کے لئے جو جانور گائے‘ بکرا وغیرہ ذبح کیا جاتا ہے یا کسی ولی ﷲ کے عرس مقدس پر جو بکرا ذبح کیا جاتا ہے اس پر بھی ذبح کے وقت (بسم ﷲ ﷲ اکبر) پڑھا جاتا ہے لہذا وہ کھانا بالاتفاق حلال اور جائز ہے۔ کذا فی التفسیرات الاحمدیۃ عقیدہ: مردے سنتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے کہ جب ﷲ تعالیٰ نے قوم ثمود پر عذاب نازل کیا اور وہ لوگ مر گئے تو حضرت صالح علیہ السلام نے ان مردہ لوگوں کو فرمایا (پس ان سے منہ پھیرا اور کہا اے میری قوم بے شک میں نے تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچا دی اور تمہارا بھلا چاہا مگر تم خیر خواہوں کے غرض ہی نہیں) (سورہ الاعراف ۷/۷۹) (کنزالایمان) حضورﷺ نے ارشاد فرمایا ’’بے شک جب آدمی کو قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے دوست جب اس سے لوٹتے ہیں تو وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے‘‘ (صحیح بخاری ۵/۱۱۳) حضرت انس رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جب سرکار دوعالمﷺ مدینہ طیبہ کے قبرستان سے گزرتے تو فرماتے: ’’اے قبروں والو! تم پر سلامتی ہو‘ ﷲ تعالیٰ ہمیں اور تمہیں بخشے اور تم ہم سے پہلے آئے اور ہم تمہارے بعد آئیں گے‘‘ (جامع ترمذی ۴/۲۰۸) ان احادیث سے صاف واضح ہے کہ قبروں والے مردے سنتے ہیں۔ عقیدہ: اولیاء ﷲ کو پکارنا اور ندا کرنا جائز ہے۔ ﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ’’تو بے شک اﷲ ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے فرشتہ مدد پر ہیں‘‘ (سورۃ التحریم ۶۶/۴) (کنزالایمان) امام جلال الدین سیوطی قدس سرہ نے طبرانی شریف کے حوالے سے حدیث شریف درج فرمائی ہے کہ حضرت عبدﷲ ابن عمر رضی ﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور سید عالمﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ﷲ تعالیٰ کے کچھ ایسے بندے ہیں جنہیں لوگوںکی حاجتیں پوری ہونے کے لئے لوگ اپنی حاجتوں میں ان کی طرف فریاد کریں گے‘ وہ ﷲ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ ہیں‘‘ (جامع صغیر مع فیض القدیر ۲/۴۷۷ مطبوعہ مصر‘ المعجم الکبیر ۱۲/۳۵۸‘ حلیتہ الاولیاء ۳/۲۲۵) اس کے علاوہ بہت سے ایسے عقائد ہیں جن سے اہل سنت و جماعت حنفی بریلوی حضرات کا دیگر فرقوں سے امتیاز ہوجاتا ہے چنانچہ انہیں عقائد سے یہ ہیں۔ حضورﷺ کو حاضر و ناظر ماننا حضورﷺ کے لئے عطائی علم غیب ماننا حضورﷺ کو دنیا وآخرت کے احوال کا جاننے والا ماننا اذان سے قبل اور بعد میں درود شریف پڑھنا انگوٹھے چومنا‘ رحمۃ للعالمین صفت کو حضورﷺ کا خاصہ ماننا ختم شریف‘ یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیأ اﷲ وغیرہ ان عقائد کے حامل حضرات ہی درحقیقت اہل سنت و جماعت ہیں جنہیں عرف میں ’’بریلوی‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ مذکورہ بالا عقائد چودہ سو سال سے چلے آرہے ہیں اور ان کے دلائل قرآن و سنت سے واضح ہیں۔ ان عقائد کے حامل شخص کو ’’بریلوی فرقہ‘‘ والا کہنا قطعا درست نہیں ہے۔ ورنہ پھر صحابہ کرام‘ تابعین‘مفسرین‘ محدثین‘ ائمہ مجتہدین‘ سب کو ’’بریلوی‘‘ کہنا پڑے گا۔ کیونکہ ان کے بھی وہی عقائد تھے جو آج اہل سنت حنفی بریلویوں کے ہیں۔ لہذا مذکورہ عقائد کے حامل حضرات کو ’’بریلوی‘‘ مکتبہ فکر والا کہہ کر اہل سنت و جماعت سے علیحدہ کہنا اور جدید فرقہ کے عقائد کا پیروکار کہنا ظلم و زیادتی ہے۔ ۴: عبادات و معاملات میں کون سے فقہی مذہب سے وابستگی ہے‘ اس فقہی مذہب کی کون سی کتاب کو بنیادی ماخذ کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے‘ فقہی لحاظ سے ممیزات عبادات و معاملات میں فقہی مذہب ’’حنفی‘‘ ہے جوکہ حضرت سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ کی طرف منسوب ہے۔ اس فقہی مذہب کی کئی کتب کو ماخذ کی حیثیت حاصل ہے جن میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں۔ کتب ظاہر الروایہ میں چھ کتابیں ہیں۔ (۱) جامع کبیر (۲) جامع صغیر (۳) سیر کبیر (۴) سیر صغیر (۵) مبسوط (۶) زیادات یہ کتابیں فقہ حنفی کا اصل ماخذ اور بنیادی ماخذ ہیں۔پھر مسائل پیدا ہوتے گئے اور کلیات سے جزئیات نکلتے گئے اور کتب فتاویٰ تصنیف ہوتی رہیں۔ ہمارے دور میں جو کتب فتاویٰ مشہور اور زیادہ مروج ہیں وہ یہ ہیں۔ (۱) فتاویٰ عالمگیری (۲) فتاویٰ شامی (۳) فتاویٰ قاضی خان (۴) فتاویٰ خلاصہ (۵) فتاویٰ بزازیہ (۶) فتاویٰ انقرویہ (۷) فتاویٰ رضویہ (۸) فتاویٰ امجدیہ (۹) بہار شریعت (۱۰) فتاویٰ فیض رسولﷺ وغیرہا ۵: اس مسلک کے بارے میں مزید معلومات کیلئے منتخب کتابیں تمہید ایمان‘ از: امام احمد رضا محدث بریلوی زلزلہ‘ از: علامہ ارشد القادری جاء الحق از : مفتی احمد یار خان نعیمی بزرگوں کے عقیدے از: مفتی جلال الدین احمد امجدی مقیاس حنفیت از : حضرت مولانا محمد عمر اچھروی حیات اعلیٰ حضرت از: مولانا ظفر الدین بہاری حیات مولانا احمد رضا بریلوی از پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد فاضل بریلوی علماء حجاز کی نظر میں از پروفیسر مسعود احمد امام احمد رضا اوقر عالم اسلام از پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد حیات امام اہلسنت از: پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد گناہ بے گناہی از :پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد اعلیٰ حضرت بریلوی از: مولانا نسیم بستوی جہان رضااز: مرید احمد چشتی خیابان رضا از: مرید احمد چشتی امام احمد رضا ارباب علم ودانش کی نظر میں از: مولانا یاسین اختر مصباحی حیات صدر الافاضل از: سید معین الدین نعیمی اکرام امام احمد رضا از: مفتی محمد برہان الحق جبل پوری اکابر تحریک پاکستان از: محمد صادق قصوری خطبات آل انڈیا سنی کانفرنس از: مولانا محمد جلال الدین امجدی اندھیرے سے اجالے تک از: مولانا عبدالحکیم شرف قادری انوار رضا ‘مقالات یوم رضا‘ معارف رضا (مطبوعہ ۱۹۸۳) تعارف اہل سنت از: یاسین اختر مصباحی بشکریہ پاک ڈاٹ نیٹ