ماہرین نے تاحال جو تحقیقات کی ہیں ان کے مطابق دور قدیم میں جب کرہ ارض پر گیسوں اور خاکی ذرات کے بادل ٹھنڈے ہو کر زمین کی شکل اختیار کر رہے تھے تب تک زندگی کا وجو د ممکن نہیں تھا ۔ اس کے بعد ایک اندازے کے مطابق آج سے تقریبا ۳۵۰۰ ملین سال قبل جب سمندر زمین پر نمو دار ہوئے تو تب زندگی کا آغاز ہوا۔
زندگی کا آغاز کیسے ہوا اس کا صحیح علم کسی کو بھی نہیں ہے ۔ ۱۹۵۳ء میں امریکن سائنسدان سٹینلی ملر نے اندرون لیبارٹری ہائیڈروجن ، ایمونیا ، میتھین گیسز اور پانی کے محلول میں ۲۰ گھنٹے بجلی کی رو گزار نے کے بعد کچھ مرکبات اور ایمنو ایسڈ بنائے جو کہ زندگی کے لئے بہت ضروری جزو ہیں۔ اس کے بعد ٹیکساس امریکہ میں ۷۹ ۱۹ ء میں ایلن بارڈر اور ہیر لڈر چی نے بیرون لیبارٹری ایمونیا ، میتھن گیسز اور پانی کے محلول جس میں پلا ٹینم اور ٹیٹینم او کسائیڈز بھی تھے دھو پ میں رکھ کر ایمنو ایسڈ بنائے ۔ ان تجربات کی رو سے یہ قیاس آرائیاں کی گئیں کہ زندگی کا آغاز زمین کے شروع کے ماحول میں موجو د گیسوں پر آفتابی شعاعوں اور طوفانی بجلی کی تابکار ی کے زیر اثر ہوا ہو گا۔
اس کے بعد کے تجربات سے یہ قیاس آرائی ہوئی کہ بعض ایسڈز میں فعل و انفحلا ت کے نتیجہ میں مالیکیولز کسی بھی جاندار میں تبدیل ہو سکتے ہیں ۔ سائنسدانوں نے یہ تو دریافت کر لیا ہے کہ تمام جاندار اشیا ایک خاص قسم کے مادے پر وٹو پلا زم ( مادہ حیات ) کی بنیاد پر قائم و دائم ہیں اور ایک ایسا کیمیائی فارمولا بھی ترتیب دے دیا ہے جس کی مدد سے پرو ٹو پلازم مصنوعی طریقوں سے بنانے کی کو شش کی جاسکتی ہے ۔حقیقتا اس فارمولے کے تحت مختلف عناصر اور مرکبات کے باہمی ملاپ سے پرو ٹو پلازم تو نہیں بس اس قسم کا ایک مادہ بن جاتا ہے لیکن ناکامی کا نقطہ یہ ہے کہ انسانی ذہنوں اور ہاتھوں کی اختراع سے تشکیل پانے والے اس مادہ میں زندگی کے آثار نمودار نہیں ہوتے ۔
سائنسدانوں کے تجربات کے مطابق تخلیق حیات ابتدا میں آج سے کرو ڑوں سال پہلے کسی سمندر کی تہہ میں ہوئی ہو گی لیکن زندگی کی ابتدا ئی شک بہت سادہ اور بہت چھوٹی تھی ۔ پہلی جاندار چیزیں پودے تھے ان کی شکل سبز جیلی کے ننھے ننھے ٹکڑوں کی طرح تھی جو سمندروں میں بہتے پھرتے تھے ۔ بعض پودوں نے ایک طویل اور پیچیدہ عمل سے گزرنے کے بعد ابتدائی جانداروں کا روپ دھارا تاہم یہ ابتدائی جاندار ایک خلیے والے جاندار تھے جو اپنے جیسے دوسرے جاندار پیدا کر سکتے تھے ۔
زندگی کا آغاز کیسے ہوا اس کا صحیح علم کسی کو بھی نہیں ہے ۔ ۱۹۵۳ء میں امریکن سائنسدان سٹینلی ملر نے اندرون لیبارٹری ہائیڈروجن ، ایمونیا ، میتھین گیسز اور پانی کے محلول میں ۲۰ گھنٹے بجلی کی رو گزار نے کے بعد کچھ مرکبات اور ایمنو ایسڈ بنائے جو کہ زندگی کے لئے بہت ضروری جزو ہیں۔ اس کے بعد ٹیکساس امریکہ میں ۷۹ ۱۹ ء میں ایلن بارڈر اور ہیر لڈر چی نے بیرون لیبارٹری ایمونیا ، میتھن گیسز اور پانی کے محلول جس میں پلا ٹینم اور ٹیٹینم او کسائیڈز بھی تھے دھو پ میں رکھ کر ایمنو ایسڈ بنائے ۔ ان تجربات کی رو سے یہ قیاس آرائیاں کی گئیں کہ زندگی کا آغاز زمین کے شروع کے ماحول میں موجو د گیسوں پر آفتابی شعاعوں اور طوفانی بجلی کی تابکار ی کے زیر اثر ہوا ہو گا۔
اس کے بعد کے تجربات سے یہ قیاس آرائی ہوئی کہ بعض ایسڈز میں فعل و انفحلا ت کے نتیجہ میں مالیکیولز کسی بھی جاندار میں تبدیل ہو سکتے ہیں ۔ سائنسدانوں نے یہ تو دریافت کر لیا ہے کہ تمام جاندار اشیا ایک خاص قسم کے مادے پر وٹو پلا زم ( مادہ حیات ) کی بنیاد پر قائم و دائم ہیں اور ایک ایسا کیمیائی فارمولا بھی ترتیب دے دیا ہے جس کی مدد سے پرو ٹو پلازم مصنوعی طریقوں سے بنانے کی کو شش کی جاسکتی ہے ۔حقیقتا اس فارمولے کے تحت مختلف عناصر اور مرکبات کے باہمی ملاپ سے پرو ٹو پلازم تو نہیں بس اس قسم کا ایک مادہ بن جاتا ہے لیکن ناکامی کا نقطہ یہ ہے کہ انسانی ذہنوں اور ہاتھوں کی اختراع سے تشکیل پانے والے اس مادہ میں زندگی کے آثار نمودار نہیں ہوتے ۔
سائنسدانوں کے تجربات کے مطابق تخلیق حیات ابتدا میں آج سے کرو ڑوں سال پہلے کسی سمندر کی تہہ میں ہوئی ہو گی لیکن زندگی کی ابتدا ئی شک بہت سادہ اور بہت چھوٹی تھی ۔ پہلی جاندار چیزیں پودے تھے ان کی شکل سبز جیلی کے ننھے ننھے ٹکڑوں کی طرح تھی جو سمندروں میں بہتے پھرتے تھے ۔ بعض پودوں نے ایک طویل اور پیچیدہ عمل سے گزرنے کے بعد ابتدائی جانداروں کا روپ دھارا تاہم یہ ابتدائی جاندار ایک خلیے والے جاندار تھے جو اپنے جیسے دوسرے جاندار پیدا کر سکتے تھے ۔
مزید پڑھیے