رہنمائے زندگی۔ جلد اول ۔ تخلیق کائنات و ارتقاء انسان ملک زوار حسین
تخلیق زندگی 01
کے بعد چھٹی قسط
جو سائنسدان ارتقاء کے عمل پر یقین رکھتے ہیں ان کی قیاس آرائی کے مطابق انسان اسی زمین پر پیدا ہونے والی ابتدائی جانداروں کی ایک شاخ ہے جو لاکھوں سال کے دوران تکاہلی عمل کے بعد مو جو د ہ شکل میں ظاہر ہوئی ان کی سوچ کا دارومدار قدیمی فاسلز ( احفوری باقیات ) کے تجزیات پر مبنی ہے ۔ا ن سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ روئے زمین پر بائیبل کے بیان کے مطابق انسان کا وجود صرف چھ ہزار سال سے نہیں بلکہ لاکھوں سال سے ہے اور اس کے ثبوت میں وہ بعض ’انسان رنما مخلوق ‘ کی ہڈیاں پیش کرتے ہیں جن کی نسلیں اب ناپید ہوچکی ہیں ۔ مگر ان ہذیوں اور کھوپڑیوں کے ٹکڑے ایک جسیے نہیں ہیں۔ بلکہ ان کی بناوٹ اور قدامت میں بھی کافی اختلافات ہیں ۔ لہذا ان آثار و باقیات کو سائنسدان مختلف قسموں یا ذیلی خاندانوں اور مختلف ادوار میں تقسیم کرکے ان کی ایک تاریخ مرتب کر رہے ہیں ۔ مگر ان کی بناوٹ اور قدامت میں بھی کافی اختلافات ہیں ۔ لہذا ان آثار و باقیات کو سائنسدان مختلف قسموں یا ذیلی خاندانوں اور مختلف ادوار میں تقسیم کرکے ان کی ایک تاریخ مرتب کر رہے ہیں ۔ مگر ان سب کو وہ انسانی سلسلے ہی کی مختلف انواع تصور کرتے ہوئے ان کو ایک مشترکہ خاندانی نام ’’ ہومی نائیڈ ‘‘ یا ’’ ہومی نائیڈی ‘‘ کا دیا ہے اور اس کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے انسانی حیاتیاتی خاندان کا کوئی فرد کواہ وہ مو جو د ہ انسان ہو یا احضو ری انسان اس طرح یہ اصطلا ح موجو دہ انسان سے پہلے انسان نما مخلوق کی جتنی بھی انواع گزر چکی ہیں ان سب کو شامل ہے ۔ احفوری انسان کا اطلاق اس نا پید شدہ انسان نما مخلوق پر ہوتا ہے جس کے آثار و باقیات آج صرف زمین میں مدفون شدہ شکل میں موجو د ہیں ۔
اب تک اس سلسلے میں جو بھی آثار و نتائج برآمد ہوئے ہیں وہ زیادہ تر قیا سات و مفر وضات ہیں جو صحیح بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی ۔ اس کو زیادہ سے زیادہ ایک گمان کہا جا سکتا ہے اور اس سلسلے میں سائنسدا ن بھی بعض وقت دھوکا کھا جاتے ہیں ۔ چنانچہ اس سلسلے میں ایک بڑا دلچسپ واقعہ ملا حظہ ہو ۔
۱۹۱۲ ء میں انگلینڈ کے ایک مقام پلٹ ڈاؤن میں ایک عجیب قسم کا انسانی سر کا حصہ ملا جس کی کھوپڑی کا حصہ تو موجودہ انسان جیسا مگر جبڑے کی ہڈی چمنپزی جیسی تھی اس کو سائنسدانوں نے ’’ پلٹ ڈاؤن ‘‘ انسان کے نام سے متعارف کر ادیا ۔ مگر چالیس سال کی مسلسل بحث اور تجزیہ کے بعد پتہ چلا کہ دراصل یہ ایک جعلسازی تھی اور کسی نے سائنسدانوں کو غلط راہ پر ڈالنے کی غرض سے نہایت ہو شیاری کے ساتھ اس کو بعض دوسری پر انی ہڈیوں اور اوزاروں کے ساتھ غلط ملط کر کے رکھ چھوڑا تھا۔
مندرجہ بالا مثال پیش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سائنسدانوں کے اندازوں کے لئے آج تک کوئی مکمل کھوپڑی نہیں مل سکی ۔ بلکہ کھو پڑیوں کے بعض اجزاء کی بنیاد پر قیاس کیا گیا ہے ۔اور اس طرح جزوی مطالعے کے ذریعے کُلی نتائج حاصل کرنے کی کو شش کی جاتی ہے جو صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی یہی وجہ ہے کہ اس بارے میں نہ صرف نظریاتی اختلافات پائے جاتے ہیں بلکہ خو دنظریات بھی بدلتے رہتے ہیں۔ احفوری انسان کو�آثار و باقیات کی بنا پر متعدد قسموں اور سلسلوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن کا تفصیلی جائزہ دیا جارہا ہے ۔