رہنمائے زندگی۔ جلد اول ۔ تخلیق کائنات و ارتقاء انسان ملک زوار حسین
تخلیق زندگی 01
ان کے بعد والی قسط
جدید سائنس دانوں کی تحقیق
پہنچی ہے کہ تما م نباتات و حیوانا ت کی تخلیق پروٹو پلازم’’ نخرمایہ ‘‘سے ہوئی ہے جن کی کیمیائی اجزا آکسیجن ، کاربن ، ہائڈروجن ، نائٹر وجن ، فاسفور س ، سلفر ، کلورین ، کیلشیم ، سو ڈیم اور مینکنیزیم وغیرہ بھی دریافت کر لیے گئے ہیں مگر انتہائی کو شش کے باوجود پوری دنیائے سائنس کو ان کیمیائی اجزاء عناصر کو باہم ملا کر نخرمایہ ( پر وٹو پلازم ) بنالینے میں تاحال کامیابی نہیں ہوسکی وہ ان اجزاو عناصر کو لاکھ طرح سے ملاتے ہیں مگر وہ پرو ٹو پلازم نہیں بنتا جس میں زندگی ہو ۔ ایک سائنسدان نے پورے پندرہ سال تک ان عناصر کو ہر طرح سے ترکیب دینے کی کو شش کی مگر اس میں زندگی کی کوئی تھوڑی سی حرکت بھی نمو دا ر نہ ہوئی ۔
زندگی کا خالق
حیوانات ہوں یا نباتات ہر ایک کی ابتدا ایک خلوی پرو ٹو پلازم سے ہوتی ہے ۔ پھر بعد میں بتدریج ان خلیوں کی تعداد بڑھتی ہے یہاں تک ایک مکمل حیوان یا انسان کروڑوں اربوں خلیوں کا مجموعہ ہوتا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ ایک بے جان مادے ایک جاندار اور زندہ خلیہ کیسے وجو د میں آگیا ۔ اور منی کے ایک قطرے یا کسی خشک بیج اور بے جان گٹھلی سے یکا یک حیات کا ظہور نہایت درجہ منظم طریقے سے کیوں کر ہو جاتا ہے ۔ منطقی اور سائنسی نقطہ نظر سے بغیر کسی محرک کے حرکت کا ظہور بغیر کسی خالق کے خو د بخو د ہو گیا ۔ اس سے چارلس ڈارون اور اسکے ہمنواؤں کا نظریہ ارتقا بھی مردہ قرار پاتا ہے ۔ ظاہر ہے جب کسی خالق کے بغیر ایک خلوی جاندار ہی کا وجود ممکن نہیں تو پھر پیچیدہ انواع کا وجود بغیر کسی خالق کے کیوں کر ممکن ہو سکتا ہے ۔ اس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ اس عالم ہست و بود میں ایک بااختیار کار فرمائی جاری و ساری ہے اور وہ بااختیار محرک خدائے بزرگ و برتر کی ذات بابرکات ہے
جو عظیم الشان خوبیوں اور حیرت ناک افعا ل والا ہے ۔ جو بے جان مادے سے زندگی کو وجود میں لاتا ہے اور پھر زندہ ایشا سے بے جان چیزیں نکالتا رہتا ہے جس کے افعال و اسرار کو سمجھنا انسان کے بس کی بات نہیں مو ت دراصل عناصر کا پریشان ہونا ہے
زندگی کا خالق
حیوانات ہوں یا نباتات ہر ایک کی ابتدا ایک خلوی پرو ٹو پلازم سے ہوتی ہے ۔ پھر بعد میں بتدریج ان خلیوں کی تعداد بڑھتی ہے یہاں تک ایک مکمل حیوان یا انسان کروڑوں اربوں خلیوں کا مجموعہ ہوتا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ ایک بے جان مادے ایک جاندار اور زندہ خلیہ کیسے وجو د میں آگیا ۔ اور منی کے ایک قطرے یا کسی خشک بیج اور بے جان گٹھلی سے یکا یک حیات کا ظہور نہایت درجہ منظم طریقے سے کیوں کر ہو جاتا ہے ۔ منطقی اور سائنسی نقطہ نظر سے بغیر کسی محرک کے حرکت کا ظہور بغیر کسی خالق کے خو د بخو د ہو گیا ۔ اس سے چارلس ڈارون اور اسکے ہمنواؤں کا نظریہ ارتقا بھی مردہ قرار پاتا ہے ۔ ظاہر ہے جب کسی خالق کے بغیر ایک خلوی جاندار ہی کا وجود ممکن نہیں تو پھر پیچیدہ انواع کا وجود بغیر کسی خالق کے کیوں کر ممکن ہو سکتا ہے ۔ اس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ اس عالم ہست و بود میں ایک بااختیار کار فرمائی جاری و ساری ہے اور وہ بااختیار محرک خدائے بزرگ و برتر کی ذات بابرکات ہے
جو عظیم الشان خوبیوں اور حیرت ناک افعا ل والا ہے ۔ جو بے جان مادے سے زندگی کو وجود میں لاتا ہے اور پھر زندہ ایشا سے بے جان چیزیں نکالتا رہتا ہے جس کے افعال و اسرار کو سمجھنا انسان کے بس کی بات نہیں مو ت دراصل عناصر کا پریشان ہونا ہے