منگل، 24 نومبر، 2015

سانحہ فرانس اور ہم

میں نے سانحہ فرانس پر کئی بار لکھنے کا سوچا پھر سوچا کہ رہنے دوں، اس جنونی قوم کا کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہاں مُلّا نے ان کی برین واشنگ کی ہوئی ہے اور اپنے بیٹے امریکہ میں 'اعلیٰ تعلیم' کے لئے بھیج رکھے ہیں۔ ان خبیثوں کے گھر میں نہ کوئی دھماکہ ہوا اور نہ ہی ان کا کبھی کوئی عزیز اس طرح کی اندوہناک موت سے دوچار ہوا، یہ شراب کے جام چڑھا کر قوم کو فوٹو شاپ سے وڈیوز اور تصاویر بنا کر دے دیں گے کہ دیکھو مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے! بھئی فرانس میں دہشت گردی کی واردات کا مسلمان اور کافر سے کیا لینا دینا؟ کیا یہ مسلم اور غیر مسلم کی جنگ ہے؟ اگر کسی نے ایک ظلم کے خلاف احتجاج کے لئے فرانس کا جھنڈا لگا لیا تو کونسی قیامت آگئی۔ اس واردات میں کئی مسلمان مارے گئے ہوں گے بلکہ ایک مسلمان کی خبر آئی تھی وہ  اپنی جان پر کھیل کر دوسروں کی مدد کرتا رہا ۔ چند ماہ قبل جب وہاں  اس گستاخ میگزین کے دفتر پر حملہ ہوا تھا تو خبروں سے معلوم ہوا کہ فرانس کی پولیس میں مسلمان سپاہی بھی ہیں! نجانے میری قوم کو کس پاگل کتے نے کاٹ لیا ہے؟ یہ عقل و شعور سے پیدل ہو چکے ہیں۔ بھئی ظلم جہاں بھی ہو قابلِ مذمت ہے۔
 اس درندگی کے واقعہ کے بعد پشاور سکول کے شہید بچوں کے والدین کے زخم  ایک بار پھر سے تازہ ہوگئے اور وہ روئے، لیکن جس کو معلوم ہی نہیں کہ دکھ درد کیا ہوتا ہے وہ تو ایک ڈی-پی لگانے پر بھی ٹوکہ پکڑ لے گا۔ جب ہمارے ہاں کوئی افسوسناک واقعہ پیش آتا ہے تو ساری دنیا کے لوگ درد سے بلک اٹھتے ہیں لیکن میری حرام کھانے والی قوم کو کیا معلوم کہ کسی  کا درد کیا ہوتا ہے۔
            مجھے صد ہزار مرتبہ یقین ہے کہ قوم کو ملالہ کے خلاف اکسانے اور سانحہ پیرس کے خلاف بھڑکانے میں طالبان کی سوچ کارفرما ہے، طالبان کوئی خلائی مخلوق نہیں یہی دیوبندی مدارس کے جنونی درندے ہیں، وہ لال مسجد سے ہوں یا رائیونڈ سے یہ سب داعش کے ہمنوا ہیں۔
بھائی لوگو! ذرا ہوش سے کام لو۔ جس نے فرانس کے مقتولین کا دکھ منایا، ُاس کا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ وہ مسلمانوں کا دشمن ہے۔ جس  دن سانحہ پشاور ہوا تھا، وہ 16 دسمبر 2014ء تھا۔ آپ گوگل میں یہ تاریخ لکھ کر کسی بھی اخبار کا نام لکھیں آپ کو بے شمار کافر ،اس سانحہ پر افسوس کرتے دکھائی دیں گے۔ کیا بھارت کے سکولوں میں بچوں نے افسوس میں خاموشی اختیار نہیں کی تھی۔۔۔۔۔ بلکہ میں نے تو شاید اُسی رات گارڈین میں افریقہ سے لکھا ہوا کسی کا تعزیت نامہ پڑھا تھا۔ پوری دنیا کے لوگ خون کے آنسو روئے تھے۔ اللہ اس طرح کے حادثوں سے محفوظ رکھے۔
دوسری قسط:معذرت کے ساتھ!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں