پیر، 19 اگست، 2013

انگریز نو مسلم ڈاکٹر محمد ہارون کا قبول اسلام

کیمبرج یونی ورسٹی کے پروفیسر کے قبول اسلام کی سرگزشت
غلام مصطفی رضوی نوری مشن مالیگاوٴں
اسلام مکمل نظام حیات ہے یہ فطری تقاضوں کو پورا کرتا ہے اس لیے ہر صحیح الذہن آدمی کے لیے اسلام ہی منزل ہے یہی وجہ ہے کہ جستجو اور تلاش کا سفر طے کرنے والے دامن اسلام میں پناہ لیتے ہیں 18 ویں صدی کے صنعتی انقلاب اور دور جدید کے تکنیکی انقلاب نے قبول حق کے لیے ذہنوں کو مزید ہم وار کیا عقل و خرد سے سوچنے والا اسلام کی سچائی بہ آسانی سمجھ سکتا ہے حالاں کہ ویسٹرن کلچر نے ایجادات کے دوش پر یہ واہمہ قائم کیا تھا کہ مغربی ایجادات کے بطن سے اسلام کے خلاف نئی صبح طلوع ہوگی عقلی ایجادات کے مقابل اسلام کا نظام روحانیت ٹک نہ سکے گا!! اسلام کی تعلیمات ایسی جامع ہیں کہ عقلی مطالعہ اس کے حسن حقیقی کو مزید بے نقاب کرنے کا باعث بنتا ہے اشاعت اسلام کے تسلسل کو دیکھا جائے تو اس ضمن میں اسلامی اخلاق و تعلیمات کا عمل دخل ہے جس کی عملی تصویر صوفیا و اولیا نے پیش کی۔ اس کے نظائر کئی براعظموں میں اسلام کے اشاعتی و تبلیغی تسلسل میں دیکھے جا سکتے ہیں اسلام کے دعوتی نظام میں واقعی بات تو یہ ہے کہ اس گروہ کا معمولی حصہ بھی نہیں جو صرف مسلمانوں کو کلمے کی دعوت دیتا ہے۔ پورا براعظم افریقا، امریکہ اور حتیٰ کہ ہندوستان، چین و روس میں بھی اسلام کی دعوت صوفیا کے توسط سے پہنچی۔ برطانوی انگریز نو مسلم کیمبرج یونی ورسٹی انگلینڈ کے پروفیسر ڈاکٹر محمد ہارون نے صوفیا کی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا۔ انھوں نے اپنے قبول اسلام کے اسباب پر ایک کتاب Why I Accepted Islam لکھی انھیں کے الفاظ میں قبول حق کی سرگزشت سنیں:
 
میں نے ۲۰/جون ۱۹۸۸ء کو اسلام قبول کیا۔ اس وقت میری عمر ۴۴/سال تھی۔ میں لیورپول میں ۱۹۴۴ء میں پیدا ہوا۔۱۹۸۸ء میں مَیں نے ایک مسلم صوفی گروپ سے رابطہ قائم کیا اور در حقیقت انھوں نے ہی مجھے فیصلہ کن مرحلہ طے کرنے میں مدد دی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں کیتھولک ازم سے دل چسپی رکھتا تھا، لیکن میں نے اسے اس لیے مسترد کر دیا کہ وہ غریبوں کی مدد اور دنیا کو ایک بہتر مقام میں بدلنے کے حوالے سے غیر متوازن رویہ رکھتا تھا، تب میں اشتراکیت اور لیبر پارٹی سے وابستہ ہوا۔ یہاں تک کہ مجھے احساس ہو گیا کہ ان کے پاس بھی غریبوں کی مدد اور دنیا کو ایک بہتر مقام میں بدلنے کے لیے کوئی چیز نہیں۔ اب میں مارکسیت میں دل چسپی لینے لگا لیکن اسے بھی مسائل کے حل سے عاری پایا۔ میں ۱۹۶۳ء میں تاریخ کا مطالعہ کرنے کیمبرج یونی ورسٹی گیا۔ میں یورپ وسطیٰ کے نصاب تاریخ کے حوالے سے تقریباً ایک ہفتہ اسلام کے (سیاسی) عہد عروج کا مطالعہ کیا اور اس میں جو چیز میں نہ بھول پایا وہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی غریبوں کے ساتھ وابستگی ہے۔ ۱۹۷۰ء میں میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بارے میں تھوڑا سا پڑھا۔ میں نے مارکسی نظریے اور فلسفے کا مطالعہ کیا۔ میں نے (ترک وطن کرنے والے مسلمان) گروہوں سے رابطہ کیا۔ مجھے مسلمانوں کی کچھ خاص تقاریب میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ ایک علم دوست ہونے کے ناطے مجھے لیکچر دینے کے لیے بھی کہا گیا۔ لہٰذا میں نے ڈاکٹر اقبال وغیرہ پہ گفتگو کی(واضح رہے کہ اقبال کی شخصیت سے موصوف کے متاثر ہونے کا سبب ان کی ذات رسول کریم سے والہانہ وابستگی اور محبت ہے، اقبال سچے عاشق رسول تھے، اور اسی میں امت مسلمہ کی کامیابی تصور کرتے تھے،) ۱۹۸۰ء میں مَیں نے یونی ورسٹی میں مسلم دنیا پر لیکچر دینے شروع کیے، مسلمانوں کی ان تقاریب میں مَیں نے تلاوت قرآن سنی، چند کتابچے خریدے، اور بہت سارے لوگوں سے تبادلہٴ خیال کیا، یہ اسلام کے اٹھاوٴ(یہاں مراد مادیت کے زوال اور اسلامی روحانیت سے مغرب کا متاثر ہونا ہے) کا زمانہ تھا، ۱۹۸۰ء سے میں اسلام میں سنجیدگی سے دل چسپی لے رہا تھا تب ۱۹۸۸ء میں میری ملاقات (مرکز تصوف) دارالاحسان والوں سے ہوئی اور میں نے فیصلہ کن قدم اٹھایا، بلا شبہہ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں کہ میں اس راستے سے ہوتا ہوا اسلام تک کیوں پہنچا؟ ڈاکٹر محمد ہارون کا وصال۱۹۹۸ء میں یوکے میں ہوا۔ دس سالہ عرصے میں انھوں نے دسیوں کتابیں لکھیں، اور ہر ایک میں استدلال کا رنگ غالب ہے۔ انھوں نے ہندوستان پر فرنگی عہد کی اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا۔ اس دور کے مذہبی و سماجی مصلحین کے افکار کا جائزہ لیا۔ اسلامی اقدار کی حفاظت کے سلسلے میں شاہ احمد رضاخاں محدث بریلوی کی خدمات سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے شاید اس کا سبب عشق رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں وارفتگی ہو، اس لیے بھی کہ گزری دو صدیوں میں اسلام کے خلاف جتنی بھی نظریاتی تحریکیں داخلی و خارجی سطح پر ابھریں ان کا حملہ عظمت و عصمت نبوی علیہ الصلاة والسلام پر ہی رہا۔ ڈاکٹر محمد ہارون نے اپنے قبول اسلام کے اسباب میں اسلام کے سیاسی، سماجی، اخلاقی وجوہات کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے، انھوں نے قرآن مقدس کی تفسیر بھی انگریزی میں لکھنی شروع کی جو ابتدائی مرحلے میں تھی کہ ان کا وصال ہوگیا۔ دنیا کے مسائل کے انبار میں ان کے واقعی حل کے لیے صرف اسلام کو مدار نجات قرار دیتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں: ”مسلمانوں کو قدیم اسلام کی طرف دعوت دینا ایسا کام ہے جو آج کے مسلمانوں پر واجب ہے۔ اس کام کا آغاز رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے بھر پور محبت اور تعظیم ہے۔(Islamic Concept of State,p100) علاوہ ازیں وہ اپنے پیغام میں سیرت نبوی سے درس و سبق کے ساتھ اسلامی اخلاق کی طرف ذوق بھی دلاتے ہیں جس کی موجودہ انحطاط پذیر دور میں زیادہ ضرورت ہے
بشکریہ

1 تبصرہ: