پیر، 4 جنوری، 2016

معذرت کے ساتھ!

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ کے ایک ضلع مردان کے صدر مقام شہرِ مردان میں 29 دسمبر 2015ء بروز منگل کو نادرا کے دفترپر خود کش حملہ ہوا جس میں 26 افراد جاں بحق ہوئے اور بیسیوں زخمی ہوئے، سینکڑوں لوگ بالواسطہ یا بلاواسطہ متاثر ہوئے، کسی پاکستانی یا فیس بکی افلاطون کے کان پر جوں نہیں رینگی پھر مقابلے کرتے ہیں فرانس اور یورپ کے! وہاں 12 لوگ قتل ہوئے تھے 40 ملکوں کے حکمران سڑکوں پر آگئے پورے یورپ میں ماتم کا سماں تھا ابھی حال میں جب پیرس میں پھر حملے ہوئے تو فرانس نے شام میں بمباری شروع کردی، آپ ان کے نظریات سے اختلاف کرتے ہیں ضرور کریں۔ مجھے بھی چارلی ایبڈو کے میگزین سے نفرت ہے لیکن ان کے قتل ہونے کے بعد ان کی قوم نے 'درد' محسوس کیا ہے جبکہ پاکستان میں ایک دن میں سینکڑوں جنازے اٹھ جائیں لوگ دو دو روپے کے دھوکے فراڈ سے چلائی جانے والی اپنی دکانیں بند نہیں کر سکتے، یہ صرف اپنے سسرال کے گھر جاسکتے ہیں یا کیبل-ٹی-وی پر کوئی فلم دیکھ سکتے ہیں یا فیس بک پر جعلی اکاؤنٹس بنا کر وقت ضائع کرسکتے ہیں، کچھ زیادہ 'غم' منانے کا موڈ ہوا تو کسی سہیلی سے موبائل پر 'جانو، جانو' کھیل لیا اور گھر سے باہر آکر علامہ، مفتی، محدث، مفسر، محقق، فقیہہ اور مجتہد سب کے عہدے سنبھال لئے۔
اگر کوئی اور دلچسپی باقی نہ رہی تو یہی عہدے فیس بک پر سنبھال لئے۔
بھئی دیکھو! پیرس میں حملے ہوئے، فیس بک کے مالک نے اپنی پروفائل پکچر میں فرانس کا جھنڈا لگا لیا دوسرے لوگوں نے بھی لگا لیا، ہمارے افلاطونوں نے اسے غلط قرار دے کر مذکورہ بالا عہدوں کے فرائضِ منصبی سے اپنا دامن بری کر لیا۔ جب امریکہ میں صدارتی امیدوار 'ڈونلڈ ٹرمپ' کے اشتعال انگیز بیان حد سے بڑھتے ہوئے نظر آئے تو فیس بک کے مالک سمیت بہت سے مشہور و معروف غیر مسلموں نے مسلمانوں کی حمایت میں پورے زور سے آواز بلند کی، اس وقت فرانس کے جھنڈے پر فتوے دینے والے افلاطون کہاں سوئے تھے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ بات چاہے مشرق کی ہو یا مغرب کی۔ آسمان کی ہو یا زمین کی، ہمارے افلاطون اسے اپنے ذمے ضرور لے کر 'سوموٹو' ایکشن لیں گے اور اگلے دن گوگل سے ڈاؤنلوڈ کرکے فوٹو شاپ کردہ کچھ تصاویر ضرور دِکھائیں کہ یہ دیکھو کشمیر، فلسطین، شام اور برما میں مسلمانوں پر کیا کیا ظلم و ستم ڈھائے جا رہے ہیں۔ میں شرط لگانے کو تیار ہوں کہ یہ لوگ اپنے گھر سے بیٹھ کر ان ملکوں کی درست سمت کا تعین نہیں کرسکتے، انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کراچی ایک ملک ہے یا پاکستان کا ایک شہر! انہیں سینیٹ، اسمبلی، مقننہ، عدلیہ ، انتظامیہ اور میڈیا کی ڈیفینیشن بھی نہیں آتی۔ انہیں شاید یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے صوبے میں کتنے اضلاع ہیں۔ لاہور میں بسنے والے بیشتر افلاطون یہ بھی نہیں جانتے ہوں کہ صبح سورج ان کے گھر کی کس دیوار کی طرف سے طلوع ہوتا ہے۔
میرا ایک دوست عزیر، مردان سے تعلق رکھتا ہے، حادثے والے دن صرف وہی ایک بندہ مجھے اس حوالے سے مختلف چیزیں پوسٹ اور شیئر کرتا دکھائی دِیا، باقی سب کی عزت تیل لینے گئی ہوئی تھی۔
میں کہنا چاہتا ہوں، او ظالم درندو! او پاکستان کے مردہ ضمیر باسیو! سینکڑوں لوگوں پر قیامت گزر گئی اور تمہیں معلوم تک نہ پڑا، میں سو فیصد دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ خدانخواستہ پاکستان میں کوئی کتنا بڑا حادثہ کیوں نہ ہوجائے۔ نائن الیون سے زیادہ لوگ کیوں نہ مرجائیں۔ یہ مردہ دل بے غیرت افلاطون ایسے ہی منہ میں الائچیاں ڈال کر گونگے بن کے بیٹھے رہیں گے، اور کوئی اپنے بچوں کے تحفظ کے چیخ و پکار نہیں کرے گا۔ جب اس پر مصیبت آئے تو کوئی دوسرا نہیں بولے گا۔ جب دوسرے پر آفت آئے گی۔ تیسرا بھی چُپ رہے گا۔ ایسے ہی یہ سلسلہ بڑھتا چلا جائے گا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں