جمعرات، 11 ستمبر، 2014

صارفین پاس ورڈ تبدیل کر لیں گوگل کی ہدایت

ہیکرز کی جانب سے 50 لاکھ سے زائد جی میل پاس ورڈ ہیک کیے جانے کے بعد گوگل نے اپنے صارفین کو فوری طور پر اپنے اپنے پاس ورڈ تبدیل کرنے کی وارننگ جاری کر دی ہے۔
فوٹو رائٹرز



روس کی ایک مشہور ویب سائٹ پر ہیکرز کی جانب سے جاری کی گئی تفصیلات میں ہیکرز نے ہیک کیے گئے یوزر نیم اور پاس ورڈ پبلش کر دیے ہیں جن کی تعداد 50 لاکھ سے زائد ہے۔

یہ تمام تفصیلات پھیلانے والے شخص کا کہنا ہے کہ زیادہ تر اکاؤنٹ انگلینڈ، روس اور اسپین سے تعلق رکھنے والوں کے ہیں اور 60 فیصد اکاؤنٹ ایکٹو ہیں۔

ان تفصیلات سے صرف جی میل تک رسائی نہیں ملی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ گوگل ڈرائیو اور موبائل پے منٹ کے گوگل والٹ سسٹم تک بھی باآسانی رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ گوگل کی نمائندہ سویٹلانا انورووا نے کہا کہ گوگل سیکورٹی کے حصار کو توڑے جانے سے آگاہ ہے اور اس نے تمام صارفین کو پاس ورڈ تبدیل کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔ انہوں نے صارفین کو ہدایت کی کہ وہ سیکورٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے دو درجات پر مبنی تصدیقی عمل بھی استعمال کریں تاکہ اگر کوئی ان کا پاس ورڈ تبدیل کرنے کی کوشش کرے تو ان کے موبائل پر فوراً اس حوالے سے الرٹ آ جائے۔ واضح رہے کہ اس سلسلے میں ایک ایسی ویب سائٹ بھی بنائی جا چکی ہے جس کے ذریعے صارف یہ پتہ لگا سکتا ہے کہ آیا اس کا اکاؤنٹ ہیک تو نہیں ہوا۔ گوگل کے ترجمان نے بھی پاس ورڈ ہیک ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ صارفین کی سیکورٹی ہماری پہلی ترجیح ہے۔ ابھی تک ہیکرز کو پکڑا نہیں جا سکا لیکن اس سے قبل روس اور مشرقی یورپ کے ہیکرز اس طرح بڑے پیمانے پر ہیکنگ میں ملوث رہ چکے ہیں۔

اتوار، 7 ستمبر، 2014

عمران خان اور طاہر القادری کا جرم عظیم

شام ڈھل رہی تھی، جب میں ایک دوست کے ہمراہ شاہراہ دستور پر پہنچا۔ انقلاب مارچ اور آزادی مارچ کے شرکا کو یہ تو معلوم تھا کہ آج آگے بڑھنا ہے، لیکن کس طرف کو آگے بڑھنا ہے، یہ معلوم نہ تھا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا خطاب شروع ہوا تو ان کے تیوروں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ وہ تہیۂ طوفان کیے ہوئے ہیں۔
اصغر عبداللہ


mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

اور پھر جیسے ہی انھوں نے اعلان کیا کہ آج یہ دھرنا پرامن طور پر پارلیمنٹ ہاوس کے مقابل سے وزیر اعظم ہاوس کے مقابل منتقل کر دیا جائے گا، تو انقلاب مارچ کے شرکا کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنا سے نکل کر قریب ہی عمران خان کے دھرنا میں آیا تو آزادی مارچ کے شرکا بھی پیش قدمی کے لیے تیار تھے۔
جس لمحہ عمران خان نے اعلان کیا کہ آگے بڑھنے کا وقت آ گیا ہے، یوں لگا جیسے وہاں موجود سب لوگ یہی چاہتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ انقلاب مارچ کے شرکا کے برعکس آزادی مارچ کے شرکا کو پیش آمدہ خطرے کا مطلق احساس نہ تھا۔ دونوں دھرنوں میں عورتوں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی، لیکن حیرت انگیز طور پر وہ ہراساں نہ تھے۔ میں نے دو افراد سے، جو خاندان سمیت دھرنوں میں شریک تھے، اس کی وجہ دریافت کی، تو ان کا کہنا تھا کہ جب ان کے قائدین اس خطرناک صورت حال میں کئی دن سے ان کے درمیان موجود ہیں، تو وہ بھی ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اخباری زندگی میں جماعت اسلامی سمیت متعدد سیاسی پارٹیوں کے اجتماعات دیکھے، لیکن جو جذبہ، جو ولولہ اور جو کمٹمنٹ عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے کارکنوں میں دیکھی، کہیں اور نہیں دیکھی۔ ان کارکنوں کو اپنے گھر بار چھوڑے دو ہفتے گزر چکے تھے، اس کے باوجود ان کے چہروں پر کوئی ملال نہیں تھا۔ ایک ہی نعرہ ان کی زبان پر تھا کہ جب تک ان کے گھر سے نکلنے کا مقصد پورا نہیں ہو گا، وہ واپس نہیں جائیں گے۔ بعض ذرائع سے معلوم ہوا کہ حکومت کو یقین ہے کہ عمران خان، ڈاکٹر طاہر القادری کے ہمراہ وزیر اعظم ہاوس کی طرف پیشقدمی نہیں کریں گے۔
سو، آج رات وہ دونوں دھرنوں سے الگ الگ نمٹ لے گی۔ لیکن حکومت کی یہ منصوبہ بندی اس وقت دھری کی دھری رہ گئی، جب انقلاب مارچ کے بعد آزادی مارچ نے بھی وزیر اعظم ہاوس کی طرف بڑھنے کا اعلان کر دیا۔ عمران خان کا قافلہ، ڈاکٹر طاہر القادری کے قافلہ کے پیچھے روانہ ہوا، تو اول اول یوں معلوم ہوا، جیسے پولیس نے دونوں مارچوں کو راستہ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ عمران خان نے اپنے کینٹینر سے کہہ بھی دیا کہ پولیس پیچھے ہٹ گئی ہے۔ لیکن ابھی فضا میں اس اعلان کی گونج باقی تھی کہ اگلی سمت سے شور بلند ہوا، اور پولیس اور مظاہرین کے درمیان ٹکراو شروع ہو گیا۔ آنسو گیس کی شیلنگ اور ربڑ کی گولیوں کی فائرنگ نے قیامت کا سماں برپا کر دیا۔ ستم یہ تھا کہ جب آگے سے پولیس نے مظاہرین پر حملہ کیا تو وہ پولیس جس نے پہلے راستہ چھوڑ دیا تھا اور پیچھے ہٹ گئی تھی، وہ بھی اطراف سے مظاہرین پر ٹوٹ پڑی۔
یہ بڑے ہی دلدوز مناظر تھے۔ عورتیں اور بچے چیخ رہے تھے۔ کئی عورتیں اپنے بچوں کو پکارتی، ڈھونڈتی ادھر ادھر بھاگ رہی تھیں۔ آنسو گیس کی شیلنگ اتنی زیادہ تھی اور اس کے دھوئیں میں کیمیکل اتنا تیز تھا کہ سانس لینا مشکل ہو رہا تھا۔ میں نے گیلا رومال آنکھوں پر پھیرا، لیکن جلن بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ شاہراہ دستور اب کسی میدان جنگ کا نقشہ پیش کر رہی تھی۔ عمران خان اور طاہر القادری کے کارکن، ان کے کینٹینروں کے گرد پرانوں کی طرح اکٹھے ہو گئے تھے۔
اندیشہ محسوس ہو رہا تھا کہ اگر اس جذباتی فضا میں عمران خان اور طاہر القادری کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی، تو بہت خون خرابہ ہو گا۔ آنسو گیس کی شیلنگ میں ایک بار پھر شدت آ گئی تھی۔ کچھ ہی دیر میں اسٹریٹ لائٹس بھی بند ہو گئیں، تو شاہراہ دستور کی اس رات کی ہولناکی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ نڈھال ہو کر میں اور میرا دوست سڑک سے اتر کر ایک طرف بیٹھ گئے۔ شاعر انقلاب، فیض احمد فیضؔ کے نظم ’’ ملاقات ‘‘ یاد آ گئی، جو انھوں نے اس وقت لکھی تھی ، جب 1953 میں ان کو ’’ بغاوت ‘‘ کی ’’جرم‘‘ میں منٹگمری جیل میں قید کر دیا گیا ؎
یہ رات اس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے
عظیم تر ہے کہ اس کی شاخوں
میں لاکھ، مشعل بکف ستاروں
کے کارواں، گِھر کے کھو گئے ہیں
ہزار مہتاب اس کے سایے
میں اپنا سب نور، رو گئے ہیں
میں اس رات بھی یہ سوچ رہا تھا، اور آج بھی سوچ رہا ہوں کہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کا ’’جرم‘‘ کیا ہے کہ ’’ناقابل معافی‘‘ قرار پایا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا مطالبہ اس کے سوا کیا ہے کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی اور انتخابی نظام کو ایک انقلاب کی ضرورت ہے۔ آج سے 23 سال پہلے جب انھوں نے پاکستان عوامی تحریک قائم کی، تب بھی ان کا یہی مطالبہ تھا، ا ور آج بھی ان کا یہی مطالبہ ہے۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان کی اڑسٹھ سالہ تاریخ میں ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان کے پہلے مذہبی رہنما ہیں، جنھوں نے اپنی سیاست کی بنیاد اسلام کے سماجی مساوات کے تصور پر رکھی ہے۔ پاکستان کے مذہبی رہنماوں کی روایتی سیاست سے وہ اس حد تک بیزار ہیں کہ اپنے نام کے ساتھ ’’مولانا ‘‘ کا سابقہ لگانا بھی پسند نہیں کرتے۔
یہ کہنا بھی درست نہیں کہ وہ آئین اور قانون کو نہیں مانتے، یا الیکشن کے عمل کو تسلیم نہیں کرتے۔ وہ طویل عرصہ پنجاب یونیورسٹی لا کالج میں آئین اور قانون پڑھاتے رہے ہیں، ان کی پارٹی دو مرتبہ الیکشن میں حصہ لے چکی ہے، اور2002 میں خود بھی رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔ 2013 میں بھی ان کی پارٹی الیکشن میں حصہ لینا چاہتی تھی۔ لیکن جب الیکشن کمیشن پر ان کے آئینی اعتراضات کو سننے سے یکسر انکار کر دیا گیا، تو مجبوراً انھوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ اگر کوئی پارٹی بوجوہ کسی الیکشن کا بائیکاٹ کر دیتی ہے، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک غیر سیاسی گروہ بن گئی ہے۔ لندن میں ڈاکٹر طاہر القادری اور چوہدری برادران کے درمیان جو دس نکاتی معاہدہ طے پایا تھا، یا انقلاب مارچ کے لیے نکلنے سے پہلے لاہور میں ان کے اور عمران خان کے درمیان جن چار نکات پر اتفاق ہوا تھا، ان نکات میں سے کوئی ایک نکتہ بھی ایسا نہیں، جو آئین کے دائرہ سے باہر ہو، یا اس سے متصادم ہو، بلکہ حقیقتاً یہ وہ مطالبات ہیں، جن کا آئین پاکستان تقاضا کرتا ہے۔
اس طرح عمران خان کا مطالبہ بھی اس کے سوا کیا ہے کہ پاکستان کے سیاسی اور انتخابی نظام کو بدعنوانی اور دھاندلی سے پاک ہونا چاہیے۔ آج سے 18 سال پہلے جب انھوں نے تحریک انصاف کے قیام کا اعلان کیا تھا، تب بھی ان کا یہی مطالبہ تھا، اور آج بھی ان کا یہی مطالبہ ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ عمران خان پہلے سیاستدان ہیں اور تحریک انصاف پہلی سیاسی پارٹی ہے، جس نے پاکستان کے سیاسی اور انتخابی نظام میں کرپشن کے خاتمہ کو اپنی سیاسی جدوجہد کا نصب العین قرار دیا ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کی طرح عمران خان بھی کوئی پیشہ ور سیاست دان نہیں۔ پاکستان کی سیاست میں کئی کھلاڑی سیاست میں آئے اور گئے، لیکن یہ تنہا عمران خان ہیں، جنھوں نے کامیابی حاصل کی۔ ظاہراً اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے روایتی سیاست کی اور نہ ہمت ہاری۔ تحریک انصاف تین مرتبہ الیکشن میں حصہ لے چکی ہے، لیکن اس کو بریک تھرو ملا 2013 میں، جب نہ صرف یہ کہ وہ خیبر پختون خوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی، بلکہ باوجود مشکلات کے، پنجاب میں بھی دوسری بڑی پارٹی بن کے ابھری۔ الیکشن 2013 کے بعد عمران خان اول دن سے کہہ رہے تھے کہ پنجاب میں ان کا مینڈیٹ ہائی جیک کیا گیا ہے، اور اگر ان کو الیکشن کمیشن سے، سپریم کورٹ سے اور پارلیمنٹ سے انصاف نہ ملا تو وہ ضرور سڑکوں پر آئیں گے۔ اس کے باوجود یہ کہنا یا باور کرانا کہ تحریک انصاف کسی کے اشارے پر حکومت کے خلاف نکلی ہے، سراسر غیر منطقی بات ہے۔
نظر بظاہر یہ آتا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کا ’’جرم‘‘ یہ ہے کہ انھوں نے سیاست میں ’اسٹیٹس کو‘ کو چیلنج کیا ہے۔ نتیجتاً، پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تمام سیاسی اور غیر سیاسی پارٹیاں، جن کے مفادات ’اسٹیٹس کو‘ سے وابستہ ہیں، ان کے خلاف متحد ہو چکی ہیں۔ لطف یہ ہے کہ جماعت اسلامی، جو خود کو اسلامی انقلابی پارٹی کہتی ہے، وہ بھی پیپلز پارٹی کے شانہ بہ شانہ مصالحت کاری کے نام ن لیگ حکومت کو ریسکیو کر رہی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان نے ’اسٹیٹس کو‘ کو چیلنج کر کے، جو ’’جرم عظیم‘‘ کیا ہے، وہ واقعتاً ’’ناقابل معافی‘‘ ہے۔ ان کی حالیہ جدوجہد کا نتیجہ جو بھی ہو، پاکستان کی اڑسٹھ سالہ تاریخ میں اسٹیٹس کو کے خلاف ان کی یہ انقلابی جدوجہد تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ پس دیوار زندان شاعر نے کہا تھا ؎
ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے

Thanks to Express

ہفتہ، 6 ستمبر، 2014

مسلم لیگ ن نثار کو پریس کانفرنس ملتوی کرنے پر رضامند کرنے میں ناکام

06 ستمبر 2014

اسلام آباد (محمد نواز رضا‘ وقائع نگار خصوصی) وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان اور اعتزاز احسن کے درمیان ’’سیاسی جنگ‘‘ نے مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کو مشکل صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔  وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان
نے وزیراعظم کو اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے کر پارٹی کے رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے پریس کانفرنس کرنے کی پیشکش کی لیکن وزیراعظم نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ موجودہ  سیاسی بحران میں دو بار وزیراعظم کو اپنا استعفیٰ دے چکے ہیں جسے  وزیراعظم نے مسترد کر دیا۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ مسلم لیگ ن سے  تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ نے وفاقی وزیر پر شدید دباؤ ڈالے رکھا وہ بیرسٹر اعتزاز احسن کی تقریر کا ردعمل ظاہر نہ کریں اور اس معاملہ پر مزید کسی نئے تنازعہ میں نہ پڑیں۔ چودھری نثار علی خان نے  یہ اپنا جواب دینے کا حق استعمال کرنے پر اصرار برقرار رکھا۔ بعدازاں ان کی  وزیراعظم سے ملاقات ہوئی جو تین گھنٹے تک جاری رہی۔ وزیراعظم نے  انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ اب مزید سخت  لہجہ نہ رکھیں تاہم چودھری نثار علی خان نے وزیراعظم کے سامنے اپنا یہ  اصرار جاری رکھا وہ  پریس کانفرنس کر کے حقائق ضرور بیان کریں گے۔
بشکریہ: نوائے وقت

جمعہ، 5 ستمبر، 2014

تجھے بہت جلد گولی لگ جائے گی

مجھے کہا جاتا ہے کہ تو پاگل ہو گیا ہے! تجھے بہت جلد گولی لگ جائے گی۔ کوئی وہابی،دیوبندی، سنی یا شیعہ تجھے پھڑکا دے گا۔ ورنہ کوئی کافر یا ملحد تجھے قتل کر دے گا۔ کسی مرتد کوتیری باتیں پسند نہ آئیں تو تیری خیر نہیں!تو نواز شریف کو"بنجمن نیتن یاہو" یا اس سے بھی بڑا ظالم کہتا ہے تجھے نون لیگ والے مار دیں گے۔ تجھے فلاں فلاں پارٹی سے اختلاف ہے! تو ایسا کیوں ہے! تو ویسا کیوں ہے؟
بس کیا کر یار! اتنی باتیں نہ کیا کر! کسی وقت خاموش ہو جایا کرو! اگر تم دس منٹ خاموش رہو گے تو میں تجھے دس روپے انعام دوں گا! یار تیری ان باتوں کا فائدہ ہے! مجھے تیری ان باتوں سے حاصل؟ اپنا سر کیوں کھپاتے ہو؟ دوسروں کادماغ کیوں کھاتے ہو؟ تم ڈاکٹر طاہرالقادری سے اختلاف کے باوجود احتیاط سے کام لینے کو کیوں کہتے ہو؟ تم فلسطین جا کر کیوں نہیں لڑتے؟ تم امریکہ کو تباہ کیوں نہیں کرتے؟ تم افغانستان، شام، لیبیا، مصر، شام اور عراق وغیرہ میں خانہ جنگی کے خلاف کیوں ہو؟ تم علماء (سوء) کے خلاف کیوں بولتے ہو؟ تم کتے ہو! کتے بھونکتے رہتے ہیں اور راہی گزر جاتے ہیں؟ سن 2012ء، 2013ء میں تم جس طاہرالقادری کے خلاف میسیج نشر کرتے تھے اب اس کے ایجنڈے سے اتفاق کیوں کرتے ہو اس کے حق میں کیوں ہو؟
 میرا حسین ابھی کربلا نہیں پہنچا
 میں حر ہوں اور ابھی لشکرِ یزید میں ہوں
 تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ یہ وقتی جذباتی اُبال ہے! یہ تمہارا استحصال ہوا ہے کچھ عرصے کے بعد تم خود کو غلط کہو گے! لوگوں کو کافر کافر کہنے کا رجحان تم نے پروان چڑھایا ہے! اگر تم امام احمد رضا خان قادری بریلوی کے مرید ہو تو (نام نہاد) بریلوی مولویوں کی غداریوں کے خلاف کیوں بولتے ہو؟ سب علماء ایک پیج پر ہیں! پاکستان آرمی اور ایجنسیاں اتنی فارغ نہیں ہیں کہ وہ سازشیں کرتی پھریں انہیں اور بہت سے اچھے کام کرنے کی طرف دھیان ہے؟ فلاں فلاں تو امریکی جمہوریت کی بات کرتا ہے اس نے مصطفوی انقلاب کے نام پر لوگوں کو گمراہ کیا ہے ہمیں ایسی ویسی جمہوریت نہیں چاہیئے! ریاست میں انقلاب کے نام پر غنڈہ گردی جیسے واقعات سے نپٹنے کیلئے ریاستی دہشت گردی ناگزیر ہوتی ہے! ملک میں جمہوریت پر شب خون مارے جانے کا خوف ہے اور تم نواز شریف کو پھانسی کے پھندے پر کیوں لٹکا ہوا دیکھنا چاہتے ہو؟ تم جمہوریت کے دشمن ہو؟ تم گمراہ ہو گئے ہو۔ تم کافر مرتد اور گستاخ کی حمایت کیوں کر رہے ہو؟ وغیرہ وغیرہ
 زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
 اور کافر یہ سمجھتا ہے کہ مُسلمان ہوں میں

جانے کب کون کیسے مار دے کافر کہہ کر
 سارے کا سارا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے

ہم دعا لکھتے رہے وہ دغا پڑھتے رہے
 ایک نقطے نے محرم سے مجرم کر (بنا) دیا


یہ جناب شیخ کا فلسفہ ہے عجیب سارے جہان سے
 جو وہاں پیو تو حلال ہے جو یہاں پیو تو حرام ہے

 یہ ہجومِ شہرِ ستم گراں نہ سنے گا تیری صدا کبھی
 میری حسرتوں کو سخن سنا میری خواہشوں سے خطاب کر

 جب ڈاکٹر سرفراز نعیمی کو نواز شریف کے چہیتے طالبان شہید کرتے ہیں تو منہاج القرآن والے اس کی تعزیت میں کانفرنس منعقد کرکے اس قتل کی مذمت کرتے ہیں اور جب منہاج القرآن پر حملہ ہوتا ہے تو مجھے بتانے کی ضرورت نہیں کہ وارثانِ سرفراز نعیمی کہاں کھڑے ہیں! وارثانِ محراب و منبر وقتِ قیام کو کس سجدے میں گرے ہوئے ہیں! مجھے قرآن پاک میں کہیں بھی نہتے اور بے گناہ لوگوں پر ظلم و ستم روا رکھنا نظر نہیں آیا تو ظالم کی حمایت کرنا چہ معنی دارد؟

 یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے محراب مسجد پر
 یہ ناداں گر گئے سجدوں (سجدے) میں جب وقت قیام آیا

 کہا جاتا ہے کہ کوئی ایک کتے کو پانی پلانے کی وجہ سے جنت میں جائے گا۔ کوئی کسی بِلی کو پانی پلانے کی وجہ سے جنت میں جائے گا۔ کوئی کسی ایک بِلی کو بھوکا پیاسا رکھنے کی وجہ سے جہنم میں جائے گی۔ نبی تاجدار سرورِ دوعالم، پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کے ساتھ جاتے ہوئے صرف ایک کتیا (جو اپنے بچوں کو دودھ پلا رہی تھی) کے کام و آرام میں مخل ہونے سے بچانے کیلئے اپنے جان نثاروں  رضی اللہ عنہم کے لشکر کو دور سے گھما دیا تھا۔ مظلوم اونٹ کو خرید کر آزاد فرما دیا تھا۔ تو یہ لوگ کون ہیں کس سماجی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو فلسطین اور ممتاز قادری کے نام پر لوگوں کا استحصال کرتے ہیں لیکن۔۔۔ جامعہ منہاج القرآن کو غزہ بنا دینے  پرمنہ کو تالے لگائے ہوئے ہیں۔

بولتے کیوں نہیں میرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا؟

اگر جامعہ منہاج القرآن پر حملہ ہوجانے کے بعد مزاحمت ناجائز تھی تو کیا غزوہ خندق (احزاب) میں مدینہ پر حملہ ہو جانے پر بھی مزاحمت نہیں کرناچاہیئے تھی؟

 توں کی جانے بھولیے مَجّھے انار کلی دیاں شاناں

 کیاکبھی کسی بدمعاش نے آپ کے کسی پلاٹ یا مکان پر قبضہ کیا ہے؟ یا آپ کو راستے میں ڈاکوؤں نے لوٹا ہے؟ کیا کبھی چوروں نے رات کو آپ کے گھر سے کوئی قیمتی اثاثہ چرایا ہے؟ کیا کبھی آپ کے نامعلوم دشمن آپ پر رات کے وقت بھوکے کتوں کی طرح ٹوٹے ہیں؟ کیا آپ کا کوئی بھائی کراچی میں یا کسی بم دھماکے میں قتل ہوا ہے؟ کیا آپ کو کبھی کوئی اندھی گولی لگی ہے؟ کیا آپ کے کسی معصوم بچے کو کسی نے چیر پھاڑ کر پھینکا ہے؟ کیا کبھی آپ کے راہ چلتے دہی لینے جاتے بیٹے کو کسی نے گولی مار کر قتل کیا ہے؟ کیا آپ کی نوجوان بہن کا کبھی ریپ ہوا ہے؟ کبھی گاؤں کے کسی نمبردار یا محلے کے ناظم نے غنڈے بلوا کر آپ کے گھر والوں کے ساتھ ظلم و جبر کیا ہے؟ کیا کبھی آپ کی والدہ کو برہنہ کر کے قصبے کی گلیوں میں پھرایا گیا ہے؟ کیا آپ کے خاندان میں سے کسی نے خودکشی کی ہے؟َ اگر ان سب سوالوں کا نفی میں ہے۔۔۔۔ تو اے پیرانِ عظام! اور اے مفتیانِ کرام! اور علماءِ ذی وقار! صحافی برادران اور سیاست کے عہدے داران! اور اے مولوی صاحبان! اور کاروباری حضرات یا وکلاء برادران! مذہب و ملت کے سزاواران! او انصاف کی کرسی پر براجمان! او قانون کے محافظان اور کالم نگاران!!! آپ سب سچے ہیں۔
 آپ کو مظلوم کی ڈیفینیشن (تعریف) کا علم ہی نہیں۔آپ تو ٹی وی پر جس رویے کے ساتھ کوئی فلم یا ڈرامہ ملاحظہ فرما لیتے ہیں بالکل اسی رویے سے جس طرح کوئی کہانی یا ناول پڑھا جاتا ہے، آپ کیلئےظلم و جبر کی داستان جو خبروں والے چینل پر آتی ہے آپ کےلئے وہ بھی ایک لطیفے جیسی حیثیت رکھتی ہے۔ اور اخبار پر آنے والی ظلم و تشدد کی خبریں تو کسی حساب و شمار میں نہیں۔آپ تو کتابوں سے رٹے رٹائے جملے یاد کرکے ان سب منصبوں (مناصب) تک جا پہنچے اور دن رات وعظ و تلقین کا ذمہ اُٹھائے ہوئے ہیں۔ جو کہ صرف رسمی حد تک ہے۔ اگر آپ کی باتوں میں تاثیر ہوتی تو جس قدر مصلح اور خیر خواہ اِس قوم کے موجود ہیں ان کی تبلیغ و تحریر سے آج کا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن چکا ہوتا۔ اور دلوں میں کوئی حقیقی انقلاب رونما ہو چکا ہوتا۔ پھر کسی انقلابی کو اپنی آواز بلند کرنے کی ضرورت باقی نہ رہتی اور نہ ہی حکومت کے ریاستی درندے رات کے وقت جا کرکسی کے گھر پر دھاوا بولتے اور نہ ہی گلیاں خون سے نہاتیں۔ اور ہسپتالوں کے وارڈز زخمیوں سے نہ بھرتے۔ ماؤں کے لال بے گناہ قتل نہ ہوتے۔ بہنوں کے مان نہ ٹوٹتے اور سہاگنوں کے سہاگ سلامت رہتے۔ کہیں کوئی ظلم نہیں ہوا جامعہ منہاج القرآن پر حملہ جائز تھا۔

 اجی! ہم پاکستان کی قومی پالیسی کے خلاف بات نہیں کرتے! سبحان اللہ! کیا پاکستان کی پالیسیاں کسی الہامی کتاب کا پیغام ہیں؟ اگر پاکستان کی پالیسیاں قرآن و حدیث کے خلاف ہوں تو کیا ہم اپنی آواز بلند کرکے دلیل سے اپنا مؤقف پیش نہ کریں کہ یہ غلط ہے وہ درست ہے؟ پاکستانیت کیا ہے؟ بچپن میں ہم نصابی کتب میں پڑھتے تھے کہ تحریکِ پاکستان کے نعروں میں سے ایک نعرہ یہ تھا "سینے پہ گولی کھائیں گے، پاکستان بنائیں گے۔ " اب گزشتہ سڑسٹھ برسوں سے پاکستان بن جانے کے بعد سینوں پر گولیاں کیوں کھائی گئیں۔ اگر گولیاں کھانے کے لئے ہی یہ ملک بنایا تھا تو ہندوؤں سے کھا لیتے علیحدگی کس لئے اختیار کی تھی؟ ملکِ پاکستان ہمارے اکابر نے دس لاکھ سے زائد قربانیاں دے کر اور ایک لاکھ کے قریب عزت مآب عصمتیں لٹا کر اس لئے تو حاصل نہیں کیا تھا کہ اس کے حکمران شرابی، زانی اور بدکردار ہوں گے اور اس ملک کے ہر سرکاری اور پرائیویٹ شعبے میں استحصال ہوگا یہ ملک رشوت خوری اور سود خوری کے لئے نہیں بنایا گیا تھا یہ ملک سڑسٹھ سال تک کافر انگریز کے آئین کی اندھی تقلید کرنے کے لئے نہیں بنایا گیا تھا اسلام صرف عبادات (نماز، روزے، حج اور زکوٰۃ) کا مجموعہ نہیں ہے اس میں 80 فیصد سے زائد دیگر موضوعات، مثلاً سیاست، معاشرت، تجارت اور معیشت سمیت جیسے بہت سےمعاملات شامل ہیں اسلام سے ان تمام موضوعات کے مختلف پہلوؤں پر رہنمائی ملتی ہے اور اسلام ان کے عملی نفاذ کا تقاضا کرتا ہے۔ عالَم اسلام کے تمام مسلمانوں کو باہم وحدت اختیار کرکے اپنے حالات کا معروضی لینا ضروری ہے، اس ضمن میں اہل علم و دانش پر، صاحبان اقتدار پر اور اہل ثروت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور باہم آگاہی پھیلانے کے حوالے سے ہر مسلمان ذمہ دار ہے۔ اسلام کا قانونِ شریعت کوئی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد والے مُلّا  کا قانون تھوڑی ہے بلکہ یہ آئین و دستور تمام انسانیت کے لئے تا ابد بہترین اور ایک مثالی نظامِ حیات ہے اس آئین کے خلاف بات کرنے والے منہ سنبھال کر بات کریں کہ آج اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں وہ اعلیٰ اقدار کی شقیں موجود نہیں ہیں جن کا عملی مظاہرہ اسلام چودہ صدیاں قبل پیش کر چکا ہے۔مسلمانو! اسلام کی خاطر اور اسلامیت کی خاطر کڑھنا اور عملی طور پر اس کے لئے کام کرنا شروع کردو تاکہ آپ کی آئندہ نسلیں ایک بہتر مستقبل میں زندگیاں بسر کر سکیں، اسلام کو خود پر اور ریاستی سطح پر نافذ کرنے میں ہی فلاح ہے، ورنہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن یہ درندے ہماری ہڈیاں بھی نوچ کھائیں گے۔

میں نے سناتھاکہ 2007 میں لال مسجدوالوں کےساتھ چودھری شجاعت کے مذاکرات ہوچکےتھے لیکن وزیراعظم شوکت عزیزکی قلفی کھانےکی مصروفیت نے آپریشن نہ رکوایا۔ لال مسجد والے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو نعوذباللہ باغی کہتے تھے وہ تو امام عالی مقام کو صحابی ماننے سے انکار کرتے تھے اور یزید لعنتی ملعون کو معاذاللہ 'رحمہ اللہ علیہ' کہتے ہیں لیکن "سائیلنس آپریشن" کو انہوں نے سانحہ کربلا سے تشبیہ دی اور امام عالی مقام کے دامن میں پناہ لی۔ پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تعصب یہ نہیں کہ تو اپنی قوم سے محبت کرے تعصب یہ ہے کہ تو ظلم کرنے میں اپنی قوم کا ساتھ دے!!!
 ہمارے رویے کچھ اس قسم کے ہیں کہ کوئی جتنا زیادہ جاہل ہے وہ اتنا ہی زیادہ ہٹ دھرم اور متعصب ہے۔ ہم لوگ اپنے مؤقف کو درست ثابت کرنے کیلئے ہٹ دھرمی سے باز نہیں آتے اور تعصب کی تعریف کے حوالے سے لوگ باگ،آقا کریم علیہ الصلوۃ والسلام کے فرمان سے بےخبر ہیں اور سورۃ انفال جو دسویں جماعت کے نصاب میں تھی اس کے مطابق دشمن سے معاہدے والی آیت یاد نہیں۔
 جامعہ منہاج القرآن پر حملہ کرنے اور کروانے والوں پر اللہ کی لعنت! بےگناہ نہتے لوگوں پر دہشتگرد مافیا کی شہہ پر پولیس کاحملہ قابل مذمت ہے۔ جو اہلِ علم، علمی اختلافات کی آڑ میں منہاج القرآن پر حملے کی مذمت نہیں کرتے وہ خود قابلِ مذمت ہیں، وہ سب اپنی ہٹ دھرمی کے ساتھ جہنم میں جائیں ۔ اگر عیسائیوں پر حملوں کی مذمت کرنے سے مسلمان، کافر نہیں ہوتے تو جامعہ منہاج پر حملے کی مذمت کرنے سے بھی سب مسلمان ہی رہیں گے آج کے صحافی اور مولوی کے مشہور ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ کسی مشہور و معروف شخصیت کو ہدفِ تنقید بنا لے اور خود بھی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جائے لیکن کبھی کبھار ایسا نہیں بھی ہوتا یا شاید ممکن نہیں ہوتا، ممکن ہے کہ ایسا ممکن تو ہو لیکن دل گردہ اور پِتّہ ساتھ نہ دیتا ہو مثال کے طور پر محقق العصر علامہ مفتی محمد خان صاحب قادری، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے قائل رہے ہیں کسی مائی کے لال نے ان پر گمراہ یا کافر ہونے کا فتویٰ سٹیج پر نشر کیا ہو تو آگاہ کیا جائے! یہ سستی شہرت حاصل کرنے کا سنہری موقع مُلّا نے کیش کیوں نہیں کروایا کیونکہ ایک تو دوسری جانب علم کا سمندر ہے اور دوسرے اس معاملے میں پشت پر تھپکی دینے والے نہ ہونے کے برابر ہیں قبلہ مفتی صاحب نے میڈیا پر فلاح انسانیت فاؤنڈیشن (حافظ سعید ) کے کام کو سراہا کسی نے کوئی فتویٰ دیا؟ آخر خود کو اُمّت کا مالِک سمجھنے والے مُلّا اس معاملے میں کیوں دُم دباتے نظر آتے ہیں بھئی یہ باتیں تو دوسرے فرقوں کے حق میں جاتی ہیں نکالو اپنا دائرہِ اسلام اور جتنے جی میں آئے لوگوں کو اُس میں سے خارج کر ڈالو۔
 رانا ثناء اللہ صاحب! آپ نے داتا دربار پر حملے کروائے عوام برداشت کرگئے آپ نے ڈاکٹر مفتی سرفراز نعیمی کو شہید کروایا۔ اہلسنت وہ بھی برداشت کرگئےآپ نے جنوبی پنجاب کو پنجابی طالبان کا گڑھ بنا دیااس کا کوئی جواز ہے آپ کے پاس؟آپ وزیر قانون رہے ہیں یا وکیلِ دہشتگردی؟ اگر مسئلہ صرف بیرئیر اور نوگو ایریا کا ہے تو رانا صاحب! آئیے آپ کی آنکھوں پر لگی ہوئی پٹی اتاریں آپ کوشہرِ لاہور میں نون لیگ کے قبضے میں کوئی تجاوزات دکھائی نہ دے سکیں؟ آپ کو لیک روڈ لاہور پر حافظ سعید کا بکتر بند قلعہ نظر نہیں آتا جامعہ اشرفیہ اور منصورہ کے مراکز دیکھتے وقت آپ کی آنکھوں میں موتیا اتر آتا ہے؟ معروف قول ہے کہ جماعتِ اسلامی سے کارکن نکل جاتا ہے لیکن اس کارکن میں سے جماعتِ اسلامی کبھی نہیں نکلتی جس کا عملی مظاہرہ خواجہ سعد رفیق نے (جامعہ منہاج پر ظلم کرنے کے بعد) اپنا خبثِ باطن میڈیا کے سامنےبیان دے کر کِیا، ساری دنیا میں دہشت گردی کا نصف سے زیادہ کریڈٹ جماعتِ اسلامی (باقی دیگر دیوبندیوں،وہابیوں،سعودی ظالم حکومت، امریکہ بشمول اس کے اتحادیوں اور اخوان المسلمون)کو جاتا ہے۔ میاں شہباز اور میاں نواز کو یاد رہے کہ ظلم کی اخیر خدا کا بیر ہوتا (اَت خدا دا وَیر) ہے۔ آخر کب تک آپ فرعون کے نقش قدم پر عمل پیرا ہوکر نہتے عوام اور اہلسنت کا قتل عام کرواتے رہیں گےکیا قیامت والے دن آپ اللہ کی عدالت میں حاضر ہونے سے بچ جائیں گے؟
 اہلسنت کے علماء اور پیر یہ بات ذہن نشین فرما لیں کہ اگر اب بھی اہلسنت اپنی اپنی تنظیموں کے تعصب کی وجہ سے انتشار کا شکار رہے تو آپ کی لاشوں پر نمازِ جنازہ ادا کرنے والا بھی کوئی زندہ نہیں بچے گامسلم لیگ( ن) کے حمایتی پیروں کیلئے بھی لمہ ءِ فکریہ ہے!!! سیاست میں ڈاکٹر طاہرالقادری سے یہ کارنامہ سرانجام ہوا ہے کہ وہ زمامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لے کر انقلاب کے خواہشمند ہیں، انقلاب صرف دل کی کیفیت کی تبدیلی کا نام ہے جو عقائد اور اعمال کی اصلاح سے ممکن ہوتا ہےصرف نعرے اور دعوے کرنے سے انقلاب نہیں آتے! اور عقائد میں اجتہاد نہیں ہوتا ایک تو سات صدیوں سے اجتہاد کادروزہ بند ہے۔ اما م احمد رضا خان قادری بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مجتہد ہونے کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔ دوسری بات یہ کہ اجتہاد مسائل میں ہوتا تھا عقائد میں  تو یہ ممکن ہی نہیں (ممکن ہے اس بارے میری معلومات محدود ہوں، کیونکہ میں بھی علمی طور پر یتیم ہوں ناں!)۔
 خواب کے نام پر بیان کئے گئے بیانات)ان کی تحقیق کیلئے میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی سی ڈی لایا ہوں، اور قانونِ ناموسِ رسالت کے اطلاق کی تحقیق کیلئے بھی، جس کے بعد انہیں ممتاز قادری کا دشمن اور سلمان تاثیر کا وکیل کہا گیا، وہ بنیادی طور پر ایک وکیل اور قانون دان ہیں اور ان کی بات قانون کا طالب علم درست انداز میں سمجھ سکتا ہے۔ میں تحقیق کے بعد اس بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کر دوں گا۔ ان شاء اللہ) اور دیگر مظاہرے اوردھرنے وغیرہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا تمسخر اڑانے کیلئے مخالفین کے پاس مؤثر ہتھیار ہیں۔ کچھ لوگوں  کےبقول ،غازی ممتاز قادری کے موضوع پر پوری امت طاہرالقادری کی فریق ہے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ طاہرالقادری کو حبِ جاہ نے بند گلی میں دھکیل دیا ہےانقلابی شخصیت کے حامل ڈاکٹر طاہر اب پیچھے ہٹنے کے نہیں لگتے کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ منہاج (پاکستان عوامی تحریک) والوں کی اور نون لیگ دونوں کی اجتماعی خودکشی کے مترادف ہوگا۔لیکن اب اہلسنت کے مدارس کو دن رات سکیورٹی کا مسئلہ لاحق ہوچکا ہے۔کیونکہ خوارجی بھیڑئیے ہر وقت ظلم کا موقع ملنے کی تاک میں ہیں۔
میں نے 3 مارچ 1989ء کو ڈاکٹر طاہرالقادری کی اتفاق مسجد میں ہونے والی جمعہ کی آخری ڈیڑھ گھنٹے پرمحیط تقریر کی وڈیو دیکھی ہےجس میں وہ میاں محمدشریف، نواز اور شہبازوغیرہ کومنہ پر واضح طور کہتےہیں کہ اگر میں جھوٹ بولوں تو کھڑے ہوکر تردید کردیں اُس تقریر کا لب لباب یہ ہے کہ ڈاکٹر نے شریف خاندان سے کبھی ایک روپیہ نہیں لیا اس تقریر میں ڈاکٹر طاہرالقادری کہتے ہیں کہ تنخواہ، ھدیہ، نذرانہ تو کجا! کبھی تحریک منہاج القرآن کیلئے بھی ایک ٹیڈی پیسہ اتفاق برادرز (شریف خاندان) یا حکومت سے نہیں لیا۔ نہ اُس خاندان کو کبھی کوئی سیاسی  فائدہ دیا اور نہ ہی کبھی کوئی مالی فائدہ لیا! البتہ دوبار قرض لیا تھا اور واپس کردیا تھا۔ ایک بار اپنے ذاتی کام کیلئے اور ایک بار تحریک کیلئے۔
 کسی جنگل میں چار بیل تھے ان کی نااتفاقی کی وجہ سے شیر سب کو کھا گیا۔ اب یا تو علماء اہلسنت طاہرالقادری کے معاملےپر اپنی حتمی رائے دیں ورنہ جو ممکنہ رعایت ہو اس کی گنجائش پیدا کریں تاکہ امت مخمصے سے باہر آسکے)کچھ علماء کا مؤقف سامنے آچکا ہے وہ ظالم حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں)۔ اب آر یا پار کرنے کا وقت آگیا ہے کیونکہ حالات انتہائی نازک سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ مجھےخدشہ ہے کہ اگر اہلِ سنت مکمل طور پر غیر جانب دار رہے اور مارشل لاء بھی نہ لگا تو ادارہ منہاج کا نام دنیا سے مٹ جائے گا)یہ بات جون 2014ء میں لکھی گئی تھی(۔ اور پھر جامعہ فلاں، پھر جامعہ فلاں، اور پھر جامعہ فلاں.......یوں اہلسنت کا نام پاکستان سے سعودیہ کی طرح ختم ہوجائے گا(آج 2 اپریل 2015 کو اپڈیٹ کر رہا ہوں کہ اس سال جنوری میں ان بریلوی ملاؤں کے مدارس پر پولیس کے چھاپے پڑے تھے جو سانحہ منہاج القرآن کے بعد اس ظالم حکومت کی گود میں تھے، لیکن اب آکے وہ اسی حکومت کو ظالم ظالم کہہ رہے ہیں)۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا منہاج پر حملے سے خوارج کے سینے میں ٹھنڈ پڑی یا نہیں۔اہلسنت منہاج سے نہیں منہاج کی بنیادوں میں اہلسنت کا خون پسینہ تھا اس لئے خوارج سر چڑھ رہے ہیں، البتہ ڈاکٹر طاہر القادری اور پاکستان عوامی تحریک سے کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے اس کا فیصلہ وقت کر دے گا کہ کون ٹھیک تھا کون غلط۔۔
 نواز شریف، شہباز شریف اور ان کے ظالم رفقاء اپنی اپنی اولاد پولیس سے قتل کروا کے قومی خزانے سے تیس تیس لاکھ روپے وصول کرلیں، لوگوں کے بچوں کو قتل کروانا ان ظالم بھیڑیوں کے لئے ایک کھیل کی سی حیثیت رکھتا ہے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو قتل کیوں نہیں کرواتے جو سب کے سب عیاشی میں بدمست ہیں۔ نوجوان نسل ان سب ظالم حکومتی لیڈروں پر اکٹھی لعنت بھیجے ان ظالموں کےلئے سڑ کوں پر نکلنے سے بہتر ہے کہ سکون سے اپنے گھروں میں بیٹھے، علم دین سیکھ کر اس پر عمل کرے اور فرقہ واریت (مطلب !قتل و غارت گری (سے پرہیز کرے حلال روزی کما کر اپنے گھر والوں کو کھلائے۔ اگر ان کتوں کو لگام نہ دی گئی تو نون لیگ کے ریاستی دہشت گرد ہر ایک سُنّی اور عوام کو قتل کرنا ایک مذاق سمجھ بیٹھیں گے اور ہر عام آدمی کے پاس تو پاور نہیں ہے کہ ان شریر کتوں کو پتھر مارسکے (جو لوگ نون لیگ کے ظلم سے محبت کرتے ہیں وہ مرنے سے پہلے اپنی چتا کو جلانے کی وصیت لکھ جائیں کیونکہ قرآن پڑھنے والے اور درود شریف پڑھنے والوں پر تو یہ ظلم اور درندگی کو جائز سمجھتے ہیں مولوی حضرات بھی ان ظالم درندوں کا سوشل بائیکاٹ کریں ان کے جنازے کوئی نہ پڑھے)۔
 ڈاکٹر طاہرالقادری سے اختلاف کا مطلب یہ تھوڑی ہے کہ حکومت کو تقویت دینے کیلئے بکواس کی جائے۔ مثال کے طور پر راولپنڈی یا اسلام آباد میں کوئی جلسہ یا کنونشن منعقد ہونےجا رہا تھا، وہاں غازی ممتاز دامت برکاتھم العالیہ کی رہائی کیلئے پاور دکھائی جانے والی تھی خدانخواستہ اگر وہاں کوئی ناخوشگوار واقعہ ہوتا تو اہلسنت کا ردعمل کیا ہوتا؟ کیا درندہ لیگ کےحکمرانوں نے غازی صاحب کو رہا کردیا ہے؟
 یوں لگتا ہے کہ آپریشن ضربِ عضب کی وجہ سے پاکستان عوامی تحریک اور ڈاکٹر طاہرالقادری کا ایجنڈا صرف پاک فوج کی حمایت کرنا تھا۔انقلاب وغیرہ شاید ایسے نہیں آجاتے شاید آتے بھی ہوں  )جس طرح انقلابِ ایران 5 نومبر 1979ء برپا ہوا تھا(! لہذا نجدیت کے پیٹ میں مروڑ اٹھا اور انہوں نے حکومتی سرپرستی میں جامعہ منہاج القرآن والوں کو اہلسنت مان کر منہاج القرآن یونیورسٹی پر دھاوا بول دیا اور سُنی مولوی صاحبان، ڈاکٹر طاہرالقادری کی ذات میں سے کیڑے نکالتے رہے! بھئی مسئلہ یہ ہے کہ پولیس نے بھیڑیوں کی طرح بے گناہ لوگوں پر ظلم کیا ہے!!! مظلوم چاہے کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتے ہوں ان پر ظلم ہوا ہے یہ حکومت، حکومت نہیں درندوں کا اکٹھ ہے مظلوم کی حمایت نہ کرکے مسلمان دنیا و آخرت کی ذلت خرید رہے ہیں۔ )ان پر بارشوں اور سیلاب کی صورت میں کئی عذاب نازل ہورہے ہیں جوابھی تک ان کی سمجھ میں نہیں آسکے) اِس قدر ظلم کرنے کے بعد شریف خاندان کو جینے کا کوئی حق نہیں!!! شریف خاندان نے ظلم کروایا ہے لہذا اب فوج آ کر مارشل لاء لگائے اور ان ظالموں کو تمام خاندان کےساتھ جہنم واصل کرے! ورنہ یہ درندے آئےروز کسی نہ کسی کاخون پیتے رہیں گے۔ قتل کابدلہ قتل۔ رانا ثناء اللہ جیسے درندوں اور شریف خاندان کوقتل ہو جانا چاہئے۔ ان ناپاک درندوں سے یہ دھرتی پاک ہونی چاہئے۔

 اگر طاہرالقادری سڑک پر آکر کسی قانون کو ہاتھ میں لیتا یا اس کی جماعت کا بندہ کوئی توڑ پھوڑ کرتا تو پولیس کی جانب سے آنسو گیس کے شیل پھینکنا سمجھ میں آتے تھے)یہ جملہ بھی جون یا جولائی 2014ء میں لکھا گیا تھا لیکن حالات نے ثابت کر دیا کہ ڈی چوک اسلام آباد سے حرکت کرنے پر بغیر کسی قانون کے توڑے حکومت نے رات کے اندھیرے میں پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے نہتے مظاہرین پر ظلم و تشدد کی حد کردی جس کی زد میں آکر درجنوں بے گناہ لوگ شہید ہوگئے اور میڈیا نے صرف تین شہادتیں اور صرف چند سو زخمی رپورٹ کیے۔ حیران کن بات ہے کہ پچیس ہزار مظاہرین پر پندرہ گھنٹے سے زائد عرصہ چالیس ہزار پولیس نے ایکسپائرڈ آنسو گیس کی شیلنگ کی، کیمیکلز کی طوفانی بارش کی، ربڑ اور حقیقی گولیوں کی بارش کی اور پندرہ گھنٹوں میں صرف تین شہادتیں ہوئیں۔ ڈاکٹرز نے گولی کو گولی کہنے سے بھی انکار کر دیا۔۔۔) اوئے کسی کے گھر میں جاکر بدمعاشی کروانے والے انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں!اور خاموش تماشائی بھی ظالم!ظالم کےساتھی بدرجہا ظالم! عذرِ گناہ بدتر از گناہ است! ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ذات، سیاسی فلسفے اور سیاسی تحریک سے قطع نظر، مسلم لیگ ن کے کارکنوں اور پولیس نے 17 جون 2014ء کو جامعہ منہاج القرآن ماڈل ٹاؤن لاہور، پاکستان میں پندرہ گھنٹے لائیو ، نہتے لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے اور اہلسنت نے حظ اٹھایا نجدیت کے دل میں ٹھنڈ پڑی۔
 تعصب نے قوم سے دل ِبینا چھین لیا اور پاگل وحشی بنا دیا! کیا یہی اسلام ہے کہ ہم سمجھ لیں کہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنی تحریک کے کارکنان کو برین واش کرکے پاگل بنا دیا تھا لہٰذا اُن کو ریاستی طور پر قتل کرنا حلال ہوگیا ہے؟ اگرہم کسی صاحب کےساتھ ملکر غازی ممتاز قادری صاحب کیلئے سڑک پر آتے ہیں تو مُلحد لوگ ہمیں پاگل قرار دیں گے تو کیا غازی ممتاز قادری کے دیوانوں، شمع رسالت کے پروانوں اور پاگلوں پر پندرہ گھنٹے ظلم روا ہے؟ ورنہ دوسری طرف کسی کے گھر جاکر ان پر ظلم کرنا کس طرح پاگلوں کو مارنے کا سرٹیفیکیٹ ہے؟
 یار لوگ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری ہرگز مظلوم نہیں ہے! تو کون کہہ رہا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری مظلوم ہے؟ البتہ اس وقت وہ ایک مظلوم جماعت کا قائد ضرور ہے۔ میرے نادان دوستوں کو خوب معلوم ہے پھر بھی ہٹ دھرمی والی اکڑ باقی ہے!!! اور (محض تعصب کی بناء پر) مجھےڈاکٹر کا یار کہتےہیں کہتے رہو! مجھے اس سے چڑ ہو یا نہ ہو انہیں ضرورمحظوظ ہونا ہے۔ جناب والا! میں تو درندہ لیگ کے ظلم کےخلاف بات کر رہا ہوں تاکہ دوسرےانسان ان کی ظالم سرشت سے بچ سکیں سب انسان مذاہب سےپہلے انسانی حقوق رکھتے ہیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تعصب کے بارے میں جو فرمایا اس کے خلاف ہٹ دھرمی اختیار کرنے پر قوم کی عقل ماری گئی ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ نے فرمایا کہ تعصب یہ نہیں کہ تو اپنی قوم سے محبت کرے، تعصب یہ ہے کہ تو ظلم کرنے میں اپنی قوم کا ساتھ دے۔
 ملالہ پر حملے کے خلاف اہلسنت کے 500 علماء کا فتوی آیا!!! اہلسنت عوام نے ملالہ کی مخالفت کی۔عوام ِ اہلسنت نے ممتاز قادری کے معاملہ پر منہاج کی بھی مخالفت کی۔ کون ملالہ؟ جس کے نظریات کافروں جیسے ہیں اس کے حق میں علماء اہلسنت کا فتوی آن دی ریکارڈ ہے!!!  دیوبندیوں کی تحقیق پر عوامِ اہلسنت نے ملالہ کی مخالفت کی۔ منہاج کے مقتولین کے حق میں فتویٰ کیوں نہیں آیا؟ کیا منہاج کے مقتول لوگ ملالہ سے بھی بدتر تھے؟
 کیا نون لیگ والے طالبان کے حمایتی نہیں ہیں؟ یا حکمرانوں کو خدا مان لیا گیا ہے؟ میرے نادان دوستوں کی سمجھ میں اتنا سا نکتہ نہیں آرہا کہ یہ ڈاکٹر طاہرالقادری پر طنز کرکے اپنا قیمتی وقت ضائع کرکے ظالم کی قوت کو تقویت دے رہے ہیں اور ظلم کی داستان ان کی بکواس کے نیچے دب گئی ظلم کسی مذہب کے ماننے والوں پر روا نہیں۔ اس ظلم سے ثابت ہو گیا ہے کہ قوم کے گھر محفوظ نہیں ہیں۔ میڈیا اور عوام کا جو رویہ ہے اس کی رو سے جتنا ظلم جامعہ منہاج القرآن میں ہوا ہے یہ تو فلم کا ٹریلر بھی نہیں بنتا!!! ان بے جس اور بے ضمیر لوگوں کو خود پر ہونے والی محض تنقید بھی برداشت نہیں ہوتی؟ اور دوسرے لوگوں پر قیامت کا ڈھایا جانا بھی ایک شغل میلہ لگتا ہے۔لعنت ایسی سوچ پر!!!
سن 2012ء کے اواخر میں میرا ذہن صرف اس بات پر رک گیا تھا کہ مسلمانوں نے گستاخانہ فلم کا کیا ردِّعمل کیا ہے؟ اور اب میرا ذہن اس بات پر اٹک گیا ہے عوام نے جامعہ منہاج القرآن پر ریاستی حملے کو ایک فلم کیوں سمجھ لیا ہے؟ ٹھنڈے ذہن سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ جب دہشت گردوں کے حملے ہوتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ حکومت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی لیکن جب ظلم کی کارروائی خود حکومت کے حکم پر اور نگرانی میں ہورہی ہو تو حکومت باقی کہاں رہ جاتی ہے، مینڈیٹ کہاں رہ جاتا ہے؟ کیا ایسے حکمران پھانسی پر نہیں لٹکا دینے چاہئیں؟
ہم نے بچپن میں گدھے پر چارہ وغیرہ ڈھویا ہے گدھا لکیر کا فقیر ہوتا ہے وہ ہمیشہ شارٹ کٹ پر عمل کرتا ہے اور کام چور ہوتا ہے بعض اوقات جفاکشی بھی دکھا جاتا ہے لیکن شاید گدھا تعصب سے پاک ہوتا ہے بعض اوقات تعصب میں ظلم کاساتھ دنیا انسان کا خاصہ ہے لیکن اکڑ گدھے والی ہوتی ہے!!! ہماری ذات پر کسی کے الفاظ کا حملہ ہماری لغت میں ناقابلِ معافی ہوتا ہے تو ایک درجن گھنٹوں سے زائد گولیوں اور گالیوں کی بوچھاڑ کیونکر بھول جانے والا واقعہ ہے ہم نے جابر حکمران کے خلاف حق کی آواز بلند کرنے کی بجائے محظوظ ہونے کے سوا کوئی قابلِ ذکر کارنامہ سرانجام نہیں دیا ہمارا علاقہ پاکستان مسلم لیگ نون کا گڑھ ہے لوگوں نے اپنے ایمان نون لیگ کی جھولی میں ڈال کر ظلم پر خوشی کا اور جشن جیسا اظہار کیا ہے اب ان سب نے اپنا خدا اور سب کچھ نواز شریف اور شہباز شریف کو مان لیا ہے حالانکہ حقیقی طاقت اللہ کے پاس ہے اور اللہ ہی سب کا رب ہے(یہاں 13 اگست 2014ء کو مقامی سیاست دانوں نے اجلاس کرکے، میڈیا کے سامنے نون لیگ سے منحرف ہوکر پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کر دیا تھا۔ یاد رہے یہی حلقہ وزیر اعظم نواز شریف کا ہے جس سے وہ ایم-این-اے منتخب ہوا۔ اور ابھی تک مینڈیٹ پر بضد ہے۔ حالانکہ اس کے حلقے میں نون لیگ کے لیڈرز اس کی جماعت سے نہ صرف بغاوت کر چکے ہیں بلکہ 13 اگست کو انہوں نے عمران خان زندہ باد اور طاہر القادری زندہ باد کے نعرے بھی لگائے جو آن ریکارڈ بات ہے!  گلو بٹ غنڈہ لیگ المعروف درندہ لیگ پر مسلم لیگ کا نام استعمال پر سپریم کورٹ پابندی لگائے!!!

اگر یہی حملہ منصورہ مرکز پر، جامعہ اشرفیہ یا مرکز قادسیہ پر ہوا ہوتا؟ اگر اسی طرز کا حملہ کسی شدت پسند فرقے کے کسی مرکز پر ہوتا تو ملک میں ایسی آگ لگتی جو بہت کچھ بھسم کر ڈالتی۔ آج سنُی چیتے اپنی کچھاروں میں بھی دبک کر نہ بیٹھ پاتے! آگ اور خون کا وہ سماں ہوتا کہ دنیا دیکھتی، اور کسی قسم کا باغی ان بپھرے ہوئے باغیوں کی ٹانگیں نہ کھینچتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مسلمان اتنا اعلیٰ ظرف ہو کہ اُس کی گفتار اور اُس کا کردار دیکھ کر دیگر اقوام مثبت تاثر لیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا ایجنڈا صرف پاک فوج کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنا تھا۔ درندہ بٹ گلو لیگ اور میرے سیاسی بصیرت سے بے بہرہ دوستوں نے اسے انا اور مذہب کا مسئلہ سمجھ کر نادانگی کی انتہا کردی۔ ہم عمران خان کے خلاف اس لئے نہیں بولتے کہ شاید وہ صرف سیاسی لیڈر ہے ورنہ ممتاز قادری کے بارے میں متنازع بیان وہ بھی دے چکا ہے(عمران کی سیاسی جدوجہد سے کس کو انکار ہے اُس بندے نے اِس قوم کو ایک ولولہ تازہ دے دیا ہے)۔
میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے خلاف کتنی بکواس کرتا رہا ہوں؟ لیکن اہلسنت کے علماء نے ڈاکٹر موصوف کو کبھی کافر نہیں کہا! کیوں؟ کیونکہ علماء کی بصیرت گہری ہے اس کا جواب علماء ہی دے سکتے ہیں!!! ممکن ہے کہ ابھی تک ان کے دل میں نرم گوشہ ہے لیکن جن مُلَّاؤں کے پیٹ میں زیادہ سخت مروڑ ہے وہ ایک ہی بار ڈاکٹر طاہر کے بارے میں کفر کا فتویٰ دے کر گھر کیوں نہیں بیٹھ جاتے! شاید وہ ڈاکٹر کی اصلاح چاہتے ہیں اور اسے آج بھی اہلسنت کا سرمایہ مانتے ہوں یا ان کے دل میں کوئی ایسی بات ہو جس کا مجھے اندازہ نہیں کہ وہ ڈاکٹر کو اپنا کیوں سمجھتے ہیں یا مخاصمت کیوں رکھتے ہیں !!! ممکن ہو تحقیق کی کمی ہو ! یا انہیں اس بارے میں صَرف کرنے کیلئے  اتنا وقت نہ ملا ہو یا کوئی غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہوں یا غلط خبریں)ممکن ہے صحیح خبریں غلط طریقے سے) بہم پہنچائی گئی ہوں۔
 سیاسی کہانی یہ ہے کہ سارے شعبدہ باز خفیہ ہاتھوں کے اشارے پر تماشا کرتے ہیں اور خفیہ ہاتھ ان کٹھ پتلیوں کو کبھی بھی اقتدار نہیں سونپتے، بلکہ پچھلے سال خفیہ ہاتھوں نے عمران خان کو بھی بادشاہ نہیں بننے دیا تو ڈاکٹر طاہرالقادری کیلئے کیسے ممکن ہے۔ لیکن درندہ لیگ کے حق میں جانے والی تنقید ظلم کاساتھ ہے۔۔۔ میں 18 جون2014ء سے درندہ لیگ کی درندگی کے خلاف میسیج لکھ کر بھیجتا رہا اور میرےدوست احباب، ڈاکٹر طاہرالقادری کی ذات کے خلاف اپنے تعصب کی بناء پر، پُرانے کیڑے نئی محنت سے نکال نکال سامنے لاتے رہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے بارے میں مذہبی طور پر جتنا شدید ردعمل میرا رہا ہے ہے سب دوستوں کو معلوم ہے! آپ کسی بھی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہوں یہ کیا بات ہوئی کہ حکومت، رات کے پچھلے پہر پاگل کتوں کی طرح اپنے شہریوں کو قتل کرنا شروع کردے! شہری کوئی سے بھی ہوں! ریاستی ظلم روا نہیں! اگر ظلم کسی دہشت گرد کی جانب سے ہو تو حکومت اور عدالت سے انصاف مانگا جاتا ہے اور اگر ظلم حکومت ہی طرف سے کیا جائے تو کسے وکیل کریں؟ کس سے منصفی چاہیں؟ اگر جامعہ منہاج القرآن اور اسلام آباد میں نہتے مظاہرین پر ظلم روا ہے تو فلسطین میں کیوں جائز نہیں؟ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کی مذمت کیوں کی جاتی ہے؟ اگر کافر کرے تو ناجائز اگر مسلمان کرے تو جائز؟ کیوں؟ کس منطق اور فلسفے کے تحت یہ ہٹ دھرمی اپنائی جارہی ہے؟

 قرآن پاک میں جابجا اللہ عزوجل نے فرمایا ہے کہ کافروں کے دلوں پر ہٹ دھرمی کی وجہ سے مہر لگا ئی گئی۔ کچھ ایسا ہی معاملہ میرے ساتھیوں کے ساتھ ہوا کہ یہ ڈاکٹر طاہر القادری کے تعصب میں اتنا آگے نکل گئے ہیں کہ اب انسانیت کا احساس بھی ان کے دلوں سے ختم ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے ۔ ان کے ذہنوں پر بس ڈاکٹر سوار ہے۔۔۔ ڈاکٹر خطرے کی گھنٹی ہے!!! ڈاکٹر پاکستان آکر ان کے عہدوں پر قبضہ کرلے گا۔ ان کی بجائے (کیا پدی کیا پدی کا شوربہ) میڈیا، اس کی کوریج کرے گا۔ ڈاکٹر یہ! ڈاکٹر وہ! صبح ڈاکٹر! شام ڈاکٹر! سوتے جاگتے میں اس کا خیال۔۔۔ وہ حواس اور عقل پر چھا گیا۔ طاہر القادری آگیا۔۔۔

میں کٹر سنی بریلوی اس وقت ہوا تھا جب میں نے حجۃ الاسلام مفتی ابوداؤد محمد صادق رضوی کی تنقیدی کتاب خطرے کی گھنٹی ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف پڑھی۔ لیکن انہوں نے وہ خواب والا بیان لکھ کر کافر نہیں کہا جبکہ ایک عام سے مسلمان کا ایمان اجازت نہیں دیتا کہ وہ اُس وڈیو کو دیکھ سن کر ڈاکٹر کے بارے میں سخت رد عمل نہ کرے (اب میں ان خوابوں اور بشارتوں کے حوالے سے ڈاکٹر کی علمی محاکمے والی سی ڈی لایا ہوں دیکھئے کیا سمجھ میں آتا ہے۔ ان شاء اللہ میں وہ نکتہ نظر ضرور بیان کر دوں گا۔ اپڈیٹ یہ ہے کہ میں نے وہ چار گھنٹے سے طویل تقریر سی تھی اس کے بعد میرا ذہن اس معاملے پر صاف ہوگیا تھا۔ واللہ اعلمیار لوگ ریاستی درندگی کو جائز کہتے ہیں۔ مجھے ایک ہفتے سے زیاد وقت ہوگیا تھا یہ کہتے ہوئے کہ حکومت کے کتوں کے منہ کو خون لگ چکا ہے اب وہ سب کو چیر پھاڑ کر سب کا خون پئیں گے اس کا عملی مظاہرہ اسلام آباد میں23 جون 2014ء کو کیا گیا کہ حکومتی کتوں نے پاکستان عوامی تحریک کارکنوں کا عرصہ حیات تنگ کردیا اور پولیس کو مظلوم بتا دیا! جس کے پاس پاور ہو وہ سارے ثبوت پیدا کرکے مخالف فریق کو جھوٹا بنا دیتا ہے اور جوکوئی صاحبانِ اقتدار کے رحم و کرم پر ہوں ان پر رحم ہونا چاہئے تاکہ حکمرانوں پر اللہ رحم فرمائے جس کے پاس طاقت ہے اسے قتلِ عام کا لائسنس نہیں دیا جانا چاہئے
 یہی میرا نکتہ نظر ہے کیا اہل علم و دانش کسی مظلوم کے حق میں اسی لئے بولنے سے پرہیز کریں کہ مظلوم کے قائد کےساتھ ہمارا نظریاتی اختلاف ہے اس قسم کے اہل علم و دانش خود اس ظلم میں برابر سے زیادہ شریک ہیں کیونکہ وہ ظالم کو نہتے لوگوں کے خون سے کُھل کھیلنے کی اجازت دے رہے ہیں۔ سختی کےساتھ تو کوئی ایک گلی کے لوگوں پر حکومت نہیں کرسکتا،حکومت کو اندرونی اور بیرونی جانب سے بہت دباؤ ہوتا ہے۔حکومت کیلئے رعایا اولاد کی طرح ہوتی ہے!!! جو حکومت رات کے وقت اپنی بے گناہ رعایا پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اس پر اللہ کی لعنت! اور مظلوم کامذاق اڑانے والوں پربھی، حد تو یہ ہے کہ مقدمے بھی مظلوم لوگوں پر ہوئے۔
 طالبان نے کئی سالوں سے قوم کا جینا حرام کردیا تھا اُن کے معاملے میں کئی سال کا ظلم شامل ہے اور سب کچھ قوم کے سامنے اعلانیہ ہوا۔ ان کے ساتھ مذاکرات کی بات کی جاتی ہے اور امن کو "ایک موقع" دیا جاتا ہے۔ آج وہاں لاکھوں متاثرین ہیں لیکن قوم آپریشن کو اپنے لئے نجات کا باعث سمجھتی ہے! جبکہ پر امن تحریک کے دفتر پر پاگل کتوں کی طرح حملہ کردینا حکمرانوں کی موت کے سوا کچھ اور نہیں! یہاں بیریئر ہٹانے کیلئے مذاکرات کیوں نہ کیے گئے اور امن کو ایک اور موقع کیوں نہ دیا گیا۔ ظلم آخر ظلم ہے ہم منہاج القرآن کے معاملے کو کربلا سے ہرگز تشبیہ نہیں دے سکتے لیکن کربلا میں نہتی عورتوں کو شہید نہیں کیا گیا۔ میں پھر لکھتا ہوں کہ لال مسجد والے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو نعوذباللہ باغی کہتے تھے لیکن "سائیلنس آپریشن" کو انہوں نے سانحہ کربلا سے تشبیہ دی اور امام عالی مقام کے دامن میں پناہ لی۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کےقافلےکوروک کر شہیدکیاگیا تھا آپ رضی اللہ عنہ کسی میدانِ جنگ میں لڑنے کیلئے تو نہیں گئےتھے ناں! لیکن جب حملہ ہوگیاتو جتنا دفاع کر سکے روز لگا کے دفاع فرمایا۔ پھر ساری قوم خاموش ہوگئی۔ لیکن مختار ثقفی کی للکار کے بعد قوم کو ہوش آیا اور ظالموں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا۔
 کوفی ہونے کی اصطلاح دو طرح سے ہے ایک بےوفا کوفی جنہوں نے حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ سے بے وفائی کی۔ دوسرے حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت سے کوفی! ہم حنفی کوفی ہیں۔ ہم پہلے والے غدار کوفی نہیں! ہم حسینی کوفی ہیں! ہم ہرگز یزیدی کوفی نہیں! ان شاء اللہ قوم کو ایک دن جاگ آجائے گی ۔ واللہ عزیز ذوانتقام۔ہٹلر کو تاریخ میں سب سے بڑا قاتل کیوں گردانا جاتا ہے؟ کیونکہ اس نے اپنی رعایا کے لوگوں کو قتل کروایا چاہے وہ یہودی تھے یا جو بھی تھے سوال یہ ہے کہ اپنی رعایا کو کیوں قتل کروایا عورتوں کو فرعون بھی قتل نہیں کرواتا تھا لیکن درندہ لیگ کے گلو بٹوں نے عورتیں کو بھی قتل کیا بلکہ شہید کیا۔