خبر یہ نہیں ہوتی کہ ایک کُتے نے انسان کو کاٹ لیا ہے، خبر یہ ہوتی ہے کہ ایک انسان نے کُتے کو کاٹ لیا ہے۔ ایک ایڈیٹر نے سُرخی لگائی، ”بیوی میں دھماکہ“!!! اُس کے چیف نے پوچھا کہ یہ کیا خبر ہے؟ ایڈیٹر نے جواب دیا کہ دراصل خبر یُوں ہے کہ ”میاں والی“ یعنی میاںوالی میں دھماکہ لکھنا مقصود ہے لیکن ”تڑکا“ لگانے کے لیے ”بیوی میں دھماکہ“ کر دیا ہے۔ میتھیو آرنلڈ کا قول ہے کہ صحافت جلدی میں تخلیق کیا جانے والا ”ادب“ ہے۔ اور صحافتی ادب کیا گُل کھلا رہا ہے ہے سب جانتے ہیں۔ خبر کے درونِ خانہ میں چھپی ہوئی ایک خبر بھی ہوتی ہے، دراصل وہی خبر ہوتی ہے اُسے ”خبریت“ کہا جاتا ہے، جو الفاظ اخبار میں شایع ہوتے ہیں اُن میں سے اپنی معلومات، علم، عقل اور تجربے کی بنیاد پر پڑھنے والا جو نتیجہ اخذ کر لیتا ہے اس کی نظر میں وہی خبریت ہے۔
قرآن پاک اللہ کی آخری (الہامی) کتاب ہے، اللہ تعالیٰ نے خبر نشر کرنے اور وصول کے معیار و اصول بیان فرما دیئے ہیں اور سورۃ الحجرات میں وہ آیت موجود ہے آپ نے پڑھ کر سمجھ رکھی ہو گی، میں یہاں اس کی تفصیل اس لیے بیان نہیں کرنا چاہتا ہے کہ آخر ہم نے قرآن و حدیث کا سارا ذمہ مذہبی طبقے کے سپرد کر دیا ہوا ہے اور خود بری الذمہ ہو چکے ہیں اگر قرآن صرف علماء کے سمجھانے سے ہی سمجھ آتا ہے تو جہاں اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ فسئلو اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون۔ وہاں یہ بھی فرما سکتا تھا کہ فسئلو اھل الذکر لقد کنتم لا تعلمون۔ میں یہ مانتا ہوں کہ علماء کرام سے رہنمائی لی جا سکتی بلکہ لینی چاہیے لیکن قرآن کو سمجھنے کے لیے اللہ نے یہ واحد حتمی طریقہ نہیں وضع کیا۔ مثال کے طور پر بہت سے کافر خود قرآن پڑھ کر اسلام قبول کرتے ہیں، میں مانتا ہوں ہوں کہ وہ ترجمہ کسی عالم کا پڑھتے ہیں لیکن عربی کافر بھی تو ہیں انہیں ترجمے کی ضرورت نہیں، وہ خود مسلمان ہو جاتے ہیں ویسے بھی اللہ نے بعض مقامات پر انسانوں کو تخاطب کیا ہے، صرف اہلِ ایمان کو نہیں۔ کیونکہ یہ ابدی پیغام تمام جہان والوں کے لیے ہے۔
اللہ نے نبیوں کو خبر دینے والا بنا کر بھیجا ہے انبیاء کرام علیہم السلام نے لوگوں کو اللہ کی خبر دی ہے اور پُوری دیانت داری کے ساتھ اپنے ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوئے ہیں جس کا گواہ قرآن مجید خود ہے۔
آج خبر رسانی کے کتنے ادارے ہیں دُنیا کی ٹاپ تین نیوز ایجنسیوں کے نام درج کرتا ہوں
امریکی نیوز ایجنسی
1۔ ایسوسی ایٹڈ پریس ۔ AP
برطانوی نیوز ایجنسی
2۔ رائٹرز ۔ Reuters
فرنچ نیوز ایجنسی
3۔ ایجنسی فرانس پریس ۔ AFP نوٹ: یہ نام فرنچ ہے، اس کا تلفظ مختلف ہے
آسٹریلیا کی ایک یونیورسٹی، جس کا نام بعد میں لکھوں گا، کی ایک استانی سکالر نے سن 2015ء کے اکتوبر، نومبر اور دسمبر کے دو دنوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جس میں ملکِ شام میں جاری خانہ جنگی کے متعلق شایع کردہ مواد تھا۔
اس میں وڈیوز بھی تھیں، بلکہ زیادہ رپورٹس کی بنیاد یہی وڈیوز ہی تھیں۔یہ وڈیو کہاں سے آئی تھیں، اور ان کے استناد کی حیثیت کیا تھی!
یوزر جنریٹڈ کی اصطلاح یعنی ٹرم ایسے مواد کے لیے استعمال ہوتی ہے، جو عوام الناس نے انٹرنیٹ کے استعمال کنندہ ہونے کے ناتے خود اپنی جانب سے کوئی وڈیو یا تصویر بنا کر ایک خبر کے طور پر نشر کی ہو، جیسا کہ پاکستان میں بھی یہ رُجحان ترقی پا رہا ہے اور عوامی تخلیق کردہ یہ مواد کس قدر قابلِ اعتماد ہوتا ہے وہ مبشر لقمان، ڈاکٹر شاہد مسعود، اور اوریا مقبول جان سے بہتر کون جانتا ہے۔ ہر صاحب یا صاحبہ جو بی۔اے تک اپنی اردو کی املا ٹھیک نہیں کر پائے، انگریزی گرامر کے قریب سے نہیں گزرے اور عربی کا ایک لفظ پڑھنا نہیں آتا، ماس کمیونیکیشن کی ا۔ب۔ج نہیں معلوم، تجوید کا نہیں پتہ کہ وہ کیا چیز ہوتی ہے، وہ بھی صحافت اور مذہبی تبلیغ کے اہم ٹائیکون بنے ہوئے ہیں
تو قارئینِ کرام! ان تین انٹر نیشنل نیوز ایجنسیز نے شام و عراق کے طول و عرض میں پھیلے ایسے ہی بلاگرز کی وڈیوز اور تصویروں کو بغیر تحقیق کیے نشر کرنا جاری رکھا اِن ایجنسیز کے کئی زبانوں میں اخبارات، ٹیلی ویژن چینلز، اور ویب سائٹس موجود ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک کے میڈیا گروپس کی طرح پاکستان کا ان ایجنسیوں کی خبر کا محتاج ہے اور ڈان اخبار جیسے ادارے ان ایجنسیوں کو خبروں کا معاوضہ بھی دیتے ہیں یعنی یہ ایجنسیز دنیا بھر کے ممالک سے مال کماتی ہیں
اُس محترمہ کا مطالعہ و معائنہ یہ بتاتا ہے کہ اے پی، رائٹرز اور اے ایف پی بغیر تحقیق کیے، یا نام نہاد تحقیق کے بعد ان رپورٹس کو دُنیا بھر کے میڈیا میں بیچتے رہے ہیں، اس معائنے میں ان نیوز ایجنسیوں کے ایڈیٹرز کے بالمشافہ اور آن لائن انٹرویوز بھی کیے گئے تو انہوں نے بھی رپورٹس کے استناد کی کوئی ضمانت نہیں دی۔ یہاں سوال یہ ہے کہ پھر ہم پاکستان میں ڈان اخبار، دی نیوز، نیشن، نوائے وقت، جنگ، دنیا اخبار، نئی بات وغیرہ اور ان کے علاوہ دیگر بڑے اور چھوٹے اخبارات و رسائل میں سچ کے نام پر جھوٹے قصے کہانیاں پڑھتے رہے، اور ہمارے ٹیلی ویژن چینلز بھی انہی میڈیا گروپس کے ہیں تو وہ بھی غیر مصدقہ اطلاعات فراہم کرتے رہے۔
اس کے بعد ہمارے سوشل میڈیائی بلاگرز کا تو اللہ ہی حافظ ہے کہ وہ نیوز کے لیے انہی ذرائع پر انحصار کرتے ہیں۔
بھارت کا انگریزی میڈیا مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی افواج کے مظالم کو شد و مد سے اس لیے بیان نہیں کرتا کہ اُسے کشمیری مظلومین سے کوئی ہمدردی ہے بلکہ ان خبروں اور رپورٹس کے ذریعے وہ پاکستان میں موجود جماعۃ الدعوہ کے متشدد جنونی نام نہاد مجاہدین کو اپنے اخبار میں شایع کرنے کے لیے مواد فراہم کرتا ہے کہ پاکستانی عوام کے بھولے بھالے بچوں کو جہاد کے نام پر اُکسا کر تربیت دیں اور کہیں کسی مقام پر جا کر خود گولی مار کر ان کی لاش والدین کو دے دیں کہ آپ کے بیٹے نے بھارتی افواج کے سامنے جامِ شہادت نوش کر لیا ہے۔ یہاں بھی ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حقیقتاً لشکرِ طیبہ کے لوگ لائن آف کنٹرول کو پار کر کے دوسری جانب چلے جاتے ہیں تو وہاں موجود انڈین آرمی کو چھوڑیں، پاکستان آرمی انہیں کیوں گزرنے کا راستہ فرام کرتی ہے؟
قارئین! اب آپ کو صحافت اور خبر کے المیے کا ایک اور رُخ دکھاتا ہوں،
نصرت جاوید ایک معروف اینکر اور کالم نویس ہیں، وہ کئی دہائیوں سے صحافت کے پیشہ کے ساتھ وابستہ ہیں اور آج کل نوائے وقت میں کالم لکھتے ہیں انہوں نے 2 نومبر 2018ء کو اپنے کالم میں لکھا (یہ کالم آن لائن بھی موجود ہے)۔
”صرف صحافت کے ذریعے رزق کمانے کی مجبوری نے کئی معاملات پر خاموش رہنے کو جبلت کی صورت دے رکھی ہے۔ جھوٹ لکھنے سے لیکن ہمیشہ گریز کیا۔“
مذکورہ بالا اعتراف اس امر کو ظاہر کرتا ہے کہ آزادیٔ صحافت برائے نام ہوتی ہے ٹی وی پر بیٹھ کر عوام الناس کو اشتعال دلانے والوں کا ریموٹ کنٹرول کسی ”اور“ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔
ایک اور مثال دیتا ہوں معروف صحافی حسن نثار نے دسمبر 2013ء میں ترکی کے مبلغ فتح اللہ گولن کے متعلق قسط وار کالم لکھے تھے اور ان کی حزمت (خدمت) تحریک کا تعارف پیش کیا تھا، حسن نثار کا کہنا تھا کہ مجھ پر ہمیشہ مایوسی پھیلانے کا الزام ہے لیکن اب مجھے وہ امید کی کرن نطر آگئی ہے اور میرے زمانے کا امام اور مجدد فتح اللہ گولن ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ذیل میں جنابِ حسن نثار کے کالموں میں سے دوسری قسط کا ایک پیرا گراف نقل کیا جا رہا ہے، ملاحظہ فرمائیں، ”اسے اس کے اقوال اور اعمال کی روشنی میں دیکھیں تو محمد فتح اللہ گولن عہد حاضر میں عالم اسلام کا نمائندہ ذہن بھی ہے ضمیر بھی۔ میرے نزدیک نشاۃ ثانیہ کے لئے اس سے بہتر حکمت عملی ممکن نہیں۔ اس آدمی نے ترکی اور ترکی سے باہر فلاحی، تعلیمی،طبی، اشاعتی اور ابلاغی اداروں کا جال بچھادیا ہے۔’’Hizmetموومنٹ ‘‘ کو اردو میں ’’خدمت موومنٹ‘‘ ہی کہیں گے اور یہی دراصل ’’گولن موومنٹ‘‘ ہے جس سے ترکی کے حکمران خوامخواہ خائف ہیں۔ اس موومنٹ کے دنیا بھر میں پھیلے سکول،کالج،یونیورسٹیاں دیکھ کر آدمی دنگ رہ جاتا ہے۔ امریکہ اور منگولیا سے لے کر ہمارے پاکستان تک تعلیمی اداروں کی چین جس کی ایک جھلک دیکھنی ہو تو لاہور، اسلام آباد سے لے کر سندھ تک’’پاک ٹرک سکول‘‘ دیکھ لیں جو اپنی مثال آپ ہیں، ترکی میں ان کے ہسپتال دیکھ کر ہم حیرت و حسرت کی پھوار میں بھیگ گئے، اشاعتی اداروں کا حال یہ کہ وہاں کا سب سے بڑا ٹی وی چینل اور اخبار بھی اسی موومنٹ کا کارنامہ اور دنیا بھر میں پھیلے فلاحی منصوبے اس کے علاوہ۔ کون سا میدان ہے جس میں یہ موومنٹ اپنی معراج پر دکھائی نہیں دیتی۔“
جاری۔۔۔ (بقیہ حصہ دوم میں)
٭٭٭خبر کا المیہ٭٭٭۔۔۔ حصہ دوم (آخری)
حسن نثار نے 2013ء میں ترکی کے مذہبی مبلغ فتح اللہ گئولن کے متعلق قسط وار کالم لکھے اور ترکی کے حکمران کو اس سے خائف قرار دیا، لیکن جب ترکی میں ایئر فورس کی جانب سے مارشل لاء نافذ کرنے کی کوشش ناکام ہوگئی تو رجب طیب اردگان نے وہاں فتح اللہ گئولن سے تعلق رکھنے والے ہر ایک انسان کو انتقام کا نشانہ بنانا شروع کر دیا
ایک لاکھ کے قریب فوجیوں کو بغاوت کے نتیجے میں عبرتناک سزاؤں میں سے گزرنا پرا ہے بلکہ وہ ابھی تک مقید ہیں اور ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہو رہا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ متعدد میڈیا گروپس، اخبارات و ٹیلی ویژن چینلز بند کیے جا چکے ہیں۔ اور پروفیسر حضرات کے علاوہ ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑے اور فتح اللہ گئولن کی تحریک حزمت (خدمت) کو دہشتگرد قرار دے دیا گیا ہے، ترکی کے بادشاہ نے امریکا سے کئی بار مطالبہ کیا ہے کہ اس بزرگ کو ہمارے حوالے کرو، تا کہ ہم اُسے سزا دے پائیں کہ اس کے تربیت یافتہ سچائی کے علمبرداروں نے میری کرپشن کو ایکسپوز کیوں کیا ہے۔
سن 2016ء میں جنابِ صدر طیب اردگان پاکستان میں حذمت تحریک کے قائم کردہ تعلیمی ادارے بند کرانے کے لیے تشریف لائے اور مشترکہ کرپشن کی کمائی کھانے والے پاکستانی حکمرانوں سے استدعا کی کہ ”پاک ترک سکولز“ بند کیے جائیں، اس کے علاوہ، رجب طیب اردگان صاحب نے کوشش کر کے دنیا بھر میں جہاں کبھی بھی ”پاک ترک سکولز“ واقع تھے انہیں سیاسی و سفارتی تعلقت کی بنیاد پر بند کرا دیا، پاکستان میں اس تحریک کے جیسی ایک جماعت ”تحریکِ منہاج القرآن“ موجود ہے، اُس کے ساتھ بھی شریف برادران نے اس کے جیسا ہی ظلم کرنے کی کوشش کی، ان کے مدرسے پر حملہ کرکے عورتوں سمیت چودہ افراد قتل کر دئیے اور سو کے قریب زخمی کر دئیے لیکن چونکہ افواجِ پاکستان میں ایک ڈسپلن قائم ہے لہٰذا پاکستان کے حمکران تحریک منہاج القرآن کے عالمگیر پھیلے ہوئے نیٹ ورک کو بند نہیں کرا پائے۔
یہاں بھی ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ترکی میں موجود حذمت تحریک کے مخلص لوگوں پر کریک ڈاؤن کا آغاز ہوا تو حسن نثار ان کے حق میں کیوں نہ بولا، اور دوبارہ ان کے حق میں کیوں نہ لکھا، کیا وہ حالاتِ زمانہ سے بے خبر تھا یا نصرت جاوید کی طرح اس کی بھی صحآفتی مجبوریاں ہیں؟
اور دو سال قبل (2016ء میں) طیب اردگان کی پاکستان آمد پر عمران خان نے اس کو خوش آمدید کہنے کی بجائے، بائیکاٹ قسم کی سیاسیت کی تھی، آج وہی عمران خان ”یوٹرن“ لے کر ترکی کے بادشاہ کے ساتھ ”مُک مکا“ کر بیٹھا ہے، حسن نثار اس کا بہت بڑا معترف رہا ہے، کل کلاں کو اگر عمرانی حکومت نے تحریکِ منہاج القرآن پر کریک ڈاؤن کرنے کی کوشش کی تو کیا حسن نثار اپنے طاہر القادری کے ساتھ کھڑا ہوگا یا اپنے عمران خان کے ساتھ؟
حال ہی میں حسن نثار داتا دربار کے باہر دھرنا دینے والی مذہبی و سیاسی جماعت ”تحریک لبیک پاکستان“ کے لوگوں کے مؤقف کو غلط قرار دے کر جج صاحبان کو پڑھا لکھا مسلمان قرار دے چکا ہے، کیا حسن نثار ہمیشہ پاکستانی عدالتوں کے فیصلوں کو مبنی بر انصاف سمجھتا رہا ہے اور سمجھتا رہے گا یا یہ صرف صحافتی مصلحت ہے؟
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار موبائل سروس 21 اکتوبر 2012ء کو بند کی گئی تھی، کہ اُس روز امریکا میں بننے والی ایک گستاخانہ فلم ”انوسینس آف مسلمز“ کے خلاف احتجاج رونما ہونے والا تھا۔ شواہد بتاتے ہیں کہ اُس دن مال روڈ لاہور پر گھیراؤ جلاؤ کرنے والے مولوی حضرات نہیں تھے بلکہ پولیس اور ایجنسیوں کے لوگ تھے، ان عناصر کا مقصد ہی مولویوں کے مؤقف کو دھندلانا تھا، مولانا خادم حسین رضوی جو سالہا سال سے فورتھ شیڈول میں ہیں وہ مدرسوں کے طلباء کو مشتعل کرکے سڑکوں پر لے جاتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ انہیں معلوم ہو کہ تخریبی سرگرمیاں کرنے والے عوام نہیں بلکہ پولیس اور ایجنسیوں کے ایجنٹ ہوتے ہیں۔
مذہبی جماعتوں کی کتابیں اور رسالے اس احتیاط سے شایع کیے جاتے ہیں کہ اولاً اُن کے مسلک و عقیدے کے علاوہ کوئی دوسری بات نہ چھپے اور ثانیاً اگر کسی کے خلاف لکھنا ہے خصوصاً کُفر وغیرہ کا فتویٰ لگانا ہے تو اس کی ذمہ داری لی جاتی ہے، میں ”زید حامد“ نامی کسی شخص سے پہلی بار متعارف ہوا تو خادم صاحب کے زیر نگرانی شایع ہونے والے سہ ماہی (تب وہ سہ ماہی تھا) ”العاقب“ سے ہوا یہ میگزین اکتوبر تا دسمبر 2009ء کا تھا اور اس میں شایع ہوا تھا کہ (تحریر: علی خان صفحہ 141، 143) زید حامد کسی جھوٹے مدعی نبوت یوسف کذاب کا خلیفہ تھا، میرے لیے یہ ایک شدید خبر تھی، پھر 2010ء، 2011ء اور 2012ء میں ہم نے انٹرنیٹ پر زید حامد اور یوسف کے حوالے سے کئی وڈیوز کو چیک کیا، تو فائنلی زید حامد نے کہہ دیا کہ میں تو یوسف علی کو جانتا ہوں کسی یوسف کذاب کو نہیں جانتا۔۔۔
٭ میرے پاس وہ رسالہ موجود ہے۔ میں عکس پیش کروں گا
میں یہاں اس بات کی وضاحت کر دوں کہ یوسف کے متعلق میرا کوئی مؤقف نہیں ہے اگر وہ جھوٹا مدعی نبوت تھا تو غلط تھا، لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ خبریں گروپ والے ضیاء شاہد نے ایک پلاٹ کے لیے اسے بلیک میل کرنے کے لیے یہ الزام لگایا تھا۔ واللہ اعلم
یوسف کے ساتھ کیا ہوا تھا اس پر سن 2011ء میں سید نور کی ڈائریکشن میں ایک فلم بنی تھی، جس کا عنوان تھا "ایک اور غازی"۔
میرے ذرائع نے بتایا تھا کہ مولانا خادم حسین رضوی کی ایک ملاقات زید حامد کے ساتھ ہوئی تھی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ اپنے میگزین میں اس بندے کو مرتد شایع کرتے یا کراتے ہیں تو انہی کے عقیدے اور طریقے کے مطابق ایسے شخص کے ساتھ ملاقات کرنا کیا معنی رکھتا ہے، اُسے ۔۔۔۔۔
خادم صاحب نے مولانا نورانی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک جماعت کا نام تھوڑا ترمیم کر کے "فدایان ختمِ نبوت" قائم کی، جس کا نمائندہ ترجمان وہ رسالہ العاقب بھی ہے اور خادم صاحب کے شاگردان اور پرستار اس جماعت کے ارکان ہوتے تھے، اس کے علاوہ اہلسنّت کے مسجدوں کے ائمہ اور ان سے تعلق رکھنے والے سنی بھی مولانا خادم کو اپنے ہاں محفلوں میں بلاتے تھے اور ستمبر میں سالانہ "تاجدارِ ختم نبوت کانفرنس" ایوانِ اقبال لاہور میں منعقد ہوتی۔
ایوان اقبال بھر جاتا اور لوگ دروازے سے باہر بھی کھڑے ہوتے۔
سن 2014ء میں انہوں نے وہاں جو العاقب رسالہ عوام میں تقسیم کیا، وہ 2013ء کا اخباری سائز کا میگزین تھا، کم از کم مجھے کسی نے لا کر دیا کہ یہ رسالہ ہے، میں نے کہا اس پر تو 2013ء لکھا ہوا ہے وہ رسالہ میرے پاس موجود نہیں ہے اس میں مصر کے معزول وزیر اعظم ڈاکٹر مرسی، کی حمایت میں ایک مضمون تھا اور غالباً سید قطب کے متعلق بھی ایک مضمون تھا۔
خادم صاحب کو سننے والے بتاتے ہیں کہ وہ مصر کے حسن البنا کو امام اور شہید قرار دیتے ہیں کچھ ایسے ہی خیالات وہ سید قطب کے بارے میں رکھتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ لوگ مصر کے وہابی خوارج ہیں (پاکستان میں وہابیوں کو خادم صاحب کائنات کی بدترین مخلوق قرار دیتے ہیں، یہ بات میں نے خود اُن کے بیان میں سُن رکھی ہے، وہ جامعہ نظامیہ رضویہ میں کوئی سولہ برس قبل میلاد النبی کے موقع پر تقریر کر رہے تھے)
مصر کے یہ وہابی (حسن البنا، سید قطب اور یوسف قرضاوی) برصغیر کے مودودی کے ہم خیال تھے اور جدید دہشتگردی کے آدھے سے زیادہ حصہ دار ہیں انہی کی باقیات میں سے یوسف قرضاوی ابھی ملکِ قطر میں پناہ لیے ہے اور دہشتگردوں کا ماسٹر مائنڈ ہے، ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردگان کو اس خوارجی کے ساتھ کیا دلچسپی ہے۔ اس کا جواب میں پچھلی تحریر میں دے چکا ہوں کہ صدر کا بیٹا بلال طیب داعش سے تیل خریدتا ہے اور مشرق وسطیٰ میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ اور اگر یوسف قرضاوی و امیرِ قطر کو دہشتگرد گروہ داعش کے ساتھ تعلقات نہ ہوتے تو گزشتہ برس قطر پر پابندیاں لگانے کی باتیں نہ کی جاتیں، کیونکہ امریکا ہر قسم کی بدمعاشی کو اپنا حق سمجھتا ہے۔
ایک سوال یہاں بھی ہے کہ پاکستان میں عوام کے ذہن میں ٹھونسا گیا کہ وہابی گُستاخِ رسول ہوتے ہیں جبکہ مصر کے وہابیوں کو اپنا امام اور شہید مانا جا رہا ہے۔ کیوں؟
٭ حالیہ الیکشن کے بعد سہیل وڑائچ کو انٹرویو دیتے ہوئے خادم صاحب کا کہنا تھا کہ انہیں دیگر فرقوں کے لوگوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔
اب اس قدر گمبھیر صورت حال میں ”خبر“ اور خبریت کے ساتھ کیا سلوک نہیں ہو سکتا وہ قابلِ غور ہے۔
قرآن پاک اللہ کی آخری (الہامی) کتاب ہے، اللہ تعالیٰ نے خبر نشر کرنے اور وصول کے معیار و اصول بیان فرما دیئے ہیں اور سورۃ الحجرات میں وہ آیت موجود ہے آپ نے پڑھ کر سمجھ رکھی ہو گی، میں یہاں اس کی تفصیل اس لیے بیان نہیں کرنا چاہتا ہے کہ آخر ہم نے قرآن و حدیث کا سارا ذمہ مذہبی طبقے کے سپرد کر دیا ہوا ہے اور خود بری الذمہ ہو چکے ہیں اگر قرآن صرف علماء کے سمجھانے سے ہی سمجھ آتا ہے تو جہاں اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ فسئلو اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون۔ وہاں یہ بھی فرما سکتا تھا کہ فسئلو اھل الذکر لقد کنتم لا تعلمون۔ میں یہ مانتا ہوں کہ علماء کرام سے رہنمائی لی جا سکتی بلکہ لینی چاہیے لیکن قرآن کو سمجھنے کے لیے اللہ نے یہ واحد حتمی طریقہ نہیں وضع کیا۔ مثال کے طور پر بہت سے کافر خود قرآن پڑھ کر اسلام قبول کرتے ہیں، میں مانتا ہوں ہوں کہ وہ ترجمہ کسی عالم کا پڑھتے ہیں لیکن عربی کافر بھی تو ہیں انہیں ترجمے کی ضرورت نہیں، وہ خود مسلمان ہو جاتے ہیں ویسے بھی اللہ نے بعض مقامات پر انسانوں کو تخاطب کیا ہے، صرف اہلِ ایمان کو نہیں۔ کیونکہ یہ ابدی پیغام تمام جہان والوں کے لیے ہے۔
اللہ نے نبیوں کو خبر دینے والا بنا کر بھیجا ہے انبیاء کرام علیہم السلام نے لوگوں کو اللہ کی خبر دی ہے اور پُوری دیانت داری کے ساتھ اپنے ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوئے ہیں جس کا گواہ قرآن مجید خود ہے۔
آج خبر رسانی کے کتنے ادارے ہیں دُنیا کی ٹاپ تین نیوز ایجنسیوں کے نام درج کرتا ہوں
امریکی نیوز ایجنسی
1۔ ایسوسی ایٹڈ پریس ۔ AP
برطانوی نیوز ایجنسی
2۔ رائٹرز ۔ Reuters
فرنچ نیوز ایجنسی
3۔ ایجنسی فرانس پریس ۔ AFP نوٹ: یہ نام فرنچ ہے، اس کا تلفظ مختلف ہے
آسٹریلیا کی ایک یونیورسٹی، جس کا نام بعد میں لکھوں گا، کی ایک استانی سکالر نے سن 2015ء کے اکتوبر، نومبر اور دسمبر کے دو دنوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جس میں ملکِ شام میں جاری خانہ جنگی کے متعلق شایع کردہ مواد تھا۔
اس میں وڈیوز بھی تھیں، بلکہ زیادہ رپورٹس کی بنیاد یہی وڈیوز ہی تھیں۔یہ وڈیو کہاں سے آئی تھیں، اور ان کے استناد کی حیثیت کیا تھی!
یوزر جنریٹڈ کی اصطلاح یعنی ٹرم ایسے مواد کے لیے استعمال ہوتی ہے، جو عوام الناس نے انٹرنیٹ کے استعمال کنندہ ہونے کے ناتے خود اپنی جانب سے کوئی وڈیو یا تصویر بنا کر ایک خبر کے طور پر نشر کی ہو، جیسا کہ پاکستان میں بھی یہ رُجحان ترقی پا رہا ہے اور عوامی تخلیق کردہ یہ مواد کس قدر قابلِ اعتماد ہوتا ہے وہ مبشر لقمان، ڈاکٹر شاہد مسعود، اور اوریا مقبول جان سے بہتر کون جانتا ہے۔ ہر صاحب یا صاحبہ جو بی۔اے تک اپنی اردو کی املا ٹھیک نہیں کر پائے، انگریزی گرامر کے قریب سے نہیں گزرے اور عربی کا ایک لفظ پڑھنا نہیں آتا، ماس کمیونیکیشن کی ا۔ب۔ج نہیں معلوم، تجوید کا نہیں پتہ کہ وہ کیا چیز ہوتی ہے، وہ بھی صحافت اور مذہبی تبلیغ کے اہم ٹائیکون بنے ہوئے ہیں
تو قارئینِ کرام! ان تین انٹر نیشنل نیوز ایجنسیز نے شام و عراق کے طول و عرض میں پھیلے ایسے ہی بلاگرز کی وڈیوز اور تصویروں کو بغیر تحقیق کیے نشر کرنا جاری رکھا اِن ایجنسیز کے کئی زبانوں میں اخبارات، ٹیلی ویژن چینلز، اور ویب سائٹس موجود ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک کے میڈیا گروپس کی طرح پاکستان کا ان ایجنسیوں کی خبر کا محتاج ہے اور ڈان اخبار جیسے ادارے ان ایجنسیوں کو خبروں کا معاوضہ بھی دیتے ہیں یعنی یہ ایجنسیز دنیا بھر کے ممالک سے مال کماتی ہیں
اُس محترمہ کا مطالعہ و معائنہ یہ بتاتا ہے کہ اے پی، رائٹرز اور اے ایف پی بغیر تحقیق کیے، یا نام نہاد تحقیق کے بعد ان رپورٹس کو دُنیا بھر کے میڈیا میں بیچتے رہے ہیں، اس معائنے میں ان نیوز ایجنسیوں کے ایڈیٹرز کے بالمشافہ اور آن لائن انٹرویوز بھی کیے گئے تو انہوں نے بھی رپورٹس کے استناد کی کوئی ضمانت نہیں دی۔ یہاں سوال یہ ہے کہ پھر ہم پاکستان میں ڈان اخبار، دی نیوز، نیشن، نوائے وقت، جنگ، دنیا اخبار، نئی بات وغیرہ اور ان کے علاوہ دیگر بڑے اور چھوٹے اخبارات و رسائل میں سچ کے نام پر جھوٹے قصے کہانیاں پڑھتے رہے، اور ہمارے ٹیلی ویژن چینلز بھی انہی میڈیا گروپس کے ہیں تو وہ بھی غیر مصدقہ اطلاعات فراہم کرتے رہے۔
اس کے بعد ہمارے سوشل میڈیائی بلاگرز کا تو اللہ ہی حافظ ہے کہ وہ نیوز کے لیے انہی ذرائع پر انحصار کرتے ہیں۔
بھارت کا انگریزی میڈیا مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی افواج کے مظالم کو شد و مد سے اس لیے بیان نہیں کرتا کہ اُسے کشمیری مظلومین سے کوئی ہمدردی ہے بلکہ ان خبروں اور رپورٹس کے ذریعے وہ پاکستان میں موجود جماعۃ الدعوہ کے متشدد جنونی نام نہاد مجاہدین کو اپنے اخبار میں شایع کرنے کے لیے مواد فراہم کرتا ہے کہ پاکستانی عوام کے بھولے بھالے بچوں کو جہاد کے نام پر اُکسا کر تربیت دیں اور کہیں کسی مقام پر جا کر خود گولی مار کر ان کی لاش والدین کو دے دیں کہ آپ کے بیٹے نے بھارتی افواج کے سامنے جامِ شہادت نوش کر لیا ہے۔ یہاں بھی ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حقیقتاً لشکرِ طیبہ کے لوگ لائن آف کنٹرول کو پار کر کے دوسری جانب چلے جاتے ہیں تو وہاں موجود انڈین آرمی کو چھوڑیں، پاکستان آرمی انہیں کیوں گزرنے کا راستہ فرام کرتی ہے؟
قارئین! اب آپ کو صحافت اور خبر کے المیے کا ایک اور رُخ دکھاتا ہوں،
نصرت جاوید ایک معروف اینکر اور کالم نویس ہیں، وہ کئی دہائیوں سے صحافت کے پیشہ کے ساتھ وابستہ ہیں اور آج کل نوائے وقت میں کالم لکھتے ہیں انہوں نے 2 نومبر 2018ء کو اپنے کالم میں لکھا (یہ کالم آن لائن بھی موجود ہے)۔
”صرف صحافت کے ذریعے رزق کمانے کی مجبوری نے کئی معاملات پر خاموش رہنے کو جبلت کی صورت دے رکھی ہے۔ جھوٹ لکھنے سے لیکن ہمیشہ گریز کیا۔“
مذکورہ بالا اعتراف اس امر کو ظاہر کرتا ہے کہ آزادیٔ صحافت برائے نام ہوتی ہے ٹی وی پر بیٹھ کر عوام الناس کو اشتعال دلانے والوں کا ریموٹ کنٹرول کسی ”اور“ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔
ایک اور مثال دیتا ہوں معروف صحافی حسن نثار نے دسمبر 2013ء میں ترکی کے مبلغ فتح اللہ گولن کے متعلق قسط وار کالم لکھے تھے اور ان کی حزمت (خدمت) تحریک کا تعارف پیش کیا تھا، حسن نثار کا کہنا تھا کہ مجھ پر ہمیشہ مایوسی پھیلانے کا الزام ہے لیکن اب مجھے وہ امید کی کرن نطر آگئی ہے اور میرے زمانے کا امام اور مجدد فتح اللہ گولن ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ذیل میں جنابِ حسن نثار کے کالموں میں سے دوسری قسط کا ایک پیرا گراف نقل کیا جا رہا ہے، ملاحظہ فرمائیں، ”اسے اس کے اقوال اور اعمال کی روشنی میں دیکھیں تو محمد فتح اللہ گولن عہد حاضر میں عالم اسلام کا نمائندہ ذہن بھی ہے ضمیر بھی۔ میرے نزدیک نشاۃ ثانیہ کے لئے اس سے بہتر حکمت عملی ممکن نہیں۔ اس آدمی نے ترکی اور ترکی سے باہر فلاحی، تعلیمی،طبی، اشاعتی اور ابلاغی اداروں کا جال بچھادیا ہے۔’’Hizmetموومنٹ ‘‘ کو اردو میں ’’خدمت موومنٹ‘‘ ہی کہیں گے اور یہی دراصل ’’گولن موومنٹ‘‘ ہے جس سے ترکی کے حکمران خوامخواہ خائف ہیں۔ اس موومنٹ کے دنیا بھر میں پھیلے سکول،کالج،یونیورسٹیاں دیکھ کر آدمی دنگ رہ جاتا ہے۔ امریکہ اور منگولیا سے لے کر ہمارے پاکستان تک تعلیمی اداروں کی چین جس کی ایک جھلک دیکھنی ہو تو لاہور، اسلام آباد سے لے کر سندھ تک’’پاک ٹرک سکول‘‘ دیکھ لیں جو اپنی مثال آپ ہیں، ترکی میں ان کے ہسپتال دیکھ کر ہم حیرت و حسرت کی پھوار میں بھیگ گئے، اشاعتی اداروں کا حال یہ کہ وہاں کا سب سے بڑا ٹی وی چینل اور اخبار بھی اسی موومنٹ کا کارنامہ اور دنیا بھر میں پھیلے فلاحی منصوبے اس کے علاوہ۔ کون سا میدان ہے جس میں یہ موومنٹ اپنی معراج پر دکھائی نہیں دیتی۔“
جاری۔۔۔ (بقیہ حصہ دوم میں)
٭٭٭خبر کا المیہ٭٭٭۔۔۔ حصہ دوم (آخری)
حسن نثار نے 2013ء میں ترکی کے مذہبی مبلغ فتح اللہ گئولن کے متعلق قسط وار کالم لکھے اور ترکی کے حکمران کو اس سے خائف قرار دیا، لیکن جب ترکی میں ایئر فورس کی جانب سے مارشل لاء نافذ کرنے کی کوشش ناکام ہوگئی تو رجب طیب اردگان نے وہاں فتح اللہ گئولن سے تعلق رکھنے والے ہر ایک انسان کو انتقام کا نشانہ بنانا شروع کر دیا
ایک لاکھ کے قریب فوجیوں کو بغاوت کے نتیجے میں عبرتناک سزاؤں میں سے گزرنا پرا ہے بلکہ وہ ابھی تک مقید ہیں اور ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہو رہا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ متعدد میڈیا گروپس، اخبارات و ٹیلی ویژن چینلز بند کیے جا چکے ہیں۔ اور پروفیسر حضرات کے علاوہ ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑے اور فتح اللہ گئولن کی تحریک حزمت (خدمت) کو دہشتگرد قرار دے دیا گیا ہے، ترکی کے بادشاہ نے امریکا سے کئی بار مطالبہ کیا ہے کہ اس بزرگ کو ہمارے حوالے کرو، تا کہ ہم اُسے سزا دے پائیں کہ اس کے تربیت یافتہ سچائی کے علمبرداروں نے میری کرپشن کو ایکسپوز کیوں کیا ہے۔
سن 2016ء میں جنابِ صدر طیب اردگان پاکستان میں حذمت تحریک کے قائم کردہ تعلیمی ادارے بند کرانے کے لیے تشریف لائے اور مشترکہ کرپشن کی کمائی کھانے والے پاکستانی حکمرانوں سے استدعا کی کہ ”پاک ترک سکولز“ بند کیے جائیں، اس کے علاوہ، رجب طیب اردگان صاحب نے کوشش کر کے دنیا بھر میں جہاں کبھی بھی ”پاک ترک سکولز“ واقع تھے انہیں سیاسی و سفارتی تعلقت کی بنیاد پر بند کرا دیا، پاکستان میں اس تحریک کے جیسی ایک جماعت ”تحریکِ منہاج القرآن“ موجود ہے، اُس کے ساتھ بھی شریف برادران نے اس کے جیسا ہی ظلم کرنے کی کوشش کی، ان کے مدرسے پر حملہ کرکے عورتوں سمیت چودہ افراد قتل کر دئیے اور سو کے قریب زخمی کر دئیے لیکن چونکہ افواجِ پاکستان میں ایک ڈسپلن قائم ہے لہٰذا پاکستان کے حمکران تحریک منہاج القرآن کے عالمگیر پھیلے ہوئے نیٹ ورک کو بند نہیں کرا پائے۔
یہاں بھی ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ترکی میں موجود حذمت تحریک کے مخلص لوگوں پر کریک ڈاؤن کا آغاز ہوا تو حسن نثار ان کے حق میں کیوں نہ بولا، اور دوبارہ ان کے حق میں کیوں نہ لکھا، کیا وہ حالاتِ زمانہ سے بے خبر تھا یا نصرت جاوید کی طرح اس کی بھی صحآفتی مجبوریاں ہیں؟
اور دو سال قبل (2016ء میں) طیب اردگان کی پاکستان آمد پر عمران خان نے اس کو خوش آمدید کہنے کی بجائے، بائیکاٹ قسم کی سیاسیت کی تھی، آج وہی عمران خان ”یوٹرن“ لے کر ترکی کے بادشاہ کے ساتھ ”مُک مکا“ کر بیٹھا ہے، حسن نثار اس کا بہت بڑا معترف رہا ہے، کل کلاں کو اگر عمرانی حکومت نے تحریکِ منہاج القرآن پر کریک ڈاؤن کرنے کی کوشش کی تو کیا حسن نثار اپنے طاہر القادری کے ساتھ کھڑا ہوگا یا اپنے عمران خان کے ساتھ؟
حال ہی میں حسن نثار داتا دربار کے باہر دھرنا دینے والی مذہبی و سیاسی جماعت ”تحریک لبیک پاکستان“ کے لوگوں کے مؤقف کو غلط قرار دے کر جج صاحبان کو پڑھا لکھا مسلمان قرار دے چکا ہے، کیا حسن نثار ہمیشہ پاکستانی عدالتوں کے فیصلوں کو مبنی بر انصاف سمجھتا رہا ہے اور سمجھتا رہے گا یا یہ صرف صحافتی مصلحت ہے؟
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار موبائل سروس 21 اکتوبر 2012ء کو بند کی گئی تھی، کہ اُس روز امریکا میں بننے والی ایک گستاخانہ فلم ”انوسینس آف مسلمز“ کے خلاف احتجاج رونما ہونے والا تھا۔ شواہد بتاتے ہیں کہ اُس دن مال روڈ لاہور پر گھیراؤ جلاؤ کرنے والے مولوی حضرات نہیں تھے بلکہ پولیس اور ایجنسیوں کے لوگ تھے، ان عناصر کا مقصد ہی مولویوں کے مؤقف کو دھندلانا تھا، مولانا خادم حسین رضوی جو سالہا سال سے فورتھ شیڈول میں ہیں وہ مدرسوں کے طلباء کو مشتعل کرکے سڑکوں پر لے جاتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ انہیں معلوم ہو کہ تخریبی سرگرمیاں کرنے والے عوام نہیں بلکہ پولیس اور ایجنسیوں کے ایجنٹ ہوتے ہیں۔
مذہبی جماعتوں کی کتابیں اور رسالے اس احتیاط سے شایع کیے جاتے ہیں کہ اولاً اُن کے مسلک و عقیدے کے علاوہ کوئی دوسری بات نہ چھپے اور ثانیاً اگر کسی کے خلاف لکھنا ہے خصوصاً کُفر وغیرہ کا فتویٰ لگانا ہے تو اس کی ذمہ داری لی جاتی ہے، میں ”زید حامد“ نامی کسی شخص سے پہلی بار متعارف ہوا تو خادم صاحب کے زیر نگرانی شایع ہونے والے سہ ماہی (تب وہ سہ ماہی تھا) ”العاقب“ سے ہوا یہ میگزین اکتوبر تا دسمبر 2009ء کا تھا اور اس میں شایع ہوا تھا کہ (تحریر: علی خان صفحہ 141، 143) زید حامد کسی جھوٹے مدعی نبوت یوسف کذاب کا خلیفہ تھا، میرے لیے یہ ایک شدید خبر تھی، پھر 2010ء، 2011ء اور 2012ء میں ہم نے انٹرنیٹ پر زید حامد اور یوسف کے حوالے سے کئی وڈیوز کو چیک کیا، تو فائنلی زید حامد نے کہہ دیا کہ میں تو یوسف علی کو جانتا ہوں کسی یوسف کذاب کو نہیں جانتا۔۔۔
٭ میرے پاس وہ رسالہ موجود ہے۔ میں عکس پیش کروں گا
میں یہاں اس بات کی وضاحت کر دوں کہ یوسف کے متعلق میرا کوئی مؤقف نہیں ہے اگر وہ جھوٹا مدعی نبوت تھا تو غلط تھا، لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ خبریں گروپ والے ضیاء شاہد نے ایک پلاٹ کے لیے اسے بلیک میل کرنے کے لیے یہ الزام لگایا تھا۔ واللہ اعلم
یوسف کے ساتھ کیا ہوا تھا اس پر سن 2011ء میں سید نور کی ڈائریکشن میں ایک فلم بنی تھی، جس کا عنوان تھا "ایک اور غازی"۔
میرے ذرائع نے بتایا تھا کہ مولانا خادم حسین رضوی کی ایک ملاقات زید حامد کے ساتھ ہوئی تھی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ اپنے میگزین میں اس بندے کو مرتد شایع کرتے یا کراتے ہیں تو انہی کے عقیدے اور طریقے کے مطابق ایسے شخص کے ساتھ ملاقات کرنا کیا معنی رکھتا ہے، اُسے ۔۔۔۔۔
خادم صاحب نے مولانا نورانی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک جماعت کا نام تھوڑا ترمیم کر کے "فدایان ختمِ نبوت" قائم کی، جس کا نمائندہ ترجمان وہ رسالہ العاقب بھی ہے اور خادم صاحب کے شاگردان اور پرستار اس جماعت کے ارکان ہوتے تھے، اس کے علاوہ اہلسنّت کے مسجدوں کے ائمہ اور ان سے تعلق رکھنے والے سنی بھی مولانا خادم کو اپنے ہاں محفلوں میں بلاتے تھے اور ستمبر میں سالانہ "تاجدارِ ختم نبوت کانفرنس" ایوانِ اقبال لاہور میں منعقد ہوتی۔
ایوان اقبال بھر جاتا اور لوگ دروازے سے باہر بھی کھڑے ہوتے۔
سن 2014ء میں انہوں نے وہاں جو العاقب رسالہ عوام میں تقسیم کیا، وہ 2013ء کا اخباری سائز کا میگزین تھا، کم از کم مجھے کسی نے لا کر دیا کہ یہ رسالہ ہے، میں نے کہا اس پر تو 2013ء لکھا ہوا ہے وہ رسالہ میرے پاس موجود نہیں ہے اس میں مصر کے معزول وزیر اعظم ڈاکٹر مرسی، کی حمایت میں ایک مضمون تھا اور غالباً سید قطب کے متعلق بھی ایک مضمون تھا۔
خادم صاحب کو سننے والے بتاتے ہیں کہ وہ مصر کے حسن البنا کو امام اور شہید قرار دیتے ہیں کچھ ایسے ہی خیالات وہ سید قطب کے بارے میں رکھتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ لوگ مصر کے وہابی خوارج ہیں (پاکستان میں وہابیوں کو خادم صاحب کائنات کی بدترین مخلوق قرار دیتے ہیں، یہ بات میں نے خود اُن کے بیان میں سُن رکھی ہے، وہ جامعہ نظامیہ رضویہ میں کوئی سولہ برس قبل میلاد النبی کے موقع پر تقریر کر رہے تھے)
مصر کے یہ وہابی (حسن البنا، سید قطب اور یوسف قرضاوی) برصغیر کے مودودی کے ہم خیال تھے اور جدید دہشتگردی کے آدھے سے زیادہ حصہ دار ہیں انہی کی باقیات میں سے یوسف قرضاوی ابھی ملکِ قطر میں پناہ لیے ہے اور دہشتگردوں کا ماسٹر مائنڈ ہے، ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردگان کو اس خوارجی کے ساتھ کیا دلچسپی ہے۔ اس کا جواب میں پچھلی تحریر میں دے چکا ہوں کہ صدر کا بیٹا بلال طیب داعش سے تیل خریدتا ہے اور مشرق وسطیٰ میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ اور اگر یوسف قرضاوی و امیرِ قطر کو دہشتگرد گروہ داعش کے ساتھ تعلقات نہ ہوتے تو گزشتہ برس قطر پر پابندیاں لگانے کی باتیں نہ کی جاتیں، کیونکہ امریکا ہر قسم کی بدمعاشی کو اپنا حق سمجھتا ہے۔
ایک سوال یہاں بھی ہے کہ پاکستان میں عوام کے ذہن میں ٹھونسا گیا کہ وہابی گُستاخِ رسول ہوتے ہیں جبکہ مصر کے وہابیوں کو اپنا امام اور شہید مانا جا رہا ہے۔ کیوں؟
٭ حالیہ الیکشن کے بعد سہیل وڑائچ کو انٹرویو دیتے ہوئے خادم صاحب کا کہنا تھا کہ انہیں دیگر فرقوں کے لوگوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔
اب اس قدر گمبھیر صورت حال میں ”خبر“ اور خبریت کے ساتھ کیا سلوک نہیں ہو سکتا وہ قابلِ غور ہے۔
سہ ماہی العاقب، اکتوبر تا دسمبر 2009ء۔ جس میں زید حامد کے متعلق جو کچھ لکھا گیا وہ سامنے ہے۔ (تب یہ میگزین سہ ماہی تھا) |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں