اتوار، 7 ستمبر، 2014

عمران خان اور طاہر القادری کا جرم عظیم

شام ڈھل رہی تھی، جب میں ایک دوست کے ہمراہ شاہراہ دستور پر پہنچا۔ انقلاب مارچ اور آزادی مارچ کے شرکا کو یہ تو معلوم تھا کہ آج آگے بڑھنا ہے، لیکن کس طرف کو آگے بڑھنا ہے، یہ معلوم نہ تھا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا خطاب شروع ہوا تو ان کے تیوروں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ وہ تہیۂ طوفان کیے ہوئے ہیں۔
اصغر عبداللہ


mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

اور پھر جیسے ہی انھوں نے اعلان کیا کہ آج یہ دھرنا پرامن طور پر پارلیمنٹ ہاوس کے مقابل سے وزیر اعظم ہاوس کے مقابل منتقل کر دیا جائے گا، تو انقلاب مارچ کے شرکا کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنا سے نکل کر قریب ہی عمران خان کے دھرنا میں آیا تو آزادی مارچ کے شرکا بھی پیش قدمی کے لیے تیار تھے۔
جس لمحہ عمران خان نے اعلان کیا کہ آگے بڑھنے کا وقت آ گیا ہے، یوں لگا جیسے وہاں موجود سب لوگ یہی چاہتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ انقلاب مارچ کے شرکا کے برعکس آزادی مارچ کے شرکا کو پیش آمدہ خطرے کا مطلق احساس نہ تھا۔ دونوں دھرنوں میں عورتوں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی، لیکن حیرت انگیز طور پر وہ ہراساں نہ تھے۔ میں نے دو افراد سے، جو خاندان سمیت دھرنوں میں شریک تھے، اس کی وجہ دریافت کی، تو ان کا کہنا تھا کہ جب ان کے قائدین اس خطرناک صورت حال میں کئی دن سے ان کے درمیان موجود ہیں، تو وہ بھی ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اخباری زندگی میں جماعت اسلامی سمیت متعدد سیاسی پارٹیوں کے اجتماعات دیکھے، لیکن جو جذبہ، جو ولولہ اور جو کمٹمنٹ عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے کارکنوں میں دیکھی، کہیں اور نہیں دیکھی۔ ان کارکنوں کو اپنے گھر بار چھوڑے دو ہفتے گزر چکے تھے، اس کے باوجود ان کے چہروں پر کوئی ملال نہیں تھا۔ ایک ہی نعرہ ان کی زبان پر تھا کہ جب تک ان کے گھر سے نکلنے کا مقصد پورا نہیں ہو گا، وہ واپس نہیں جائیں گے۔ بعض ذرائع سے معلوم ہوا کہ حکومت کو یقین ہے کہ عمران خان، ڈاکٹر طاہر القادری کے ہمراہ وزیر اعظم ہاوس کی طرف پیشقدمی نہیں کریں گے۔
سو، آج رات وہ دونوں دھرنوں سے الگ الگ نمٹ لے گی۔ لیکن حکومت کی یہ منصوبہ بندی اس وقت دھری کی دھری رہ گئی، جب انقلاب مارچ کے بعد آزادی مارچ نے بھی وزیر اعظم ہاوس کی طرف بڑھنے کا اعلان کر دیا۔ عمران خان کا قافلہ، ڈاکٹر طاہر القادری کے قافلہ کے پیچھے روانہ ہوا، تو اول اول یوں معلوم ہوا، جیسے پولیس نے دونوں مارچوں کو راستہ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ عمران خان نے اپنے کینٹینر سے کہہ بھی دیا کہ پولیس پیچھے ہٹ گئی ہے۔ لیکن ابھی فضا میں اس اعلان کی گونج باقی تھی کہ اگلی سمت سے شور بلند ہوا، اور پولیس اور مظاہرین کے درمیان ٹکراو شروع ہو گیا۔ آنسو گیس کی شیلنگ اور ربڑ کی گولیوں کی فائرنگ نے قیامت کا سماں برپا کر دیا۔ ستم یہ تھا کہ جب آگے سے پولیس نے مظاہرین پر حملہ کیا تو وہ پولیس جس نے پہلے راستہ چھوڑ دیا تھا اور پیچھے ہٹ گئی تھی، وہ بھی اطراف سے مظاہرین پر ٹوٹ پڑی۔
یہ بڑے ہی دلدوز مناظر تھے۔ عورتیں اور بچے چیخ رہے تھے۔ کئی عورتیں اپنے بچوں کو پکارتی، ڈھونڈتی ادھر ادھر بھاگ رہی تھیں۔ آنسو گیس کی شیلنگ اتنی زیادہ تھی اور اس کے دھوئیں میں کیمیکل اتنا تیز تھا کہ سانس لینا مشکل ہو رہا تھا۔ میں نے گیلا رومال آنکھوں پر پھیرا، لیکن جلن بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ شاہراہ دستور اب کسی میدان جنگ کا نقشہ پیش کر رہی تھی۔ عمران خان اور طاہر القادری کے کارکن، ان کے کینٹینروں کے گرد پرانوں کی طرح اکٹھے ہو گئے تھے۔
اندیشہ محسوس ہو رہا تھا کہ اگر اس جذباتی فضا میں عمران خان اور طاہر القادری کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی، تو بہت خون خرابہ ہو گا۔ آنسو گیس کی شیلنگ میں ایک بار پھر شدت آ گئی تھی۔ کچھ ہی دیر میں اسٹریٹ لائٹس بھی بند ہو گئیں، تو شاہراہ دستور کی اس رات کی ہولناکی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ نڈھال ہو کر میں اور میرا دوست سڑک سے اتر کر ایک طرف بیٹھ گئے۔ شاعر انقلاب، فیض احمد فیضؔ کے نظم ’’ ملاقات ‘‘ یاد آ گئی، جو انھوں نے اس وقت لکھی تھی ، جب 1953 میں ان کو ’’ بغاوت ‘‘ کی ’’جرم‘‘ میں منٹگمری جیل میں قید کر دیا گیا ؎
یہ رات اس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے
عظیم تر ہے کہ اس کی شاخوں
میں لاکھ، مشعل بکف ستاروں
کے کارواں، گِھر کے کھو گئے ہیں
ہزار مہتاب اس کے سایے
میں اپنا سب نور، رو گئے ہیں
میں اس رات بھی یہ سوچ رہا تھا، اور آج بھی سوچ رہا ہوں کہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کا ’’جرم‘‘ کیا ہے کہ ’’ناقابل معافی‘‘ قرار پایا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا مطالبہ اس کے سوا کیا ہے کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی اور انتخابی نظام کو ایک انقلاب کی ضرورت ہے۔ آج سے 23 سال پہلے جب انھوں نے پاکستان عوامی تحریک قائم کی، تب بھی ان کا یہی مطالبہ تھا، ا ور آج بھی ان کا یہی مطالبہ ہے۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان کی اڑسٹھ سالہ تاریخ میں ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان کے پہلے مذہبی رہنما ہیں، جنھوں نے اپنی سیاست کی بنیاد اسلام کے سماجی مساوات کے تصور پر رکھی ہے۔ پاکستان کے مذہبی رہنماوں کی روایتی سیاست سے وہ اس حد تک بیزار ہیں کہ اپنے نام کے ساتھ ’’مولانا ‘‘ کا سابقہ لگانا بھی پسند نہیں کرتے۔
یہ کہنا بھی درست نہیں کہ وہ آئین اور قانون کو نہیں مانتے، یا الیکشن کے عمل کو تسلیم نہیں کرتے۔ وہ طویل عرصہ پنجاب یونیورسٹی لا کالج میں آئین اور قانون پڑھاتے رہے ہیں، ان کی پارٹی دو مرتبہ الیکشن میں حصہ لے چکی ہے، اور2002 میں خود بھی رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔ 2013 میں بھی ان کی پارٹی الیکشن میں حصہ لینا چاہتی تھی۔ لیکن جب الیکشن کمیشن پر ان کے آئینی اعتراضات کو سننے سے یکسر انکار کر دیا گیا، تو مجبوراً انھوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ اگر کوئی پارٹی بوجوہ کسی الیکشن کا بائیکاٹ کر دیتی ہے، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک غیر سیاسی گروہ بن گئی ہے۔ لندن میں ڈاکٹر طاہر القادری اور چوہدری برادران کے درمیان جو دس نکاتی معاہدہ طے پایا تھا، یا انقلاب مارچ کے لیے نکلنے سے پہلے لاہور میں ان کے اور عمران خان کے درمیان جن چار نکات پر اتفاق ہوا تھا، ان نکات میں سے کوئی ایک نکتہ بھی ایسا نہیں، جو آئین کے دائرہ سے باہر ہو، یا اس سے متصادم ہو، بلکہ حقیقتاً یہ وہ مطالبات ہیں، جن کا آئین پاکستان تقاضا کرتا ہے۔
اس طرح عمران خان کا مطالبہ بھی اس کے سوا کیا ہے کہ پاکستان کے سیاسی اور انتخابی نظام کو بدعنوانی اور دھاندلی سے پاک ہونا چاہیے۔ آج سے 18 سال پہلے جب انھوں نے تحریک انصاف کے قیام کا اعلان کیا تھا، تب بھی ان کا یہی مطالبہ تھا، اور آج بھی ان کا یہی مطالبہ ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ عمران خان پہلے سیاستدان ہیں اور تحریک انصاف پہلی سیاسی پارٹی ہے، جس نے پاکستان کے سیاسی اور انتخابی نظام میں کرپشن کے خاتمہ کو اپنی سیاسی جدوجہد کا نصب العین قرار دیا ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کی طرح عمران خان بھی کوئی پیشہ ور سیاست دان نہیں۔ پاکستان کی سیاست میں کئی کھلاڑی سیاست میں آئے اور گئے، لیکن یہ تنہا عمران خان ہیں، جنھوں نے کامیابی حاصل کی۔ ظاہراً اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے روایتی سیاست کی اور نہ ہمت ہاری۔ تحریک انصاف تین مرتبہ الیکشن میں حصہ لے چکی ہے، لیکن اس کو بریک تھرو ملا 2013 میں، جب نہ صرف یہ کہ وہ خیبر پختون خوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی، بلکہ باوجود مشکلات کے، پنجاب میں بھی دوسری بڑی پارٹی بن کے ابھری۔ الیکشن 2013 کے بعد عمران خان اول دن سے کہہ رہے تھے کہ پنجاب میں ان کا مینڈیٹ ہائی جیک کیا گیا ہے، اور اگر ان کو الیکشن کمیشن سے، سپریم کورٹ سے اور پارلیمنٹ سے انصاف نہ ملا تو وہ ضرور سڑکوں پر آئیں گے۔ اس کے باوجود یہ کہنا یا باور کرانا کہ تحریک انصاف کسی کے اشارے پر حکومت کے خلاف نکلی ہے، سراسر غیر منطقی بات ہے۔
نظر بظاہر یہ آتا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کا ’’جرم‘‘ یہ ہے کہ انھوں نے سیاست میں ’اسٹیٹس کو‘ کو چیلنج کیا ہے۔ نتیجتاً، پارلیمنٹ کے اندر اور باہر تمام سیاسی اور غیر سیاسی پارٹیاں، جن کے مفادات ’اسٹیٹس کو‘ سے وابستہ ہیں، ان کے خلاف متحد ہو چکی ہیں۔ لطف یہ ہے کہ جماعت اسلامی، جو خود کو اسلامی انقلابی پارٹی کہتی ہے، وہ بھی پیپلز پارٹی کے شانہ بہ شانہ مصالحت کاری کے نام ن لیگ حکومت کو ریسکیو کر رہی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان نے ’اسٹیٹس کو‘ کو چیلنج کر کے، جو ’’جرم عظیم‘‘ کیا ہے، وہ واقعتاً ’’ناقابل معافی‘‘ ہے۔ ان کی حالیہ جدوجہد کا نتیجہ جو بھی ہو، پاکستان کی اڑسٹھ سالہ تاریخ میں اسٹیٹس کو کے خلاف ان کی یہ انقلابی جدوجہد تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ پس دیوار زندان شاعر نے کہا تھا ؎
ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے

Thanks to Express

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں