بدھ، 31 اکتوبر، 2012

حرام کی کمائی

ہمارا دفتر برکت مارکیٹ کے علاقے میں اپریل کے مہینے کے آغاز میں منتقل ہوا تو تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ پیچھے والی مارکیٹ کی چھوٹی سڑک توڑ پھوڑ کا شکار ہوگئی۔ کئی ماہ تک ذلیل و خوار ہوتے رہے ۔ بالآخر جو ن کے اواخر میں سڑ ک دوبارہ تعمیر ہوگئی پھر انہی سیاست دانوں نے خود ہی بینرز چھپوا کر اپنی تعریف و تو صیف اور شکریے کے ڈونگر ے خود اپنے آپ پر برسانے شروع کر دیے جنہوں نے اس قومی خدمت میں حصہ لیا تھا۔ جولائی میں ابھی ان کے بینروں پر لکھے ہوئے الفاظ کی روشنائی بھی پھیکی نہ پڑی تھی کہ ایک صبح میں کوئی چیز خریدنے کے لیے مارکیٹ گیا اور دیکھا کہ وہاں مزدور اس نئی نویلی سڑک کو پھر سے اکھاڑ رہے ہیں کوئی نیا منصوبہ زیر مکمل تھا ۔ مجھے دلی طور پر انتا دکھ اور صدمہ ہوا کہ ابھی کل تک تو یہ سڑک بن رہی تھی۔ اور آج پھر خیال آیا کہ یہ غریب غرباء کے ٹیکس سے بننے والی سڑک پر لگے ہوئے پیسوں کا دکھ کسے؟ کیوں کہ امیر امراء تو ٹیکس دیتے ہی نہیں۔ انہوں نے تو ٹیکس محکمہ والوں کی ’’منتھلی‘‘ مقرر کر رکھی ہو گی یا پھر ٹیکس محکمے میں انہیں کے عزیز و اقرباء ملازم ہوں گے اس مارکیٹ میں تمام دوکان دار، مزدور اپنا اپنا کام بخوبی سر انجام دے رہے تھے۔ انہیں اس دوہری کھدائی کا کوئی ہوش نہ تھا۔
دنیا میں قتیلؔ اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا 

جدید تعلیمی نظام اور علوم

دو صدیاں قبل برصغیر میں دینی جامعات میں دس بارہ سالہ نظام تعلیم میں عربی و فارسی صرف و نحو شعر وادب منطق و فلسفہ علم الکلام  و اسماء الرجال علم الحدیث اور حدیث علم التفیر و تفسیر تجوید و قرأ ت جرح و تعدیل فقہ و شریعت تاریخ و تعلیماتِ اسلاف اور عدالت و مسند تقریر و تحریر حساب الجبرا ہندسہ یعنی انجینیرنگ کے علاوہ بے شمار علوم میں ایک یکتائے روز گار شخصیت تیار کرکے سامنے لائی جاتی جو نہ تو نوکری کو اپنا مقصد حیات سمجھتے اور نہ ہی اسے رزق کے حصول کے لیے ضروری گردانتے، جب انگریز ہندو ستان پر قابض ہو گیا تب انہوں نے برصغیر کے لو گوں کے لیے ایک ایسا نظام تعلیم نافذ کیا جو سوچی سمجھی سازش کے تحت تھا کہ ان لوگوں کو اس طرح کی تعلیم دو کہ یہ شکل و صورت اور رنگ و نسل کے لحاظ سے تو ہندو ستانی ہوں لیکن ذہنی اور فکری لحاظ سے و ہ مغربی سو چ کے حامل ہوں اوریورپ و امریکہ کے بہی خواہ ہوں ان کے ہیروز کو عظیم انسان ماننے والے ہوں اور ان کفار کی غلامی میں فخر کرنے والے ہوں اور ان کی نقالی کو جدید فیشن سمجھتے ہوں اور ان کو وضع قطع کو خو ب اپنا لینے والے ہوں اگر آنے والے وقتوں میں وہ اپنے ملک پر حکومت بھی کریں تو مغربی دنیا کے وفا دار ہوں ابن علقمی کی طرح غدار ہوں
               اس نظام تعلیم کو یہاں مسلمانوں میں رائج کرنے کے لیے سرسید احمد خان نے اہم کر دار ادا کیا اور انگریز نوازی اور ان کی وفاداری کا پوراپورا حق ادا کیا دین اسلام کی تعلیمات میں مشتر قین کے انداز سے تنقید و افکار کو خوب نبھایا اور اسلامی بنیادی عقائد کا منکر ہوا ڈاکٹر خلیل احمد نے علمی کتاب خانہ سے شائع شدہ توضیح القرآن برائے بی اے میں قرآن کی تحریف معنوی کے ضمن میں سر سید خان کو محرف لکھا ہے اور اسے فرشتوں اور جنوں کا منکر بتایا ہے انگریزی تعلیم جو کہ غلامی کا درس تھی اسے اپنانے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا وہ مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے مغربی اقوام کا غلا م بنا دینے کا عزم کیے ہوئے تھا مسلمانانِ ہند کے ذہنوں میں احساسِ کمتری کا بیج بونے والا یہی انگریزی نظام تعلیم تھا
               انگریزی زبان و ادب اور سائنس و ٹیکنالو جی کو پڑ ھنا یا اس کو سیکھنا ایک الگ بات ہے جبکہ انگریزی تہذیب کی پیروی کر کے تفاخر کا احساس ہونا دوسری بات ہے اور دیگر مسلمانوں کو گھٹیا اور جاہل سمجھ لینا دراصل اپنے بزرگان دین اور اسلامی تعلیمات سے فرار کا نام ہے پندرھویں صدی سے لے کر انیسویں تک سامانِ حرب اور صنعت کاری میں ہی مسلم دنیا پیچھے تھی (بلکہ بارود کی دریافت کنندہ بھی عرب ہی تھے) ورنہ علوم و فنون کے دیگر معاملات میں انگریزی نظام تعلیم کے بل بوتے پر مسلم دنیا نے کون سا تیر ما ر لیا ہے؟ اورنئی تہذیب سے آگاہی کے خواب نے ان کو کس اعلیٰ مقام پر پہنچادیا ہے؟ اس کی تقلید کی بدولت آج سائنس و ٹیکنالوجی میں ہمارا مقام ابھی تک کیا ہے؟ اور ہم کس مقصد کو اپنی منزل قرار دے کر اغیار کی دیوانگی میں حد سے بڑھتے جا رہے ہیں ہمیں اپنے اسلاف کی زندگیوں سے جہاں بانی سیکھنے کا کوئی مو قع کیوں نہیں مل پا رہا؟ اور ہم اس عارضی زندگی کے لیے کون سے مستقل انتظامات کرنے جارہے ہیں؟ کیا آج ہم جدیدیت کی بنا ء پر کشمیر فلسطین، عراق و افغانستان اور بو سنیا و چیچنیا اور برما کے مظلوم و مغلوب مسلمان بھائی بہنوں کی جان و مال کی حفاظت اور عزت آبرو کو پامال ہونے سے بچانےکےاہل ہوگئے ہیں؟ 

منگل، 30 اکتوبر، 2012

دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر

اگرآپ پاکستانی سڑکوں پر یہ سوچ لے کر چلتے ہیں کہ میں تو اپنے ہاتھ سیدھا سیدھا جارہا ہوں ٹریفک کے قوانین کی خلاف ورزی میں نہیں کر رہا تو میں تو ٹھیک ٹھاک منزل مقصود تک پہنچ جاؤں گا تو یہ آپ کی بھول ہے آپ نے سمجھ لیا کہ آپ اندھے ہیں جبکہ دوسرے سب بینا ہیں جبکہ یہاں سڑک پر سفر کرنے کا دستور یہ ہے کہ آپ بینا ہیں باقی سب اندھے ہیں اور ان اندھوں کی طوفانی بھاگ دوڑ میں آپ کو اپنا دامن بچا کر گزرے بغیر چارہ نہیں کیونکہ ابھی تھوڑی دیر کے بعد پاگلوں کا ایک جتھا موٹر سائیکلوں پر سوار آئے گا اور آپکے قریب آکر طوفان بد تمیزی برپا کر کے آپ کو ہر اساں کرتے ہوئے آگے نکل جائے گا آپ ان کا منہ تکتے رہ جائیں گے اور اتنی دیر میں ایک اور موٹر سائیکل سوار تیز و تند رفتار سے جاتا ہوا ایک پریشر ہارن بجاکر آپ کی جان نکالنے کے قریب جائے گا اور آپ کے اعصاب شل ہو جائیں گے اپنے محلے کے پاس پہنچیں گے تو گلی میں ایک شادی کا جشن ہورہا ہو گا جس میں اونچی آواز سے بے ہو دہ گانوں کی آوازیں نشر ہو رہی ہوں گی اور آپ کی پوری رات کا سکون غارت کرنے کا سامان کیا جا رہا ہو گا ان کے پاس ہنگامی حالت میں جنریٹر کی سہولت بھی موجود ہوگی گھر میں پہنچ کر بھی گھر سے اور ہمسائے سے آتی ہوئی ٹیلی ویژن کی آوازیں سماعتوں میں زہر گھول دیں گی نیوز چینل چیخ چیخ کر قوم کو مایوسی کی دلدل میں دھکیل رہے ہوں گے اور غیر ملکی ڈرامے اور فلمیں آپ کی نئی نسلوں کے ذہنوں میں ثقافت کے نام پر باطل افکار گھسیڑرہے ہوں گے اخباروں اور رسالوں میں بھی فحش اور نیم عریاں تصا ویر آپ کو دعوت نظارہ دیں گی اور پیسے لے کر چھاپی گئی ٹکے ٹکے کی خبریں پہلے صفحے پر آپ کو پڑھنے کو ملیں گی دینی خبریں اور ملت اسلامیہ کی فکری خبریں آپ کو ایک انچ اور ایک کالم کے خانے میں ملیں گی اداریے کھول کر پڑھنے سے پتہ یہ چلے گا کہ بین الاقوامی سیاسی سطح پر بھی علمی سطح پر بھی اور تاریخی سطح پر بھی ملکی اور ملتی سلامتی سے بڑھ کر اغیار کا دفاع ضروری ہے آپ کسی مرکزی سڑک سے گزررہے ہوں تو ٹریفک گھنٹوں جام ملے گی وجہ معلوم کرنے پر عقدہ یہ کھلے گا کہ برسراقتدار پارٹی کے لوگ لو ڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کررہے ہیں اور پولیس ان کو حفاظت فراہم کررہی ہے جب کہ یہ لوگ صر ف ایک وقت کے کھانے کے عوض توڑ پھوڑ کر کے اپنے گھروں کی راہ لیں گے ٹریفک کے قوانین کی پابندی کروانے والے مجوزہ چالانوں کا ہدف پورا کریں یا قانون نافذ کروائیں؟ ہمارے ہاں چار طرح کی ٹریفک پولیس فورسز ہیں اور پانچویں نو کر شاہی، چھٹی کوئیک رسپانس فورس اور ساتویں محافظ دستے لیکن نہ تو ٹریفک انسانوں کی طرح چلتی ہے اور نہ ہی سڑکوں سے ڈاکوں کی واردات ختم ہوتے ہیں آرہی ہیں بلکہ ان میں آئے روز اضافہ رو بہ عمل ہے انتظامیہ مفلوج ہے عوام بے بس، بد حا ل اور خواص بد کردار
                   لاؤڈ سپیکر کا قانون صرف مسجد کے لیے ہے باقی سارا سارا دن اور پوری پوری رات فحش گانوں سے جو انار کی پھیلائی جارہی ہے وہ تو ثقافت کا حصہ ہے حالا نکہ اسی سے بدکاری کے رحجان میں اضافہ ہو رہا ہے دینی لٹریچر تو لوگوں کو گمراہ کرنے کا ذریعہ قرار دیا جارہا ہے جبکہ فحاشی پھیلانے کے اسباب کو تفریح بتایا جارہا ہے اور جرائم کی شرح میں اضافہ اسی نادانی کی وجہ سے بتدریج بڑھ رہا ہے دینی کتابیں مفت لے کر بھی کوئی پڑھنے کو تیار نہیں۔ جبکہ ہفتہ وار فیشن میگزین زر کثیر خرچ کرکے منگوائے جاتے ہیں اور گھروں میں ناچاقی کا سبب خرچ اور آمدن کا توازن بگاڑنے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں اخباروں کے حوالے سے نوجوان نسل کا رحجان کھیل اور شو بز کی خبروں تک اور ستارے دیکھنے تک اگر سو فی صد ہے تو تعلیمی اور دینی خبروں تک دس فی صد بھی نہیں رشوت لے کر لکھے گئے اداریے اور کالم ایک دن کا ادب تخلیق کرتے ہیں جبکہ چند دن کے بعد وہی کالم نویس اپنے پہلے نظریے کے خلاف لکھ رہا ہوتا ہے کیونکہ پیسے سے اُس کی ذات کیا اس کا ایمان بھی باآسانی خریدا رجارہا ہوتا ہے اور وہ دنیا کی عارضی عیش و عشرت کے لیے باطل کا ترجمان بن رہا ہوتاہے اپنی حکومت میں اُسی پارٹی کا لوڈشیڈنگ کے خلاف مظاہرہ صرف عوامی جذبات کو اپنی حمایت میں لے کر آنے کیلئے ہو تا ہے ورنہ اُ ن کے محلات کے پرندوں کو بھی لوڈ شیڈنگ کے لفظ کے معانی نہ آتے ہوں گے دراصل اس قوم کو کسی کی نظر لگ گئی ہوئی ہے اس میں بہت جوش و جذبہ ہے لیکن اُس کے استعمال کی درست خبر نہیں ہے جو ہر تو ہے جوہر شناس کی کمی ہے لوہا تو ہے مگر اُسے صیقل کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ وسائل تو موجو د ہیں لیکن اُن کو صحیح جگہ پر خرچ کرنے راستہ معلوم نہیں تڑپ تو سبھی رکھتے ہیں لیکن جدوجہد کرنے کا طریقہ نہیں آتا حقیقتاً اُن کے پاس دنیا کا سب سے بڑا نظام حیات ہے ان کے پاس اعلیٰ ترین دستور بھی موجود ہے لیکن اُن کو بتایا نہیں گیا بتانے والے رات کو فلم دیکھ کر سو جاتے ہیں صبح آٹھ بجے جاگ کر اُن کو کسی طرح یہ پیغام دیا جائے کہ مسجد بھی ہے اور صبح سورج طلوع ہونے سے پہلے فجر کی نماز ادا کرلی جاتی ہے وہاں نماز فجر کے بعد قرآن پاک کی تدریس بھی ہوتی ہے اور مفت تعلیم کا انتظام بھی ہے لیکن اس قوم کو سمجھانے والے کبھی بھی ان کو معاشرے کا کارآمد شخص بنانے کی کاوش نہیں فرماتے وہ ان کو اپنے استاد کا ادب کرنے کا نہیں سکھاتے اس قوم کو پالنے والوں نے اس استاد کا تصور ایک ملازم سے زیادہ نہیں دیا حالاں کہ اساتذہ ہی وہ طبقہ ہیں جو تعلیم دے کر قوموں کو عروج کی طرف لے جاتے ہیں لیکن استاد سے استفادہ صرف وہی لو گ کرپاتے ہیں جن کی تربیت اُن کے اپنے گھر سے اچھی بنیادوں پر کی گئی ہو اگر تخلیق دینے والے والدین اپنے بچوں کو نیک بننے کا درس نہیں دیتے اور اُن کو ایک متوازن شخصیت نہیں بناتے، اُن کو انسانیت نہیں سکھلاتے تو ہماری سٹرکوں پر نہ تو ڈاکے ختم ہونگے اور نہ ہی بدتمیزی والی ڈرائیونگ ختم ہو گی اور نہ فحش گانوں کا عذاب ختم ہو گا اور نہ ہی ٹی وی پر کفریہ افکار کی یلغار ختم ہو گی، نہ ہی معاشرہ پرُامن ہو گا اور نہ سکون کی زندگی میسر آسکے گی
اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسن
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر

قوم کا ملال

انیسویں صدی کے وسط سے یہودی نے عالمی صحافت کو اپنے زیر نگیں کیا اور عالمی سطح پر اسے ایک مضبوط ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اسلحے کے زور پر لڑی جانے والی جنگیں میڈیا کے ذریعے جیتی جانے لگیں جس طرح 1965 میں بی بی سی ریڈیو نے لاہور پر بھارتی حملے کی افواہ اُڑا کر میدان جنگ کا نقشہ بدلنے کی ناکام کوشش کی اس طرح کی مثالیں درجنوں کی تعداد بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں مثلا 1969 کو امریکی سائنس دانوں کا چاند پر قدم رکھنے کا جھوٹا دعویٰ جو ہالی وڈ کی ایک جھوٹی ڈاکو منٹری تھی2001 میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کا جھوٹا پرو پیگنڈا یہ سب میڈیا کو استعمال کرکے رات کو دن ثابت کرنے کی کوششیں تھیں جو بہر حال آخر کار بے نقاب ہوئیں اسی طرز پر مسلمان ملکوں کی حکومتوں میں رد و بدل اور چلے ہوئے کارتوسوں کی جگہ تازہ دم غداروں کی وافر فراہمی میں میڈیا کا کردار نمایاں ہے یہ علیحدہ بحث ہے کہ جدید میڈیا سے ہمیں فوائد کتنے حاصل ہوئے یہاں صرف میڈیا کے شعبہ سے وابستہ کالی بھیڑوں کا تذکرہ زیر بحث ہے مسلمانوں کی ایمانی غیرت پر ہونے والے حملوں میں مغربی میڈیا سے وابستہ افراد پیش پیش تھے اور مسلمانوں کے ردعمل کو تعصب کی عینک سے دکھانے والا پاکستانی میڈیا اپنے بکاؤ مال ہونے کا بین ثبوت دیتا رہا ہمیں آج تک طالبان کی سمجھ نہیں آئی ذمہ داری کون قبول کرتا ہے؟ کیسے نشر ہوتی ہے؟ اس کا سدباب کیسے ممکن ہے؟ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ اگر طالبان کہانی اور اُسامہ ڈرامہ سچ ہیں تو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا ہمسایہ پینٹا گون کیوں محفوظ ہے؟ ان کی خبروں کو نشر کرنے والے کون ہیں ؟ اگروہ واقعی انسانیت کے لیے خطرہ ہیں تو ان کو اتنی شہہ کیوں دی جارہی ہے؟ ان کے ذمہ داران کو جب پکڑ لیا جاتا ہے تو پھر وہ کیس منظر سے غائب کیوں ہو جاتا ہے؟ ان کے پس منظر میں کون سی سپر پاور ہے؟ بہر حال اس طرح کے ہزاروں سوالات جواب طلب ہیں اب معاملہ سامنے آیا اسلام میں خواتین کی تعلیم کا اگر یہ تعلیم اسلامی اور تربیت بھی اسلامی ماحول میں ہے تو یہ ہر گز غلط نہیں لیکن یہ تو ہم سب کو معلوم ہے کہ اگر یہ تعلیم کفار کی پروردہ ہے اور مادر پدر آزاد نظام کو جنم دینے کے لیے کوشاں ہے تو وہ غلط اور حرام ہے چاہے وہ ہمارے گھر کی بچیاں ہی کیوں نہ حاصل کر رہی ہوں اب اگر کوئی یہ کہے کہ یہ چادر اور چار دیواری والا دین پرانا ہو گیا ہے تو وہ جاکے اپنی عقل کا علاج کروائے کیونکہ کہ وہ یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ وہ خود بھی تو اس دین کو سائبان بنا کر پناہ ڈھونڈ رہا ہے اور انحراف بھی اسلامی ابدی قانون قرآن مجید کی نص سے کر رہا ہے یہ صریحاً زیادتی ہے انسانیت کے ساتھ ظلم ہے اور خو د کو دھوکا دینے والی بات ہے کیا اب ان طالبان کے ظلم کا بہانہ بنا کر اور مغربی کافر میڈیا کے جھانسے میں آ کر ہم مادر پدر آزاد نظام تعلیم کو درست قرار دے دیں؟ اور قوم کو جہالت کے اندھیرے سے نکالنے کے نام پر جدیدیت کے عفریت کے حوالے کر دیں؟ طالبان کا معاملہ سیاسی یا عسکری ہے ان کے نام کو سہارا لے کر اسلام کی شریعت کو نہیں جھٹلا یا جاسکتا ان سے نمٹنا سیاسی سطح کا مسئلہ ہے لیکن ا ن کانام لے کر اپنی رعایا کو گولیوں اور میزائلوں سے تباہ کردینا کہاں کا انصاف ہے ناسور کو کاٹنے کی بجائے پورا پورا عضو ہی کاٹنے کی تیاری کی جارہی ہے تعلیم کے نام پر الحاد اور مغربیت کو پروان چڑھانے کا فریضہ سرانجام دیا جارہا ہے قوم کو آپس میں دست و گریباں کرانے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف فتوے حاصل کیے جارہے ہیں فرد واحد کے معاملے کو قوم کا مسئلہ بتاکر باقی مظالم سے چشم پوشی کی جارہی ہے آج میڈیا کو کراچی کی صور ت حال پر نظرڈالنے کی فرصت کیوں نہیں جب کہ 21 ستمبر 2012 کو یوم عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے حوالے سے مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے تو ایڑھی چوٹی کا زور لگایا جارہا تھا خدارا! اس قوم کو مزید مایوسی کی دلدل میں نہ دھکیلا جائے ان کی تعلیم و تربیت اسلامی خطوط پر کرکے ان کو غیور اور باہمت قوم بننے کا درس دیا جائے جنگجو تنظیموں کے بہانے اسلامی احکامات سے روگردانی نہ کی جائے لیکن اس سب کے لیے درست فکر کہاں سے آئے گی؟ اس سوال کا جواب ہے
کتابوں سے نہ کالج کے ہے در سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
اگر اقبال کے بعد اُن سے بڑا کوئی فلسفی آیا ہے تو وہ مسلم قوم کو بتائے کہ کالج میں بچیوں کو بھیجانا ضروری ہے یاخود دین کے بزرگوں سے دین سیکھ کر اُسے اپنی بچیوں کو سکھانا ضروری ہے بچیوں کی تعلیم و تربیت گھر میں ہی ہونی چاہیے ان کی والدہ سے بڑی بہن سے، بھائی یا والد سے یاکسی عزیز نیک پردہ دار خاتون سے۔ اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے یہ فلا ح کا راستہ ہے ورنہ جو رستہ ہم اپنانے جارہے ہیں وہ تباہی کا ہے اس میں بدبو دار جھاڑیا ں ہیں ان میں کانٹے ہی کانٹے ہیں ناکامی ہی ناکامی ہے اندھیرا ہی اندھیرا ہے ظلمت ہی ظلمت ہے اسلام نے عورتوں کو پردہ کرنے کا حکم دیا ہے اور مر دوں، عورتوں دونوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم سُنا یا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ پردہ تو دل کا ہو تا ہے تو ان سے گزارش ہے کہ دل کی بات پر عمل بھی کریں ورنہ منافقت ہے مغرب نے سمجھ لیا کہ ہم نے مسلمانوں کو فکری طورپر اتنا مفلوج کر دیا ہے کہ یہ اب دوبارہ کھڑے نہیں ہو سکتے یہ اُس کی بھول ہے وہ آج اور دس سال پہلے کے حجاب اور پردے کے رحجان اور عمل اور ردعمل میں نمایاں فرق کو دیکھ سکتا ہے اور مسلمانوں میں دین کے جذبے میں مزید نکھار دیکھ سکتا ہے حق تو یہ ہے کہ معصوم بچوں پر ظلم و تشدد کرنے والوں اور کروانے والوں پر بھی خدا کی مار ہو اور ان کی آڑ لے کر بے حیائی کو فروغ دینے کا خواب دیکھنے والوں پر بھی اللہ عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت 

گندی ترین حکومتی انتظامیہ

ہمارا خطہ برصغیر (پاک وہند) ہے جب یہاں برے حکمرانون جو تمام قسم کی عیاشیوں میں مست تھے دولت نے جنہیں فرائض منصبی سے غافل کر دیا تھا ان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کا غلبہ ہو گیا۔ انگریزوں نے پہلے سے ان کے بارے میں تفصیلی مطالعہ کررکھا تھا۔ ہندو تو پہلے دن سے انگریز کے وفاداروں میں شامل ہوگئے کیونکہ وہ کسی آقا کی منشی گیری کرکے ہی اپنی دھونس جما لینا کافی سمجھتے تھے جب کہ مسلمانوں کے بارے میں انگریزوں کی پہلے ہی سے رپورٹ یہ تھی کہ یہ اپنے ہر بچے کو اس قدر تعلیم دیتے ہیں کہ وہ عظیم سلطنت برطانیہ کا وزیر اعظم بننے کے قابل ہوتا ہے فرق صرف زبان کا تھا ورنہ تعلیم کا معیار مسلمانوں کا اعلیٰ تھا پہلے پہل انگریز نے چند تعلیمی پالیسیاں نافذ کرکے دیکھیں نا تو کوئی خاص نتیجہ برآمد ہوا اور نہ ہی مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کو ختم کیا جاسکا پھر لارڈ میکالے اپنی ایک تجویز ساتھ لے کر آیا تجویز یہ تھی کہ ان کو انگریزی زبان میں مغربی تعلیم دی جائے جو مسلمانوں کی آئندہ نسلوں کو مادر پدر آزاد سوچ فراہم کرنے میں معاون ثابت ہو چنانچہ ایسا ہی کیا گیا انسویں صدی کے آغاز میں اور بعد میں اسلامی تحریکوں کی بدولت 1857میں جنگ آزادی ہوئی جس میں دینی جامعات سے پڑھے لکھے علماء نے انگریزوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا پھر انگریزوں نے اکبر بادشاہ کی لادینی سوچ کے حامل افراد کو چن چن کر غداری کے لیے منتخب کیااور دین کے علماء کو شہید کر دیا ان کو دور دراز جزیروں میں تاحیات قید کردیا نئے غداروں کے تعاون سے انگریزی نظام تعلیم کو فروغ دیا اور نام نہاد دینی مدرس کا افتتاح کر کے مسلم قوم و ملت کو تنزلی کے گڑھے میں دھکیلنے کا منصوبہ بنایا انگریزی تعلیم یافتہ مسلمان طبقہ شراب نوشی اور دیگر اخلاقی برائیوں کا عادی ہوا جبکہ بدمذہب مدرسوں سے فارغ التحصیل افراد دین کی ضروریات سے منکر ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمراہی میں چند مخلص لو گوں نے مل جل کر ایک مسلم ریاست پاکستان کو تشکیل دیابعد میں تعلیمی اور انتظامی امور اُسی لاد ین طبقے کے ہاتھ میں رہے جبکہ بدمذہب فرقوں کے علماء کئی بار شراب اور کبا ب کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے اب ان تعلیمی اداروں سے نوکری کے رسیا اور کرپٹ افراد پڑھ لکھ کر فارغ ہوتے گئے اور پاکستان کی حکومتوں اور اقتدارکا حصہ بنتے گئے رشوت روز مرہ کا معمول بنتی چلی گئی اور نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ لو گ گھر سے رشوت کے تمام لوازمات پورے کرکے دفتروں کا رُخ کرنے لگے آج حال یہ ہے کہ ایک سو کے قریب ملکی ٹی وی چینل موجود ہیں جوکہ کفار کی فکر کو معاشرے میں پروان چڑھا رہے ہیں اور رہی سہی کسر پوری کر رہے ہیں عالَم کفر کی جانب سے ایک گستاخانہ فلم شائع ہوئی تو اُس کے رد عمل میں احتجاج کو توڑ پھوڑ کی شکل دینے کے لیے انہی لو گوں کا سہارا لیا گیا جو اس معاملے میں تربیت یافتہ تھے
                  لارڈ میکا لے نے جو تصور دو صدیاں پہلے دیا تھا کہ یہاں کے باشندوں کے ذہن ایسے بننے چاہیں کہ وہ اندرسے انگریز ہوں آج اُ س کی تعبیر ہمارے سامنے ہے اُسی فکر کے پرودہ لو گوں نے توڑ پھوڑ کرے کے دینی مظاہروں کو بد نام کرنے کی سازش کی اور میڈیا نے بھی اُس کو منظر عام پر لانے کی ذمہ داری نبھائی اس ملک کی بدترین انتظامیہ کا حال یہ ہے کہ انہوں نے آج تک انٹر نیٹ پر یوٹیوب کو امریکی انتظامیہ سے رجسٹرڈ نہیں کروایا ہو ا تھا تب عوام کے مطالبے پر یوٹیو ب کو بند کردیا گیا ۔ لیکن اُس کو رجسٹرڈ کروا کے اور گستاخانہ فلم کو بند کر وا کے اس لیے دوبار ہ نہیں چلا یا گیا۔ کہ نوجوان نسل کو حقائق سے آگاہی نہ ہو۔ اور دینی قوتوں کی طرف رد عمل کو سامنے نہ لایا جاسکے ۔ اگر اس ملک کی انتظامیہ اچھی ہوتی تو وہ جنسی انار کی پھیلانے والی ویب سائٹس کو بند کروا کے بھی تو ملک و قوم کی خدمت کر سکتی تھی لیکن یہ کافر کے غلا م اس قوم کو گناہوں کی دلدل میں دھنسانے کے انتظامات مکمل کر رہے ہیں لیکن حقیقت صورت حال سے دور رکھنے کے لیے یو ٹیوب کا معاملہ حل کرنے کو تیار نہیں یہ کس قدر گھٹیا سوچ کے انسان ہیں جن کے ہاتھوں میںیہ ملک ہے ۔ جو انتظامی امور میں اتنی بڑی خیانت کر رہے ہیں کیا یہ بدترین انتظامیہ نہیں کیا یہ اب بھی حکمرانی کے حق دار ہیں؟ کیا یہ انسان ہیں ۔کیا یہ مسلمان ہیں؟ یا لا رڈ میکالے کے غلام!

اتوار، 14 اکتوبر، 2012

رپورٹ: حرمت رسول اور اس کے تقاضے اجتماع

بسم اللہ الرحمن الرحیم

۲۶ ذیقعد ۱۴۳۳ بمطابق14 اکتوبر 2012 بروز اتوارکو مرکزِ تعلیم و تربیت جامعہ اسلامیہ رضویہ( شاہ خالد ٹاؤن ، فیروزوالہ، نزد گورنمنٹ انٹر کالج فیروزوالہ) ایک عظیم الشان تربیتی اور روحانی اجتماع بعنوان " حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اُس کے تقاضے "ہوا۔ جسے علامہ مفتی محمد ارشد القادری کی زیرِ صدارت تعلیم و تربیت اسلامی پاکستان نے منعقد کیا۔اجتماع میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ جس میں ایک کثیر تعداد علماء اسلام ، ائمہ مساجد اور تعلیم و تربیت اسلامی پاکستان کے مبلغین کی تھی۔ اس موقع سب حضرات نے حرمتِ رسول اور عظمتِ رسول کے لیے ہر طرح کی قربانی کا پختہ عزم کیا۔ اور دین کی ترویج و اشاعت کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرنے کا عہد کیا۔ اپنی جان و مال کی قربانی دینے کا دعویٰ کیا۔ اور دین کے اوامر و نواہی پر عمل پیرا ہونے کے ارادے باندھے۔

اجتماع میں نقابت کے فرائض تعلیم و تربیت اسلامی

 پاکستان کے مبلغ مولانا محمد عمران قادری اور مولانا مظہر اقبال قادری نے سر انجام دئیے۔ نعت خوانی کی سعادت عبدالغفار صاحب اور جناب نور محمد صاحب کے حصے آئی۔ جبکہ بیانات میں مولانا عمر قادری، علامہ محمد فاروق قادری رضوی ضیائی ، صاحب زادہ احمد رضا القادری،

صاحب زادہ عاکف قادری، اور حضرت علامہ محمد ارشد القادری کا خصوصی خطاب تھا۔ ان خطابات کو اختصار کے ساتھ یہاں پیش کیا جاتا ہے۔

مولانا عمر قادری نے "عقائد اہل سنت نئے دور کی بدعت نہیں ہیں" کے عنوان پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمۃ اللعٰلمین ہونے کو اور بے مثل ہونے کو قرآن و حدیث کی رو سے درست بتایا اور حضرت حسان بن ثابت کی نعت کا حوالہ دے کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو بے مثل ثابت کیا۔ نبی پاک کی حدیث کے مطابق کہ آپ کو کھلایا پلایا جاتا ہے اس حدیث کے حوالے سے بتایا کہ آپ کو عظیم ترین انسان ، سید البشر اور افضل البشر ماننا نئے عقائد نہیں ہیں۔ عمر قادری نے کہا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری نے اسی فکر کو سامنے رکھتے ہوئے منکرین کا رد بڑے زور دار طریقے سے کیا۔ کیونکہ اعلیٰ حضرت کے دور میں منکر موجود تھے۔ اُن کی فکر یا عقائد تیرھویں ،چودھویں صدی کی اختراع نہیں۔ اہل سنت کے عقائد دور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، سیرت سے ثابت ہیں۔ اُس دور میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات کے منکر نہیں تھے۔

مولانا محمد عمران قادری نے دورانِ نقابت پیارے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال کی اس انداز سے تعریف کی کہ حق ادا ہوتا ہوا دکھائی دیا۔ لیکن عمران قادری نے کہا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف بیان کرنے کے لیے اس زمین و آسمان کے اسباب کم ہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلندی درجات کو اللہ عزوجل خود قُرآن میں ارشاد فرماتا ہے۔ کسی انسان کے بس کی بات نہیں کہ وہ مدنی تاج دار آقائے نام دار صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل ثناء بیان کر سکے۔ عمران قادری نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک کو بڑے ہی دل نشین انداز میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔

مولانا مظہر اقبال قادری نے "مختلف نظام ہائے زندگی اور مذاہب کا موازنہ اور اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے" کے موضوع پر اپنے خیالات اور اسلام کے کمالات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اپنے بیان میں فرمایا کہ آج دُنیا تمام نظام ہائے زندگی کا موازنہ کر کے دیکھے اور بتائے کہ کیا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیش کردہ نظام سب سے اعلیٰ اور افضل نہیں ہے؟

اجتماع میں مہمانِ خصوصی علامہ فاروق قادری ضیائی تھے اُنہوں نے اپنے خطاب میں پوری اُمت کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت کا درس دیا۔ اور احباب کو تعلیم و تربیت اسلامی پاکستان سے تعاون کا مشورہ دیا

صاحب زادہ احمد رضا القادری نے فرقہ ورانہ اور جدیدیت کی فکر کو امت مسلمہ کا مسئلہ قرار دیا۔ اور اس کا حل عشقِ مصطفیٰ کی روشنی میں دینی تعلیمات پر عمل کرنے اور وحدتِ اُمّت کی اہمیت کو اُجاگر کیا ۔ اور اور وحدتِ امت کو مسائل کے حل کا پیش خیمہ قرار دیا۔ مزید برآں آپ نے اسلامی تحریک تعلیم و تربیت اسلامی پاکستان کی خدمات اور حضرت علامہ مفتی محمد ارشد القادری صاحب کی دینی و فلاحی خدمات کا تذکرہ بھی کیا۔ اور قوم کو دعوت دی کہ آپ بھی اس عظیم مشن وحدت امت کے سلسلے میں تحریک کا ساتھ دیں۔

صاحب زادہ محمد عاکف قادری نے معاشرتی برائیوں کے خلاف اور مغربی تہذیب کو چھوڑ دینے کے موضوع پر سیر حاصل بحث کی اور قوم کو خواب غفلت سے جاگ کر اسلام کو اپنی اپنی ذات پر نافذ کرنے کا درس دیا انہوں نے کہا کہ جو جس قوم کی مشابہت کرے گا اُس کا حشر بھی اُسی قوم کے ساتھ ہو گا۔

حضرت علامہ مفتی محمد ارشد القادری صاحب نے اپنے خصوصی خطاب میں قوم و ملت کو دوبارہ سے دین سے ناطہ جوڑنے کی ترغیب دلائی۔ اور انبیاء کے گستاخ امریکی و یورپی ظالم درندوں کو تاریخ اور کردار کے حوالے سے آئینہ دکھایا۔

انہوں نے فرمایا کہ امریکی بد معاشوں کی جانب سے بنائی جانے والی گستاخانہ فلم کے رد عمل میں عرب ملکوں کے عوام نے اپنے بینرز اور پلے کارڈز پر لکھوایا ہوا تھا "لبیک یا رسول اللہ"۔ اس عمل سے معلوم ہوا کہ پوری دنیا کے مسلمان آج بھی اپنے آقا کریم سے سچی محبت کرتے ہیں۔ اور یا رسول اللہ کہنا کسی فرقے وغیرہ کا مؤقف نہیں ہے بلکہ ایک عالم گیر اسلامی فکر ہے۔ کیونکہ فلسطین، مصر اور لیبیا میں یارسول اللہ کے بینر پاکستان سے بنوا کر نہیں بھیجے گئے تھے۔ یہ پوری امت مسلمہ کا متفقہ فیصلہ تھا ہے اور ان شاء اللہ سدا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ بر صغیر کے کچھ علاقوں سے یہ کہا گیا کہ یہ نعرہ بریلی شہر کاتیار کردہ ہے حالانکہ ایسا بالکل نہیں۔ بلکہ یہ بریلی سے نشر ضرور ہوا تھا۔ اور آج کے دور میں اُس کا انکار کرنے والے علاقوں سے بھی حرمتِ رسول اور شانِ رسول کے دعوے بلند ہوئے ۔ ان حالات میں امت مسلمہ نے ایک فکر پر متحد ہو کر یہ ثابت کر دیا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری کا طرزِ فکر سب سے اعلیٰ ہے۔ اور اُن کا عشق رسول کا مؤقف ہی درست اسلامی نظریہ ہے۔ اب کوئی جتنے مرضی جلسے اور کتابیں عظمتِ مصطفی کے انکار میں نشر کرے ، یارسول اللہ کہنے کے نعرے کو غلط ثابت نہیں کر سکتا۔ اب تو ساری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں کا حال میڈیا کے ذریعے سے سب کے سامنے ہے۔ اور یہی حق ہے۔ انہوں نے حرمتِ رسول کا مفہوم بیان کرتے ہوئے عربی کی مستند لغات کو سامنے رکھتے ہوئے بتایا کہ عربی کی قاموس میں "تاج العروس" میں لفظ الحُرمہ ، الحُرُمہ اور الحَرَمہ کا مطلب یہ ہے کہ ایسی عزت جو اللہ کسی کو عطا کرے۔ اُس کا انکار گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ اور اُس کو مانا لازم ہے۔ انکارکرنا ارتکابِ حرام ہے۔ جمہور کا مذہب ہے کہ کسی عمل کو حرام قرار دینے کے لیے اُس کا نصِ قطعی اور ظنی الدلالہ سے ثابت ہونا ضروری ہے۔ جب کہ امامِ اعظم کا مذہب یہ ہے کہ اس کے لیے نصِ قطعی اور قطعی الدلالہ ہونا ضروری ہے۔ جمہور واجب کو فرض قرار دیتے ہیں جبکہ امام اعظم کے نزدیک دلیل قطعی کا ہونا بھی ضروری ہے۔ تب فرض قرار پاتا ہے۔ اور اُس کا انکار حرام ہے۔ اجتہاد مسائل کا ہوتا ہے جیسا کہ یہ عمل فرض ہے واجب ہے یا حلال ہے، مکروہِ تحریمی ہے یا تنزیہی وغیرہ۔ عقائد میں اجتہاد نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانیں نصِ قطعی (سورۃ فتح کی آیت 8 اور 9 ) سے بغیر کسی دلیل کے ثابت ہے۔ اور اسے فرض نہ ماننا، اور فرض کا انکار کرنا کفر ہے۔ مولانا مصطفیٰ اور مجھے عربی کی لغات سے لفظِ حرمت کے یہ معانی ومطالب ملے ہیں۔ بغیر کسی جانب داری کے ثابت ہوا کہ امام احمد رضا القادری الحنفی نے بریلی شریف سے آج سے ایک سو سال پہلے یہ فکر نشر کی کہ اُمت کے وقار کا معیار عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بتایا۔ اعلیٰ حضرت نے بتایا کہ رسول اللہ پر قربان رہو گے تو اللہ تمہارا مددگار رہے گا۔ "حرمتِ رسول پر جان بھی قربان ہے " کا نعرہ اعلیٰ حضرت نے دیا۔ مولانا سید دیدار علی شاہ صاحب اسی نعرے کو لے کر بریلی سے اَلوَر گئے اور چھا گئے۔ آگرہ گئے اور چھا گئے۔ لاہور آئے تو چھا گئے۔ابوالحسنات شاہ قادری رحمۃ اللہ علیہ اور سید ابوالبرکات قادری رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی نعرے کو لے کر بریلی سے لاہور آئے اور ختمِ نبوت کے جلسوں میں چھا گئے۔ پھر انہی حضرات کی دیکھا دیکھی دوسرے مکاتبِ فکر کے لوگ سڑکوں پر اسی طرزِ فکر کے ساتھ آئے۔ اور وہ بھی مشہور ہوئے۔ حالانکہ حقیقت میں یہ نعرہ بریلی کے شاہ کا تھا اور اُ ن کے اکابر کا تھا۔ مثال کے طور پر علامہ فضلِ حق خیر آبادی اور مفتی صدرالدین دہلوی اور علامہ مفتی کفایت علی کافی شہید اسی فکر اور نظریے کے حامل تھے۔انگریز حکومت کے خلاف اُن کی قربانیاں تاریخ کا حصہ ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ اے لوگو ! اپنی فکر کا دھارا بدلو۔ ہمارے نبی کی کیا ہی شان ہے۔ آقا کریم اتنے حسین اور جمیل تھے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین فرماتے ہیں کہ وہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے رخساروں میں اپنا چہرہ دیکھ لیا کرتے تھے۔ ایسا حسین اللہ نے کوئی اور بنایا ہی نہیں۔ اللہ قرآن میں سورۃ احزاب میں فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول کو اذیت دیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی لعنت، اور اُن کے لیے دُکھ دینے والا عذاب تیا رکیا گیا ہے۔ رسولِ کریم کی اس دنیا میں تشریف آوری کی غرض و غایت یہ ہے کہ اللہ نے آپ کو شاہد بنا کر مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ یعنی آپ مشاہدہ بھی فرما رہے ہیں اللہ جانتا ہے کہ کیسے فرما رہے ہیں۔ خوش خبری دینے والے ہیں۔ اورڈرانے والے ہیں کہ برائیاں نہ کرو۔ اور اللہ نے فرمایا کہ اے لوگو ! تُم اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ یعنی رسول کو دیکھ کر اللہ پر ایمان لاؤ۔ پھر فرمایا رسول کی تعظیم توقیر کرو۔ اور رسول کی توقیر کرو۔ پھر فرمایا اللہ کی تسبیح کرو صبح اور شام کو۔ پہلے اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ ایمان لانے کے بعد تعظیمِ رسول کرو ۔ بعد میں اللہ کی عبادت کرو۔ اگر ایمان لا کر حرمتِ رسول نہ کی تو عبادت بھی قبول نہیں۔ ایمان اور عبادات کی مقبولیت کا انحصار حرمتِ رسول پر ہے۔ اعمال جو ہوتے ہیں وہ عقائد کے ماتحت ہوتے ہیں۔ عقائد جو ہوتے ہیں وہ اعمال کے ماتحت نہیں ہوتے۔ اقبال نے کہا تھا

 قوّتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اسمِ محمد سے اُجالا کر دے

علامہ نے کہا ہم رسول اللہ کا ہر کمال بغیر کسی دلیل کے مانتے ہیں۔ انسان کو تین چیزیں زیادہ عزیز ہوتی ہیں۔ مال ، اولاد اور جان۔

ہم اپنا مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کی خاطر قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جہاں دین کا کام اُصولی طور پر ہو رہا ہے۔ وہاں اپنا مال خرچ کریں، اپنی اولاد اور جان اپنے آقا کے لیے قربان کریں

انہوں اُمتِ مسلمہ سے اپیل کی کہ وہ دین کی راہ پر چل کر ہی اپنا کھویا ہویا وقار دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔

ہفتہ، 13 اکتوبر، 2012

مال روڈ اور بند روڈ بھی اُکھڑوا دیں


وزیر اعلیٰ صاحب !
مال روڈ اور بند روڈ بھی اُکھڑوا دیں
کیونکہ لاہور میں فیروز پور روڈ اور ملتان روڈ کا ستیاناس تو آپ نے کروا کر جینا اجیرن کر ہی دیا ہے۔
اب ان دو سڑکوں سے کیوں تھوڑا  سا ٹریفک گرر جاتا ہے؟
 قومی بجٹ عوام کا حرام کا پیسہ ہے جب جب جہاں جہاں جتنی بار جی چاہے پانی کی طرح بہائیں۔ آپ سے استفسار کون کر سکتا ہے؟ یوں لگتا ہے کہ قیامت کو بھی بھول گئے۔

پیر، 8 اکتوبر، 2012

حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم اور اُس کے تقاضے

امریکن فلم ساز کی گستاخی کا جواب دینے کے لیے، اُمتِ مسلمہ کی وحدت اور قوت دکھانے کے لیے، اپنے نبی پاک کی شان سننے کے لیے، کافروں کے مقابلے میں اپنی ترقی کا راز جاننے کے لیے، محبتِ رسول کی شمع سے روشنی پانے کے لیے، حرمتِ رسول کے تقاضے جاننے کے لیے
تشریف لائیں اُس ہستی کے پاس
جس نے بتیس سال قوم و ملت کی فلاح کے لیے اذان دی، خدمتِ دین میں زندگی گزار دی، اُمت کو ایک پلیٹ فارم دیا، سینکڑوں کتابیں لکھیں، ایک لاکھ سے زیادہ فتوے دیے، شرح ترمذی لکھی، قوم کو متحرک کیا، پاکستان کا دفاع کیا، اسلامی نظام کا نفاذ چاہا، زندہ جذبے دیے، تازہ ولولے دیے، غلامیِ مصطفیٰ کا حق ادا کیا، باطل سے جنگ کی، جان کی پرواہ نہ کی، اپنا نام نہ کمایا، بے لوث وفاکی، دھوکہ نہ دیا، گالی نہ دی، تعلیمِ مثالی دی، اذانِ بلالی دی، دین کی رکھوالی کی، ہمیشہ حق کہا ، سچ لکھا
عظیم الشان اجتماع
حرمتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم اور اُس کے تقاضے
14 اکتوبر 2012 بروز اتوارصبح 10:00بجے
زیر صدارت و خصوصی خطاب
مفتی اعظم پاکستان محمد ارشد القادری

بمقام : جامعہ اسلامیہ رضویہ شاہ خالد ٹاؤن، شیخ ہسپتال سٹاپ، جی ٹی روڈ، مریدکے روڈ شاہدرہ ، لاہور
المشتہر : تعلیم و تربیت اسلامی پاکستان

हुर्मत-ए- रसूल और उस की आवश्यकताएँ 14 अक्टूबर 2012 जामिया इस्लामिया रज़विया 

ہفتہ، 6 اکتوبر، 2012

حرصِ مال اور جمعۃ الوداع

آج جمعتہ الوداع ۲۸ رمضان المبارک ۱۴۳۳ ہجری ہے اور شمسی لحاظ سے 17 اگست 2012 ہے میں آج دفتر سے واپسی کے لیے ڈیڑھ بجے کے بعد نکلا۔ یعنی آخری کلاس ایک بج کر تیس منٹ کے بعد ہی ختم ہو ئی تھی۔ عید کی چھٹیوں کی معلومات اور دیگر معاملا ت میں تیاری کرنے پونے دو بج گئے۔ ہماری قریبی جامع مسجد میں جمعہ کی دوسری اذان کا وقت بھی پونے دو تھا۔ میں نے سوچا کہ آج اپنے محلے میں جاکر جامعہ رسولیہ شیرازیہ میں نماز جمعہ ادا کرلوں گا کیونکہ وہاں دیر سے ہوتا ہے۔ جب میں بس سٹاپ پر پہنچ رہا تھا تو ایک پھل فروش ریڑھی بان نے مجھ سے جامع مسجد کا نما ز جمعہ کا شیڈول پو چھا۔ میں نے کہا اذان تو ہوگئی اب تو خطبہ ہو رہا ہے وہ جلدی میں تیار نظر آیا۔ میں نے سو چا اب وہ کیسے نماز میں شامل ہو گا اور ریڑھی کا نگہبان کون ہو گا۔ ( گدھا گاڑی تھی اسے ہم عرف عام میں ریڑھی کہتے ہیں ) اس نے ریڑھی کے پہیوں کے نیچے سے اینٹیں نکالیں اور کہنے لگا  ٹھیک ہے پھر اُدھر جاکر بیچتا ہوں کچھ تو بک جائیں گے مجھے تب سمجھ میں بات آئی کہ وہ نماز کے لیے نہیں بلکہ آم بیچ کر پیسے کمانے کے لیے بے تاب تھا بس میں داخل ہوا۔ ایک لڑکا کا جو کہ چرس کا نشئی سا لگتا تھا۔ بڑی بدتمیزی سے اپنی پراڈکٹ کا ریٹ بتانے کا دعویٰ کر رہا تھا دراصل وہ سرمہ فروش تھا۔ جو بس میں بیس روپے فی شیشی سرمہ بیچنا چاہتا تھا۔ میرے سوار ہونے سے پہلے ایک بزرگ میاں نے اُسے اونچی آواز میں بولنے سے منع کیا تھا۔ چونکہ اس دور میں ہر بندہ پریشان حال ہے۔ بزرگ پریشان ہوں گے۔ اور یہ ہاکر ( پھیری والے) پندرہ منٹ سے شور مچارہا تھا۔ اور اب شور مچا رہا تھا کہ ہم لوگ اگر بسوں میں اس طرح مزدوری نہ کریں تو راتوں کو ڈاکے ہی ماریں گے۔ ہمارے پاس یہی آسر اہے ۔ ساتھ ساتھ بزرگ کے لیے غیر اخلا قی الفاظ کا استعمال بھی کر رہا تھااور آہستہ آہستہ بس میں پچھلے حصے کی طرف چلا گیا ۔ لیکن یہ شور مچاتا ہی رہا۔ باباجی نے کہا کہ چلیں، آپ سرمہ بیچیں۔ لیکن پندرہ، پندرہ منٹ تک ہمارا سکون غا رت نہ کریں۔ اپنے مال کی خو بی بتائیں قیمت بتائیں اور بیچ کر اپنی راہ لیں۔ لیکن وہ واقعی کوئی چرسی تھا بدتمیزی کرتارہا۔ ایک بار بابا جی اٹھ کر اس کی طر ف گئے بھی لیکن لو گوں نے منع کر دیا اور وہ بزرگ بیٹھ گئے۔ آخر کارپنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس سٹاپ پر وہ سرمہ فروش اتر گیا ۔ میں نے کنڈکٹر سے کہا۔ چاچا آپ ان جیسے لو گوں کو روکتے کیوں نہیں اس نے کچھ خاص جواب نہ دیا ۔ بہر حال وہ اُترتے اُترتے اس بزرگ کو فحش گالیاں دے کر اترا۔ باباجی پیچھے بھا گے بس چل دی۔ اور پھر کسی نے بس نہ روکی بزرگ واپس آکر بیٹھ گئے۔ بھیکے وال موڑ سے دو نو عمر لڑکے سوار ہوئے کرایہ نہ دیتے تھے۔ سٹوڈنٹ ہونے کا دعویٰ تھا ۔ لیکن نہر میں نہانے کے لباس میں تھے ۔کنڈکٹر چاچا اور نو جوان کنڈکٹر نے انہیں خو ب زود و کو ب کیا۔ وہ بھی پٹھان تھے۔ وہ بھی نہ اُترکردیے۔ آخر کار ایک آدمی نے ان کا کرایہ ادا کیا۔ میں نے نو جوان کنڈکٹر سے کہا کہ آپ اس طرح کا جو ش اس سُرمہ فروش کے سامنے کیوں نہیں دکھاتے تھے۔ جس نے عوام کا چین چھینا ہو اتھا۔ وہ بھی خامو شی سے گزر گیا ۔ میں نے دفتر میں کام کو عزیز سمجھا اور نماز جمعہ لیٹ کی ۔پھل فروش نے اپنے آم بیچنے کے لیے مسجد سے نکلتے ہوئے نمازیوں کو چُنا۔ سُرمہ فروش نے مسافروں سے بدتمیزی کی۔ بچوں نے چھٹی کے ٹائم کرایہ نہ دیا۔ کنڈکٹروں نے بھی کوئی رحم نہ کیا ہم سب پیسے کے، دولت کے اور جھوٹی انا کے غلام تھے۔ ہمارے ملک میں ایک بس سے کل 25سواریوں کو اتا ر کر مار دیا گیا۔ یہ صرف ایک فرقہ کے لوگ تھے جو مقتول تھے۔ مذہبی منافر ت کوہو ا ملے گی اور کامرہ ائیر بیس پر حملہ ہو ا۔ صدر صاحب او آئی سی کے اجلاس کے لیے مدینہ تھے۔ نواز شریف بھی ادھر ہی تھے۔ اللہ کرے وہ اس خیرو برکت والے شہر سے نیک نیتوں کے ساتھ واپس آئیں ۔ اللہ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے اور اپنی نیت میں اخلا ص لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 

جمعہ، 5 اکتوبر، 2012

عدل و انصاف

اسلام دین فطر ت ہے یہی انسانیت کا حقیقی خیر خواہ ہے اسلام ہی انسانی حقوق کا سچا علم بردار ہے اسلام ایک مکمل ضابطہ حیا ت ہے یہ زندگی گزارنے کے تمام طور طریقے سکھاتا ہے یہ صرف عبادات کا مجموعہ نہیں ہے اس کے نظام میں کہیں بھی کوئی خرابی موجو د نہیں ہے صدیوں پہلے ایک فلا سفر نے کہا تھا

 There is no Rule without power There is no power without army There is no army without agriculture and There is no agriculture without justice

ترجمہ: طاقت کے بغیر حکومت نہیں ، فوج کے بغیر طاقت نہیں ، زراعت کے بغیر فوج نہیں اور انصاف کے بغیر زراعت نہیں لیکن ہم کہتے ہیں کہ

There is no justice without Muhammad peace be upon him

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر انصاف ممکن ہی نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو انصاف سکھایا دنیا کا پہلا تحریری دستور میثاق مدینہ ہے اس سے پہلے کوئی تحریری دستور یا قانون موجود نہیں تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ شہر کے یہودیوں کو نہ صرف برابری کے حقوق عطا فرمائے بلکہ اس سے بھی زیادہ رعایت ان کو دی انصاف کے عالمی دعوے دار اس کی مثال پیش کرنے سے قیامت تک قاصر ہیں اور پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علھیم اجمعین نے خو د خلیفہ ہوتے ہوئے قاضی کی عدالت میں جاکر اپنے خلاف مقدمے کا سامنا کیا اور قاضی کے فیصلے کو من وعن قبول کیا اس طرح کے سلوک کو دیکھ کر کئی بار کئی یہودی اسلام لائے اسلام کی یہی مثالیں ان کے لیے ہدایت کا سر چشمہ ثابت ہوئیں
               عالمی جنگ دوم میں چر چل ونسٹن نے بھی جنگ کی خبر دینے والے کے جو اب میں کہا تھا کیا ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیں؟ اگر وہ ایسا کر رہی ہیں تو فتح ہماری ہو گی تاریخ کے ان حوالوں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انصاف کی اہمیت باقی تمام عوامل سے مقدم رہی ہے  وطن عزیز پاکستان اسلام کے نام پر معرضِ وجو د میں آیا لیکن جب انصاف نہ ہوا تو مشرقی پاکستان علیحدہ ہو گیا
              پہلے بھی جب انصاف نہ کیا گیا تھا تو ہلاکو خان وغیرہ کو خوارزم شاہی اور پھر بغداد پر حملہ کرنے کا موقع ملا دنیا میں جہاں جہاں جتنا بھی ظلم ہوا اس کی بنیادی وجہ انصاف سے رو گردانی رہی آج وطن عزیز میں پھر سے انصاف مفقود ہے اسمبلی میں، سینٹ میں، عدالت میں، جی ایچ کیو میں، صوبوں میں، میڈیا میں اور تعلیمی اداروں کہیں بھی تو انصا ف نظر نہیں آتا اقبال نے کہا تھا
گلہ تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا الہ لا اللہ
اس کی کمیابی کی بنیادی وجہ تعلیم و تربیت ہے ہماری قوم کی تعلیم و تربیت ان لو گوں کے ہاتھوں دے دی گئی جو مغرب کی تعلیمات کو فروغ دیتے ہیں ہمارے تربیت کرنے والے باطل مفکرین کے فلسفوں سے متاثر اور مر عوب ہیں وہ یورپ اور امریکہ کی چکا چوند کے معترف ہیں یعنی معاملہ کچھ یوں ہے کہ
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خو دی کو
ہو جائے ملا ئم تو جد ھر چاہے اُسے موڑ
یہ قوم بز عم خویش تعلیم حاصل کر کے بھی اسلامی تعلیمات سے ناآشنا ہے اور خاکم بدہن جاہل ہی ہے تو پھر انصاف کہاں سے آئے آج ہم بلو چستان سے انصاف نہیں کر رہے تو وہ بھی جو کچھ کر رہا ہے سب کے سامنے ہے ہمارا میڈیا رافعہ مرتضیٰ کو کوریج نہیں دے سکا جس نے 2008 میں آکسفورڈ کے امتحان اولیول میں دوسری پوزیشن سے کامیابی حاصل کی  پچھلے سال شاید 2011 میں بھی ایک پاکستانی بچے نے اسی امتحان میں یہی پوزیشن حاصل کی لیکن اس میڈیا کو بھارتی ثقافت کو فروغ دینے سے فرصت نہیں کشمیر کے ڈاکٹروں نے ایک بزرگ عورت کے دل کا وہ آپر یشن کامیاب طریقے سے کیا جو مغرب کے سائنس دان کرنے سے عاری تھے اور مائیکل جیکسن کے اسلام کرنے کی خبر نشر نہیں ہو سکتی تھی اُس کی تصدیق یا تردید کا پتہ نہیں چلا یہ تمام خبریں میں نے اخبارات کے صرف ایک انچ اور ایک کالم میں پڑھیں تو کیا خیال ہے ان حالات میں ہم قانون فطرت سے فرار حاصل کرلیں گے عافیہ صدیقی کے کیس نے امریکہ اور پاکستان کی عدالتوں کا چہر ہ بے نقاب کر دیا وہ گیارہ سالہ بچی آمنہ جس کو ا س کی کافرہ فرانسیسی ماں کے حوالے کر دیا گیا اور ریمنڈ ڈیوس کے معاملا ت نے تخت لاہور کی عدالتوں کا حقیقی چہرہ سامنے لا کر کھڑا کردیا۔ کیا ان معاملات پرسوموٹو ایکشن لینے والا کوئی عادل نہیں کوئی قاضی نہیں کوئی چیف جسٹس نہیں؟ افتخار چودھری کے گزشتہ پی سی او حلف کو یار لو گوں نے زمانہ جاہلیت قرار دے کر بر ی قرار دے دیا تو اب وہ کہاں کھڑے ہیں؟ 

اتوار کا دن ۔ عبدالغفار وکی

اتوار کا دن واقع ہی بہت خو شگوار ہو تا ہے ہر کسی کے چہرے پر ایک عجب سا سکون ہو تا ہے کیونکہ لاہور میں اکثر بلکہ عموما اتوار کی ہی چھوٹی ہوتی ہے اور یہ ہی وہ خاص دن ہو تا ہے باقی تمام دنوں سے جب تقریبا ہر کوئی ہر اپنے کام سے جس میں وہ مصروف زندگی بسر کرتا ہے فارغ ہو تا ہے اور دوستوں کے ساتھ تفریح، شورو غل اور اپنی مرضی کے مطابق اس دن سے فائدہ اور مزا حاصل کرتا ہے
عام لو گوں کی طرح میں بھی بالکل اسی طرح خو شگوار مو ڈ میں اپنے بستر سے اٹھا، خاص اس دن میں اپنا ٹائم ٹیبل بناتا ہو ں کہ اس دن فلا ں دوست کو اتنا وقت دینا ہے اور اس کے بعد دوسرے دوست کو بالکل اس طرح بھائی کے ساتھ ٹائم فکس کیا کہ صبح 10 سے 12 بجے تک ان کے ساتھ جاؤں گا ان کے دوستوں سے ملنے کیونکہ وہ اکیلے نہیں جاسکتے تھے بوجہ ان کی بازو کی ہڈی فیکچر ہوئی تھی اور وہ موٹر سائیکل نہیں چلا سکتے تھے ناشتہ وغیرہ کرنے کے بعد اپنے بھائی کے گھر گیا اور ان کے بچوں کے ساتھ کھیلا۔ لیکن صبح اٹھتے ہی ان کا موڈ آف تھا۔ انھوں نے کہا ہمیں کہیں نہیں جانا وہ وقت باکل فارغ تھا۔ میرے لیے اس کے علا وہ ظہر کی نماز سے پہلے کا وقت ہندی صاحب کے ساتھ ان کے استاد نعیم قیصر کی والدہ کے چالیس ویں پر جانا تھا ۔ لیکن ان کا فون وقت سے پہلے ہی آگیا اور میں وہاں چلا گیا جب میں ان سے ملاتو ان کے ساتھ میرے کالج کا دوست زاہد اور نوید تھے ۔ نعیم قیصر کے گھر پہنچے چالیسویں کا ختم ایک گورنمنٹ سکو ل میں تھا۔ وہاں پہنچ کر ہم نے کھجور کی گھٹلیوں پر پہلے کلمے کا ورد کیا اسی دوران میں نماز ظہر کا ٹائم ہو گیا ہم نے نماز ظہر سکول سے کچھ فاصلے پر مسجدمیں ادا کی۔ نماز کے بعد واپس سکول پہنچے۔ اور وہاں آکر میرے کالج کے دوست زاہد نے نعت پڑھی اس کے بعد ہندی صاحب نے بیان کیا اس کے بعد ختم پڑھ دیا گیا ختم کے بعد پھل پیش کیا گیا اور اس کے بعد بریانی کھائی گئی پھر ہم مٹر گشت کرنے اور اتوار کے دن کا مزہ لینے کے لیے مقبرہ جہانگیر کی طر ف نکلے مقبرہ میں سیر کی اور بوتل او ر بسکٹ کھائے پھر واپس نکلے مقبرہ میں ہم (زاہد اور میں) نے بہت شرارتیں کیں اس دوران میں نے ان کو مقبرہ کے ۲کنویں دِکھائے جن کے اب بس نشان باقی ہیں پھر ہم واپسی کے لیے نکلے اور راستے میں شلجم کھائے جن کے پیسے ہندی صاحب نے اد اکیے۔ شلجم کھاتے ہوئے ہم نے ریلوے لائن پر تھوڑا سا چلنا شروع کیا ریلوے لائن جوکہ نعیم قیصر کے گھر اور مقبرہ کے درمیان میں تھی۔ اس دوران نوید نے ایک جملہ ادا کیا کہ آج کا دن واقعی میرے لیے یاد گار ہو گیا ۔ کیونکہ اس نے پہلی بارٹرین کو اتنی قریب سے گزرتے ہوئے دیکھا تھا۔ پھر ہم نعیم قیصر کے گھر گئے اور ان کے ساتھ گپ شپ کی تقریبا ۷ بجے کے قریب وہاں سے نکلے اور کالج کے ہو سٹل کی طرف روانہ ہوئے جہاں زاہد رہتا تھا ۔ لیکن میں نے ۸ بجے کا ٹائم ایک دوست سے طے کیا تھا۔ اس لیے ان کے ساتھ ہاسٹل نہیں گیا لیکن داتا دربار تک ایک ہی رکشہ میں گئے وہ لو گ دربار اترے اور میں انارکلی چلا گیا وہاں میرا دوست رہتا تھا جسے ہم neaca کہتے ہیں  میں جب وہاں پہنچا تو وہاں ۲ اور دوست تھے۔ مل کر کھانا کھایا اور اس کے بعد میں گھر کی طر ف روانہ ہو گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: عبدالرزاق ہندی صاحب میرے استاد بھی ہیں اور بہت اچھے دوستوں میں بھی شمار ہوتے ہیں ان کوہندی صاحب میرے کچھ دوست کہتے تھے ۔ کیونکہ انھوں نے ہندی کا ڈپلو مہ کیا تھا
نعیم قیصر: ایک بہت ہی اچھے شاعر ہیں جو کہ آسمان پر ایک ستارے کی طرح ابھرے اور دیکھتے ہی دیکھتے چاند کی طرح روشن ہو گئے