اتوار کا دن واقع ہی بہت خو شگوار ہو تا ہے ہر کسی کے چہرے پر ایک عجب سا سکون ہو تا ہے کیونکہ لاہور میں اکثر بلکہ عموما اتوار کی ہی چھوٹی ہوتی ہے اور یہ ہی وہ خاص دن ہو تا ہے باقی تمام دنوں سے جب تقریبا ہر کوئی ہر اپنے کام سے جس میں وہ مصروف زندگی بسر کرتا ہے فارغ ہو تا ہے اور دوستوں کے ساتھ تفریح، شورو غل اور اپنی مرضی کے مطابق اس دن سے فائدہ اور مزا حاصل کرتا ہے
عام لو گوں کی طرح میں بھی بالکل اسی طرح خو شگوار مو ڈ میں اپنے بستر سے اٹھا، خاص اس دن میں اپنا ٹائم ٹیبل بناتا ہو ں کہ اس دن فلا ں دوست کو اتنا وقت دینا ہے اور اس کے بعد دوسرے دوست کو بالکل اس طرح بھائی کے ساتھ ٹائم فکس کیا کہ صبح 10 سے 12 بجے تک ان کے ساتھ جاؤں گا ان کے دوستوں سے ملنے کیونکہ وہ اکیلے نہیں جاسکتے تھے بوجہ ان کی بازو کی ہڈی فیکچر ہوئی تھی اور وہ موٹر سائیکل نہیں چلا سکتے تھے ناشتہ وغیرہ کرنے کے بعد اپنے بھائی کے گھر گیا اور ان کے بچوں کے ساتھ کھیلا۔ لیکن صبح اٹھتے ہی ان کا موڈ آف تھا۔ انھوں نے کہا ہمیں کہیں نہیں جانا وہ وقت باکل فارغ تھا۔ میرے لیے اس کے علا وہ ظہر کی نماز سے پہلے کا وقت ہندی صاحب کے ساتھ ان کے استاد نعیم قیصر کی والدہ کے چالیس ویں پر جانا تھا ۔ لیکن ان کا فون وقت سے پہلے ہی آگیا اور میں وہاں چلا گیا جب میں ان سے ملاتو ان کے ساتھ میرے کالج کا دوست زاہد اور نوید تھے ۔ نعیم قیصر کے گھر پہنچے چالیسویں کا ختم ایک گورنمنٹ سکو ل میں تھا۔ وہاں پہنچ کر ہم نے کھجور کی گھٹلیوں پر پہلے کلمے کا ورد کیا اسی دوران میں نماز ظہر کا ٹائم ہو گیا ہم نے نماز ظہر سکول سے کچھ فاصلے پر مسجدمیں ادا کی۔ نماز کے بعد واپس سکول پہنچے۔ اور وہاں آکر میرے کالج کے دوست زاہد نے نعت پڑھی اس کے بعد ہندی صاحب نے بیان کیا اس کے بعد ختم پڑھ دیا گیا ختم کے بعد پھل پیش کیا گیا اور اس کے بعد بریانی کھائی گئی پھر ہم مٹر گشت کرنے اور اتوار کے دن کا مزہ لینے کے لیے مقبرہ جہانگیر کی طر ف نکلے مقبرہ میں سیر کی اور بوتل او ر بسکٹ کھائے پھر واپس نکلے مقبرہ میں ہم (زاہد اور میں) نے بہت شرارتیں کیں اس دوران میں نے ان کو مقبرہ کے ۲کنویں دِکھائے جن کے اب بس نشان باقی ہیں پھر ہم واپسی کے لیے نکلے اور راستے میں شلجم کھائے جن کے پیسے ہندی صاحب نے اد اکیے۔ شلجم کھاتے ہوئے ہم نے ریلوے لائن پر تھوڑا سا چلنا شروع کیا ریلوے لائن جوکہ نعیم قیصر کے گھر اور مقبرہ کے درمیان میں تھی۔ اس دوران نوید نے ایک جملہ ادا کیا کہ آج کا دن واقعی میرے لیے یاد گار ہو گیا ۔ کیونکہ اس نے پہلی بارٹرین کو اتنی قریب سے گزرتے ہوئے دیکھا تھا۔ پھر ہم نعیم قیصر کے گھر گئے اور ان کے ساتھ گپ شپ کی تقریبا ۷ بجے کے قریب وہاں سے نکلے اور کالج کے ہو سٹل کی طرف روانہ ہوئے جہاں زاہد رہتا تھا ۔ لیکن میں نے ۸ بجے کا ٹائم ایک دوست سے طے کیا تھا۔ اس لیے ان کے ساتھ ہاسٹل نہیں گیا لیکن داتا دربار تک ایک ہی رکشہ میں گئے وہ لو گ دربار اترے اور میں انارکلی چلا گیا وہاں میرا دوست رہتا تھا جسے ہم neaca کہتے ہیں میں جب وہاں پہنچا تو وہاں ۲ اور دوست تھے۔ مل کر کھانا کھایا اور اس کے بعد میں گھر کی طر ف روانہ ہو گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: عبدالرزاق ہندی صاحب میرے استاد بھی ہیں اور بہت اچھے دوستوں میں بھی شمار ہوتے ہیں ان کوہندی صاحب میرے کچھ دوست کہتے تھے ۔ کیونکہ انھوں نے ہندی کا ڈپلو مہ کیا تھا
نعیم قیصر: ایک بہت ہی اچھے شاعر ہیں جو کہ آسمان پر ایک ستارے کی طرح ابھرے اور دیکھتے ہی دیکھتے چاند کی طرح روشن ہو گئے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں