انیسویں صدی کے وسط سے یہودی نے عالمی صحافت کو اپنے زیر نگیں کیا اور عالمی سطح پر اسے ایک مضبوط ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اسلحے کے زور پر لڑی جانے والی جنگیں میڈیا کے ذریعے جیتی جانے لگیں جس طرح 1965 میں بی بی سی ریڈیو نے لاہور پر بھارتی حملے کی افواہ اُڑا کر میدان جنگ کا نقشہ بدلنے کی ناکام کوشش کی اس طرح کی مثالیں درجنوں کی تعداد بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں مثلا 1969 کو امریکی سائنس دانوں کا چاند پر قدم رکھنے کا جھوٹا دعویٰ جو ہالی وڈ کی ایک جھوٹی ڈاکو منٹری تھی2001 میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کا جھوٹا پرو پیگنڈا یہ سب میڈیا کو استعمال کرکے رات کو دن ثابت کرنے کی کوششیں تھیں جو بہر حال آخر کار بے نقاب ہوئیں اسی طرز پر مسلمان ملکوں کی حکومتوں میں رد و بدل اور چلے ہوئے کارتوسوں کی جگہ تازہ دم غداروں کی وافر فراہمی میں میڈیا کا کردار نمایاں ہے یہ علیحدہ بحث ہے کہ جدید میڈیا سے ہمیں فوائد کتنے حاصل ہوئے یہاں صرف میڈیا کے شعبہ سے وابستہ کالی بھیڑوں کا تذکرہ زیر بحث ہے مسلمانوں کی ایمانی غیرت پر ہونے والے حملوں میں مغربی میڈیا سے وابستہ افراد پیش پیش تھے اور مسلمانوں کے ردعمل کو تعصب کی عینک سے دکھانے والا پاکستانی میڈیا اپنے بکاؤ مال ہونے کا بین ثبوت دیتا رہا ہمیں آج تک طالبان کی سمجھ نہیں آئی ذمہ داری کون قبول کرتا ہے؟ کیسے نشر ہوتی ہے؟ اس کا سدباب کیسے ممکن ہے؟ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ اگر طالبان کہانی اور اُسامہ ڈرامہ سچ ہیں تو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا ہمسایہ پینٹا گون کیوں محفوظ ہے؟ ان کی خبروں کو نشر کرنے والے کون ہیں ؟ اگروہ واقعی انسانیت کے لیے خطرہ ہیں تو ان کو اتنی شہہ کیوں دی جارہی ہے؟ ان کے ذمہ داران کو جب پکڑ لیا جاتا ہے تو پھر وہ کیس منظر سے غائب کیوں ہو جاتا ہے؟ ان کے پس منظر میں کون سی سپر پاور ہے؟ بہر حال اس طرح کے ہزاروں سوالات جواب طلب ہیں اب معاملہ سامنے آیا اسلام میں خواتین کی تعلیم کا اگر یہ تعلیم اسلامی اور تربیت بھی اسلامی ماحول میں ہے تو یہ ہر گز غلط نہیں لیکن یہ تو ہم سب کو معلوم ہے کہ اگر یہ تعلیم کفار کی پروردہ ہے اور مادر پدر آزاد نظام کو جنم دینے کے لیے کوشاں ہے تو وہ غلط اور حرام ہے چاہے وہ ہمارے گھر کی بچیاں ہی کیوں نہ حاصل کر رہی ہوں اب اگر کوئی یہ کہے کہ یہ چادر اور چار دیواری والا دین پرانا ہو گیا ہے تو وہ جاکے اپنی عقل کا علاج کروائے کیونکہ کہ وہ یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ وہ خود بھی تو اس دین کو سائبان بنا کر پناہ ڈھونڈ رہا ہے اور انحراف بھی اسلامی ابدی قانون قرآن مجید کی نص سے کر رہا ہے یہ صریحاً زیادتی ہے انسانیت کے ساتھ ظلم ہے اور خو د کو دھوکا دینے والی بات ہے کیا اب ان طالبان کے ظلم کا بہانہ بنا کر اور مغربی کافر میڈیا کے جھانسے میں آ کر ہم مادر پدر آزاد نظام تعلیم کو درست قرار دے دیں؟ اور قوم کو جہالت کے اندھیرے سے نکالنے کے نام پر جدیدیت کے عفریت کے حوالے کر دیں؟ طالبان کا معاملہ سیاسی یا عسکری ہے ان کے نام کو سہارا لے کر اسلام کی شریعت کو نہیں جھٹلا یا جاسکتا ان سے نمٹنا سیاسی سطح کا مسئلہ ہے لیکن ا ن کانام لے کر اپنی رعایا کو گولیوں اور میزائلوں سے تباہ کردینا کہاں کا انصاف ہے ناسور کو کاٹنے کی بجائے پورا پورا عضو ہی کاٹنے کی تیاری کی جارہی ہے تعلیم کے نام پر الحاد اور مغربیت کو پروان چڑھانے کا فریضہ سرانجام دیا جارہا ہے قوم کو آپس میں دست و گریباں کرانے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف فتوے حاصل کیے جارہے ہیں فرد واحد کے معاملے کو قوم کا مسئلہ بتاکر باقی مظالم سے چشم پوشی کی جارہی ہے آج میڈیا کو کراچی کی صور ت حال پر نظرڈالنے کی فرصت کیوں نہیں جب کہ 21 ستمبر 2012 کو یوم عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے حوالے سے مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے تو ایڑھی چوٹی کا زور لگایا جارہا تھا خدارا! اس قوم کو مزید مایوسی کی دلدل میں نہ دھکیلا جائے ان کی تعلیم و تربیت اسلامی خطوط پر کرکے ان کو غیور اور باہمت قوم بننے کا درس دیا جائے جنگجو تنظیموں کے بہانے اسلامی احکامات سے روگردانی نہ کی جائے لیکن اس سب کے لیے درست فکر کہاں سے آئے گی؟ اس سوال کا جواب ہے
کتابوں سے نہ کالج کے ہے در سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
اگر اقبال کے بعد اُن سے بڑا کوئی فلسفی آیا ہے تو وہ مسلم قوم کو بتائے کہ کالج میں بچیوں کو بھیجانا ضروری ہے یاخود دین کے بزرگوں سے دین سیکھ کر اُسے اپنی بچیوں کو سکھانا ضروری ہے بچیوں کی تعلیم و تربیت گھر میں ہی ہونی چاہیے ان کی والدہ سے بڑی بہن سے، بھائی یا والد سے یاکسی عزیز نیک پردہ دار خاتون سے۔ اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے یہ فلا ح کا راستہ ہے ورنہ جو رستہ ہم اپنانے جارہے ہیں وہ تباہی کا ہے اس میں بدبو دار جھاڑیا ں ہیں ان میں کانٹے ہی کانٹے ہیں ناکامی ہی ناکامی ہے اندھیرا ہی اندھیرا ہے ظلمت ہی ظلمت ہے اسلام نے عورتوں کو پردہ کرنے کا حکم دیا ہے اور مر دوں، عورتوں دونوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم سُنا یا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ پردہ تو دل کا ہو تا ہے تو ان سے گزارش ہے کہ دل کی بات پر عمل بھی کریں ورنہ منافقت ہے مغرب نے سمجھ لیا کہ ہم نے مسلمانوں کو فکری طورپر اتنا مفلوج کر دیا ہے کہ یہ اب دوبارہ کھڑے نہیں ہو سکتے یہ اُس کی بھول ہے وہ آج اور دس سال پہلے کے حجاب اور پردے کے رحجان اور عمل اور ردعمل میں نمایاں فرق کو دیکھ سکتا ہے اور مسلمانوں میں دین کے جذبے میں مزید نکھار دیکھ سکتا ہے حق تو یہ ہے کہ معصوم بچوں پر ظلم و تشدد کرنے والوں اور کروانے والوں پر بھی خدا کی مار ہو اور ان کی آڑ لے کر بے حیائی کو فروغ دینے کا خواب دیکھنے والوں پر بھی اللہ عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں