ہمارا خطہ برصغیر (پاک وہند) ہے جب یہاں برے حکمرانون جو تمام قسم کی عیاشیوں میں مست تھے دولت نے جنہیں فرائض منصبی سے غافل کر دیا تھا ان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کا غلبہ ہو گیا۔ انگریزوں نے پہلے سے ان کے بارے میں تفصیلی مطالعہ کررکھا تھا۔ ہندو تو پہلے دن سے انگریز کے وفاداروں میں شامل ہوگئے کیونکہ وہ کسی آقا کی منشی گیری کرکے ہی اپنی دھونس جما لینا کافی سمجھتے تھے جب کہ مسلمانوں کے بارے میں انگریزوں کی پہلے ہی سے رپورٹ یہ تھی کہ یہ اپنے ہر بچے کو اس قدر تعلیم دیتے ہیں کہ وہ عظیم سلطنت برطانیہ کا وزیر اعظم بننے کے قابل ہوتا ہے فرق صرف زبان کا تھا ورنہ تعلیم کا معیار مسلمانوں کا اعلیٰ تھا پہلے پہل انگریز نے چند تعلیمی پالیسیاں نافذ کرکے دیکھیں نا تو کوئی خاص نتیجہ برآمد ہوا اور نہ ہی مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کو ختم کیا جاسکا پھر لارڈ میکالے اپنی ایک تجویز ساتھ لے کر آیا تجویز یہ تھی کہ ان کو انگریزی زبان میں مغربی تعلیم دی جائے جو مسلمانوں کی آئندہ نسلوں کو مادر پدر آزاد سوچ فراہم کرنے میں معاون ثابت ہو چنانچہ ایسا ہی کیا گیا انسویں صدی کے آغاز میں اور بعد میں اسلامی تحریکوں کی بدولت 1857میں جنگ آزادی ہوئی جس میں دینی جامعات سے پڑھے لکھے علماء نے انگریزوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا پھر انگریزوں نے اکبر بادشاہ کی لادینی سوچ کے حامل افراد کو چن چن کر غداری کے لیے منتخب کیااور دین کے علماء کو شہید کر دیا ان کو دور دراز جزیروں میں تاحیات قید کردیا نئے غداروں کے تعاون سے انگریزی نظام تعلیم کو فروغ دیا اور نام نہاد دینی مدرس کا افتتاح کر کے مسلم قوم و ملت کو تنزلی کے گڑھے میں دھکیلنے کا منصوبہ بنایا انگریزی تعلیم یافتہ مسلمان طبقہ شراب نوشی اور دیگر اخلاقی برائیوں کا عادی ہوا جبکہ بدمذہب مدرسوں سے فارغ التحصیل افراد دین کی ضروریات سے منکر ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمراہی میں چند مخلص لو گوں نے مل جل کر ایک مسلم ریاست پاکستان کو تشکیل دیابعد میں تعلیمی اور انتظامی امور اُسی لاد ین طبقے کے ہاتھ میں رہے جبکہ بدمذہب فرقوں کے علماء کئی بار شراب اور کبا ب کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے اب ان تعلیمی اداروں سے نوکری کے رسیا اور کرپٹ افراد پڑھ لکھ کر فارغ ہوتے گئے اور پاکستان کی حکومتوں اور اقتدارکا حصہ بنتے گئے رشوت روز مرہ کا معمول بنتی چلی گئی اور نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ لو گ گھر سے رشوت کے تمام لوازمات پورے کرکے دفتروں کا رُخ کرنے لگے آج حال یہ ہے کہ ایک سو کے قریب ملکی ٹی وی چینل موجود ہیں جوکہ کفار کی فکر کو معاشرے میں پروان چڑھا رہے ہیں اور رہی سہی کسر پوری کر رہے ہیں عالَم کفر کی جانب سے ایک گستاخانہ فلم شائع ہوئی تو اُس کے رد عمل میں احتجاج کو توڑ پھوڑ کی شکل دینے کے لیے انہی لو گوں کا سہارا لیا گیا جو اس معاملے میں تربیت یافتہ تھے
لارڈ میکا لے نے جو تصور دو صدیاں پہلے دیا تھا کہ یہاں کے باشندوں کے ذہن ایسے بننے چاہیں کہ وہ اندرسے انگریز ہوں آج اُ س کی تعبیر ہمارے سامنے ہے اُسی فکر کے پرودہ لو گوں نے توڑ پھوڑ کرے کے دینی مظاہروں کو بد نام کرنے کی سازش کی اور میڈیا نے بھی اُس کو منظر عام پر لانے کی ذمہ داری نبھائی اس ملک کی بدترین انتظامیہ کا حال یہ ہے کہ انہوں نے آج تک انٹر نیٹ پر یوٹیوب کو امریکی انتظامیہ سے رجسٹرڈ نہیں کروایا ہو ا تھا تب عوام کے مطالبے پر یوٹیو ب کو بند کردیا گیا ۔ لیکن اُس کو رجسٹرڈ کروا کے اور گستاخانہ فلم کو بند کر وا کے اس لیے دوبار ہ نہیں چلا یا گیا۔ کہ نوجوان نسل کو حقائق سے آگاہی نہ ہو۔ اور دینی قوتوں کی طرف رد عمل کو سامنے نہ لایا جاسکے ۔ اگر اس ملک کی انتظامیہ اچھی ہوتی تو وہ جنسی انار کی پھیلانے والی ویب سائٹس کو بند کروا کے بھی تو ملک و قوم کی خدمت کر سکتی تھی لیکن یہ کافر کے غلا م اس قوم کو گناہوں کی دلدل میں دھنسانے کے انتظامات مکمل کر رہے ہیں لیکن حقیقت صورت حال سے دور رکھنے کے لیے یو ٹیوب کا معاملہ حل کرنے کو تیار نہیں یہ کس قدر گھٹیا سوچ کے انسان ہیں جن کے ہاتھوں میںیہ ملک ہے ۔ جو انتظامی امور میں اتنی بڑی خیانت کر رہے ہیں کیا یہ بدترین انتظامیہ نہیں کیا یہ اب بھی حکمرانی کے حق دار ہیں؟ کیا یہ انسان ہیں ۔کیا یہ مسلمان ہیں؟ یا لا رڈ میکالے کے غلام!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں