آج جمعتہ الوداع ۲۸ رمضان المبارک ۱۴۳۳ ہجری ہے اور شمسی لحاظ سے 17 اگست 2012 ہے میں آج دفتر سے واپسی کے لیے ڈیڑھ بجے کے بعد نکلا۔ یعنی آخری کلاس ایک بج کر تیس منٹ کے بعد ہی ختم ہو ئی تھی۔ عید کی چھٹیوں کی معلومات اور دیگر معاملا ت میں تیاری کرنے پونے دو بج گئے۔ ہماری قریبی جامع مسجد میں جمعہ کی دوسری اذان کا وقت بھی پونے دو تھا۔ میں نے سوچا کہ آج اپنے محلے میں جاکر جامعہ رسولیہ شیرازیہ میں نماز جمعہ ادا کرلوں گا کیونکہ وہاں دیر سے ہوتا ہے۔ جب میں بس سٹاپ پر پہنچ رہا تھا تو ایک پھل فروش ریڑھی بان نے مجھ سے جامع مسجد کا نما ز جمعہ کا شیڈول پو چھا۔ میں نے کہا اذان تو ہوگئی اب تو خطبہ ہو رہا ہے وہ جلدی میں تیار نظر آیا۔ میں نے سو چا اب وہ کیسے نماز میں شامل ہو گا اور ریڑھی کا نگہبان کون ہو گا۔ ( گدھا گاڑی تھی اسے ہم عرف عام میں ریڑھی کہتے ہیں ) اس نے ریڑھی کے پہیوں کے نیچے سے اینٹیں نکالیں اور کہنے لگا ٹھیک ہے پھر اُدھر جاکر بیچتا ہوں کچھ تو بک جائیں گے مجھے تب سمجھ میں بات آئی کہ وہ نماز کے لیے نہیں بلکہ آم بیچ کر پیسے کمانے کے لیے بے تاب تھا بس میں داخل ہوا۔ ایک لڑکا کا جو کہ چرس کا نشئی سا لگتا تھا۔ بڑی بدتمیزی سے اپنی پراڈکٹ کا ریٹ بتانے کا دعویٰ کر رہا تھا دراصل وہ سرمہ فروش تھا۔ جو بس میں بیس روپے فی شیشی سرمہ بیچنا چاہتا تھا۔ میرے سوار ہونے سے پہلے ایک بزرگ میاں نے اُسے اونچی آواز میں بولنے سے منع کیا تھا۔ چونکہ اس دور میں ہر بندہ پریشان حال ہے۔ بزرگ پریشان ہوں گے۔ اور یہ ہاکر ( پھیری والے) پندرہ منٹ سے شور مچارہا تھا۔ اور اب شور مچا رہا تھا کہ ہم لوگ اگر بسوں میں اس طرح مزدوری نہ کریں تو راتوں کو ڈاکے ہی ماریں گے۔ ہمارے پاس یہی آسر اہے ۔ ساتھ ساتھ بزرگ کے لیے غیر اخلا قی الفاظ کا استعمال بھی کر رہا تھااور آہستہ آہستہ بس میں پچھلے حصے کی طرف چلا گیا ۔ لیکن یہ شور مچاتا ہی رہا۔ باباجی نے کہا کہ چلیں، آپ سرمہ بیچیں۔ لیکن پندرہ، پندرہ منٹ تک ہمارا سکون غا رت نہ کریں۔ اپنے مال کی خو بی بتائیں قیمت بتائیں اور بیچ کر اپنی راہ لیں۔ لیکن وہ واقعی کوئی چرسی تھا بدتمیزی کرتارہا۔ ایک بار بابا جی اٹھ کر اس کی طر ف گئے بھی لیکن لو گوں نے منع کر دیا اور وہ بزرگ بیٹھ گئے۔ آخر کارپنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس سٹاپ پر وہ سرمہ فروش اتر گیا ۔ میں نے کنڈکٹر سے کہا۔ چاچا آپ ان جیسے لو گوں کو روکتے کیوں نہیں اس نے کچھ خاص جواب نہ دیا ۔ بہر حال وہ اُترتے اُترتے اس بزرگ کو فحش گالیاں دے کر اترا۔ باباجی پیچھے بھا گے بس چل دی۔ اور پھر کسی نے بس نہ روکی بزرگ واپس آکر بیٹھ گئے۔ بھیکے وال موڑ سے دو نو عمر لڑکے سوار ہوئے کرایہ نہ دیتے تھے۔ سٹوڈنٹ ہونے کا دعویٰ تھا ۔ لیکن نہر میں نہانے کے لباس میں تھے ۔کنڈکٹر چاچا اور نو جوان کنڈکٹر نے انہیں خو ب زود و کو ب کیا۔ وہ بھی پٹھان تھے۔ وہ بھی نہ اُترکردیے۔ آخر کار ایک آدمی نے ان کا کرایہ ادا کیا۔ میں نے نو جوان کنڈکٹر سے کہا کہ آپ اس طرح کا جو ش اس سُرمہ فروش کے سامنے کیوں نہیں دکھاتے تھے۔ جس نے عوام کا چین چھینا ہو اتھا۔ وہ بھی خامو شی سے گزر گیا ۔ میں نے دفتر میں کام کو عزیز سمجھا اور نماز جمعہ لیٹ کی ۔پھل فروش نے اپنے آم بیچنے کے لیے مسجد سے نکلتے ہوئے نمازیوں کو چُنا۔ سُرمہ فروش نے مسافروں سے بدتمیزی کی۔ بچوں نے چھٹی کے ٹائم کرایہ نہ دیا۔ کنڈکٹروں نے بھی کوئی رحم نہ کیا ہم سب پیسے کے، دولت کے اور جھوٹی انا کے غلام تھے۔ ہمارے ملک میں ایک بس سے کل 25سواریوں کو اتا ر کر مار دیا گیا۔ یہ صرف ایک فرقہ کے لوگ تھے جو مقتول تھے۔ مذہبی منافر ت کوہو ا ملے گی اور کامرہ ائیر بیس پر حملہ ہو ا۔ صدر صاحب او آئی سی کے اجلاس کے لیے مدینہ تھے۔ نواز شریف بھی ادھر ہی تھے۔ اللہ کرے وہ اس خیرو برکت والے شہر سے نیک نیتوں کے ساتھ واپس آئیں ۔ اللہ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے اور اپنی نیت میں اخلا ص لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں