ہمارا دفتر برکت مارکیٹ کے علاقے میں اپریل کے مہینے کے آغاز میں منتقل ہوا تو تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ پیچھے والی مارکیٹ کی چھوٹی سڑک توڑ پھوڑ کا شکار ہوگئی۔ کئی ماہ تک ذلیل و خوار ہوتے رہے ۔ بالآخر جو ن کے اواخر میں سڑ ک دوبارہ تعمیر ہوگئی پھر انہی سیاست دانوں نے خود ہی بینرز چھپوا کر اپنی تعریف و تو صیف اور شکریے کے ڈونگر ے خود اپنے آپ پر برسانے شروع کر دیے جنہوں نے اس قومی خدمت میں حصہ لیا تھا۔ جولائی میں ابھی ان کے بینروں پر لکھے ہوئے الفاظ کی روشنائی بھی پھیکی نہ پڑی تھی کہ ایک صبح میں کوئی چیز خریدنے کے لیے مارکیٹ گیا اور دیکھا کہ وہاں مزدور اس نئی نویلی سڑک کو پھر سے اکھاڑ رہے ہیں کوئی نیا منصوبہ زیر مکمل تھا ۔ مجھے دلی طور پر انتا دکھ اور صدمہ ہوا کہ ابھی کل تک تو یہ سڑک بن رہی تھی۔ اور آج پھر خیال آیا کہ یہ غریب غرباء کے ٹیکس سے بننے والی سڑک پر لگے ہوئے پیسوں کا دکھ کسے؟ کیوں کہ امیر امراء تو ٹیکس دیتے ہی نہیں۔ انہوں نے تو ٹیکس محکمہ والوں کی ’’منتھلی‘‘ مقرر کر رکھی ہو گی یا پھر ٹیکس محکمے میں انہیں کے عزیز و اقرباء ملازم ہوں گے اس مارکیٹ میں تمام دوکان دار، مزدور اپنا اپنا کام بخوبی سر انجام دے رہے تھے۔ انہیں اس دوہری کھدائی کا کوئی ہوش نہ تھا۔
دنیا میں قتیلؔ اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا