اتوار، 25 نومبر، 2012

تخلیق انسان و مسئلہ ارتقاء 08

رہنمائے زندگی۔ جلد اول ۔ تخلیق کائنات و ارتقاء انسان ملک زوار حسین



آٹھویں قسط
ہو مو سپی نیس کی چند قسمیں قرار دی گئی ہیں جن میں سے دو نیندر تھل اور کر ومیگن انسان تو ختم ہو گئے ہیں مگر اس سلسلے کا تیسرا نمائندہ جدید انسان باقی ہے اس اعتبار سے آج سوائے موجودہ انسان کے خاندان کی کوئی بھی نوع یا جدید انسان کا کوئی بھی مورث اعلیٰ باقی نہیں رہ گیا ہے ۔ لہذا اس موقع پر ذہین انسان کے د و نا پید قسموں کا مختصر اَ تذکرہ کیا جارہا ہے ۔
نیندر تھل انسان :
نیندر تھل کا نام وادی نیندر سے ماخوذ ہے جو مغربی جرمنی کے ایک مقام سے قریب واقع ہے جہاں پر انسانی ڈھانچے کے بچے کچھے آثار کا انکشا ف پہلی بار ۱۸۵۲ء میں ہو ا تھا ۔ اس بنا پر اس کو نیندر تھل انسان کے نام سے مو سوم کر دیا گیا ہے ۔ نیندر تھل انسان یورپ کے بیشتر علاقوں کے علاوہ بحیرہ روم کے اطراف و اکناف میں یخ بستگی کے شدید اور آخری دور میں زمین پر آج سے تقریبا ایک لاکھ دس ہزار سال پہلے نمودار ہوا وہ مضبوط جسم کے انسان تھے اور ان کا قد اوسطا 5.5فٹ تھا ۔ ان کے دماغ بڑے سائز کے تھے اوروہ پتھر کے بہت اچھے اوززار بناتے تھے جن کے ساتھ وہ شکار بھی کرتے تھے ۔ اور وہ آگ کا استعمال بھی جانتے تھے اور بغیر کسی شک وشبہ کے مذہب کے ساتھ لگاؤ رکھتے تھے اور اپنے مرُ دوں کو بڑے اہتمام کے ساتھ زمین میں دفن کرتے تھے جس سے اس بات کا گمان ہو تا ہے کہ وہ مو ت کے بعد زندگی کا تصور رکھتے تھے ۔ ان کی عورتیں گھروں میں رہتی تھیں اور مرد شکار کے لئے نکلتے تھے اور یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اس دور میں مر د اور عورتوں کے درمیان لباس میں فر ق و امتیاز ظاہر ہوا۔
یور پ میں حجری دور کا کلچر تقریبا ۲۵ ہزار سال پہلے دفعتا غائب ہو گیا اور نیندر تھل انسان کی جگہ کر ومیگن انسان نے لے لی ۔ نیندر تھل انسان اچانک اور دفعتا روئے زمین سے کس طرح غائب ہو گیا یہ ایک ایسا معمہ ہے جواب تک حل نہیں ہو سکا اور اس کا صحیح حل اب تک سامنے نہیں آیا ۔
کرو میگن انسان :
ہو مو سپی نینس یا ذہن انسان کا دوسرا نمائندہ کر ومیگن انسان مانا جاتا ہے اور یہ نام اس بنا پر دیا گیا ہے کیونکہ فرانس کی جس غار میں پہلی مرتبہ ۱۸۶۸ء کے نمونے ملے تھے اس کا نام کرو میگن تھا اور ایک اندازے کے مطابق ان کا ظہور کوئی ۳۵ ہزار سال قبل از مسیح ہو ا جب کہ پتھر کا زمانہ ( حجری اوزار کے اعتبار سے ) ترقی اور عروج پر تھا ۔ کر ومیگن لو گوں کے سرلمبے ، پیشانیا ں چھوٹی ، چہرے بہت چوڑے ، آنکھیں گہرائی میں اور کا سۂ سر کی گنجائش ۱۶۰۰ مکعب سینٹی میٹر تھی ان کے قد لمبے تھے او ان کا دور انداز ۳۵ ہزار سے لے کر ۱۰ ہزار قبل از مسیح تک تھا ۔ کر ومیکن انسان موجو دہ انسان سے قدرے مختلف تھے اور گروہ کی شکل میں رہتے تھے ۔ خانہ بدوش قبیلے غذا کی تلا ش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ گھومتے تھے ۔ کر ومیگن انسان کا اچانک غائب ہو جانا ایک پیچدہ سوال ہے تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ کرو میگن نسل مابعد کی یور پین آبادیوں میں جذب ہو گئی مگر اس کے برعکس یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نیندر تھل انسان ہی کی طرح کر ومیگن انسان بھی ناپید ہو گیا ۔
انسانی ارتقاء کی گم شدہ کڑی :
برکلے یو نیورسٹی آف کیلی فورنیا کے قدیم حیاتیا ت کے ماہر ٹم وہائٹ کی زیر قیادت ادیس آبابا ( ایتھو پیا ) میں ایک حالیہ تحقیق جو کہ جو لائی ۲۰۰۳ میں منظر عام پر آئی ہے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ موجو دہ دور کی انسانی نسل کے آباؤ اجداد کا تعلق ایتھو پیا سے تھا اور اس دریافت سے انسانی نسل کی تاریخ تیس ہزار سا ل پیچھے پہنچ جاتی ہے ۔ سائنسدانوں کے مطابق انسانی ارتقا کی ٹوٹی ہوئی کڑی مل گئی ہے کیونکہ آج سے پہلے انہیں کبھی بھی ۳لا کھ سے ایک لاکھ سال قبل کے انسانی رکاذات نہیں مل سکے تھے اور حقیقت میں اس دور میں زندگی گزارنے والے انسان ہی مو جو دہ انسان کے بزرگ تھے اس لئے ماہرین اس تحقیق کو بڑی اہمیت دے رہے ہیں ۔
اس جدید تحقیق کی بنیاد ادیس آبابا ( ایتھو پیا ) کے شمال مشر ق میں ۱۴۰ میل دور ہر ٹو (Herto)گاؤں کے قریب کھدائی کے دوران ۲ بڑوں اور ایک بچے کے رکاذات ملے ہیں اور یہ رکا ذات اب تک دریافت ہونے والے قدیم ترین انسانوں کے ڈھانچے ہیں ۔ چھ برس کی محنت و تحقیقات کے بعد ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ یہ انسان آج سے 154000سے 160000قبل سالوں کے درمیان مرے تھے ۔ ان معلومات انسانی ارتقاء کے اس اہم دور پر روشنی پڑتی ہے جس میں انسان کی مو جو دہ نسل وجود میں آئی اور تما م کرہ ارض پر پھیل گئی ۔ اس دریافت سے اس نظریئے کو بھی تقویت ملی ہے کہ موجودہ انسانی نسل کی ابتدا افریقہ سے ہوئی اور پھر یہ نسل تمام دنیا میں پھیل گئی اور ایسا نہیں ہو ا کہ انسانی نسل نے دنیا کے مختلف علاقوں میں ارتقا کی منازل طے کی ہوں ۔ اس دریافت کا تجزیہ کرنے سے اس امر کی بھی تصدیق ہو تی ہے کہ موجودہ انسانی نسل کا تعلق Nenderthal manسے نہیں بلکہ انسانی شجرے کی ایک اور شاخ سے ہے جسے ہومو سپینس ایڈ لنو کہتے ہیں ۔ موجود انسانی نسل کا تعلق ہو مو سپینس سے ہے اور یہ ہر دوایک ہی قسم سے تعلق رکھتی ہیں ۔
ہرٹو انسان سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ 130000سال پہلے افریقہ کے سوا کسی اور علاقے میں انسان مو جو د نہیں تھا ۔ اس لئے یہ بات ناممکن ہے کہ مو جودہ انسان کا یورپ کے Nenderthals سے تعلق تھا ۔ ہر ٹوکی رکا ذات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی شکلیں آج کے انسان کی طرح تھیں اگر چہ وہ نسبتاَ سائز میں بڑی تھیں ۔ ان کے چہر ے چپٹے تھے اور Nenderthalsیا شروع کے دوسرے انسانوں کے مقابلے میں آج کے انسان کے مشابہ تھے ۔ برکلے یٹم کے رکن ہو ویل نے بتایا کہ رکاذات یقیناًNenderthalsکی نہیں ہیں اور ان سے پتہ چلتا ہے کہ موجودہ انسان کا ارتقا افریقہ ہی میں ہوا ۔ اس لئے یہ بھی ثابت ہو تا ہے کہ مو جو دہ انسان کے ارتقا میں Nenderthalsکا کوئی مرحلہ نہیں آیا ۔
ہر ٹو کمیونٹی شکا ر پر زندگی بسر کرتی تھی اور یہ لو گ میٹھے پانی کی جھلیوں کے کنارے آباد تھے ۔ ان جھیلوں میں مچھلیاں ، مگر مچھ اور دریائی گھوڑے موجود تھے اور وہ دریائی گھوڑوں کے بچوں کا شکار کرتے تھے۔ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ موجودہ انسان کا ذہنی ارتقا 70000سے 100000سال قبل ہو ا لیکن ارتقا کا عمل کئی ہزار سال اس سے پہلے ہو چکا ہو گا۔ اس جدید تحقیق نے انسانی ارتقا کے ریکارڈ میں حائل خلا پُر کر دیا ہے اور اس نظریہ کی تصدیق بھی کردی ہے کہ موجودہ انسان کی ابتدا افریقہ سے ہوئی ۔ اگر مزید تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو جائے کہ کرو میگن آج باقی نہیں رہی بلکہ پوری طرح ناپید ہو چکی ہے تو پھر اسلامی نقطہ نظر سے ’’ آدم ‘‘ کے تعین میں کوئی دشواری نہیں ہو گی بلکہ جدید انسان یا موجودہ ہو مو سپی نیس کا اولین نمائندہ ہی آدم قرار پائے گا اور اب تک کی تحقیقات کی رو سے بھی یہی بات زیادہ ترین قیاس معلوم ہوتی ہے اور اس کا ظہور کم و بیش دس بارہ ہزار سال قبل از مسیح ہو ا ہو گا۔
سائنسدانوں اورماہرین کے مندرجہ بالا تجزیات ، قیاسات اور مفروضات سے یہ عیاں ہے کہ آج سے تقریبا ۳۔۲ لاکھ سال پہلے انسان نما جاندار جو دو ٹانگو ں پر چلتے پھر تے تھے اور کھلے میدانوں میں
زندگی کے اچھے واقف اور عادی تھے جنوب مشرقی افریقہ میں رہتے تھے اور چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹ کر شکار کرتے تھے ۔ شکار اور خوراک کی تلا ش میں وہ آہستہ آہستہ گردو نواح میں پھیلتے گئے اور اسی طرح وہ افریقہ سے نکل کر وسط ایشیا میں داخل ہوئے ( جہاں انھو ں نے اپنے ان مٹ اشارات چھوڑے ) ۔ سفر کرتے کرتے براعظم ایشیا کے اضافی جنوبی حصہ جو کہ آج کل جزیرہ جاوا کے نام سے مشہور ہے پہنچ گئے جہاں پر انھوں نے اپنا قیام کیا جس کا ثبو ت حاصل شدہ فاسلز مہیا کرتی ہیں ۔ جزیرہ جاوا میں لاکھو ں سال قیام کے دوران ان انسان نما جانداروں کا دماغی حجم 450-650مکعب سینٹی میٹر سے بڑھ کر اوسط 850مکعب سینٹی میٹر ہو گیا اور ان میں سے جو چین کی طرف ہجرت کر گئے ان کا دماغ کا سائز 1000مکعب سینٹی میٹر تک ہو گیا ۔