جمعرات، 19 مئی، 2016

ندیم بھابھہ میری زندگی کا مؤثر ترین شاعر

ندیم بھابھہ میری زندگی کا مؤثر ترین شاعر ہے، میں اُسے تمام لوگوں کے لئے سب سے عظیم شاعر قرار نہیں دے رہا، دراصل مجھے شاعری کے فنی محاسن کا ادراک نہیں، پر اسے پڑھنے میں لطف و سرور پاتا ہوں بچپن سے لے کر اپنی سوچوں کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ شاعری میں سے نت نئے مفاہیم و مطالب اخذ ہوتے رہے ہیں، آج کل مجھے اکثر شعرا کا (نیا/پرانا) کلام سیاسی لگتا ہے۔ مجھے کسی بھی غزل یا نظم میں سے اُس (کہے جانے کے) دور کے سیاسی حالات کے بارے شاعر کے خیالات کا اندازہ ہوجاتا ہے، ممکن ہے یہ مبالغہ آرائی ہو، بہرحال سیاست، معاشرت اور سماج کا اثر کلام میں جھلکنا ایک فطری امر ہے۔
مجھے ولی دکنی اور خواجہ درد کے کلام کو سمجھنے کے لئے جس ذہنی کاوش کی ضرورت تھی اس سے ذرا تہی دامن/سہل پسند رہا ہوں کیونکہ
؎                 اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
بہرحال مرزا غالب سے جیسے میری یاری رہی ہو، حقیقتاً کلامِ غالب میں سے بھی میں نے چند اردو اشعار پڑھے ہیں۔ رہی بات فارسی کی تو اس کے میں قریب نہیں گیا، پھر بھی غالب جیسے دل پہ اثر کرتا ہے بیسویں صدی میں فیضؔ اور ساغر صدیقی کا کلام مجھے چھو کر گزرا، البتہ فیض کے سیاسی نظریات کا میں ہوبہو قائل نہیں اس کی اردو دانی کا معترف ہوں (پڑھے لکھے حضرات سے گزارش ہے کہ میں ”چھوٹا منہ بڑی بات“ کر رہا ہوں کیوںکہ میں نے کلامِ فیض میں سے بھی ایک، دو غزلیں ہی پڑھی ہیں) جبکہ ساغرؔ میرے دل کی بات کرتا ہے، ساغر جیسے عظیم لوگ واقعی صدیوں کے بعد پیدا ہوتے ہیں وہ بیسویں صدی کا سب سے مظلوم شاعر ہے مجھے نہیں معلوم شعراء (نقادوں) نے اُسے آج تک ”داخل دفتر“ کیوں رکھا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ انیسویں صدی کا غالبؔ بھی ایک طویل مدت تک اسی ظُلم کا شکار رہا پھر بیسویں صدی میں جاکر شعرا اور ادیبوں نے اسے اپنا امام مانا۔
بہرنو، اب محمد ندیم بھابھہ کی بات کرتا ہوں ان کی شاعری کی پہلی کتاب ”میں کہیں اور جا نہیں سکتا“ مجھے منظور کے ردی کے گودام سے (تقریباً 2003ء یا 2004ء میں) ملی، ہم لوگ بچپن سے دیکھتے آئے ہیں کہ ردی پیپرز کا کام ہمارے گھروں تک پہنچا ہوا تھا۔ ردی ورقوں سے وابستہ ہونے کی وجہ سے بچپن سے مختلف النوع کتب و رسائل (بیشتر پرانے) پڑھنے کو ملے بلکہ جو ملا پڑھ ڈالا۔
میں اس کتاب کو گھر لے گیا، گھر ہمارا کیا تھا لاہور میں چوہان روڈ کے (بند روڈ) پار ایک سڑک دربارِ رفاعیہ کو جاتی ہے اس پر ایک بدبودار جگہ پہ (بطورِ کرایہ دار) بسیرا تھا۔ ان دنوں میں حفظِ قرآن پاک کا طالب علم تھا اور ”جامعہ حنفیہ عنایت صدیق“ میں زیرِ تعلیم تھا۔ سن 2003ء سے پہلے امی اور بہن گاؤں میں تھے پھر یہاں آئے تو ایک کمرہ نما گھر کرائے پر لیا، میں نے 2003ء کے اکتوبر تک چھبیس پارے حفظ کرلئے تھے بعد میں لاہور کی سڑکیں ماپنا شروع کر دیں ان دنوں ندیمؔ بھابھہ کی کتاب مجھے مل گئی، بچپن سے میں نے اپنی روح کو ایک گہری اداسی کا شکار پایا تھا جسے میں نہ آج تک جان پایا ہوں اور نہ ہی اس معمے کا کوئی حل مل سکا ہے۔
کتاب میں پہلے نعت تھی جسے پڑھ کر بہت راحت ہوئی، پھر
میں ایسے موڑ پر اپنی کہانی چھوڑ آیا ہوں
کسی کی آنکھ میں پانی ہی پانی چھوڑ آیا ہوں
ایسی غزل سے کتاب کا آغاز ہورہا تھا تو تن بدن میں آگ لگنا ایک لازمی امر تھا اس کے بعد اکثر غزلوں پھر نظموں نے دِل موہ لیا۔ سن 2004ء میں میرا ایک خالہ زاد مدثر شریف وہاں آتا تو اسے میں بھابھہ صاحب کا کلام سناتا اور وہ جھرجھریاں لے کر رہ جاتا اور ہمیشہ میری سوجھ بوجھ کو ”انڈر مائن“ کرتا رہتا۔
شاید اس کتاب کی غزلوں کو کئی بار پڑھا تھا اور نظموں کو روح میں اتارا تھا جن میں اداسی اداسی کی کہانیاں مندرج تھیں، اسی لئے اس کتاب کے کئی مصرعے اور شعر سن 2010ء تک یاد رہے، کیونکہ میں نے وہ کتاب پھر واپس جاکر منظور کے حوالے کردی تھی کہ ”دیکھو یار! اس بندے نے کیا شاعری کی ہے وغیرہ وغیرہ“ اور وہاں سے وہ کتاب گم ہوگئی۔
سن 2010ء میں مجھے انٹرنیٹ تک رسائی ہوئی تو گوگل کیا ندیم بھابھہ، پھر وہ جناب فیس بک پر بھی مل گئے۔
اب محمد ندیمؔ بھابھہ کی ایک غزل پیش کرکے اجازت چاہتا ہوں۔

اس کی باتیں، اس کا لہجہ اور میں ہوں
نظم پڑی ہے مصرعہ مصرعہ، اور میں ہوں

ایک دیا رکھا ہے ہوا کے کاندھے پر
جس کا لرزتا، جلتا سایا اور میں ہوں

اس گاؤں کی آبادی بس اتنی ہے
شہر سے بھاگ کے آنے والا اور میں ہوں

چاروں جانب تنہائی کے لشکر ہیں
بے ترتیب سا ایک ہے کمرہ اور میں ہوں

ویسے تو سب لوگ یہاں پر مردہ ہیں
اس نے مجھ کو زندہ سمجھا، اور میں ہوں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں