پنجاب، پاکستان میں 2015ء کے اکتوبر نومبرمیں بلدیاتی انتخابات ہوئے جس کے فوراً بعد گلی محلوں میں نوسربازی کی مختلف النوع وارداتوں کا سلسلہ تیزی سے جاری ہوا۔ ایک واردات کا فیصل آباد شہر سے پتہ چلا، ایک شاہدرہ لاہور سے وکی نے بتائی اور تیسری ہمارے اپنے بھانجے ”محسن“ نامی بچے کے ساتھ ہوگئی۔ چند روز قبل یہاں میری گلی میں رات کے دس بجے (بارونق مقام پر) دو لوگوں سے نقدی اور موبائلز چھین کر لے گئے۔
اپریل 2016ء میں خبر آئی کہ گیارہ دہشت گرد (خود کش بمبار) پاکستان میں داخل ہوگئے۔۔۔۔ ہماری بہترین خفیہ ایجنسیوں نے کسی ایک بندے کو میڈیا پر لاکر اپنے منہ سے کالک پونچھنے کی سی کی کہ بھئی یہ دیکھو، ہمارا کارنامہ۔۔۔۔۔۔۔۔! لیکن میرا گمان ہے کہ اس مرتبہ دہشت گردوں نے بم کی بجائے کھانوں میں زہر ملانے کا طریقہ واردات اپنایا ہے۔
سب سے پہلے شاید ضلع لیہ سے مٹھائیوں میں زہر کی ملاوٹ کی خبریں آئیں، پھر ڈیرہ غازی خان میں بارات کا کھانا کھا کر لوگ موت کی وادی میں چلے گئے، اور فیصل آباد شہر میں رات کے گلیوں بازاروں میں سوئے ہوئے لوگوں کو کوئی قتل کرگئے اور ہماری نمبر ون خفیہ ایجنسیاں بھی خوابِ خرگوش کے مزے لیتی رہیں۔
پھر فیصل آباد میں دودھ سوڈے میں زہر کی ملاوٹ سے معاملہ گڑبڑ ہوا تو ”اے ٹی وی“ کے سقراطوں نے جا کر صفائی کے گھٹیا انتظامات کو نشانہ بنا ڈالا۔
پھر ایک خبر آئی کہ فلاں علاقے میں زہریلی کھیر کھانے سے لوگ موت کی وادی میں چلے گئے۔
اب سن لیں، نہ تو بلدیاتی الیکشن کے بعد میں لوکل سیاست دانوں اور ان کے پالتو کتوں کو موردِ الزام ٹھہراتا ہوں اور نہ ہی (میرے اندازے کے مطابق) بھارتی جاسوسوں کی طرف سے کھانوں میں زہر کی ملاوٹ پر مسندِ اقتدار پر براجمان ”حکمرانوں“ کو کچھ کہتا ہوں اور امریکہ کی دھمکی سُن کر چائینہ کی گود میں جاکر بیٹھنے والے ”گدیلے“ بچے کو کچھ بھی نہیں کہتا۔ صرف یہ کہے دیتا ہوں کہ،
تکیوں کا سہارا لینے والے ہی ڈوبا کرتے ہیں
اپریل 2016ء میں خبر آئی کہ گیارہ دہشت گرد (خود کش بمبار) پاکستان میں داخل ہوگئے۔۔۔۔ ہماری بہترین خفیہ ایجنسیوں نے کسی ایک بندے کو میڈیا پر لاکر اپنے منہ سے کالک پونچھنے کی سی کی کہ بھئی یہ دیکھو، ہمارا کارنامہ۔۔۔۔۔۔۔۔! لیکن میرا گمان ہے کہ اس مرتبہ دہشت گردوں نے بم کی بجائے کھانوں میں زہر ملانے کا طریقہ واردات اپنایا ہے۔
سب سے پہلے شاید ضلع لیہ سے مٹھائیوں میں زہر کی ملاوٹ کی خبریں آئیں، پھر ڈیرہ غازی خان میں بارات کا کھانا کھا کر لوگ موت کی وادی میں چلے گئے، اور فیصل آباد شہر میں رات کے گلیوں بازاروں میں سوئے ہوئے لوگوں کو کوئی قتل کرگئے اور ہماری نمبر ون خفیہ ایجنسیاں بھی خوابِ خرگوش کے مزے لیتی رہیں۔
پھر فیصل آباد میں دودھ سوڈے میں زہر کی ملاوٹ سے معاملہ گڑبڑ ہوا تو ”اے ٹی وی“ کے سقراطوں نے جا کر صفائی کے گھٹیا انتظامات کو نشانہ بنا ڈالا۔
پھر ایک خبر آئی کہ فلاں علاقے میں زہریلی کھیر کھانے سے لوگ موت کی وادی میں چلے گئے۔
اب سن لیں، نہ تو بلدیاتی الیکشن کے بعد میں لوکل سیاست دانوں اور ان کے پالتو کتوں کو موردِ الزام ٹھہراتا ہوں اور نہ ہی (میرے اندازے کے مطابق) بھارتی جاسوسوں کی طرف سے کھانوں میں زہر کی ملاوٹ پر مسندِ اقتدار پر براجمان ”حکمرانوں“ کو کچھ کہتا ہوں اور امریکہ کی دھمکی سُن کر چائینہ کی گود میں جاکر بیٹھنے والے ”گدیلے“ بچے کو کچھ بھی نہیں کہتا۔ صرف یہ کہے دیتا ہوں کہ،
تکیوں کا سہارا لینے والے ہی ڈوبا کرتے ہیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں