مولانا سمیع
الحق صاحب کے نزدیک طالبان کو موقع نہیں دیا جا رہا یعنی ان کی نامزد کردہ کمیٹی کو
قابل اعتناء نہیں سمجھا جا رہا، حکومت مذاکرات میں سنجیدہ نہیں آتی، ان کے نزدیک اصل طالبان کی نمائندہ یہ کمیٹی ہے،
لیکن جنداللہ گروپ وغیرہ سے طالبان نے لاتعلقی کا اظہار کردیا ہے
سوال یہ ہے
کہ اصل طالبان فسادات نہیں کرتے ہیں اور دوسرے گروپس سے وہ بری ہیں تو مذاکرات کی منطق
پھر کہاں تک درست ہے کیونکہ باغی گروپس تو فساد سے باز آنے والے نہیں، لیکن جن کے
جگر کے 50،000 سے زائد ٹکڑے اس ظلم و ستم کا شکار ہوئے وہ اپنوں کا خون کس کے ہاتھ
پر تلاش کریں؟
اگر طالبان
فسادی ہی نہیں ہیں تو اتنا اتمام حجت کرنے کی ضرورت سمجھ میں نہیں آتی، آپریشن تو
صرف باغی گروپس کے خلاف ہونا چاہئیے اور ان کا ضمانتی ڈھونڈے سے نہیں ملتا!
یا اللہ یہ
کیا ماجرا اور الجھی ہوئی ڈور ہے کہ جس کا سرا نہیں مل رہا؟
اگر اصل طالبان
کا دامن صاف ہے تو پھر انہیں کس بات کا خوف ہے لیکن اصل طالبان ہیں کونسے والے؟ حکیم
اللہ محسود والے یا کوئی اور؟ اگر تو حکیم اللہ محسود والے ہیں تو ان کے ریکارڈ (بی بی سی کی ویڈیو بھی اور نوائے وقت بھی)سے ثابت
ہے کہ وہ عبادت گاہوں پر حملوں میں ملوث رہے ہیں
اور اگر وہ
اصل طالبان نہیں ہیں تو ملا فضل اللہ (ملا ریڈیو) تو اسی گروپ کا نمائندہ ہےاب جائیں
تو جائیں کہاں، کس کا سر پیٹیں؟
ان کے نزدیک
ہر مسجد طالبان کا دفتر ہے تو وہ مساجد اور درگاہوں کو شہید کیوں کرتے ہیں؟
یہ ایک ایسا
گھمبیر (گمبھیر)مسئلہ ہے جس کا جواب شاید آج کل کے نام نہادوں سیاستدانوں عمران خانوں
اور طالبانوں کے پاس بھی نہیں ہے، پاکستانی حکومت اور امریکہ کے پاس بھی شاید اس کا
جواب نہیں ہے
البتہ قرآن
مجید اور حدیث پاک سے مل جائے گا
کوئی آہ تو
کرے دل سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
مزید ایک خبر یہ ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف فرماتے ہیں کہ مذاکرات میں طالبان کا اپنا کوئی بندہ بھی ہونا چاہیے، اس مسئلے کا حل بہت آسان ہے، پچھلے سال انتخابات سے قبل انہوں نے میاں صاحب کو اپنا سمجھ کر ہی نامزد کیا تھا، اگر ادا نہیں پڑھ سکے تو اب قضا ہی کر لیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں