اسلام آباد : پاکستانی انسٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز(پمز) نے پیر کو اس بات کی تصدیق کی ہے کہ شارع دستور پر ہفتے کی شب جھڑپوں کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے والے دو افراد کی ہلاکت " تیز رفتار دھاتی متحرک چیز" کی وجہ سے ہوئی ہے۔
پیر کو جاری بیان میں ہسپتال انتظامیہ نے ان دھاتی چیزوں کو "گولیاں" کہنے سے گریز کیا ہے، تاہم ہسپتال کے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ ان لاشوں کا پوسٹمارٹم کرنے والے رکنی میڈیکل بورڈ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ ان دونوں کو کسی ہتھیار سے گولیاں ماری گئی ہیں۔
ایک گولی ممکنہ طور پر کسی چھوٹے اسلحے جیسے ہینڈ گن سے چلائی گئی تھی جسے رفیع اللہ کے سر سے نکالا گیا ہے، جبکہ گلفام عادل نامی شخص کے زخموں کی نوعیت بھی فائرنگ سے ہونے والے زخموں جیسے ہیں۔
پمز کے منتظم ڈاکٹر الطاف حسین نے بتایا ہے کہ" یہ اموات کسی تیز رفتار دھاتی چیز کی وجہ سے ہوئیں، جن میں سے کچھ کی شکل بدل گئی ہے اور ہم نے انہیں تجزئیے کے لیے سہالہ پولیس سٹیشن کے ماہرین کو بھجوا دیا ہے"۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ پمز میں زیرعلاج افراد کے زخم بھی کسی چھوٹے بور کے اسلحے کی فائرنگ سے ہونے والے ان زخموں جیسے ہیں جو دو افراد کی ہلاکت کا باعث بنے۔
پیر کو پاکستان عوامی تحریک(پی اے ٹی) کے حامی اور سابق پولیس اہلکار محمد یوسف، جو ربڑ کی کئی گولیوں کا نشانہ بن کر زخمی ہوئے تھے، کہ گھٹنے سے بھی ایسی ہی دھاتی" چیز" نکالی گئی تھی۔
ڈاکٹر حسین نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ دوگھنٹے کے آپریشن کے بعد ایسی ہی چیز ایک اور زخمی عثمان گلفام کی بائیں ران سے بھی نکالی ہے۔
پمز کے ایک سنیئر میڈیکل عہدیدار نے وضاحت کی کہ تیز رفتار چیز جیسے گولی جب فائر کی جاتی ہے تو بہت گرم ہوتی ہے اور یہ کسی ٹھوس شے جیسے انسانی ہڈیوں سے ٹکرانے کے بعد شکل بدل لیتی ہے۔
ان کی رائے میں ہجوم منتشر کرنے والے ہتھیار جیسے کم رفتار ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس کے شیل سے اس طرح کے زخم نہیں آسکتے جو ہسپتال میں زیرعلاج متعدد زخموں کے جسموں پر ہیں۔
پمز کے سابق میڈیکولیگل آفیسر ڈاکٹر وسیم خواجہ نے ڈان کو بتایا کہ ربڑ کی گولیاں بہت کم ہی انسانی جسم کو پھاڑ کر نکل پاتی ہیں، اور ایسا اسی وقت ہوتا جب انہیں بہت زیادہ قریب سے فائر کیا جائے۔
رفیع اللہ کی لاش سے نکالی جانے والی گولی کو فارنسک تجزیئے کے لیے بھجوا دیا گیا ہے، پوسٹمارٹم میں شامل رہنے والے افراد نے ڈان کو بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ کسی تیس بور کی گن سے نکلی ہوئی گولی ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس شے کے تجزئیے سے پہلے اس بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔
اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر مجاہد شیردل نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پولیس نے خودکار اسلحہ استعمال نہیں کیا، ان کا کہنا تھا" اگرچہ پولیس نے مظاہرین پر ربڑ کی گولیاں فائر کیں، مگر انہیں میری یا ایس ایس پی کی جانب سے اتھارٹی نہیں دی گئی تھی"۔
پیر کی دوپہر تک دو سو اسی سے زائد زخمیوں کو علاج کے لیے پمز لایا گیا، جن میں سے 76 کو علاج کے لیے ہسپتال میں رکھا گیا اور پھر ڈسچارج کردیا گیا، تاہم 29 زخمی تاحال ہسپتال میں ہیں اور گیارہ کی ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کے لیے سرجری کی ضرورت ہے۔
بشکریہ ڈان نیوز اردو
جمال شاہد اور منور عظیم
تاریخ اشاعت 02 ستمبر, 2014
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں