عمارؔ اقبال۔۔۔ ایک تعارف ۔۔۔ پہلا حصہ
تحقیق
و ترتیب: عبدالرزاق قادری
آپ
کے ہر دلعزیز شاعر و فلسفی جنابِ عمار اقبال یوں تو اپنی اچھوتی شاعری اور منفرد لب و
لہجے کے سبب دُنیا بھر میں مشہور و معروف ہیں، لیکن اُن کی ذاتی زندگی اور حالات
باقاعدہ کہیں تحریری صورت میں موجود نہیں ہیں، میں نے
مختلف انٹرویوز سُن کر اور خود انٹرویو کر
کے عمار اقبال کے حالات ترتیب دئیے ہیں جو درج ذیل ہیں۔
عمار
اقبال صاحب کے والدِ محترم اقبال مسعود 1970ءکے بعدکسی دور میں لکھنؤ ،بھارت سے
ہجرت کرکے کراچی پاکستان منتقل ہوئے، اور آپ خاندانی طور پر حضرت ابراہیم بن ادھم
رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں سے ہیں اس لئے اُن کا پورا نام اقبال مسعود ادھمی تھا، عمار اقبال کا مکمل نام بھی ”عمار
اقبال ادھمی“ ہے، یوں اُن کی اس صوفی بزرگ
کے ساتھ نہ صرف نسبت بلکہ اُنسیت بھی بڑھ جاتی ہے، غالباً اُسی درویشانہ
خون کے رگوں میں دوڑنے کے باعث عمار صاحب کے تخیل میں بلا کی زرخیزی اور استغنائیت
اور کمال جوہر پایا جاتا ہے، وہ خود ایک انٹرویو میں کہتے ہیں،کہ شہرۂ آفاق مصور”پکاسو“ نے کہا تھا کہ تمام لوگ
فنکار پیدا ہوتے ہیں، پھر گزرتے وقت کے ساتھ بہت سوں میں سے وہ فنکارانہ صلاحیتیں
زمانہ چھین لیتا ہے، اور بہت کم اپنے اندر کے فن کو سنبھال کر رکھ پاتے ہیں۔
اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جاسکتاہے کہ صرف
عمار ہی کو تقدیر نے ابلاغ کی اُس طاقت سے
کیوں نوازا،جو کہ اس ادھمی خاندان میں یا اُن کے ہم عصروں میں جانے کتنے لوگ اس کا
مظاہرہ نہیں کر پارہے، تو اس کاجواب بھی وہ ”قیصر وجدی“ صاحب کو انٹرویو میں دے چکے ہیں کہ جب انسان کو کسی
ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تواس کے بعد یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ آیا وہ اس سے
گھبرا جاتا ہے، ڈر کر اپنی فن سے منہ پھیر لیتا ہے، یا اُسی ناکامی سے طاقت پکڑ
کر، وہ مزید مضبوط اعصاب کا مالک بن جاتا
ہے اور زمانے کو وہی کام کرکے دِکھا دیتا ہے جس کا اُسے ذوق ہو اور کچھ کر دکھانے
کا جنون ہو،،عموماًیا تو اُس سے توقع نہیں کی جاتی یا پھر اُس شخص کی راہ میں
رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں جن کو عبور کرتا ہوا وہ منزلِ مقصود تک جا پہنچتا ہے۔ تو
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شاعری کی کٹھنائی
میں یوں عازمِ سفر ہونا کوئی آسان کام نہ تھا، لیکن عمار نے کبھی ہمت نہیں
ہاری اور اپنے فن کے بل بوتے پر پوری دنیا میں اپنا لوہا منوایا۔
لوہے
سے یاد آیا کہ اُن کے والد صاحب، جناب اقبال مسعود ایک مکینکل انجینئر تھے اور پاکستان سٹیل ملز
میں کام کرتے تھے، وہ عمار سے کہا بھی کرتے تھے کہ میں پگھلے ہوئے لوہے میں سے
زندگی نکال کر تمہارے لیے لاتا ہوں۔
یہاں
مجھے تنویر سپرا کا شعر یاد آرہا ہے۔
؎ آج بھی سپراؔ اس کی خوشبو مل مالک لے
جاتا ہے
میں
لوہے کی ناف سے پیدا جو کستوری کرتا ہوں
عمار،
اپنے والد کے لیے یوں گویا ہیں۔
پتھر
کے بازو تھے سینہ لوہے کا
تاج
میں حضرت کے تھا نگینہ لوہے کا
قزاقوں
کے بعد سمندر جانتا ہے
ڈوب
نہیں سکتا تھا سفینہ لوہے کا
موڑ
رہا ہے اپنی نرمی گرمی سے
پونچھ
رہا ہے کوئی پسینہ لوہے کا
شیشے
کی اس کارگہ زرداری میں
کام
کیا کرتا ہے کمینہ لوہے کا
اور
عمار کی والدہ ایک معلمہ تھیں، یوں عمار ہمیشہ (سے ہی) اپنی والدہ کے ساتھ تعلیمی
ادارے میں جاتے رہے،اور خود ہمارے ممدوح،آکسفورڈ ہائی اسکول اور انڈس یونیورسٹی،
سے تعلیم حاصل کرکے آغا خان کالج میں تدریس فرماتے رہے،آپ کے والد نے آپ کی شاعری
دیکھ کر علمِ عروض وغیرہ سیکھنے کی ترغیب دی تو اہلِ فن کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا
سلسلہ جاری رہا، حتیٰ کہ عمار اقبال کی دعا سلام ایک اُستاد شاعر نعیم گیلانی صاحب
سے ہوئی تو اُنہوں نے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کے جدید وسائل کے ذریعے عمار اقبال کو
علمِ عروض یعنی شاعری کے فنی محاسن بڑی
محنت سے سکھائے جس کا نہ صرف عمار اقبال کو اچھا خاصا ادراک ہے، بلکہ وہ اُستادِ
محترم کی دل و جان سے عزت کرتے ہیں اور اپنی پہلی کتاب ”پرِندگی“ کا انتساب بھی
نعیم گیلانی کے نام کیا ہے۔
عمار
صاحب کہتے ہیں کہ اُن کے خاندان کے کچھ لوگ اقبال مسعود (عمار کے والد) کے پاکستان
آ جانے سے قبل یہاں آ چکے تھے، اور یہاں رہ رہے تھے، کچھ لوگ بعد میں آئے، عمار کے
دادا جان اور والدین کی یہ دو نسلیں تو اپنے ڈرائنگ روم میں ہندوستانی زندگی، کلچر
اور اپنے پرانے رہن سہن کو یاد کرتے رہے۔لیکن عمار اقبال کی پیدائش فروری 1986ء
میں ہوئی اور اب اُن کا کہنا یہ ہے کہ یہاں سے ہماری تیسری نسل کا پاکستان میں
وجود پیدا ہوا، جو یہیں پیدا ہوئے، بلکہ اُن میں سے عمار اقبال اپنی فیملی میں سب
سے پہلے اِس (پاکستانی) دُنیاآئے اور وہ پہلا پاکستانی ہونے کا شرف رکھتے ہیں۔ تو
یہ جو تیسری نسل ہے یہ خالصتاً پاکستانی ہے، اس کا کلچر، رہن سہن، اور یادیں
پاکستان کے ساتھ وابستہ ہیں۔
اُنہوں نے کراچی ہی میں تعلیم حاصل کی اور آغا
خان کالج میں پڑھاتے رہے، اُن کی آواز خاصی اچھی ہے،جس میں درس و تدریس کا ایک خاص
کردار ہے۔آپ بزنس،اُردو اور انگریزی پڑھا تے ہیں۔اور اِس کےعلاوہ کراچی میں ایک
ایف۔ایم ریڈیو میں پروگرام بھی کرتے رہے ہیں، گزشتہ چند برس سے لاہور میں مقیم
ہیں،اور یہاں بھی لکھنے لکھانے کا شغل قائم ہے۔ آپ کے گھر میں ایک گوشہ اُن
جانوروں کے لئے مخصوص ہے جو لاوارث ہو جاتے ہیں، اور پھر وہ یہاں وقت گزارتے ہیں۔
عمار
نے اپنے سُخن کی ابتداء غزل سے کی، اور اُن کی پہلی غزلوں میں سے یہ غزل بھی تھی۔
؎ عکس
کتنے اُتر گئے مجھ میں
پھر نہ جانے کدھر گئے مجھ میں
ایک
مارکیٹنگ ادارے کے لئے بھی لکھتے ہیں جس سے روزی روٹی کا سلسلہ چلتا رہتا ہے،
تراجم کرتے ہیں،شاعری لکھتے ہیں، شاعری کھاتے ہیں، شاعری پیتے ہیں، اس کے علاوہ
نغمے لکھتے ہیں اور چودہ اگست 2021ء میں ایک بہت خاص نغمے کے لئے پُر جوش بھی ہیں۔
نعیم گیلانی
آپ
تقریباً 2010ء سے مشاعرے میں پڑھ رہے ہیں، جبکہ اُستادِ محترم نعیم گیلانی نے منع
فرمایاتھا کہ ا بھی مشاعرے میں شرکت مت کرنا لیکن اُن کی بات نہیں مانی گئی،اور آج
اس بات کا اعتراف کرتےہیں کہ مجھے اُس کا نقصان ہوا،2014ء تک کراچی بھر میں مقبول
ترین شاعر بن چکے تھے لیکن پھر بھی ایک بارایک مشاعرے کے سٹیج سے بغیر وجہ بتائے
اٹھا بھی دئیے گئے، حالانکہ اس سے قبل عالمی مشاعروں میں بھی اپنا کلام سُنا چکے
تھے۔
آپ
سینئرز کی رہنمائی کو سراہتے ہیں خصوصاً اپنے اُستاد جی، نعیم گیلانی کی بہت سی
خوبیوں کے معترف ہیں، ساتھ ہی ساتھ عمار صاحب کا کہنا ہے، کہ گیلانی صاحب کا اپنا
اسلوب بالکل منفرد ہے، اور انہوں نے کبھی اپنا رنگ مجھ پر نافذ کرنے کی کوشش نہیں
کی، کہ شاگرد کا اپنا اُسلوب اپنی جگہ برقرار رہے۔ اس کے علاوہ اُن کی پہلی کتاب
بھی نعیم گیلانی صاحب نے ہی شائع کی۔وہ
نعیم گیلانی کا اپنی پسند کا ایک شعر مثال
کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
؎ گِلہ
معاف مگر میں جہاں پڑا ہوا ہوں
میرے چراغ تیری روشنی اِدھرکم ہے
غزل اور اصنافِ سُخن
عمار
کے خیال سے غزل کی بندشیں ایک سخنور کو اپنے انداز سے لاشعوری پر بہت کچھ
بیان کرنے پر مجبورکرتی ہیں، جو بعض اوقات شاعر کو خود اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کیا پیش کررہا ہے۔ مثلاً یہ کہ
غزل آپ کے تخیل کی چڑیا کو اُلٹا اڑاتی ہے، آپ قافیہ سے ردیف سے خیال کی طرف جا
رہے ہوتے ہیں، اور یوں آپ کے لامحدود جذبات و احساسات اوزان کی پابندیوں میں بندھ
کر رہ جاتے ہیں اور اظہار نہیں ہو پاتا۔ عمار کے نزدیک اصناف سُخن ایک گلاس یا
برتن کی سی مثال ہے، جس میں کسی کو پینے کے لیے جو دیں گے اُسی طرح کے برتن میں
دیں گے،جیسا کہ چائے کپ میں، او ر پانی گلاس میں۔ یہ پیش کرنے والے پر منحصر ہے کہ
وہ اظہار کس صورت میں کرنا چاہتاہے، یا
پھر وہ کیا مواد پیش کرنا چاہ رہا ہے! اُسی طرز کی صنف کو اپنا کرپیش کیا جاسکتا
ہے ۔
تصانیف
1.
عمارؔ اقبال کے پہلے شعری مجموعے ”پرندگی“ کی تقریبِ
رونمائی 2 فروری 2015ء کو کراچی آرٹ کونسل میں ہوئی تھی، جس میں ڈاکٹر ستیہ پال
آنند، پروفیسر سحر انصاری، میراحمدنوید اور فاطمہ حسن صاحبہ مدعو تھے۔
2.
عمار اقبال کی تصانیف میں سے ایک پاول بھی انگریزی زبان میں
لندن سے طبع ہوا ہے، جو کہ شاعری اور ناول(Poetry+Novel) کو جمع کرکے
پاول کہلایا،جس میں فلسفیانہ فکشن ہے ، آپ کی کتاب ”پرندگی“ اور چند تازہ غزلیں شبھم شرما(शुभम शर्मा) نے ہندی میں
ترجمہ کرکے بھارت میں بھی چھاپ دی ہیں۔
3.
عمار اقبال نے ایک کتاب ”پرونیٹ“ (نثری نظموں پر مشتمل) بھی
لکھی ہے جو کہ نثری سانیٹ ہوتی ہے، لفظِ ”پرونیٹ“ انگریزی کے دو لفظ (Prose+Sonnet) مل کر پرونیٹ
بن جاتا ہے۔ آپ کے مطابق پاکستان میں کوئی دو اڑھائی سو نوجوان پرونیٹ لکھ رہے
ہیں، جو کہ مختلف ادبی رسالوں میں چھپ رہے ہیں، سب نے اُس میں اپنی اپنی تبدیلیاں کی ہیں، کسی
نے اُس کو چودہ سطروں میں لکھا ہے،کسی نے تھوڑی بہت تبدیلی کی ہے۔
اُردو
زبان میں پرونیٹ کے مؤجد عمار اقبال ہی ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ اُسلوب میں نے نثری
نظم کا ”علاج“ کرنے کے لیے متعارف کروایا ہے۔بات صرف یہ ہے کہ نثری سانیٹ (پرونیٹ)
میں لائنز نثر کی ہیں جس میں کوئی میٹر(وزن) نہیں ہے، اور اِس میں نظمیت قوافی کی
وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ عمارکہتے ہیں کہ خود پرونیٹ لکھنے میں بھی زیادہ مزا اس لیے آیا کہ اس میں
ایکسپریشن (اپنی ذات کااظہار کرنے) کا زیادہ سے زیادہ موقع ملتا ہے۔
عمارؔ
اقبال کی دیگر کُتب کا مفصل تعارف اس تحریر کے دوسرے حصے میں آ رہا ہے، اور ان
شاءاللہ اُس سے بھی اگلے حصہ میں آپ کے متعلق کچھ ہم عصراہلِ علم کی آراء شامل ہوں
گی۔اور اس کے بعد ان کے کلام پر سیرحاصل گفتگو ہوگی، پھر آپ کے مفصل حالتِ زندگی بیان ہوں گے، یُوں یہ ایک پوری کتاب
کی صورت اختیار کرجائے گی۔
نمونۂِ
کلامِ عمارؔ
بلبلیں
نغمہ سرا ہوں مدحتِ غالب کے بعد
لب
کشا عمار ہونا منتِ غالب کے بعد
شاہ
کے دربار میں غالب کئی آئے گئے
حضرتِ
غالب سے پہلے حضرتِ غالب کے بعد
جاری ہے۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں