میں نے اس سے پہلے اپنی دوتحریروں [1] میں عورتوں خصوصاً مسلمان عورتوں
کے حوالے سے لکھا ہے، ورنہ میں نے صنف نازک پر بہت کم لکھا۔ میں بائیس سال کی عمر تک
اپنے مشاہدے، سوچ و بچار اور غور و خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ عورت کی
طرف منسوب تقریباً تمام الزامات اور تمام قسم کی برائیوں میں بالواسطہ یا بلا واسطہ
مکمل طور نہ سہی لیکن تقریباً مکمل طور پر مَردوں کا ہاتھ کارفرما ہوتا ہے، جب میں
جدید نظام تعلیم پر تنقید کرتا ہوں تو شاید لوگوں کے ذہن میں آتا ہے کہ یہ دقیانوسی
قسم کا بندہ علم و تعلیم کے حصول کا نجانے کیوں دشمن ہے اور جنگل کے پتھر کے زمانے
کی سوچ رکھنے والا ہے! اگر یہ مذہبی ہے تو مذہب بھی تعلیم سے منع تو نہیں کرتا
ناں!
میں نے اپنی ایک تحریر میں لکھا تھا کہ اب اگر کوئی یہ کہے کہ یہ چادر اور چار
دیواری والا دین پرانا ہو گیا ہے تو وہ جاکے اپنی عقل کا علاج کروائے کیونکہ کہ وہ
یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ وہ خود بھی تو اس دین کو سائبان بنا کر پناہ ڈھونڈ رہا ہے،
اور میرے محترم ناقدین نے وہی کیا یعنی شریعت ہی سے دلائل لاتے رہے، مثلاً ایک
دلیل یہ تھی کہ علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے وغیرہ، وغیرہ تو خود ہی اس شریعت
مطہرہ کے ایک حکم کو سنا رہے ہیں اور دوسرے کی تردید کر رہے ہیں یادرہے میں نے تقریباً تمام
ملبہ مرد حضرات پر ڈال دیا ہے اور اپنے ان بیانات کے لئے مجھے کوئی لمبی چوڑی دلیل
لانے کی ضرورت نہیں
ہمارے اردگرد ایسی ہزاروں مثالیں مل جاتی ہیں کہ جن کے لئے
زیادہ حوالے اور ثبوت دینے کی ضرورت باقی نہیں رہتی مثلاً جب ایک نوجوان اپنے محلے
کی بیٹی، اپنے دوست کی بہن، اپنی کلاس فیلو یا کولیگ کو ساتھ لے جا کر ویلنٹائن ڈے
جیسا شرم ناک دن منانے کسی کلب، ہوٹل یا سینما وغیرہ کی طرف جاتا ہے تو کیا خیال ہے
وہ اپنی بہن کو گھر میں اپنے محلے کے لڑکے، اپنے دوست، اس کے کلاس فیلو یا اس کے کولیگ
کے رحم و کرم پر چھوڑ کر نہیں جاتا؟ اگر سامنے والی لڑکی کوئی بہانہ بنا کر بے غیرتی
کے لئے حدود پھلانگ سکتی ہے تو کیا اس کی بہن کو بہانے بنانے نہیں آتے؟ اگر ایک باپ اپنی بیٹی کے
ساتھ بیٹھ کر ٹی وی پر فیشن شو اور میوزک کنسرٹ دیکھے گا تو کیا اس کی بیٹی اُس سے
ایک ماڈل یا گلوکارہ بننےکی اجازت طلب نہیں کرے گی؟ بالفرض ایک باس کو نک سک لیڈی
سیکرٹری چاہئیے تو کیا اس کی بیٹی کو ایک ہینڈ سم بوائے فرینڈ نہیں چاہیے ہوگا؟
بزرگوں نے فرمایا کہ زنا ایک قرض ہے جس کا بدلہ اپنے گھر
سے چکانا پڑتا ہے، اگر کوئی ایسا کرے گا تو وہ ضرور اپنے گھر سے ایسی خبر سنےگا، ہاں
البتہ سچی توبہ گناہوں کو دھو ڈالتی ہے ایسے جیسے اُس نے کبھی گناہ کیا ہی نہ تھا لیکن
توبہ کے بعد اس کا قائم رکھنا ضروری ہے ورنہ وہ نتیجہ نہیں ملے گا، ملکِ پاکستان ہمارے اکابر
نے دس لاکھ سے زائد قربانیاں دے کر اور ایک لاکھ کے قریب عزت مآب عصمتیں لٹا کر اس
لئے تو حاصل نہیں کیا تھا کہ اس کے حکمران شرابی، زانی اور بدکردار ہوں گے اور اس ملک
کے ہر سرکاری اور پرائیویٹ شعبے میں استحصال ہوگا یہ ملک رشوت خوری اور سود خوری کے
لئے نہیں بنایا گیا تھا یہ ملک چھیاسٹھ سال تک کافر انگریز کے آئین کی اندھی تقلید
کرنے کے لئے نہیں بنایا گیا تھا اب
جب میں جدید نظام تعلیم کے خلاف آواز بلند کرتا ہوں تو اس سے مراد حکمرانوں اور اشرافیہ
کی بے بصیرت پالیسیاں اور اپنے تعیش کے لئے نافذ کئے گئے مادر پدر آزاد نظام کے خلاف
احتجاج کرتا ہوں، مثلاً ان درندوں کی ہوس کی تسکین کے لیے پوری پوری کالج وین گم ہو جاتی ہے اور کئی دہائیوں تک اس کا سراغ
نہیں ملتا۔ تمام بڑے پرائیویٹ تعلیمی ادارے ان سیاست دانوں کے ہوتے ہیں جن کی اپنی
ڈگریوں کی داستانیں۔۔۔ زبان زد عام ہیں اور اداروں میں ثقافت کے نام پر جو بے حیائی
اور بے غیرتی کا طوفانِ بدتمیزی برپا ہوتا ہے ممکن ہے فرعون کے ظالمانہ نظام میں
بھی نہ ہوتا ہوگا
ملازمت کے حصول کے لیے جس طریقے سے ہمارے ہاں عصمت داؤ پر
لگا دینے کو کہا جاتا ہے اور جس ڈھٹائی سے اس فعل قبیح کا ارتکاب کیا جاتا ہے، آج اگر
قوم عاد و ثمود بھی ہوتیں تو اس بے غیرتی کو دیکھ کر لرز جاتیں اور توبہ کرلیتیں، میرے
نزدیک عورت کو استعمال کیا جاتا ہے میرے نقاد جتنی مثالیں پیش کرسکتے ہیں
ضرور کریں لیکن اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ہر مثال کے پس منظر میں کہیں نہ کہیں کسی
بے حمیت مرد کا کردار ضرور ہوگا
اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو خود کو اور اپنے گھر والوں
کو جہنم کی آگ سے بچانے کا حکم دیا ہے
سورہ التحریم کی ان آیات کا ترجمہ ملاحظہ ہو
"(6) اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں
کو آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اس پر سخت کرّے (طاقتور) فرشتے مقرر
ہیں جو اللہ کا حکم نہیں ٹالتے اور جو انہیں حکم ہو وہی کرتے ہیں (7) اے کافرو! آج
بہانے نہ بناؤ تمہیں وہی بدلہ ملے گا جو تم کرتے تھے ، (8) اے ایمان والو! اللہ کی
طرف ایسی توبہ کرو جو آگے کو نصیحت ہو جائے قریب ہے تمہارا رب تمہاری برائیاں تم سے
اتار دے اور تمہیں باغوں میں لے جائے جن کے نیچے نہریں بہیں جس دن اللہ رسوا نہ کرے
گا نبی اور ان کے ساتھ کے ایمان والوں کو"
جب مرد حضرات تو گھر سے باہر نکل کر افلاطوں بن جائیں گے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کے رشتے کے لئے
عطر و خوشبو سے دھلی ہوئی عصمت منتظر ہوگی، میں نے کہیں پڑھا تھا کہ نیکی پھیلانے
والے لوگ زیادہ ہوتے ہیں لیکن وہ سست ہوتے ہیں یا اپنے مقصد کے ساتھ بے لوث اور
اُتنے فعال نہیں ہوتے جتنے برائی پھلیانے والے اپنے کام میں مخلص اور چست ہوتے ہیں
جب عزازیل (شیطان) کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے مردود اور لعنتی کہہ کر نکال دیا
گیا تو اس نے اللہ سے عرض کیا کہ میں تیرے بندوں کو گمراہ کروں گا لیکن تیرے مخلص
بندوں پر میرا زور نہیں چلے گا
سورہ صآد کی یہ آخری آیات کا ترجمہ ملاحظہ ہو
(77) فرمایا تو جنت سے نکل جا کہ تو راندھا (لعنت کیا) گیا
(78) اور بیشک تجھ پر میری لعنت ہے قیامت تک (79) بولا اے میرے رب ایسا ہے تو مجھے
مہلت دے اس دن تک کہ اٹھائے جائیں (80) فرمایا تو تُو مہلت والوں میں ہے ، (81) اس
جانے ہوئے وقت کے دن تک (82) بولا تیری عزت کی قسم ضرور میں ان سب کو گمراہ کر دوں
گا، (83) مگر جو ان میں تیرے چنے ہوئے بندے [2] ہیں ، (84) فرمایا تو سچ
یہ ہے اور میں سچ ہی فرماتا ہوں ، (85) بیشک میں ضرور جہنم بھر دوں گا تجھ سے اور ان
میں سے جتنے تیری پیروی کریں گے سب سے ، (86) تم فرماؤ میں اس قرآن پر تم سے کچھ اجر
نہیں مانگتا اور میں بناوٹ والوں سے نہیں ، (87) وہ تو نہیں مگر نصیحت سارے جہان کے
لیے ، (88) اور ضرور ایک وقت کے بعد تم اس کی خبر جانو گے۔
میرا تو یہ ایمان ہے کہ اگر نسان ایک مخلص بندہ بن جائے تو
ہر کام اللہ کے حکم سے ٹھیک ہوجائے گا،
مقام تفکر یہ ہے کہ شیطان کافر ہوجانے کے بعدپہلے دن سے حضرت انسان کے خلاف کفر کے
جال بنتا آرہا ہے اور مسجودِ ملائک (انسان) اپنے ازلی دشمن شیطان کو اپنا دشمن
ماننے کی ہمت نہیں کرپاتا۔ آپ کا دشمن آپ کی تاک میں ہو تو آپ اس کے کہنے پر کبھی
نہیں چلیں گے پھر شیطان کی پیروی کیوں؟ حضرتِ اقبال نے فرمایا کہ
در جوانی توبہ کردن شیوہء پیغمبری
وقت پیری گرگِ ظالم می شود پرہیزگار
دنیا والے خود کش حملہ آوروں کو بہت بڑا دہشت گرد سمجھتے
ہیں اور وہ ہیں بھی۔ لیکن میرے نزدیک کسی علاقے میں ایک مخلوط یونیورسٹی بنا کر، ایک
ریستوران بنا کر، ایک ڈانس کلب بنا کر،اور ایک سینما گھر بنا کرفحاشی کے اڈے کی
کمائی کھانے والے ان حملہ آوروں سے بدتر دہشت گرد ہیں اور ان کے نظام کو مزیدترقی
دینے والوں کو شاید جہنم بھی قبول کرنے کرنے سے انکار کردے اور عین ممکن ہے کہ خود
کش حملہ آوروں کو جہنم میں جگہ مل جائے۔ ایک برا کام
عملی طور پر کرنے سے برتر اس کے لئے فکری طور پر راستہ ہموار کرنا ہے اور اس وجہ
سے بہت سے لوگ غلط راستے کے راہی بن بیٹھتے ہیں ہمارے معاشرے میں ایسے باطل افکار
کو فروغ دینے میں اغیار کے ایجنٹ مختلف بہروپیوں کی صورت موجود ہیں جن میں بدکاری
ااور فحاشی کے خلاف آواز نہ اٹھانے والے، مادر پدر آزادی کے عَلم بردار، انسانی
حقوق کی نام نہاد تنظیمیں، بدکاری کے لئے جگہ اور مواقع فراہم کرنے والے ادارے،
خاندانی منصوبہ بندی کے نام پر حکومتی درندوں کی یلغار، تعلیم کے نام پر بےحیائی
کے فروغ میں ممد و معاون ادارے ملازمتوں
کے نام پر صنفی درندگی کے مراکز ویلینٹائن جیسے مکروہ تہواروں کو منانے کے ٹھکانے،
انٹرنیٹ کیفے کے نام پر فحاشی کے ادارے، سی ڈی بیچنے والے، ٹی وی پروگرام نشر کرنے
والے اور اسی طرح بے شمار شعبہ جات میں مثلاً کھیلوں کے نام پر، مگر حقیقتاً کفار
کے ایجنٹ اس ملک و قوم، دین و ملت اور امت مسلمہ کے درپے ہیں
اسلام صرف عبادات کا مجموعہ نہیں ہے اس میں 80 فیصد سے زائد
دیگر موضوعات، مثلاً سیاست، معاشرت، تجارت اور معیشت وغیرہ جیسے بہت سےمعاملات
شامل ہیں اسلام سے ان تمام موضوعات کے مختلف پہلوؤں پر رہنمائی ملتی ہے اور اسلام
ان کے عملی نفاذ کا تقاضا کرتا ہے۔ عالَم اسلام کے تمام مسلمانوں کو باہم وحدت
اختیار کرکے اپنے حالات کا معروضی لینا ضروری ہے، اس ضمن میں اہل علم و دانش پر،
صاحبان اقتدار پر اور اہل ثروت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور باہم آگاہی
پھیلانے کے حوالے سے ہر مسلمان ذمہ دار ہے
اسلام کا قانونِ شریعت کوئی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد والے ملا کا
قانون تھوڑی ہے بلکہ یہ آئین و دستور تمام انسانیت کے لئے تا ابد بہترین اور ایک
مثالی قسم کا نظامِ حیات ہے اس آئین کے خلاف بات کرنے والے منہ سنبھال کر بات کریں
کہ آج اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں وہ اعلیٰ اقدار کی شقیں موجود نہیں ہیں جن کا عملی
مظاہرہ اسلام چودہ صدیاں قبل پیش کر چکا ہے۔مسلمانو! اسلام کی خاطر اور اسلامیت کی
خاطر کڑھنا اور عملی طور پر اس کے لئے کام کرنا شروع کردو تاکہ آپ کی آئندہ نسلیں
ایک بہتر مستقبل میں زندگیاں بسر کر سکیں، اسلام کو خود پر اور ریاستی سطح پر نافذ
کرنے میں ہی فلاح ہے، ورنہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن یہ درندے ہماری ہڈیاں بھی
نوچ کھائیں گے
__________________________________________________________________
[2] سورہ صآد کی آیت نمبر 83 میں مخلصین کا لفظ آیا ہے جس کا
ترجمہ یہاں چنے ہوئے بندے کیا گیا ہے
یہ مضمون 31 جولائی 2013 کی رات 12 بج کر 52 منٹ پر مکمل لکھا گیا اور آج 5 فروری 2014 رات 2 بجے مکمل کمپوز کیا گیا
Whatch These Two Videos of CNBC Pakistan TV Report: