بدھ، 19 فروری، 2014

پاکستانی آئین کے مخالف دیوبندی، پارلیمنٹ میں مرزائیوں کے سامنے کیوں نہ بول سکے

کس نے بھٹو سوشلزم کے دور میں آئین پاکستان میں اسلامی شقوں کو شامل کرایا؟ آئین میں مسلمان کی تعریف کس نے شامل کرائی؟ کس نے صدر، وزیراعظم اور دیگر عہدے داران کے حلف نامے اسلامی اصولوں پر مبنی لکھوائے؟ کس نے 30 جون 1974 کو قومی اسمبلی میں قادیانی فتنے کے خلاف قرارداد جمع کرائی جس کے تحت مرزائی/قادیانی/احمدی/لاہوری غیر مسلم اقلیت قرار دئیے گئے کس ہستی نے 1995 میں ملی یکجہتی کونسل قائم کرکے ملک و قوم کو قتل و غارت کے اقدامات سے تحفظ بخشا؟
کس نے متحدہ مجلس عمل بنا کر فرقہ واریت کو ختم کرنے کی سعی کی اور ایک آمر کے مدمقابل طاقتور قائد حزب اختلاف کا کردار ادا کیا؟ کس کی موت پر بیگانے بھی روئے؟ پاکستانی سیاست کی تاریخ میں کون واحد شخص صاف دامنی کے ساتھ وقت گزار گیا؟ تاریخ کے طالب علم کا امتحان!!! تاکہ ریکارڈ درست رہے اور بوقت ضرورت کام آسکے۔ کچھ خوارجی سوچ کے حاملین اسلامی شریعت کے ٹھیکے دار اور امت کے خیر خواہ بنتے پھرتے ہیں اور وہ جمہوریت کو صرف اس بناء پر کفر کہتے ہیں کہ خود ان خوارج کی تعداد کلمہ گو حضرات میں پانچ فی صد سے بھی کم ہے اور پوری دنیا کو کفار کی ایجنسیوں کی مدد سے یہ بتا رہے ہیں کہ اسلام ایک شدت پسند دین و مذہب ہے اور قتل و غارت کا نام محض ہے جبکہ یہ ساری صورت حال خلاف واقعہ ہے، اور وہ اپنی من پسند ’’تاریخ“ بھی لکھتے رہتے ہیں جس کا حقائق سے دور دور کا واسطہ نہیں ہے لہٰذا میں نے ضروری سمجھا کہ وہ لوگ جو ’’ختم نبوت‘‘ کی تحریکوں کا سہرا اپنے بزرگوں کے سر باندھنا چاہتے ہیں وہ تاریخی حقائق پر بھی تاثرات پیش کرنا ضروری سمجھیں کہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں مرزائی وکیل مرزا ناصر نے ’’تخذیرالناس‘‘ کا حوالہ دے کر مفتی محمود اور مودودی صاحب کو چپ کروا دیا تھا لیکن جو مردِ حق پرست اس وقت بھی بول سکتا تھا اس کا نام کیا تھا؟ دیکھئے اس وڈیو میں
یوٹیوب پر یہی وڈیو



بدھ، 5 فروری، 2014

ویلینٹائن ڈے یوم بے حیائی، حکومت پاکستان اور قانون اسلام

میں نے اس سے پہلے اپنی دوتحریروں [1] میں عورتوں خصوصاً مسلمان عورتوں کے حوالے سے لکھا ہے، ورنہ میں نے صنف نازک پر بہت کم لکھا۔ میں بائیس سال کی عمر تک اپنے مشاہدے، سوچ و بچار اور غور و خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ عورت کی طرف منسوب تقریباً تمام الزامات اور تمام قسم کی برائیوں میں بالواسطہ یا بلا واسطہ مکمل طور نہ سہی لیکن تقریباً مکمل طور پر مَردوں کا ہاتھ کارفرما ہوتا ہے، جب میں جدید نظام تعلیم پر تنقید کرتا ہوں تو شاید لوگوں کے ذہن میں آتا ہے کہ یہ دقیانوسی قسم کا بندہ علم و تعلیم کے حصول کا نجانے کیوں دشمن ہے اور جنگل کے پتھر کے زمانے کی سوچ رکھنے والا ہے! اگر یہ مذہبی ہے تو مذہب بھی تعلیم سے منع تو نہیں کرتا ناں!
میں نے اپنی ایک تحریر میں لکھا تھا کہ اب اگر کوئی یہ کہے کہ یہ چادر اور چار دیواری والا دین پرانا ہو گیا ہے تو وہ جاکے اپنی عقل کا علاج کروائے کیونکہ کہ وہ یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ وہ خود بھی تو اس دین کو سائبان بنا کر پناہ ڈھونڈ رہا ہے، اور میرے محترم ناقدین نے وہی کیا یعنی شریعت ہی سے دلائل لاتے رہے، مثلاً ایک دلیل یہ تھی کہ علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے وغیرہ، وغیرہ تو خود ہی اس شریعت مطہرہ کے ایک حکم کو سنا رہے ہیں اور دوسرے کی تردید کر رہے ہیں یادرہے میں نے تقریباً تمام ملبہ مرد حضرات پر ڈال دیا ہے اور اپنے ان بیانات کے لئے مجھے کوئی لمبی چوڑی دلیل لانے کی ضرورت نہیں
ہمارے اردگرد ایسی ہزاروں مثالیں مل جاتی ہیں کہ جن کے لئے زیادہ حوالے اور ثبوت دینے کی ضرورت باقی نہیں رہتی مثلاً جب ایک نوجوان اپنے محلے کی بیٹی، اپنے دوست کی بہن، اپنی کلاس فیلو یا کولیگ کو ساتھ لے جا کر ویلنٹائن ڈے جیسا شرم ناک دن منانے کسی کلب، ہوٹل یا سینما وغیرہ کی طرف جاتا ہے تو کیا خیال ہے وہ اپنی بہن کو گھر میں اپنے محلے کے لڑکے، اپنے دوست، اس کے کلاس فیلو یا اس کے کولیگ کے رحم و کرم پر چھوڑ کر نہیں جاتا؟ اگر سامنے والی لڑکی کوئی بہانہ بنا کر بے غیرتی کے لئے حدود پھلانگ سکتی ہے تو کیا اس کی بہن کو بہانے بنانے نہیں آتے؟ اگر ایک باپ اپنی بیٹی کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی پر فیشن شو اور میوزک کنسرٹ دیکھے گا تو کیا اس کی بیٹی اُس سے ایک ماڈل یا گلوکارہ بننےکی اجازت طلب نہیں کرے گی؟ بالفرض ایک باس کو نک سک لیڈی سیکرٹری چاہئیے تو کیا اس کی بیٹی کو ایک ہینڈ سم بوائے فرینڈ نہیں چاہیے ہوگا؟
بزرگوں نے فرمایا کہ زنا ایک قرض ہے جس کا بدلہ اپنے گھر سے چکانا پڑتا ہے، اگر کوئی ایسا کرے گا تو وہ ضرور اپنے گھر سے ایسی خبر سنےگا، ہاں البتہ سچی توبہ گناہوں کو دھو ڈالتی ہے ایسے جیسے اُس نے کبھی گناہ کیا ہی نہ تھا لیکن توبہ کے بعد اس کا قائم رکھنا ضروری ہے ورنہ وہ نتیجہ نہیں ملے گا، ملکِ پاکستان ہمارے اکابر نے دس لاکھ سے زائد قربانیاں دے کر اور ایک لاکھ کے قریب عزت مآب عصمتیں لٹا کر اس لئے تو حاصل نہیں کیا تھا کہ اس کے حکمران شرابی، زانی اور بدکردار ہوں گے اور اس ملک کے ہر سرکاری اور پرائیویٹ شعبے میں استحصال ہوگا یہ ملک رشوت خوری اور سود خوری کے لئے نہیں بنایا گیا تھا یہ ملک چھیاسٹھ سال تک کافر انگریز کے آئین کی اندھی تقلید کرنے کے لئے نہیں بنایا گیا تھا اب جب میں جدید نظام تعلیم کے خلاف آواز بلند کرتا ہوں تو اس سے مراد حکمرانوں اور اشرافیہ کی بے بصیرت پالیسیاں اور اپنے تعیش کے لئے نافذ کئے گئے مادر پدر آزاد نظام کے خلاف احتجاج کرتا ہوں، مثلاً ان درندوں کی ہوس کی تسکین کے لیے پوری پوری کالج  وین گم ہو جاتی ہے اور کئی دہائیوں تک اس کا سراغ نہیں ملتا۔ تمام بڑے پرائیویٹ تعلیمی ادارے ان سیاست دانوں کے ہوتے ہیں جن کی اپنی ڈگریوں کی داستانیں۔۔۔ زبان زد عام ہیں اور اداروں میں ثقافت کے نام پر جو بے حیائی اور بے غیرتی کا طوفانِ بدتمیزی برپا ہوتا ہے ممکن ہے فرعون کے ظالمانہ نظام میں بھی نہ ہوتا ہوگا
ملازمت کے حصول کے لیے جس طریقے سے ہمارے ہاں عصمت داؤ پر لگا دینے کو کہا جاتا ہے اور جس ڈھٹائی سے اس فعل قبیح کا ارتکاب کیا جاتا ہے، آج اگر قوم عاد و ثمود بھی ہوتیں تو اس بے غیرتی کو دیکھ کر لرز جاتیں اور توبہ کرلیتیں، میرے نزدیک عورت کو استعمال کیا جاتا ہے میرے نقاد جتنی مثالیں پیش کرسکتے ہیں ضرور کریں لیکن اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ہر مثال کے پس منظر میں کہیں نہ کہیں کسی بے حمیت مرد کا کردار ضرور ہوگا
اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو خود کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کا حکم دیا ہے
سورہ التحریم کی ان آیات کا ترجمہ ملاحظہ ہو
"(6) اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اس پر سخت کرّے (طاقتور) فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کا حکم نہیں ٹالتے اور جو انہیں حکم ہو وہی کرتے ہیں (7) اے کافرو! آج بہانے نہ بناؤ تمہیں وہی بدلہ ملے گا جو تم کرتے تھے ، (8) اے ایمان والو! اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے کو نصیحت ہو جائے قریب ہے تمہارا رب تمہاری برائیاں تم سے اتار دے اور تمہیں باغوں میں لے جائے جن کے نیچے نہریں بہیں جس دن اللہ رسوا نہ کرے گا نبی اور ان کے ساتھ کے ایمان والوں کو"
جب مرد حضرات تو گھر سے باہر نکل کر افلاطوں بن جائیں گے  تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کے رشتے کے لئے عطر و خوشبو سے دھلی ہوئی عصمت منتظر ہوگی، میں نے کہیں پڑھا تھا کہ نیکی پھیلانے والے لوگ زیادہ ہوتے ہیں لیکن وہ سست ہوتے ہیں یا اپنے مقصد کے ساتھ بے لوث اور اُتنے فعال نہیں ہوتے جتنے برائی پھلیانے والے اپنے کام میں مخلص اور چست ہوتے ہیں جب عزازیل (شیطان) کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے مردود اور لعنتی کہہ کر نکال دیا گیا تو اس نے اللہ سے عرض کیا کہ میں تیرے بندوں کو گمراہ کروں گا لیکن تیرے مخلص بندوں پر میرا زور نہیں چلے گا
سورہ صآد کی یہ آخری آیات کا ترجمہ ملاحظہ ہو
(77) فرمایا تو جنت سے نکل جا کہ تو راندھا (لعنت کیا) گیا (78) اور بیشک تجھ پر میری لعنت ہے قیامت تک (79) بولا اے میرے رب ایسا ہے تو مجھے مہلت دے اس دن تک کہ اٹھائے جائیں (80) فرمایا تو تُو مہلت والوں میں ہے ، (81) اس جانے ہوئے وقت کے دن تک (82) بولا تیری عزت کی قسم ضرور میں ان سب کو گمراہ کر دوں گا، (83) مگر جو ان میں تیرے چنے ہوئے بندے [2] ہیں ، (84) فرمایا تو سچ یہ ہے اور میں سچ ہی فرماتا ہوں ، (85) بیشک میں ضرور جہنم بھر دوں گا تجھ سے اور ان میں سے جتنے تیری پیروی کریں گے سب سے ، (86) تم فرماؤ میں اس قرآن پر تم سے کچھ اجر نہیں مانگتا اور میں بناوٹ والوں سے نہیں ، (87) وہ تو نہیں مگر نصیحت سارے جہان کے لیے ، (88) اور ضرور ایک وقت کے بعد تم اس کی خبر جانو گے۔
میرا تو یہ ایمان ہے کہ اگر نسان ایک مخلص بندہ بن جائے تو ہر کام اللہ کے حکم سے ٹھیک  ہوجائے گا، مقام تفکر یہ ہے کہ شیطان کافر ہوجانے کے بعدپہلے دن سے حضرت انسان کے خلاف کفر کے جال بنتا آرہا ہے اور مسجودِ ملائک (انسان) اپنے ازلی دشمن شیطان کو اپنا دشمن ماننے کی ہمت نہیں کرپاتا۔ آپ کا دشمن آپ کی تاک میں ہو تو آپ اس کے کہنے پر کبھی نہیں چلیں گے پھر شیطان کی پیروی کیوں؟ حضرتِ اقبال نے فرمایا کہ
در جوانی توبہ کردن شیوہء پیغمبری
وقت پیری گرگِ ظالم می شود پرہیزگار
دنیا والے خود کش حملہ آوروں کو بہت بڑا دہشت گرد سمجھتے ہیں اور وہ ہیں بھی۔ لیکن میرے نزدیک کسی علاقے میں ایک مخلوط یونیورسٹی بنا کر، ایک ریستوران بنا کر، ایک ڈانس کلب بنا کر،اور ایک سینما گھر بنا کرفحاشی کے اڈے کی کمائی کھانے والے ان حملہ آوروں سے بدتر دہشت گرد ہیں اور ان کے نظام کو مزیدترقی دینے والوں کو شاید جہنم بھی قبول کرنے کرنے سے انکار کردے اور عین ممکن ہے کہ خود کش حملہ آوروں کو جہنم میں جگہ مل جائے۔ ایک  برا  کام عملی طور پر کرنے سے برتر اس کے لئے فکری طور پر راستہ ہموار کرنا ہے اور اس وجہ سے بہت سے لوگ غلط راستے کے راہی بن بیٹھتے ہیں ہمارے معاشرے میں ایسے باطل افکار کو فروغ دینے میں اغیار کے ایجنٹ مختلف بہروپیوں کی صورت موجود ہیں جن میں بدکاری ااور فحاشی کے خلاف آواز نہ اٹھانے والے، مادر پدر آزادی کے عَلم بردار، انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیمیں، بدکاری کے لئے جگہ اور مواقع فراہم کرنے والے ادارے، خاندانی منصوبہ بندی کے نام پر حکومتی درندوں کی یلغار، تعلیم کے نام پر بےحیائی کے فروغ  میں ممد و معاون ادارے ملازمتوں کے نام پر صنفی درندگی کے مراکز ویلینٹائن جیسے مکروہ تہواروں کو منانے کے ٹھکانے، انٹرنیٹ کیفے کے نام پر فحاشی کے ادارے، سی ڈی بیچنے والے، ٹی وی پروگرام نشر کرنے والے اور اسی طرح بے شمار شعبہ جات میں مثلاً کھیلوں کے نام پر، مگر حقیقتاً کفار کے ایجنٹ اس ملک و قوم، دین و ملت اور امت مسلمہ کے درپے ہیں
اسلام صرف عبادات کا مجموعہ نہیں ہے اس میں 80 فیصد سے زائد دیگر موضوعات، مثلاً سیاست، معاشرت، تجارت اور معیشت وغیرہ جیسے بہت سےمعاملات شامل ہیں اسلام سے ان تمام موضوعات کے مختلف پہلوؤں پر رہنمائی ملتی ہے اور اسلام ان کے عملی نفاذ کا تقاضا کرتا ہے۔ عالَم اسلام کے تمام مسلمانوں کو باہم وحدت اختیار کرکے اپنے حالات کا معروضی لینا ضروری ہے، اس ضمن میں اہل علم و دانش پر، صاحبان اقتدار پر اور اہل ثروت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور   باہم آگاہی پھیلانے کے حوالے سے ہر مسلمان ذمہ دار ہے
اسلام کا قانونِ شریعت کوئی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد والے ملا کا قانون تھوڑی ہے بلکہ یہ آئین و دستور تمام انسانیت کے لئے تا ابد بہترین اور ایک مثالی قسم کا نظامِ حیات ہے اس آئین کے خلاف بات کرنے والے منہ سنبھال کر بات کریں کہ آج اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں وہ اعلیٰ اقدار کی شقیں موجود نہیں ہیں جن کا عملی مظاہرہ اسلام چودہ صدیاں قبل پیش کر چکا ہے۔مسلمانو! اسلام کی خاطر اور اسلامیت کی خاطر کڑھنا اور عملی طور پر اس کے لئے کام کرنا شروع کردو تاکہ آپ کی آئندہ نسلیں ایک بہتر مستقبل میں زندگیاں بسر کر سکیں، اسلام کو خود پر اور ریاستی سطح پر نافذ کرنے میں ہی فلاح ہے، ورنہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن یہ درندے ہماری ہڈیاں بھی نوچ کھائیں گے
__________________________________________________________________

[1]        میری وہ دو تحریریں بچیوں کی تعلیم و تربیت اور قوم کا ملال ہیں
[2]       سورہ صآد کی آیت نمبر 83 میں مخلصین کا لفظ آیا ہے جس کا ترجمہ یہاں چنے ہوئے بندے کیا گیا ہے


یہ مضمون 31 جولائی 2013 کی رات 12 بج کر 52 منٹ پر مکمل لکھا گیا اور آج 5 فروری 2014 رات 2 بجے مکمل کمپوز کیا گیا


Whatch  These Two Videos of CNBC Pakistan TV Report:
1. What Happened on Last Valentine's day (2013) in Karachi? Part 01, Under Cover 17 February 2013 Valentines Day Fahashi Phelao
2. What Happened on Last Valentine's day (2013) in Karachi? Part 02 Valentine's Day Mananay k Baad Kya Huya-Undercover (17th February 2013)-On CNBC

طالبان، حقیقی طالبان، مذاکرات اور طالبان کا اپنا کوئی بندہ

مولانا سمیع الحق صاحب کے نزدیک طالبان کو موقع نہیں دیا جا رہا یعنی ان کی نامزد کردہ کمیٹی کو قابل اعتناء نہیں سمجھا جا رہا، حکومت مذاکرات میں سنجیدہ نہیں آتی،  ان کے نزدیک اصل طالبان کی نمائندہ یہ کمیٹی ہے، لیکن جنداللہ گروپ وغیرہ سے طالبان نے لاتعلقی کا اظہار کردیا ہے
سوال یہ ہے کہ اصل طالبان فسادات نہیں کرتے ہیں اور دوسرے گروپس سے وہ بری ہیں تو مذاکرات کی منطق پھر کہاں تک درست ہے کیونکہ باغی گروپس تو فساد سے باز آنے والے نہیں، لیکن جن کے جگر کے 50،000 سے زائد ٹکڑے اس ظلم و ستم کا شکار ہوئے وہ اپنوں کا خون کس کے ہاتھ پر تلاش کریں؟
اگر طالبان فسادی ہی نہیں ہیں تو اتنا اتمام حجت کرنے کی ضرورت سمجھ میں نہیں آتی، آپریشن تو صرف باغی گروپس کے خلاف ہونا چاہئیے اور ان کا ضمانتی ڈھونڈے سے نہیں ملتا!
یا اللہ یہ کیا ماجرا اور الجھی ہوئی ڈور ہے کہ جس کا سرا نہیں مل رہا؟
اگر اصل طالبان کا دامن صاف ہے تو پھر انہیں کس بات کا خوف ہے لیکن اصل طالبان ہیں کونسے والے؟ حکیم اللہ محسود والے یا کوئی اور؟ اگر تو حکیم اللہ محسود والے ہیں تو ان کے ریکارڈ  (بی بی سی کی ویڈیو بھی اور نوائے وقت بھی)سے ثابت ہے کہ وہ عبادت گاہوں پر حملوں میں ملوث رہے ہیں
اور اگر وہ اصل طالبان نہیں ہیں تو ملا فضل اللہ (ملا ریڈیو) تو اسی گروپ کا نمائندہ ہےاب جائیں تو جائیں کہاں، کس کا سر پیٹیں؟
ان کے نزدیک ہر مسجد طالبان کا دفتر ہے تو وہ مساجد اور درگاہوں کو شہید کیوں کرتے ہیں؟
یہ ایک ایسا گھمبیر (گمبھیر)مسئلہ ہے جس کا جواب شاید آج کل کے نام نہادوں سیاستدانوں عمران خانوں اور طالبانوں کے پاس بھی نہیں ہے، پاکستانی حکومت اور امریکہ کے پاس بھی شاید اس کا جواب نہیں ہے
البتہ قرآن مجید اور حدیث پاک سے مل جائے گا
کوئی آہ تو کرے دل سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
مزید ایک خبر یہ ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف فرماتے ہیں کہ مذاکرات میں طالبان کا اپنا کوئی بندہ بھی ہونا چاہیے، اس مسئلے کا حل بہت آسان ہے، پچھلے سال انتخابات سے قبل انہوں نے میاں صاحب کو اپنا سمجھ کر ہی نامزد کیا تھا، اگر ادا نہیں پڑھ سکے تو اب قضا ہی کر لیں

پیر، 3 فروری، 2014

تعلیمی تنزلی آخر کیوں؟

ہم تعلیمی زبوں حالی کے دور سے گزر رہے ہیں لیکن اُمید کادامن چھوڑنایامایوس ہوجانابلند ہمت قوموں کاشیوہ نہیں ہے ۔ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ علمی کام کرنے والے افراد وسائل کے منتظر نہ رہے اورنہ ہی وسائل کی عدم دستیابی ان کے راستے کی رکاوٹ بن سکی۔ آج کابچہ دس جماعتیں (میٹرک) تو پاس کرلیتا ہے لیکن اُس کے اَفکار میں کوئی طلاطم برپا نہیں ہوتا ۔وہ اپنی منازل سے بے خبرہوتاہے، اسے اپنے مستقبل سے آگاہی حاصل نہیں ہوتی، وہ اپنے تابناک ماضی سے رُوشناس نہیں ہوتا۔ جغرافیہ کی مدمیں اُسے پاکستان کے صوبوں، شہروں اوراضلاع کا بھی علم نہیں ہوتا، اسے موجودہ دورمیں ٹی وی سکرین پر نظر آنے والے فنکاروں کی لسٹیں تو اَزبر ہوتی ہیں مگراپنے اَسلاف میں سے عظیم تاریخی ہستیوں سے شناسائی نہیں ہوتی اورہمارے گریجویٹ طلباء کو عصری بین الاقوامی معاشیات، سائنس اورٹیکنالوجی کی توضرورخبر ہوتی ہے مگرافسوس! انہیں مسلمان ہوتے ہوئے بھی اپنے عظیم تاریخی محسنوں، سکالرز، سپہ سالار اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ تاریخی شخصیات کے نام تک معلوم نہیں ہوتے۔ وہ سرسیدکوایک مصلح کے طورپر جانتے ہیں تو کیا انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ مجددالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم اصلاحی تحریک اوربے دریغ قربانی بھی صفحۂ تاریخ کا عظیم حصہ ہے۔ آج کا ماسٹر ڈگری ہولڈر ناز و نخرے اور فخر سے ٹوٹی پھوٹی انگریزی تو بول لیتاہے مگروضو اورغسل کے مسائل نہیں بتاسکتا۔ اگر وہ انگریزی کو ہی ترجیح دیتے ہیں تو کم از کم انگلش گرائمر پر عبورہی حاصل کر لیا ہوتا اور اور ان کی زبان میں روانی ہوتی۔ تو کہنے دیجئے:
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
ہمارے بچوں کاتعلیمی معیار اتنا کیوں گر چکا ہے ۔۔۔ ؟ کیاان کو قابل اساتذہ میسر نہیں ہیں۔۔۔ ؟ یا پھر وہ سیکھنا ہی نہیں چاہتے۔۔۔ یعنی ان کا مقصد صر ف حصول ڈگری ہی ہے ۔۔۔ وہ انقلاب آفریں شخصیات بننے کے لیے ذہنی اورعملی طور پرتیار کیوں نہیں ہوپاتے۔۔۔ ؟ وہ معاشی اورجدید سائنسی مصلحین کے ساتھ ساتھ امام غزالی کے اسلامی فلسفہ سے واقف کیوں نہیں ہوتے ۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس قوم کی قیادت اورمعماری انہی لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو خود فکری طور پر اغیار کے غلام ہیں۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے۔ بچوں کی ذہنی پرورش بھی ویسی ہی ہو گی۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں:
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اُس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اسے پھیر
کیایہ لوگ نونہالان چمن کی آبیاری کرسکیں گے۔۔۔ ؟ جوکہ اَرسطو، افلاطون، سکندرِ یونانی اوراَتا ترک جیسے فلاسفرز کے پیروکار ہیں۔ کیا وہ ان خوبیوں کے حامل ہیں کہ قوم اپنی تمام توقعات کو ان کے رحم وکرم پر چھوڑ کرخواب خرگوش میں محوہوجائے۔ آج کہا جاتا ہے کہ معاشی پسماندگی کودور کئے بغیر تعلیمی پستی کودورکرنے کاخواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ۔ کیا تاجدارِ مدینہ ﷺ اورآپ کے تمام غلاموں نے کبھی صرف وسائل ظاہری پرتکیہ کیاتھا۔۔۔ ؟ یادنیوی وسائل کے ساتھ توکل علی اللہ پر بھی عمل پیرا تھے؟ کیاابن علی رضی اللہ عنہما وسائل کوساتھ لے کرمیدان کرب وبلامیں تشریف لائے تھے ؟ آج ہم لوگ کس قدر غلط فہمی کاشکار ہیں ؟ کیا قومیں کبھی اعلیٰ افکار سے مزین ہوئے بغیر عملی انقلاب برپا کرسکتی ہیں۔۔۔ ؟ آج لوگ ہمیں تباہی وتنزلی کی آخری حدود پرکیوں دیکھ رہے ہیں؟ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو خیال جس کو آپ اپنی حالت کے بدلنے کا کیاابتدائے اسلام کے تمام ہیروزغیروں کے قائم کردہ نظام تعلیم سے مستفید تھے؟ کیا ان کا بہترین ادارہ مسجد نہ تھا ؟ کیا وہ اپنا مافی الضمیر بیان کرنے میں افراط وتفریط اور مصلحت کے شکار تھے ؟ کیا امام اعظم اوردیگرتمام ائمہ مجتہدین اورلشکرہائے اسلام کے تمام سپہ سالار ان اور ذمہ دار خلفاء و اسلامی حکمران کبھی ان فکری پابندیوں میں مقید رہے جن میں آج کے اربابِ اقتدار اور نام نہاد سکالرزجکڑے ہوئے ہیں۔ اگر ہمیں اپنا کھویا ہوامقام دوبارہ حاصل کرناہے توہمیں غیروں کی تقلید چھوڑکر اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلنا ہوگا۔ پروردگار ہم سب کو حق کی توفیق ارزانی فرمائے ۔آمین

تعلیمی رہنمائی کا فقدان

ہمارے معاشرے میں تعلیمی رہنمائی کی کمی طلبامیں شدت کے ساتھ پائی جاتی ہے لیکن انہیں بھی اس حقیقت کاادراک کم ازکم ماسٹرلیول کی تعلیم کے بعدہوتاہے اورجوطلباء وطالبات ماسٹرزتک پہنچ ہی نہیں پاتے وہ یکسرہی نابلدر ہتے ہیں۔آج سے ایک عرصہ پہلے تک ہائی سکول میں فارسی اورعربی کی تعلیم دی جاتی تھی۔فارسی کو تو کب کا سکول سے دیس نکالا دے دیاگیا۔البتہ عربی ابھی تک نصاب میں موجود ہےلیکن اس کوپڑھانے والا ہی کوئی موجود نہیں۔کیونکہ عربی اساتذہ کی سرکاری سکولوں میں خاطرخواہ تقرری ہی نہیں کی جاتی اورپرائیوٹ،انگلش میڈیم اداروں کواس کی ضرورت ہی نہیں۔ کیونکہ ان کامقصدہی اس قوم کومغربی استعماری رنگ میں ڈھالنا ہے۔باقی رہے چھوٹے پرائیوٹ ادارے،تووہ عربی ٹیچرکیوں مقرر کریں وہ اپنے ہی سکول میں بذاتِ خودپیپرلے کربچوں کو پاس کردیتے ہیں چاہے بچے کوپڑھنالکھنابھی آتا ہو یا نہ آتاہو،اُن کی بلاسے۔ ماسوائے چنددینی اداروں کے دیگرتمام دینی مدارس میں ابھی تک انگریزی زبان سکھانے کا رجحان ترقی نہیں پاسکا۔ وہ ادارے طلباء کو عربی،فارسی،صرف ونحو، منطق اوراسماء الرجال،علم تفسیر ، تفسیر، علم حدیث،حدیث اوردیگرمروّجہ علوم میں توطاق بنادیتے ہیں ۔ لیکن طالب علم انگریزی زبان اوردوسرے جدیدعلوم جیساکہ سائنس وٹیکنالوجی اورجدیدمعاشیات وغیرہ کے علوم سے محروم رہ جاتے ہیں۔یعنی آپ جس قسم کے ادارے سے فیض یافتہ ہوں گے صرف اسی نوعیت کاکام کرسکیں گے۔علوم شرقیہ کی اعلیٰ تعلیم کی اسنادعصری علوم کی درسگاہوں اوردفاترمیں ناقابل قبول قرارپائی جاتی ہیں۔ جبکہ صرف عصری علوم سے فارغ التحصیل لوگ علماء کوصرف علوم دینیہ ونماز،رو زے کاذمہ دار سمجھ کرخودکوبری الذمہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔باہمی یگانگت وہم آہنگی اورمشترکہ نظامِ تعلیم ایک اہم ضرورت وقت ہے اورآنے والی نئی نسل کو پورا پورا حق حاصل ہے کہ اُن کی تعلیم وتربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کی جائے اورنئی پودکوسائنس وٹیکنالوجی میں ماہربناکرمُلک خداداد کے قدرتی وسائل کودرست اندازمیں بروئے کار لایاجائے اور امت مسلمہ کی فلاح کابیڑا اسی خطہ ارضی سے اُٹھایاجائے۔کیونکہ یہ ملک توخالصتاًاسلام کے نام پرقائم کیاگیاتھاحالانکہ قومی لحاظ سے یہ ایک ملک نہ تھالیکن فکری سطح پردین اسلام کے نام پراس پاک سرزمیں کوہندوستانی مسلمانوں کا مسکن کہا گیا اور پاکستان کا نام دیا گیا۔اگریہ ملک بھی اسلام کی نشاۃثانیہ کرنے میں ناکام رہتاہے توپھردوسرے ممالک جومحض قومیت کی بناء بناپرقائم ہیں اُن سے اس قسم کی توقع رکھنا ہی عبث (فضول) ہے۔ہمارے طلباء کو یہ علم نہیں ہوتاکہ میٹرک میں سائنس پڑھنے کے بعدہم کن کن شعبہ جات میں تعلیم حاصل کرسکتے ہیں اورمیٹرک میں آرٹس پڑھنے کے بعدکون کون سے علم سے استفادہ حاصل کیاجاسکتاہے۔سکو ل کے طلباء سمجھتے ہیں کہ دینی مدارس میں علماء بچوں کوصرف دورکعت کاامام بننے کی تعلیم دیتے ہیں اوردینی مدارس کے بچے یہ سمجھتے ہیں کہ سکول میں محض مغربیت کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔دونوں فریق اپنی اپنی جگہ احساس برتری اوربالمقابل علوم سے ناآشناہونے کی بناء پراحساس کمتری کا شکار پائے جاتے ہیں۔دینی مدارس کے طلباء کوابتدائی تین چارسالوں میں جتنی گرائمر پڑھا دی جاتی ہے۔ کالجزمیں غالباً ایم۔اے تک بھی نہیں سکھائی جاتی۔علوم مغربیہ کے والدادہ حضرات صرف شک کرسکنے کی حد تک علم حاصل کرپاتے ہیں۔ اوردینی مدارس کے فارغ التحصیل طلباء اپنے مؤقف کوحرف آخرقراردینے میں مُصردکھائی دیتے ہیں۔فنی وتکنیکی علوم حاصل کرنے والے طلباء کوکوئی اورہی مخلوق سمجھاجاتاہے۔حالانکہ ہمارے ہاں اس علم کی کمی کی وجہ سے ملکی وسائل سے پوراپورافائدہ حاصل نہیں کیاجارہا۔ماہرین علوم، علماء کرام اورارباب بست وکشادکوچاہئے کہ وہ تعلیم کے معاملے کوانتہائی سنجیدگی سے لیتے ہوئے مل جل کرمتوازن نظامِ تعلیم ترتیب دیں اور ملکی سطح پراُس کو یکساں رائج کر کے اُمت مسلمہ کی آبیاری درست خطوط پر فرمائیں اوربیسوں اقسام کے تعلیم نظاموں کوختم کرواکرتمام افراد کوایک جیسی تعلیم دلوانے کااہتمام کریں تاکہ ہرقسم کی شدت پسندی احساس کمتری اوربنیادی علوم کی محرومی سے بچا جاسکے اور اس ملک وقوم کوترقی کی راہوں پرگامزن کیاجاسکے ۔ کیونکہ اقبال نے کہاہے:۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
اورمزیدکہاکہ:۔ 
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف