پیر، 5 مئی، 2025

Ajab Donia Ast En Donia - Urdu Translation

 

آرزو عیسیٰ - تاجک شاعر
(تصویر: ویکیپیڈیا از Bahromjalilov)
عجب دنیاست این دنیا
 کیا عجب دنیا ہے یہ دنیا بھی!


یکی بیچاره و تنها
ایک ہے بیچارہ اور تنہا

یکی لبتشنه در صحرا
ایک ہے پیاسا صحرا میں

یکی بیدرد و بیپروا
ایک ہے بے درد اور لاپروا

عجب دنیاست این دنیا
کیا عجیب ہے یہ دنیا!


یکی چون ماهی در شست
ایک ہے جیسے مچھلی کانٹے میں

یکی بیپول، یکی پولمست
ایک ہے مفلس، ایک ہے دولت میں مست

یکی بیپا، یکی بیدست
ایک کے پاس پاؤں نہیں، ایک کے ہاتھ نہیں

عجب دنیاست این دنیا
کیا عجیب ہے یہ دنیا!


یکی از آدمی دور است
ایک ہے انسانوں سے دور

ز ثروت مست و مغرور است
دولت سے مدہوش اور مغرور ہے

به فکرش از خدا زور است
اس کے خیال میں خدا پر بھی زور چلتا ہے

عجب دنیاست این دنیا
کیا عجیب ہے یہ دنیا!


یکی در قلب زندان است
ایک ہے جو قید خانے کے بیچ میں ہے

ز اعمالش پشیمان است
اپنے اعمال پر پشیمان ہے

دلش لبریز از ارمان است
دل اس کا ارمانوں سے لبریز ہے

عجب دنیاست این دنیا
کیا عجیب ہے یہ دنیا!


یکی از بچه بیزار است
ایک ہے جو بچوں سے بیزار ہے

یکی بر ناخنش زار است
ایک ہے جو اپنے ناخن پر زار ہے

به یاد بچهی بیمار است
وہ بیمار بچے کی یاد میں ہے

عجب دنیاست این دنیا
کیا عجیب ہے یہ دنیا!


یکی دور از وطن باشد
ایک ہے جو وطن سے دور ہے

چو گل دور از چمن باشد
جیسے پھول ہو چمن سے دور

که جان دو ز تن باشد
جیسے جان ہو جسم سے جدا

عجب دنیاست این دنیا
کیا عجیب ہے یہ دنیا!


یکی بیدین و ایمان است
ایک ہے جو دین و ایمان سے خالی ہے

و خدمتکارش شیطان است
اور وہ شیطان کا خدمتگار ہے

پی آزار انسان است
وہ انسانوں کو اذیت دینے کے پیچھے ہے

عجب دنیاست این دنیا
کیا عجیب ہے یہ دنیا!


یکی از عشق دیوانه
ایک ہے جو عشق میں دیوانہ ہے

میان مردم افسانه
لوگوں میں وہ ایک افسانہ ہے

یکی بیکوی و بیخانه
ایک ہے جس کا نہ کوئی گھر ہے نہ گلی

عجب دنیاست این دنیا
کیا عجیب ہے یہ دنیا!


یکی امید زن دارد
ایک کو بیوی کی امید ہے

یکی آب وطن دارد
ایک کو وطن کا پانی نصیب ہے

یکی فکر کفن دارد
ایک ہے جو اپنے کفن کی فکر میں ہے

عجب دنیاست این دنیا
کیا عجیب ہے یہ دنیا!




یکی در کودکی میرد
ایک ہے جو بچپن میں ہی مر جاتا ہے

ز جبر زندگی میرد
زندگی کے جبر سے مر جاتا ہے

یکی از گشنگی میرد

ایک بھوک کی وجہ سے مر جاتا ہے

عجب دنیاست این دنیا

کیا عجیب ہے یہ دنیا!



شاعر: آرزو عیسیٰ (تاجکستان)
گلوکار: میر مفتون (نے گایا ہے)۔ اُن سے پہلے بھی ایک گائیک (حسن حیدر) نے گایا تھا۔
اُردو پیشکش: عبدالرزاق قادری

پیر، 24 فروری، 2025

محنت، لگن اور کامیابی کی سچی کہانی

میرا پیارا راج دلارا محمد نوید 1994ء میں ضلع وہاڑی کی تحصیل میلسی کے ایک قصبے گڑھا موڑ کے ایک نواحی پسماندہ گاؤں میں پیدا ہوا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں نہ صرف بنیادی سہولیات کی شدید کمی تھی بلکہ ساتھ ساتھ مین روڈ سے پانچ کلومیٹر کی دوری کا مسئلہ بھی تھا۔ اس گاؤں میں ایک ظالم خاندان کی اجارہ داری تھی جو لوگوں پر بلاوجہ حکم چلاتا اور ظلم کرتا تھا۔


جب نوید 9 سال کا ہوا تو سن 2003ء میں اس کے والدین نے بچوں کے بہتر مستقبل اور اچھی تعلیم کی خاطر لاہور کا رخ کیا۔ میاں محمد منشی ہسپتال کے قریب کرائے کے مکان میں رہائش اختیار کی۔ یہ فیصلہ آسان نہیں تھا لیکن بہتر زندگی کی امید نے ان کی ہمت کو برقرار رکھا۔


نوید نے اپنی ابتدائی تعلیم بلال گنج کے قرب و جوار کے اسکولوں میں حاصل کی۔ اس کے بعد پنجاب کالج اور پھر پنجاب یونیورسٹی سے 16 سال تک تعلیمی سفر جاری رکھا۔ میں، عبدالرزاق قادری، اس کی تعلیم و تربیت میں اس وقت سے شامل ہوں جب وہ ساتویں جماعت میں تھا۔ 2010ء میں میں نے اسے میتھس کے بنیادی اصول سمجھائے اور اس کی تعلیم میں بھرپور مدد کی۔ میں اس کے ساتھ ہر قدم پر رہا، اسے ٹیوشن دیتا رہا، اور اسکول کا سبق یاد کرواتا رہا۔


نوید کے والد ایک بس ڈرائیور تھے اور بعد میں کار بھی چلانے لگے۔ ان کی معمولی آمدنی کے باوجود نوید نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ مشکلات کے باوجود اپنی پڑھائی پر توجہ دیتا رہا اور ایم ایس سی میتھس مکمل کرنے کے بعد تدریس کے شعبے میں قدم رکھا۔ پہلے لاہور میں میتھس (ریاضی) پڑھایا اور بعد ازاں آن لائن تدریس شروع کی۔


آج نوید امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، دبئی، سعودی عرب، برطانیہ اور یورپ کے کئی ممالک میں آن لائن ریاضی پڑھاتا ہے۔ اس کی محنت نے اسے آسودہ حال کر دیا ہے۔ یہ وہی بچہ ہے جسے میں نے مشکل حالات میں محنت کرتے دیکھا تھا، اور آج اس کی محنت ہی اس کی کامیابی کی ضمانت بن گئی ہے۔


کل 23 فروری 2025ء کو اس کی شادی ہوئی اور آج اس کا ولیمہ ہے۔ میں اپنی فیملی کے ساتھ سب سے پہلے شادی ہال میں پہنچا ہوں اور بے حد خوش ہوں۔ اللہ نوید اور اس کی بیگم کو ہمیشہ خوش رکھے۔ میری دعا ہے کہ اللہ اسے دنیا اور آخرت میں کامیابی عطا فرمائے۔


یہ کہانی صرف نوید کی نہیں، بلکہ ہر اس شخص کی ہے جو مشکلات کے باوجود ہمت نہیں ہارتا اور اپنی محنت کو اپنی کامیابی کی بنیاد بنا لیتا ہے۔

اتوار، 2 فروری، 2025

زندگی کی مشکلات اور کامیابی کی راہ


زندگی ایک کھیل کی طرح ہے، جہاں ہر دن ایک نیا چیلنج ہوتا ہے۔ جیسے کسی کھیل میں جیتنے کے لیے محنت، صبر اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے، ویسے ہی حقیقی زندگی میں بھی کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔

کوئی بھی شخص ایسا نہیں جس کی زندگی میں مشکلات نہ آئی ہوں۔ کچھ لوگ ان مشکلات سے گھبرا جاتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ ان کا مقابلہ کر کے کامیابی حاصل کر لیتے ہیں۔ اصل کامیاب وہی لوگ ہوتے ہیں جو ہمت نہیں ہارتے اور ہر مشکل کو نئے موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔

ہر انسان کی زندگی میں کسی نہ کسی طرح کی مشکلات آتی ہیں۔ کچھ لوگوں کے پاس وسائل کم ہوتے ہیں، کچھ کو تعلیمی مسائل کا سامنا ہوتا ہے، کچھ اپنی فیل ہونے کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں، تو کچھ اپنے گھر کے حالات کو لے کر فکرمند ہوتے ہیں۔


لیکن یاد رکھیں! ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ہوتا ہے۔ صرف وہی لوگ ناکام ہوتے ہیں جو ہار مان کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر آپ کسی مشکل سے گزر رہے ہیں، تو اسے ایک موقع سمجھیں، جس سے آپ کچھ نیا سیکھ سکتے ہیں۔


دنیا میں جتنے بھی کامیاب لوگ ہوئے ہیں، وہ سبھی کسی نہ کسی مشکل سے گزرے ہیں۔ مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری، بلکہ مسلسل جدوجہد کی اور کامیاب ہوئے۔


1. تھامس ایڈیسن – بار بار ناکامی، مگر آخر کار کامیابی


تھامس ایڈیسن کو بچپن میں اسکول سے نکال دیا گیا تھا، کیونکہ استاد نے کہا تھا کہ وہ کچھ نہیں سیکھ سکتا۔ لیکن اس کی ماں نے اس کا حوصلہ بڑھایا۔ اس نے ہزاروں بار ناکامی کے بعد بھی بجلی کا بلب ایجاد کر لیا۔ اگر وہ کچھ بار کی ناکامی کے بعد ہار مان لیتا، تو شاید آج دنیا اندھیرے میں ہوتی۔


2. عبد الستار ایدھی – دوسروں کے لیے جینا


ایدھی صاحب پاکستان کے سب سے بڑے سماجی کارکن تھے۔ ان کے پاس کوئی بڑی دولت یا طاقت نہیں تھی، مگر انہوں نے اپنے عزم سے ایک ایسا فلاحی نظام بنایا جو دنیا بھر میں مشہور ہو گیا۔ انہوں نے دکھوں میں گھرے لوگوں کی مدد کی اور ان کا نام ہمیشہ کے لیے تاریخ میں لکھ دیا گیا۔


3. جے کے رولنگ – مشکلات سے نکل کر کامیابی کی طرف


مشہور ناول "ہیری پوٹر" کی مصنفہ جے کے رولنگ ایک وقت میں بے روزگار تھیں اور ان کے پاس کھانے کے پیسے بھی نہیں تھے۔ مگر انہوں نے اپنی کہانی لکھی، کئی پبلشرز نے اسے مسترد کر دیا، مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ آج وہ دنیا کی سب سے کامیاب لکھاریوں میں شمار ہوتی ہیں۔


مشکلات کو کیسے ہمت اور حوصلے میں بدلا جائے؟


کبھی ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ ختم ہو چکا ہے، مگر حقیقت میں یہ صرف ایک نیا آغاز ہوتا ہے۔ جب بھی زندگی میں کوئی مشکل آئے، تو یہ طریقے آزمائیں:


1. ہمیشہ خود پر یقین رکھیں


اگر آپ کو خود پر یقین ہے، تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو شکست نہیں دے سکتی۔ کامیابی کا پہلا قدم یہی ہے کہ آپ خود کو قابل سمجھیں اور اپنی محنت پر بھروسہ کریں۔


2. ناکامی سے گھبرائیں نہیں، اس سے سیکھیں


ناکامی کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ناکام انسان ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے کچھ نیا سیکھا ہے۔ جب بھی آپ کسی چیز میں فیل ہوں، تو دیکھیں کہ آپ کہاں غلطی کر رہے ہیں اور اسے بہتر کرنے کی کوشش کریں۔


3. ہمیشہ مثبت سوچ رکھیں


اگر آپ کسی چیز میں ناکام ہو جائیں، تو یہ نہ سوچیں کہ "میں کبھی کچھ نہیں کر سکتا"، بلکہ یہ سوچیں کہ "میں نے کچھ نیا سیکھا ہے، اب میں دوبارہ بہتر کوشش کروں گا۔" مثبت سوچ رکھنے والے لوگ ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں۔


4. محنت کرتے رہیں، کامیابی خود آئے گی


اگر آپ کوئی ہنر سیکھنا چاہتے ہیں، امتحان میں اچھے نمبر لینا چاہتے ہیں، یا زندگی میں کچھ بڑا کرنا چاہتے ہیں، تو بس محنت کرتے رہیں۔ کامیابی فوراً نہیں آتی، مگر مسلسل محنت کرنے والے لوگ ایک دن سب کو حیران کر دیتے ہیں۔


5. شکر گزار بنیں اور صبر کریں


کبھی کبھی ہمیں وہ چیز نہیں ملتی جس کی ہمیں امید ہوتی ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ناکام ہیں۔ اللہ کی ہر چیز میں بہتری ہوتی ہے، اس لیے ہمیشہ شکر گزار بنیں اور صبر کریں۔


کامیابی کی اصل پہچان


کامیابی صرف دولت یا شہرت کا نام نہیں، بلکہ اصل کامیابی وہ ہوتی ہے جو آپ کے دل کو سکون دے اور دوسروں کے لیے فائدہ مند ہو۔ ایک اچھا طالب علم، ایک اچھا دوست، ایک اچھا انسان بننا بھی کامیابی ہے۔


اگر آپ ہمت اور حوصلے کے ساتھ آگے بڑھیں گے، تو آپ کی کامیابی صرف وقت کی بات ہے۔ یاد رکھیں:


"ناکامی صرف ایک سبق ہوتا ہے، مگر مسلسل محنت کامیابی کی کنجی ہے!"


تو ہمت کریں، آگے بڑھیں، اور کبھی ہار نہ مانیں! 



ہفتہ، 1 فروری، 2025

افسانہ: تھل کا خاموش چرواہا

 عباس گِل جٹ

1960ء: ریگستان مں پیدا ہونے والا مسافر

تھل کی بے رحم ریت، جہاں سورج آگ برساتا ہے اور ہوائیں کبھی شعلہ بن کر چلتی ہیں تو کبھی خاموشی میں گم ہو جاتی ہیں، وہی زمین عباس گِل جٹ کا مقدر بنی۔ ضلع لیہ کے ایک گاؤں میں، جہاں نہر کا پانی کبھی کبھی کھیتوں تک پہنچتا، جہاں ہلکی پھلکی فصل ہو جاتی مگر زندگی کا اصل انحصار مویشیوں پر تھا، عباس نے آنکھ کھولی۔

گاؤں میں غربت تھی، مگر خودداری بھی۔ عباس کا بچپن مویشی چرانے میں گزرا۔ صبح سویرے چادر کندھے پر ڈال کر، ڈنڈا ہاتھ میں لیے وہ ریت کے ٹیلوں میں نکل جاتا، مویشیوں کو سبزہ تلاش کر کے کھلاتا اور شام ڈھلے انہیں ہانکتا ہوا واپس آتا۔ بچپن کے دن کہاں معلوم ہوتے ہیں کہ کل کیا ہوگا؟ عباس بھی اسی بے فکری میں پلا بڑھا، مگر ایک جٹ مرد کی طرح، محنت اور قربانی اس کی گھٹی میں تھی۔

1980ء: جوانی کا آغاز اور زندگی کی کشمکش

وقت بدلا، مگر تھل کی سختیاں نہ بدلیں۔ عباس جوان ہوا تو بھی وہی مویشی، وہی کھارا پانی، وہی ریت کے طوفان۔ نہر کا پانی گاؤں تک آتا تھا، مگر زمینیں زیادہ زرخیز نہ تھیں، تھوڑا بہت گندم ہو جاتی، مگر عباس چارہ کاشت کرنے کے بجائے مویشیوں کو کھلا چرا کر پالنے کا عادی رہا۔ وہ صبح نکلتا، دن بھر مویشیوں کے ساتھ رہتا، اور شام ڈھلے گھر لوٹتا۔

1995ء: شیخوپورہ سے آئی شہناز بی بی اور نیا گھر

عباس کی شادی شیخوپورہ کے ایک گاؤں کی شہناز بی بی سے ہوئی، جو صبر، محبت اور سلیقے میں اپنی مثال آپ تھی۔ اسے جب بیاہ کر لیہ لایا گیا، تو وہ شہروں کے نسبتاً بہتر حالات سے نکل کر تھل کے صحرا میں آ بسی۔ مگر اس نے کبھی شکایت نہیں کی، وہ جانتی تھی کہ عباس ایک محنتی مرد ہے، جو ساری زندگی صرف اپنے گھر والوں کے لیے وقف کر دے گا۔

جلد ہی ان کے ہاں اولاد کی نعمت بھی مل گئی۔ پہلے دو بیٹیاں پیدا ہوئیں، پھر بیٹا اویس آیا، اور اس کے بعد مزید دو بیٹیاں۔ یوں اویس دو بڑی بہنوں کا لاڈلا بھائی اور دو چھوٹی بہنوں کا محافظ بن گیا۔ عباس کو اویس کی صورت میں اپنی جوانی کا عکس نظر آتا تھا، جو ایک دن اس کی جگہ لے گا اور مویشیوں کے ساتھ کھیت سنبھالے گا۔

2005ء: زہریلے پانی کی تباہی کا آغاز

نہر کا پانی زمین کو کچھ دیر کے لیے سیراب کر دیتا تھا، مگر پینے کے لیے عباس اور گاؤں کے دیگر لوگ وہی زیر زمین کھارا پانی استعمال کرتے، جو سالہا سال سے ان کے جسم میں زہر گھول رہا تھا۔ صنعتی فیکٹریوں کا کیمیکل جب زمین کے اندر پہنچا، تو پانی بھی زہر بن گیا، مگر گاؤں کے لوگ یہ سمجھ نہ سکے کہ ان کے جسموں میں ایک خاموش قاتل پل رہا ہے۔

2015ء: محنت، ترقی اور اولاد کے لیے قربانی

عباس کی زندگی میں سب سے بڑی خوشی اس کی اولاد تھی، اور اس نے ہمیشہ ان کے لیے سوچا۔ وہ جانتا تھا کہ صرف مویشی پالنا کافی نہیں، اس لیے اس نے محنت کی، زمین ٹھیکے پر لی، چارہ بھی کاشت کرنے لگا۔

پھر اس نے بیوی اور بچوں کے خواب پورے کرنے کے لیے ایک فیصلہ کیا—وہ ایک پکا گھر بنائے گا، تاکہ اس کے بعد بچوں کو صعوبتیں نہ سہنی پڑیں۔

اور وہ یہ خواب پورا کر گیا!

اس نے گھر بنایا، کھیتوں میں چارہ کاشت کیا، اور سب سے بڑی بات، اپنے بچوں کے لیے ایک ٹریکٹر خرید لیا۔ اب اویس اور بیٹیاں آرام سے زندگی گزار سکتے تھے، اپنے کھیتوں کی دیکھ بھال کر سکتے تھے، مویشی پالنے کے ساتھ کھیتی بھی کر سکتے تھے۔ عباس کے چہرے پر سکون تھا، جیسے ایک باپ اپنی آخری ذمہ داری پوری کر چکا ہو۔

2024ء: کینسر کی خبر اور زندگی کی آخری راتیں

لیکن قسمت کچھ اور ہی لکھ چکی تھی۔ عباس گِل جٹ جو زندگی بھر کھارا پانی پیتا رہا، جو خود کو ہر تکلیف کا عادی سمجھتا تھا، وہ یہ نہ جان سکا کہ اس کے اندر کینسر پل چکا تھا۔

جب درد ناقابلِ برداشت ہوا، تو اویس اسے ضلع لیہ کے اسپتال لے گیا۔ رپورٹس آئیں، ڈاکٹر نے نظریں جھکا لیں۔

"یہ کینسر آخری اسٹیج پر ہے، زیادہ وقت نہیں رہا۔"

شہناز بی بی رو پڑی، بیٹیاں سسکنے لگیں، مگر عباس مسکرا دیا۔ "رونے کا وقت نہیں، میں نے سب کچھ تمہارے لیے پہلے ہی مکمل کر دیا ہے۔ میرے بعد تمہیں کسی کا محتاج نہیں ہونا پڑے گا!"

جنوری 2025ء: تھل کے چرواہے کی آخری سانس

وہ جنوری کی ایک ٹھنڈی شام تھی، جب عباس گِل جٹ کی سانسیں مدھم ہونے لگیں۔ بیٹیاں پاس بیٹھی تھیں، شہناز بی بی دعا پڑھ رہی تھی، اویس ضبط کیے کھڑا تھا۔ عباس نے آخری بار آسمان کی طرف دیکھا، جیسے کچھ کہنا چاہتا ہو، پھر آہستہ سے بولا،

"اویس، بیٹیوں کا خیال رکھنا۔ کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا، ہمیشہ محنت کرنا، زمین مت بیچنا!"

یہ کہہ کر اس کی آنکھیں بند ہو گئیں، اور تھل کا یہ چرواہا خاموشی سے دنیا چھوڑ گیا۔

اختتام: عباس تو چلا گیا، مگر سوال چھوڑ گیا

اویس نے باپ کو قبر میں اتارا، مگر اس کی آنکھوں میں ایک عجیب چمک تھی۔ وہ جان چکا تھا کہ اس کا باپ صرف مویشی چرانے والا نہیں تھا، وہ تھل کا عظیم چرواہا تھا، جو اپنی اولاد کے لیے سب کچھ چھوڑ کر گیا تھا۔

لیکن یہ پانی؟ یہ زہر؟

یہی سوال تھا، جو عباس کی قبر پر کھڑے ہر چرواہے، ہر کسان، ہر محنت کش کے دل میں تھا۔ لیہ کے تھل میں ہزاروں عباس گِل جٹ ابھی بھی زندہ ہیں، مگر وہ نہیں جانتے کہ ان کے اندر بھی وہی خاموش موت پل رہی ہے!

لیکن کب تک؟

منگل، 28 جنوری، 2025

ڈیپ سیک چیٹ کی مقبولیت

ڈیپ سیک چیٹ ایک مصنوعی ذہانت پرڈیپ سیک چیٹ ایک مصنوعی ذہانت پر مبنی چیٹ بوٹ ہے جو چینی کمپنی ڈیپ سیک نے تیار کیا ہے۔ یہ ایپ جنوری 2025 میں لانچ کی گئی اور تیزی سے مقبولیت حاصل کرتے ہوئے امریکی آئی او ایس ایپ اسٹور پر مفت ایپس میں سرِفہرست آ گئی۔

اہم خصوصیات:

  • جدید AI ماڈل: ڈیپ سیک چیٹ ڈیپ سیک-V3 ماڈل استعمال کرتی ہے، جس میں 600 بلین سے زائد پیرا میٹرز ہیں۔ یہ سوالات کے جوابات دینے، منطق کے مسائل حل کرنے، اور کمپیوٹر پروگرام لکھنے جیسے کاموں میں ماہر ہے۔

  • موثر ترقیاتی لاگت: اس AI ماڈل کی تربیت تقریباً 2,000 Nvidia H800 چپس کے ذریعے 55 دنوں میں مکمل کی گئی، جس کی لاگت تقریباً 5.58 ملین امریکی ڈالر تھی۔ یہ دیگر ماڈلز کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم خرچ ہے، جو ڈیپ سیک کی انجینئرنگ میں جدت کو ظاہر کرتا ہے۔

  • اوپن سورس عزم: ڈیپ سیک نے اپنے AI ماڈلز اور تربیتی تفصیلات اوپن سورس کر دی ہیں، جس سے ڈویلپرز اور محققین ان کی ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

رسائی اور دستیابی:

ڈیپ سیک چیٹ مختلف پلیٹ فارمز پر دستیاب ہے:

  • موبائل ڈیوائسز: اینڈرائیڈ اور آئی او ایس دونوں کے لیے آفیشل ایپس دستیاب ہیں۔

  • ویب رسائی: صارفین ڈیپ سیک کی آفیشل ویب سائٹ کے ذریعے براہِ راست چیٹ بوٹ سے بات چیت کر سکتے ہیں۔

غور طلب نکات:

اگرچہ ڈیپ سیک چیٹ متاثر کن صلاحیتوں کی حامل ہے، لیکن چند محدودیتیں بھی موجود ہیں:

  • حساس موضوعات پر سنسرشپ: یہ چیٹ بوٹ چینی حکومت کے لیے حساس موضوعات پر بات چیت سے گریز کرتی ہے، جیسے 1989 کے تیانمن اسکوائر احتجاج اور تائیوان کی سیاسی حیثیت۔

  • ڈیٹا پرائیویسی: صارفین کا ڈیٹا چین میں موجود سرورز پر محفوظ کیا جاتا ہے، جو کچھ صارفین کے لیے پرائیویسی کے حوالے سے تشویش کا باعث ہو سکتا ہے۔

مجموعی طور پر، ڈیپ سیک چیٹ AI چیٹ بوٹ ٹیکنالوجی میں ایک نمایاں پیش رفت کی نمائندگی کرتی ہے، جو طاقتور خصوصیات اور وسیع رسائی فراہم کرتی ہے۔ تاہم، صارفین کو اس کے مواد کی محدودیت اور ڈیٹا اسٹوریج پالیسیوں پر غور کرنا چاہیے۔

مزید معلومات کے لیے، آپ درج ذیل ویڈیو دیکھ سکتے ہیں: مبنی چیٹ بوٹ ہے جو چینی کمپنی ڈیپ سیک نے تیار کیا ہے۔ یہ ایپ جنوری 2025 میں لانچ کی گئی اور تیزی سے مقبولیت حاصل کرتے ہوئے امریکی آئی او ایس ایپ اسٹور پر مفت ایپس میں سرِفہرست آ گئی۔

اہم خصوصیات:

  • جدید AI ماڈل: ڈیپ سیک چیٹ ڈیپ سیک-V3 ماڈل استعمال کرتی ہے، جس میں 600 بلین سے زائد پیرا میٹرز ہیں۔ یہ سوالات کے جوابات دینے، منطق کے مسائل حل کرنے، اور کمپیوٹر پروگرام لکھنے جیسے کاموں میں ماہر ہے۔

  • موثر ترقیاتی لاگت: اس AI ماڈل کی تربیت تقریباً 2,000 Nvidia H800 چپس کے ذریعے 55 دنوں میں مکمل کی گئی، جس کی لاگت تقریباً 5.58 ملین امریکی ڈالر تھی۔ یہ دیگر ماڈلز کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم خرچ ہے، جو ڈیپ سیک کی انجینئرنگ میں جدت کو ظاہر کرتا ہے۔

  • اوپن سورس عزم: ڈیپ سیک نے اپنے AI ماڈلز اور تربیتی تفصیلات اوپن سورس کر دی ہیں، جس سے ڈویلپرز اور محققین ان کی ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

رسائی اور دستیابی:

ڈیپ سیک چیٹ مختلف پلیٹ فارمز پر دستیاب ہے:

  • موبائل ڈیوائسز: اینڈرائیڈ اور آئی او ایس دونوں کے لیے آفیشل ایپس دستیاب ہیں۔

  • ویب رسائی: صارفین ڈیپ سیک کی آفیشل ویب سائٹ کے ذریعے براہِ راست چیٹ بوٹ سے بات چیت کر سکتے ہیں۔

غور طلب نکات:

اگرچہ ڈیپ سیک چیٹ متاثر کن صلاحیتوں کی حامل ہے، لیکن چند محدودیتیں بھی موجود ہیں:

  • حساس موضوعات پر سنسرشپ: یہ چیٹ بوٹ چینی حکومت کے لیے حساس موضوعات پر بات چیت سے گریز کرتی ہے، جیسے 1989 کے تیانمن اسکوائر احتجاج اور تائیوان کی سیاسی حیثیت۔

  • ڈیٹا پرائیویسی: صارفین کا ڈیٹا چین میں موجود سرورز پر محفوظ کیا جاتا ہے، جو کچھ صارفین کے لیے پرائیویسی کے حوالے سے تشویش کا باعث ہو سکتا ہے۔

مجموعی طور پر، ڈیپ سیک چیٹ AI چیٹ بوٹ ٹیکنالوجی میں ایک نمایاں پیش رفت کی نمائندگی کرتی ہے، جو طاقتور خصوصیات اور وسیع رسائی فراہم کرتی ہے۔ تاہم، صارفین کو اس کے مواد کی محدودیت اور ڈیٹا اسٹوریج پالیسیوں پر غور کرنا چاہیے۔

مزید معلومات کے لیے، آپ درج ذیل ویڈیو دیکھ سکتے ہیں:

وڈیو


Deep Seek Chat Surpasses ChatGPT

 





DeepSeek Chat is an AI-powered chatbot developed by the Chinese company DeepSeek. Launched in January 2025, it quickly gained prominence, surpassing ChatGPT as the top free app on the U.S. iOS App Store. 


Key Features:


Advanced AI Model: DeepSeek Chat utilizes the DeepSeek-V3 model, boasting over 600 billion parameters. This enables it to perform tasks such as answering questions, solving logic problems, and writing computer programs, with performance comparable to other leading chatbots. 


Cost-Effective Development: The development of DeepSeek's AI model was notably resource-efficient. It was trained using approximately 2,000 Nvidia H800 chips over 55 days, costing around $5.58 million. This is significantly less than the expenditures of comparable models, highlighting DeepSeek's innovative engineering approach. 


Open-Source Commitment: DeepSeek has made its AI models and training details open-source, allowing developers and researchers to access and build upon their technology. 



Access and Availability:


DeepSeek Chat is available across multiple platforms:


Mobile Devices: Official apps are available for both Android and iOS devices.


Web Access: Users can interact with the chatbot directly through DeepSeek's official website. 



Considerations:


While DeepSeek Chat offers impressive capabilities, it's important to note certain limitations:


Censorship on Sensitive Topics: The chatbot avoids or censors discussions on topics sensitive to the Chinese government, such as the 1989 Tiananmen Square protests and the political status of Taiwan. 


Data Privacy: User data is stored on servers located in China, which may raise privacy concerns for some users. 



In summary, DeepSeek Chat represents a significant advancement in AI chatbot technology, offering powerful features and broad accessibility. However, users should be mindful of its content limitations and data storage policies when considering its use.


For a visual overview and more insights into DeepSeek, you might find the following video informative:

Video Link



پیر، 27 جنوری، 2025

Jog Katha by Syed Owais Qarni

Jog Katha by Syed Owais Qarni


Book review


Title: Jog Katha (An Urdu Language Book)
Author: Syed Owais Qarni (also known as Jogi Jadugar)
Publication: February 2025
Publisher: Al-Quroon Publishers, Lahore
Pages: 400
Reviewer: Abdul Razzaq Qadri
Contact: Al-Quroon Publishers, Lahore (+92 345 4809757)

Jog Katha is the second book by Syed Owais Qarni, following the exceptional success of his first work, Talismaat-e-Ghalib. This new book masterfully blends literature, philosophy, and spirituality, offering readers not just a travelogue but also an intellectual and spiritual journey. Published by Al-Quroon Publishers, the book is beautifully crafted and available on premium-quality paper.

The Theme

At first glance, Jog Katha appears to be a travelogue, narrating a journey from Dhanote, a small town in Lodhran, to Tilla Jogian. However, the book delves much deeper, exploring philosophical and spiritual dimensions. Syed Owais Qarni recounts the landscapes, experiences, and observations encountered during his journey in a literary style that immerses readers, making them feel as though they are part of the adventure.

The book provides detailed discussions on jog (asceticism), jogis (ascetics), and the significance of Tilla Jogian. It also sheds light on the historical and cultural aspects of the cities and towns along the route. The vivid descriptions of mountains, forests, and natural landscapes evoke a deep sense of connection with nature.

Literary and Philosophical Elements

The book is enriched with references to poets and philosophers like Allama Iqbal and Ghalib, making it a literary masterpiece. Qarni weaves philosophical insights throughout, prompting readers to reflect deeply. His adept use of Urdu, Persian, Punjabi, and Seraiki poetry and prose adds a multicolored vibrancy to the narrative.

The author adopts a scholarly approach, often supporting his arguments with Quranic verses, Hadiths, and historical evidence. He doesn’t shy away from correcting misconceptions by presenting well-reasoned arguments, while also highlighting gaps in others' research. For instance, his critique of certain interpretations of Dhanote’s etymology and his discussion of Harappa and Mohenjo-daro’s contemporary civilizations showcase his meticulous research.

Spiritual Insights

Every page of Jog Katha reflects the author’s spiritual quest and inner experiences. Qarni beautifully captures the essence of meditation, asceticism, and the depths of the human soul. The book offers insights into how spirituality intertwines with daily life and the broader univuniverse.

Historical Background

The book vividly recounts the history and culture of various cities traversed during the journey. Qarni provides detailed descriptions of significant historical events, figures, and traditions. His account of Tilla Jogian’s historical and religious significance is particularly captivating, blending folklore with documented history.

Language and Style

The language is both simple and poetic, with rich metaphors, similes, and idiomatic expressions. Qarni’s use of humor and the creation of new idioms enhance the reading experience. The narrative is engaging, striking a balance between scholarly discussion and accessible storytelling.

Unlike many sequels that fail to meet the expectations set by their predecessors, Jog Katha exceeds them. Though not a sequel, but rather the second book after Talismaat-e-Ghalib, Qarni maintains the literary momentum of his previous work. The narrative is neither repetitive nor monotonous but instead offers a refreshing continuation of his literary journey.

Detailed Examination

Jog Katha examines the historical and spiritual teachings of ascetic traditions in the subcontinent, drawing from ancient texts and traditions. It appeals not only to nature lovers but also to readers intrigued by philosophy, spirituality, and the profound mysteries of life. The book invites readers on a journey of self-discovery, exploring the universal philosophy of asceticism and its relevance beyond religious boundaries.

Jog Katha is an extraordinary work that brings together literature, history, philosophy, and spirituality. It is not just a book to read but an experience to feel. Readers are transported to Tilla Jogian’s trails, surrounded by nature’s splendor, and immersed in a spiritual calm.

Syed Owais Qarni’s Jog Katha is a remarkable gift for lovers of literature and spirituality alike. It deserves a place in every library and is a must-read for anyone seeking to understand the deeper truths of existence. The book’s thought-provoking narrative fosters interfaith harmony and broadens readers’ perspectives, urging them to discover their inner selves and embrace the universal nature of spirituality.

Recommendation

Jog Katha is a must-read for anyone who appreciates the intersection of literature, history, and spirituality. It is especially valuable for those exploring interfaith understanding and the universal philosophy of asceticism.


#JogKatha
#SyedOwaisQarni
#UrduLiterature
#TillaJogian
#Spirituality
#PakistaniAuthors
#Travelogue
#PhilosophyAndLiterature
#AlQuroonPublishers
#UrduBooks
#Asceticism
#LiteraryMasterpiece
#NatureAndSpirituality
#InterfaithHarmony
#BookLovers

For inquiries or more information
Contact Al-Quroon Publishers, Lahore
at their mobile number +92 345 4809757 and WhatsApp


اتوار، 26 جنوری، 2025

جوگ کتھا از سید اویس قرنی

 

جوگ کتھا
مصنف: سید اویس قرنی المعروف جوگی جادوگر
اشاعت: فروری 2025ء
پبلشر: ألقرون پبلشرز، لاہور
صفحات: 400
تبصرہ نگار: عبدالرزاق قادری
(ألقرون پبلشرز، لاہور00923454809757)
”جوگ کتھا“ سید اویس قرنی کی دوسری تصنیف ہے، جو ادب، فلسفہ، اور روحانیت کا ایک خوبصورت امتزاج ہے۔ یہ کتاب قاری کو صرف ایک سفرنامہ ہی پیش نہیں کرتی بلکہ ایک فکری اور روحانی سفر پر بھی لے جاتی ہے۔ مصنف کی پہلی تصنیف ”طلسماتِ غالب“ کی غیر معمولی کامیابی کے بعد، ”جوگ کتھا“کا شدت سے انتظار کیا جا رہا تھا، اور الحمدللہ! اب یہ کتاب فروری 2025ء سے  قارئین کی توقعات کے عین مطابق اعلیٰ پیپر پر مارکیٹ میں دستیاب ہے۔
کتاب کا موضوع :
“جوگ کتھا” بظاہر ایک سفرنامہ ہے جو ٹلہ جوگیاں کے قدرتی، تاریخی، اور روحانی مناظر کا احاطہ کرتا ہے۔ لیکن اس کتاب کی گہرائی قاری کو فلسفیانہ اور روحانی جہتوں میں بھی لے جاتی ہے۔ مصنف نے اپنے سفر کے دوران پیش آنے والے مناظر، تجربات، اور مشاہدات کو ایسے ادبی اسلوب میں بیان کیا ہے کہ قاری خود کو اس سفر کا حصہ محسوس کرتا ہے۔”جوگ کتھا“ مصنف کے ضلع لودھراں کے نواحی قصبے دھنوٹ سے ٹلہ جوگیاں تک کے سفر پر مبنی ہے۔ اس سفر کے دوران، مصنف نے جوگ، جوگی، اور ٹلہ جوگیاں کے موضوعات پر تفصیلی بحث کی ہے۔ مزید برآں، راستے میں آنے والے شہروں کی تاریخ اور ان سے متعلق متنوع معلومات بھی پیش کی گئی ہیں۔مصنف نے پہاڑوں، جنگلوں، تالابوں، اور دیگر قدرتی مناظر کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے، جس سے قاری قدرت کے قریب ہونے کا احساس کرتا ہے۔
 ادبی اور فلسفیانہ رنگ:
مصنف نے علامہ اقبال، غالب، اور دیگر شعراء و فلاسفہ کے حوالوں سے کتاب کو ایک ادبی شاہکار بنا دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسفیانہ نکات قاری کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔کتاب میں جا بجا، اُردو، فارسی پنجابی، سرائیکی و دیگر زبانوں کے شعر یا اقتباسات سے مُختلف رنگ بکھیرے گئے ہیں، مصنّف کا کمال یہ ہے کہ آپ کسی بات پر پہلے کلام کرتے ہیں پھر دلائل پیش کرتے ہیں اور پھر اُن دلائل کو تقویت دینے کے قُرآن مجید کی آیات،حدیث پاک کے فرامین یا کسی دوسرے مستند ذریعے سے اُن کی حقّانیت کو واضح کرتے ہیں پھر اِن حوالہ جات کے بعد دوبارہ دلائل کے سلسلے کا آغاز، بعض مقامات پر بہت سے ”مُنہ بولے“ محققین کا قبلہ درست کرتے ہوئے ایک کرارا سا جملہ پیش کرتے ہیں اور آگے نکل جاتے ہیں پھر دلائل و براہین کا انبار لگاتے ہیں، جیسا کہ دھنوٹ شہر کی وجۂِ تسمیہ پر ایک صاحب کی تحقیق کو مُنہ کے بل گراتے ہیں جبکہ دوسرے محقق کی خطا کو خطا ہی قرار دیتے ہیں، اِسی طرح موئن جو دڑّو کے ہم عصر شہروں کی تحقیق میں سرجان مارشل سے ہونے والی خطاؤں کا نوٹس زیادہ سختی سے نہیں لیتے بلکہ اُن کی خطا کو پیش کر کے نظر انداز کرکے اپنی ہاکڑہ تہذیب والی تحقیق کو بالمقابل پیش کرتے ہیں اور ڈاکٹررفیق مغل کی تحقیق کو سلام پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ جبکہ بعض مقامات پر مصنّف قدیم زمانے کے مشاہیر کے متعلق معلومات کی کمیابی کے باعث ایک نرم گوشہ پیش کرتے ہوئے اُن کے امکانات کو قبول کرتے ہوئے ان پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں، اور دیگر محققین کے لئے تحقیق کا راستہ کُھلا چھوڑ دیتے ہیں۔
 روحانی تجربات:
“جوگ کتھا” کا ہر صفحہ مصنف کی روحانی جستجو اور باطنی تجربات کی گواہی دیتا ہے۔ مصنف نے مراقبہ، جوگ، اور انسانی روح کی گہرائیوں کو انتہائی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔
 تاریخی پس منظر:
سفر کے دوران شہروں کا تذکرہ: سفر کے دوران، مصنف مختلف شہروں سے گزرتے ہیں اور ان کی معلوم تاریخ کی تفصیلات کی بہت سی جزئیات، ثقافت، اور اہم واقعات و شخصیات کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ حصے قاری کو پاکستان کے مختلف علاقوں کی تاریخ اور ثقافت سے متعارف کراتے ہیں۔مصنف نے ٹلہ جوگیاں کے تاریخی اور مذہبی پہلوؤں کو بھی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ اس مقام کی اہمیت، ماضی کی روایات، اور تاریخی واقعات کو دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
 زبان اور اندازِ بیان:
کتاب کی زبان سادہ، مگر ادبی ہے۔ تشبیہات، استعارے، اور محاوروں کا خوبصورت استعمال قاری کو کتاب کے ساتھ باندھے رکھتا ہے۔سید اویس قرنی نے کتاب کے اکثر حصوں میں بذلہ سنجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت سے نئے محاورات وضع کیے ہیں اور اُن میں مختلف زبانوں کو مجتمع کر کے ایک نئی لغت بھی ترتیب دی ہے، جو لوگ خصوصاً اُردو ادب کا ایک وسیع مطالعہ رکھتے ہیں اور تسلسل کے ساتھ جوگی جادوگر کی تحاریر پڑھنے کے عادی ہیں، انہیں  گزشتہ کتاب کی طرح اس کتاب میں بھی نہایت دلچسپ چاشنی دیکھنے کو ملے گی، عموماً ایک فن کار یا تخلیق کار کا پہلا فن پارہ اگر کامیابی سے ہمکنار ہو جائے تو دوسری تخلیق میں بودا پن دَر آتا ہے، جبکہ یہاں مصنف کی دوسری کتاب میں نہ تو یکسانیت کی تکرار ہے، اور نہ ہی تخلیق میں ایسا پھیکا پن ہے کہ قارئین اُکتاہٹ کا شکار ہو جائیں۔
تفصیلی جائزہ
کتاب کا موضوع چونکہ ہندوستان میں ازمنۂِ قدیم سے انسان کی روحانی جبلت کی تسکین کے لئے جن ناموَر ہستیوں نے مختلف انداز میں تربیتی نصاب وضع کیے اورمقامی زبانوں میں لوگوں کی رہنمائی فرمائی، اُن کی تاریخ اورقدیم کُتب سے دستیاب معلومات کی روشنی میں جانچا پرکھا گیا ہے۔”جوگ کتھا“ نہ صرف فطرت سے محبت کرنے والوں کے لیے دلچسپ ہے بلکہ ان قارئین کے لیے بھی اہم ہے جو فلسفہ، روحانیت، اور زندگی کی گہری معنویت کو سمجھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ کتاب ایک ایسی دعوت ہے جو قاری کو اپنی ذات کی دریافت کے سفر پر لے جاتی ہے۔ ”جوگ کتھا“ ایک غیر معمولی تصنیف ہے جو ادب، تاریخ، فلسفہ، اور روحانیت کو ایک جگہ جمع کرتی ہے۔ یہ کتاب صرف پڑھنے کے لیے نہیں بلکہ محسوس کرنے کے لیے ہے۔ قاری کو یوں لگتا ہے جیسے وہ خود ٹلہ جوگیاں کی پگڈنڈیوں پر چل رہا ہو، قدرت کے حسین مناظر دیکھ رہا ہو، اور روحانی سکون حاصل کر رہا ہو۔
”جوگ کتھا“ سید اویس قرنی کی ایک ایسی تصنیف ہے جو قاری کو ایک نئے فکری سفر پر لے جاتی ہے۔ یہ کتاب یقیناً ادب اور روحانیت کے دلدادہ افراد کے لیے ایک نایاب تحفہ ہے۔ یہ نہ صرف لائبریری کا حصہ بننے کے لائق ہے بلکہ ہر اس شخص کے لیے ضروری ہے جو زندگی کے گہرے رازوں کو سمجھنا چاہتا ہے۔اِس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک باشعور قاری کا ذہن کہتا ہے کہ اُردو دان طبقے میں ہر مکتبِ فکر اور ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات کو بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے اپنے قلوب و اذہان کووسیع المشربی سے روشناس کرانے کے لئے ”جوگ کتھا“ کامطالعہ کریں اور اپنے درونِ خانہ میں پوشیدہ جوگی کو دریافت کریں کہ جوگ کسی خاص مذہب کے ساتھ لاحق ایک عمل یا طرز نہیں بلکہ ایک آفاقی فلسفہ ہے، جو آپ کو اپنا مذہب چھوڑنے کا نہیں کہتا اور دیگر مذاہب کے بانیان کی کھوج لگانے کی جوت آپ کے من میں جگاتا ہے کہ ممکن ہے کہ بہت سے غیر سامی مذاہب کے رہنما بھی اُسی خدا کے فرستادے تھے جسے مسلمان یا سامی مذاہب کے ماننے والے اپنا رب کہتے ہیں، حالانکہ وہ رب العٰلمین ہے۔

ہفتہ، 18 جنوری، 2025

محمد قیوم اعوان: ضیاء النبیﷺ کے مترجم

  تحریر و تحقیق:عبدالرزاق قادری، لاہور، پاکستان

نام

محمد قیوم اعوان

تاریخ پیدائش

یکم جنوری 1957ء؁

جائے پیدائش

پنڈی گھیب، اٹک، پنجاب، پاکستان

تاریخ وفات

30 جنوری، 2012ء؁

جائے تدفین

آبائی گاؤں، پنڈی گھیب، پاکستان

پیشہ

بیوروکریٹ، تصنیف، ترجمہ

وجۂ شہرت

ضیاء النبیﷺ کا انگریزی ترجمہ

تصانیف کی تعداد

27

محمد قیوم اعوان(1 جنوری 1957 – 30 جنوری 2012ء) پاکستان کے معروف سول سرونٹ، مصنف، اور مترجم تھے۔ وہ جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری کی تصنیف ضیاء النبی ﷺ کے انگریزی ترجمے کے لیے مشہور ہیں، جو سیرت النبی ﷺ پر ایک مایہ ناز اردو کتاب ہے۔ ان کی زندگی اور خدمات میں انتظامی مہارت اور ادبی ذوق کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔
ابتدائی زندگی اور تعلیم
محمد قیوم اعوان 1 جنوری 1957 کو تحصیل پنڈی گھیب، ضلع اٹک، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ایک سادہ اور روحانی گھرانے میں پرورش پانے والے اعوان نے بچپن ہی سے ادب اور اسلامی علوم میں دلچسپی پیدا کی۔ ان کی علمی کامیابیاں انہیں سرکاری ملازمت میں لے گئیں، جہاں انہوں نے ایک قابل منتظم اور دانشور کے طور پر اپنا لوہا منوایا۔
سرکاری خدمات


آپ نے پنجاب سول سروس (PCS) میں شمولیت اختیار کی اور مختلف اہم عہدوں پر فائز رہے، جن میں شامل ہیں:
• ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسر (DCO) حافظ آباد
• ڈائریکٹر اینٹی کرپشن سرگودھا
• اسسٹنٹ کمشنر (AC) تلہ گنگ
• ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ آفیسر (ریونیو) چکوال
• ڈسٹرکٹ لینڈ ریونیو آفیسر (DLR) لاہور
• ڈسٹرکٹ کلیکٹر چکوال
• ڈائریکٹر جنرل (DG) اسلام آباد/راولپنڈی
اُن کا دورِ ملازمت عوامی فلاح و بہبود اور دیانت داری سے عبارت تھا۔ وہ اپنے ساتھیوں اور عوام میں بے حد احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔
ادبی خدمات
محمد قیوم اعوان نے کل 27 کتب تصنیف کیں، جن میں ذاتی ترقی، بیوروکریسی، روحانیت، اور اسلامی تعلیمات کے موضوعات شامل ہیں۔ ان کا سب سے مشہور کارنامہ ضیاء النبی ﷺ کا انگریزی ترجمہ ہے۔
ضیاء النبی ﷺ کا ترجمہ
• اصل کتاب: جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری کی تصنیف، جو سیرت النبی ﷺ پر مبنی ہے جوکہ( 3000 سے زائد صفحات پر مشتمل) سات جلدوں پر محیط ہے۔ضیاء النبی کا مطلب ہے ”نبی کا نور“۔ یہ کتاب بیسویں صدی کی اہم ترین اردو تصانیف میں شمار ہوتی ہے، جس کا موضوع حضور نبی کریم ﷺ کی سیرتِ طیبہ ہے۔یہ کتاب پیر محمد کرم شاہ الازہری (1918-1998) نے لکھی، جو کہ پاکستان کے معروف اسلامی اسکالر، جج اور صوفی بزرگ تھے۔
• پہلی مرتبہ یہ کتاب ضیاء القرآن پبلیکیشنز سے 1995 میں شائع ہوئی اور بعد ازاں محمد قیوم اعوان نے اسے انگریزی میں ترجمہ کیا، جو 2005 میں مکمل ہوا۔
1) پہلی جلد میں اسلام سے پہلے مختلف تہذیبوں (ایران، یونان، مصر، ہندوستان، چین اور جزیرہ نما عرب) کی تاریخ اور سماجی حالات کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔اس جلد کا مقصد ان معاشروں کی اخلاقی، سماجی اور مذہبی حالت کو بیان کرنا ہے تاکہ اسلام کے آنے سے پہلے کے حالات کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔
2) دوسری جلد نبی کریم ﷺ کی ولادت، بچپن، پہلی شادی، وحی اور مکی زندگی کی مشکلات پر مبنی ہے۔
3) تیسری جلدمیں ہجرت، مدینہ میں آمد، غزوات اور ”واقعہ افک“ شامل ہیں۔
4) چوتھی جلدمیں غزوہ خندق، صلح حدیبیہ، مکہ فتح، حج اور وصال بیان ہوا ہے۔
5) پانچویں جلد نبی کریم ﷺ کے فضائل، اخلاق، معجزات اور درود و سلام بیان کرتی ہے۔
6) چھٹی جلد: اسلام سے پہلے یہود و نصاریٰ کے حالات اور مستشرقین کے اعتراضات پر مشتمل ہے۔
7) ساتویں جلدمیں مستشرقین کے اعتراضات کے جوابات اور سیرتِ نبوی ﷺ کا دفاع مذکور ہے۔
• کتاب کے اہم نکات:
اسلام سے پہلے کی دنیا کی حالت:کتاب کے پہلے حصے میں مختلف معاشروں کی اخلاقی اور روحانی زوال کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔مصنف نے تحقیق کی بنیاد پر یہ دکھایا ہے کہ ان تہذیبوں میں ناانصافی، ظلم، اور طبقاتی فرق عام تھے۔مثال کے طور پر،ایران کے بادشاہ اردشیر کی انصاف پسندی کو سراہا گیا۔یونان کے فلسفی افلاطون کی غیر انسانی نظریات (جیسے بیمار اور معذور بچوں کو قتل کرنا) پر تنقید کی گئی۔
• اسلام کا پیغام:
مصنف نے بتایا کہ اسلام نے کس طرح اس تاریک دور میں روشنی اور انصاف کا پیغام دیا،نبی کریم ﷺ کی تعلیمات نے مساوات، محبت، اور بھائی چارے کی بنیاد رکھی۔یہ کتاب نبی کریم ﷺ کی سیرت پر ایک جامع تحقیق اور مسلمانوں کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہے۔مصنف اور مترجم دونوں نے برسوں کی محنت سے اس کتاب کو مرتب کیا، جس پر امتِ مسلمہ ان کی شکر گزار ہے۔یہ کتاب اسلامی تاریخ اور سیرتِ نبوی ﷺ کو سمجھنے کے لیے ایک بہترین ذریعہ ہے اور مستشرقین کے اعتراضات کا مدلل جواب فراہم کرتی ہے۔
کتاب میں مختلف اسلامی کتب، تاریخی حوالہ جات، اور مستند ماخذات کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں سیرت ابنِ ہشام،طبری کی تاریخ،ول ڈیورانٹ کی ”ایج آف فیتھ“اور دیگر کئی مشہور کتب شامل ہیں۔
• ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
• تکمیلِ ترجمہ: 17 جولائی 2004 (9 ربیع الثانی 1426ھ)۔
• مترجم کی جانب سےنظرثانی کی تکمیل: 11 اکتوبر 2005 (7 رمضان المبارک کی شب)۔
• اشاعت: میرے پاس انگریزی زبان میں ترجمہ شُدہ ”ضیاء النبیﷺ“ کا دوسرا ایڈیشن موجود ہے جوکہ دسمبر 2013ء؁میں شائع ہوا۔ترجمہ شدہ کتاب میں پروف ریڈنگ کی(ادارتی) غلطیاں موجود ہیں، جو پڑھنے میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔
یہ ترجمہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے اور برٹش لائبریری سمیت دیگر مشہور کتب خانوں میں موجود ہے۔
دیگر تصانیف
ان کی دیگر اہم کتب میں شامل ہیں:
• کنٹرول مائنڈ
• میں ایک عام پاکستانی ہوں
• بیوروکریسی کا زوال
• انوکھی جنت
• پاور گیم
• لا شریک
• کامیاب بزنس مین بنیے
• ہر بچہ کامیاب ہو سکتا ہے
• احسن البیان (ہدیہ درود و سلام)
یہ کتب ان کی علمی گہرائی اور سماجی و روحانی ترقی کے لیے ان کے عزم کی عکاس ہیں۔


وراثت
سوشل میڈیا کی اطلاعات کے مطابق محمد قیوم اعوان 30 جنوری 2012 کو وفات پا گئے اور اپنے آبائی علاقے پنڈی گھیب کے قریب اپنے گاؤں میں دفن کیے گئے۔ ان کی خدمات اور تصانیف آج بھی تحقیق و تعلیم کے میدان میں مشعل راہ ہیں۔
میں (عبدالرزاق قادری) نے ان کی خدمات کو محفوظ رکھنے اور ان کے کام کو عام کرنے کے لیے یہ حقیر سی کوشش کی ہے تاکہ آنے والی نسلیں ان سے استفادہ کر سکیں۔
حوالہ جات اور مزید معلومات کے لئے
• ضیاء القرآن پبلشرز، لاہور
• عبدالرزاق، ای لرننگ ہولی قرآن (www.elearningholyquran.com)
• اردو ویکیپیڈیا مضمون: محمد قیوم اعوان (مرتّبہ:عبدالرزاق قادری)
• ساگر پبلشرز، لاہور
• پروفیسر الطاف حسین ظفر، تلہ گنگ