![]() |
آرزو عیسیٰ - تاجک شاعر (تصویر: ویکیپیڈیا از Bahromjalilov) |
”کیا عجب دنیا ہے یہ دنیا بھی!“
یکی بیچاره و تنها
ایک ہے بیچارہ اور تنہا
یکی لبتشنه
در صحرا
ایک ہے پیاسا صحرا میں
یکی بیدرد
و بیپروا
ایک ہے بے درد اور لاپروا
عجب دنیاست این دنیا
کیا عجیب ہے یہ دنیا!
یکی چون ماهی در شست
ایک ہے جیسے مچھلی کانٹے میں
یکی بیپول،
یکی پولمست
ایک ہے مفلس، ایک ہے دولت میں مست
یکی بیپا،
یکی بیدست
ایک کے پاس پاؤں نہیں، ایک کے ہاتھ
نہیں
عجب دنیاست این دنیا
کیا عجیب ہے یہ دنیا!
یکی از آدمی دور است
ایک ہے انسانوں سے دور
ز ثروت مست و مغرور است
دولت سے مدہوش اور مغرور ہے
به فکرش از خدا زور است
اس کے خیال میں خدا پر بھی زور چلتا
ہے
عجب دنیاست این دنیا
کیا عجیب ہے یہ دنیا!
یکی در قلب زندان است
ایک ہے جو قید خانے کے بیچ میں ہے
ز اعمالش پشیمان است
اپنے اعمال پر پشیمان ہے
دلش لبریز از ارمان است
دل اس کا ارمانوں سے لبریز ہے
عجب دنیاست این دنیا
کیا عجیب ہے یہ دنیا!
یکی از بچه بیزار است
ایک ہے جو بچوں سے بیزار ہے
یکی بر ناخنش زار است
ایک ہے جو اپنے ناخن پر زار ہے
به یاد بچهی
بیمار است
وہ بیمار بچے کی یاد میں ہے
عجب دنیاست این دنیا
کیا عجیب ہے یہ دنیا!
یکی دور از وطن باشد
ایک ہے جو وطن سے دور ہے
چو گل دور از چمن باشد
جیسے پھول ہو چمن سے دور
که جان دو ز تن باشد
جیسے جان ہو جسم سے جدا
عجب دنیاست این دنیا
کیا عجیب ہے یہ دنیا!
یکی بیدین
و ایمان است
ایک ہے جو دین و ایمان سے خالی ہے
و خدمتکارش شیطان است
اور
وہ شیطان کا خدمتگار ہے
پی آزار انسان است
وہ انسانوں کو اذیت دینے کے پیچھے ہے
عجب دنیاست این دنیا
کیا عجیب ہے یہ دنیا!
یکی از عشق دیوانه
ایک ہے جو عشق میں دیوانہ ہے
میان مردم افسانه
لوگوں میں وہ ایک افسانہ ہے
یکی بیکوی
و بیخانه
ایک ہے جس کا نہ کوئی گھر ہے نہ گلی
عجب دنیاست این دنیا
کیا عجیب ہے یہ دنیا!
یکی امید زن دارد
ایک کو بیوی کی امید ہے
یکی آب وطن دارد
ایک کو وطن کا پانی نصیب ہے
یکی فکر کفن دارد
ایک ہے جو اپنے کفن کی فکر میں ہے
عجب دنیاست این دنیا
کیا عجیب ہے یہ دنیا!
یکی در
کودکی میرد
ایک
ہے جو بچپن میں ہی مر جاتا ہے
ز جبر زندگی میرد
زندگی کے جبر سے مر جاتا ہے
یکی از گشنگی میرد
ایک بھوک کی وجہ
سے مر جاتا ہے
عجب دنیاست این
دنیا
کیا عجیب ہے یہ
دنیا!
شاعر: آرزو عیسیٰ (تاجکستان)
گلوکار: میر مفتون (نے گایا ہے)۔ اُن سے پہلے بھی ایک گائیک (حسن حیدر) نے گایا تھا۔
اُردو پیشکش: عبدالرزاق قادری