Dr Kumar Vishwas لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
Dr Kumar Vishwas لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

بدھ، 7 اگست، 2019

ڈاکٹر کمار وشواس کے اندر سے ادیب مر گیا اور ایک شدت پسند ہندو نکل کر سامنے آگیا

شاعری، موسیقی، افسانے، ناول، مصوری اور دیگر اصنافِ فنونِ لطیفہ ایسی تخلیقات ہیں، جنہیں انسان اپنے مخالف فرقے، مخالف مذہب کے لوگوں، دشمن ممالک کے لوگوں حتیٰ کہ شدید ترین دشمنوں کے فنکاروں کے ہاتھوں جنم لینے کے بعد بھی پسند کر لیتا ہے، اور فنکارانہ صلاحیتیں دیکھ کر سر دُھنتا ہے۔
شاعری اور موسیقی میں ایسا جادُو ہوتا ہے کہ پاکستانی لوگ انڈیا کے اُن گانوں کو بھی سُنتے ہیں جن میں سات جنم کا ذکر ہوتا ہے، جو کہ غیر اسلامی نظریہ ہے۔ اس کے علاوہ بھی کُفریہ گانے، سُریلی آواز اور مدُھر دھن کی وجہ سے کانوں میں رس گھولتے دکھائی دیتے ہیں، لوگ اینٹی پاکستان (پاکستان مخالف) فلمیں بھی دیکھ ہی لیتے ہیں۔
اِن سب کے باوجود وہ اِن کفریہ عقائد کے قائل نہیں ہوتے اور اپنے دین و مذہب کے ساتھ ساتھ اپنے مُلک سے پیار کرتے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں میں ہم نے بہت سے بوڑھے سکھوں کے واقعات پڑھے ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ 1947ء میں مُسلمانوں پر مظالم ڈھاتے رہے، لیکن اب گزشتہ ساٹھ ستر برسوں سے وہی مظالم اُن کے لیے وبالِ جان بنے ہوئے ہیں، انہیں ایک پل چین نہیں ملتا۔ اور بعض سکھوں کا کہنا ہے کہ 1984ء میں اُنہیں اسی کرتوت کی سزا ملی تو بھارتی درندہ صفت افواج نے ان کے گھروں کے گھر اجاڑ دئیے، جس پر بھارت میں ایک کمال قسم کی فلم ”ماچس 1996“ وجود میں آئی جس کا مشہورِ زمانہ گانا ”چھوڑ آئے ہم وہ گلیاں“ کانوں میں رس گھولتا ہے۔ آج وہ سکھ اپنی بقا کی خاطر پریشان ہیں کہ ہندُتوا کے شدت پسند (جو طالبان اور خادم رضوی سے بھی زیادہ سخت ذہنیت رکھتے ہیں) بھارت کے نہ صرف مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں بلکہ خود اپنے امن پسند ہندؤں کے بھی مخالف ہیں اور اُنہیں بھی مار دیتے ہیں (جیسے یہاں طالبان مساجد میں بم دھماکے کرتے ہیں، اور خادم رضوی کے پیروکار باقی سب مسلمانوں کے غلط کہتے ہیں)۔
یہ ہندو شدت پسند RSS(راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کے کارندے ہیں۔ یہ بھی فناٹِک ہیں اور نہایت منظم ہیں، قیامِ پاکستان کے دور میں بھی انہوں نے ہی آگ لگا رکھی تھی اور نسیم حجازی اپنی کتاب ”خاک اور خون“ میں سچ ہی روتا پیٹا تھا کہ ظالم لوگ ہیں۔
بلاشبہ کمار وشواس کی شاعری کو دنیا بھر میں پسند کیا جاتا ہے اور اُن کی مقبولیت کی وجہ سے پاکستان میں بھی اُن کے پرستار موجود ہیں، حالیہ بھارتی الیکشن میں نریندر مودی کا مُسلم کش اور پاکستان مخالف ایجنڈا تھا، اسی ایجنڈے کی حمایت کرنے کی وجہ سے عام آدمی پارٹی نے اپنے ہی بانی سینئر رُکن ڈاکٹر کمار وشواس کو الیکشن سے ذرا دُور ہی رکھا اور الیکشن کے فوراً بعد پورے انڈیا میں سے میں (عبدالرزاق قادری) نے صرف ایک بندے کا بیان سُننا پسند کیا کہ وہ اب کیا سوچ رکھتا ہے، جبکہ مودی جیسا ظالم درندہ دوسری بار بے انتہا طاقت کے ساتھ برسرِ اقتدار آچکا ہے تو کمار وشواس کیا خیالات ظاہر کرتا ہے، اُس نے ٹی وی انٹرویو میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے مودی کی جیت (بلکہ اُس کے نظریے کی جیت) کو خوش آمدید کہا اور اپنی عام آدمی پارٹی کی ہار کا مذاق اُڑایا۔
پرسوں 5 اگست 2019ء سے جس تازہ صورت حال کی طرف بھارت نے پیش قدمی کی ہے، اس کے بعد آج 7 اگست کو ڈاکٹر کا ایک وڈیو ”آج تک ٹی وی“ کے کیمرے سے یوٹیوب پر آیا ہے، جو دیکھتے دیکھتے ہی لاکھوں ناظرین کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ اُس میں کمار وشواس اپنے اندر سے ایک سلیم الفطرت انسان کی موت کا اعلان کر رہا ہے، اور کہہ رہا ہے کہ بھارت نے کشمیر میں ”انجیکشن“ لگایا ہے، درد تو ہوگا، لیکن پھر دھیرے دھیرے آرام آ جائے گا۔
مجھے آج یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اُس کے اندر سے ایک ادیب مر چکا اور ایک RSS کا نمائندہ شدت پسند کافر نکل کر باہر آگیا ہے۔

اتوار، 6 جنوری، 2019

ڈاکٹر کمار وشواس کے ساتھ خواب میں دوسری ملاقات

جہاں تک مجھے یاد ہے ڈاکٹر کمار وِشواس آج دوسری بار میرے خواب میں آیا ہے، آج کے خواب میں میرا ذہن دیدِ قبلاً (فرانسیسی:déjà vu) کے طور پر گزشتہ خواب کو ملاقات سمجھ بیٹھا تھا، میرا ذہن آج کے خواب کو ڈاکٹر کمار کی لاہور میں دوسری مرتبہ آمد مان رہا تھا، دونوں مرتبہ اُن کی تشریف آوری پُرانے لاہور میں ہوئی، یہ دہلی گیٹ سے لے کر شاہ عالم گیٹ اور گندے نالے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ موری گیٹ تک کا سفر رہا، وہاں پہلی اور دوسری مرتبہ، شیعہ حضرات کے مذہبی مقامات پر کسی نہ کسی مجلس وغیرہ میں اکٹھے ہوتے رہے۔
یہ دید قبلاً کیا ہے، آپ کو کسی کام کے کرتے وقت احساس ہوتا ہے کہ شاید آپ یہ جملہ پہلے بھی کبھی کہہ چکے ہیں، یا اس جگہ سے پہلے بھی گزر چکے ہیں، یا یہ واقعہ بعینہٖ پہلے بھی وقوع پذیر ہو چکا ہے، حالانکہ آپ اُس جگہ کو پہلی بار دیکھ رہے ہوتے ہیں یا وہ معاملہ پہلی بار وقوع پذیر ہوتا ہے، تو اس فریب عقلی کو ”دید قبلاً“ کہا جاتا ہے۔ میرے ذاتی تجربات کی روشنی میں یہ آپ کا ایک خواب ہی ہوتا ہے، جو کسی واقعہ کی ہُوبہو کاربن کاپی کی مانند پہلے ہی آپ کے ذہن میں محفوظ ہو جاتا ہے تو آج کے خواب میں ڈاکٹر صاحب کی ملاقات کو دوسری اسی لیے کہہ رہا ہوں کہ پہلے والا خواب ایک واقعہ ہی مانا جا رہا تھا۔
گزشتہ خواب میں کسی ٹانگہ وغیرہ کا سفر بھی شامل تھا اور ہماری دونوں کہانیاں اسی گندے نالے کے گرد گھومتی ہیں، پہلے خواب میں انہوں نے شاید مجھے کوئی کتاب دی تھی یا کتاب کے متعلق کوئی اور معاملہ تھا، آج کی ملاقات میں،  کسی لڑکی کی شادی کے انتظامات کی باتیں ہوتی ہیں تو میں کہتا ہوں کہ یہ ڈاکٹر صاحب انڈیا سے آئے ہیں اِن کے پاس بہت پیسہ ہے ان سے کہو کہ کچھ رقم دیں یہ تو وہاں مائیک پر کہتے ہیں، ”آپ بھارت کے سب سے مہنگے کَوِی کو سُن رہے ہیں“۔۔۔ مَیں نے انہیں اُس (خواب والی) ملاقات کی تاریخ، مقام اور گفتگو بتائی تو وہ میرے حافظے کے معترف نظر آئے، چونک آج بھی ہم کسی شیعہ پارٹی میں مجتمع تھے تو وہاں کھانے کے دوران وہ مجھے اپنی شاعری، اپنے لہجے میں سُنانے کی فرمائش کرتے رہے، میں نے کہا کہ کھانے کے بعد سُناتے ہیں، اگلے منظر میں ایک ہمسائیہ لڑکی مجھے ایک پرچی پر کچھ لکھ کر دیتی ہے اور کہتی ہے کہ ڈاکٹر کو خُوب کھری سی جُگت مارنا، اُس پرچی کے ساتھ ایک سو روپے کا نوٹ بھی ہوتا ہے۔
اگلے منظر میں ایک ہمسائیہ لڑکا مجھ سے کچھ ٹائپ کرنے کی درخواست کرتا ہے، میں نے کہا کہ کمپیوٹر پر لکھوا لو، ایڈیٹنگ میں آسانی رہے گی، پھر ڈاکٹر صاحب ایک مجلس میں ہوتے ہیں تو وہاں وہ میرے کچھ الفاظ سے جانے کیا تاثر لیتے ہیں، اس کے بعد میں سیڑھیاں اُتر کر نیچے جاتا ہوں اور ایک ڈپارٹمنٹ نما کسی جگہ جاتا ہوں پتہ نہیں وہاں کیا کرنے  جاتا ہوں، پھر اوپر آتا ہوں تو میری سائیڈ والی جیب میں سے آدھی پرچی اور ایک سو روپے کا نوٹ غائب ہوتا ہے یہ دونوں چیزیں ڈاکٹر کمار نے اپنا حق سمجھ کر نکال لی ہوتی ہیں۔ میں وضاحت کی کوشش کرتا ہوں لیکن بے سود،  اُس ٹائپنگ والے لڑکے نے کسی کرکٹ ٹیم کا سوشل میڈیا پر کوئی گروپ وغیرہ بنانا ہوتا ہے بقیہ خواب دُھندلا ہے
گزشتہ خواب میں دہلی دروازے کے گیٹ پر ٹانگے کی سواری میں میری والدہ بھی ساتھ تھیں، جبکہ اس خواب میں بھاٹی گیٹ کے باہر بائیں ہاتھ شیخ ہندی مارکٹ کے ساتھ جہاں اسلامیہ سکول ہے، وہاں ہم نے ایک بہت بڑا مکان مہنگے کرایہ پر لیا ہوا ہے اور وہاں ایک پوش ایریا کی مانند بڑے مکانات اور خوبصورت رہائش گاہیں قائم ہیں۔
ڈاکٹر کمار کی پہلی وڈیو میں نے ؁2012ء میں سُنی جو کہ ؁2002ء کی ریکارڈنگ ہے۔ اس کے بعد درجنوں وڈیوز کو گھنٹوں دیکھا، اور کئی انٹرویوز دیکھے، اس کے علاوہ سیاسی انٹرویوز دیکھے، غالباً ”آپ کی عدالت“ میں دو بار انٹرویوز دیکھے۔ اور کئی اکیڈیمیز میں اُن کے بھاشن سُنے، مجھے اُن سے اختلافات ضرور ہیں لیکن اتنے بھی نہیں کہ وہ خواب میں نہ آتے۔