شاعری، موسیقی، افسانے، ناول، مصوری اور دیگر اصنافِ فنونِ لطیفہ ایسی تخلیقات ہیں، جنہیں انسان اپنے مخالف فرقے، مخالف مذہب کے لوگوں، دشمن ممالک کے لوگوں حتیٰ کہ شدید ترین دشمنوں کے فنکاروں کے ہاتھوں جنم لینے کے بعد بھی پسند کر لیتا ہے، اور فنکارانہ صلاحیتیں دیکھ کر سر دُھنتا ہے۔
شاعری اور موسیقی میں ایسا جادُو ہوتا ہے کہ پاکستانی لوگ انڈیا کے اُن گانوں کو بھی سُنتے ہیں جن میں سات جنم کا ذکر ہوتا ہے، جو کہ غیر اسلامی نظریہ ہے۔ اس کے علاوہ بھی کُفریہ گانے، سُریلی آواز اور مدُھر دھن کی وجہ سے کانوں میں رس گھولتے دکھائی دیتے ہیں، لوگ اینٹی پاکستان (پاکستان مخالف) فلمیں بھی دیکھ ہی لیتے ہیں۔
اِن سب کے باوجود وہ اِن کفریہ عقائد کے قائل نہیں ہوتے اور اپنے دین و مذہب کے ساتھ ساتھ اپنے مُلک سے پیار کرتے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں میں ہم نے بہت سے بوڑھے سکھوں کے واقعات پڑھے ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ 1947ء میں مُسلمانوں پر مظالم ڈھاتے رہے، لیکن اب گزشتہ ساٹھ ستر برسوں سے وہی مظالم اُن کے لیے وبالِ جان بنے ہوئے ہیں، انہیں ایک پل چین نہیں ملتا۔ اور بعض سکھوں کا کہنا ہے کہ 1984ء میں اُنہیں اسی کرتوت کی سزا ملی تو بھارتی درندہ صفت افواج نے ان کے گھروں کے گھر اجاڑ دئیے، جس پر بھارت میں ایک کمال قسم کی فلم ”ماچس 1996“ وجود میں آئی جس کا مشہورِ زمانہ گانا ”چھوڑ آئے ہم وہ گلیاں“ کانوں میں رس گھولتا ہے۔ آج وہ سکھ اپنی بقا کی خاطر پریشان ہیں کہ ہندُتوا کے شدت پسند (جو طالبان اور خادم رضوی سے بھی زیادہ سخت ذہنیت رکھتے ہیں) بھارت کے نہ صرف مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں بلکہ خود اپنے امن پسند ہندؤں کے بھی مخالف ہیں اور اُنہیں بھی مار دیتے ہیں (جیسے یہاں طالبان مساجد میں بم دھماکے کرتے ہیں، اور خادم رضوی کے پیروکار باقی سب مسلمانوں کے غلط کہتے ہیں)۔
یہ ہندو شدت پسند RSS(راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کے کارندے ہیں۔ یہ بھی فناٹِک ہیں اور نہایت منظم ہیں، قیامِ پاکستان کے دور میں بھی انہوں نے ہی آگ لگا رکھی تھی اور نسیم حجازی اپنی کتاب ”خاک اور خون“ میں سچ ہی روتا پیٹا تھا کہ ظالم لوگ ہیں۔
بلاشبہ کمار وشواس کی شاعری کو دنیا بھر میں پسند کیا جاتا ہے اور اُن کی مقبولیت کی وجہ سے پاکستان میں بھی اُن کے پرستار موجود ہیں، حالیہ بھارتی الیکشن میں نریندر مودی کا مُسلم کش اور پاکستان مخالف ایجنڈا تھا، اسی ایجنڈے کی حمایت کرنے کی وجہ سے عام آدمی پارٹی نے اپنے ہی بانی سینئر رُکن ڈاکٹر کمار وشواس کو الیکشن سے ذرا دُور ہی رکھا اور الیکشن کے فوراً بعد پورے انڈیا میں سے میں (عبدالرزاق قادری) نے صرف ایک بندے کا بیان سُننا پسند کیا کہ وہ اب کیا سوچ رکھتا ہے، جبکہ مودی جیسا ظالم درندہ دوسری بار بے انتہا طاقت کے ساتھ برسرِ اقتدار آچکا ہے تو کمار وشواس کیا خیالات ظاہر کرتا ہے، اُس نے ٹی وی انٹرویو میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے مودی کی جیت (بلکہ اُس کے نظریے کی جیت) کو خوش آمدید کہا اور اپنی عام آدمی پارٹی کی ہار کا مذاق اُڑایا۔
پرسوں 5 اگست 2019ء سے جس تازہ صورت حال کی طرف بھارت نے پیش قدمی کی ہے، اس کے بعد آج 7 اگست کو ڈاکٹر کا ایک وڈیو ”آج تک ٹی وی“ کے کیمرے سے یوٹیوب پر آیا ہے، جو دیکھتے دیکھتے ہی لاکھوں ناظرین کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ اُس میں کمار وشواس اپنے اندر سے ایک سلیم الفطرت انسان کی موت کا اعلان کر رہا ہے، اور کہہ رہا ہے کہ بھارت نے کشمیر میں ”انجیکشن“ لگایا ہے، درد تو ہوگا، لیکن پھر دھیرے دھیرے آرام آ جائے گا۔
مجھے آج یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اُس کے اندر سے ایک ادیب مر چکا اور ایک RSS کا نمائندہ شدت پسند کافر نکل کر باہر آگیا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں