تحریر: عبدالرزاق قادری
روس کی دین دُشمنی، الحاد پسندی، خُدا کے انکار کے سبب اور مُسلم ممالک کو تاراج کرنے کی وحشیانہ یلغار کو روکنے کے لیے مُسلم اُمت کے ”مجاہدین“ طالبان امریکہ کے ساتھ مل کر یہ جنگ لڑتے رہے یا یوں کہہ لیں کہ امریکہ کی یہ جنگ لڑتے رہے، پھر نائن الیون کا اندوہناک سانحہ ہوا اور اُسامہ بن لادن اینڈ کمپنی پر الزام عائد ہوا، افغانستان میں قائم طالبانی حکومت نے اُس اسامہ کو امریکہ کے حوالے سے انکار کر دیا تو امریکہ نے 2001ء ہی میں افغانستان پر یلغار کر دی۔
روس کی دین دُشمنی، الحاد پسندی، خُدا کے انکار کے سبب اور مُسلم ممالک کو تاراج کرنے کی وحشیانہ یلغار کو روکنے کے لیے مُسلم اُمت کے ”مجاہدین“ طالبان امریکہ کے ساتھ مل کر یہ جنگ لڑتے رہے یا یوں کہہ لیں کہ امریکہ کی یہ جنگ لڑتے رہے، پھر نائن الیون کا اندوہناک سانحہ ہوا اور اُسامہ بن لادن اینڈ کمپنی پر الزام عائد ہوا، افغانستان میں قائم طالبانی حکومت نے اُس اسامہ کو امریکہ کے حوالے سے انکار کر دیا تو امریکہ نے 2001ء ہی میں افغانستان پر یلغار کر دی۔
طالبان کے سابق حمایتی تب اُس امریکہ کے ساتھی بن گئے، پھر طالبان نے پاکستان میں بھی ایک طویل وحشیانہ قتل و غارت کا سلسلہ جاری رکھا اور افغانستان میں بھی امریکی افواج کے خلاف لڑتے رہے، کبھی کبھی اُنہی امریکیوں سے پیسے لے کر (پاکستانی مُسلمانوں خصوصاً سُنی اور شیعہ مکتب کی مساجد، درگاہوں اور امام بارگاہوں کو بموں سے اُڑایا اور عیسائیوں کے گرجا گھروں پر بھی اپنی بربریت کے پہاڑ توڑے، اِس جنگ کو امریکہ نے ”دہشت پر جنگ“ قرار دیا ہوا تھا۔ البتہ اس دہشت سے وہابیوں اور دیوبندیوں کی مسجدیں، مدارس اور تبلیغی مراکز محفوظ رہے، ہر حملے کے بعد اکثر لوگ اِن حملوں میں امریکی، بھارتی اور اسرائیلی ایجنسیوں کے ملوث ہونے کی افواہیں اُڑاتے لیکن کبھی تردید نہ کی گئی لیکن ایک بار صوبہ خیبر پختونخواہ میں ایک دیوبندی تبلیغی مرکز پر حملہ ہوا تو کسی نے امریکہ کا نام لیا، تو فوراً امریکی حکام کی جانب سے رد کیا گیا کہ ہمارا اس حملے سے کوئی تعلق نہ ہے۔) اُس کے بعد سے امریکہ کو مذہب دُشمن، مُنکرِ خُدا بلکہ ہمارا باس ”اللہ یا امریکہ؟“ جیسے القابات و نعروں سے نوازا گیا۔
کبھی ان طالبان نے پاکستان کے کہنے پر پاکستان کے دشمنوں کے حساب کو چُکتا کر دیا۔ کبھی پاکستان کے ایک سپہ سالار نے رشوت میں اپنی سروس کی تین سالہ توسیع کی بنیاد پر جو بھارتی کمپنیوں کو پاکستان کی سڑکیں پیپلز پارٹی کے کہنے پر روندنے کے لیے دے دیں تو انہوں نے زمینی راستوں سے افغانستان اور قبائلی علاقوں میں مقیم طالبان کو چارہ ڈالا اور پاکستان میں 2013ء اور 2014ء میں آگ لگی رہی (جس پر ایک فلم ”وآر“ بھی بنی)۔ پھر 2014ء کے 16 دسمبر کو پشاور میں آرمی پبلک سکول میں ایک خونچکاں سانحہ ہوا اور جونئیر سمیت سینئر فوجی افسران کے بچے بھی اُس کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اُس کے بعد ”نیشنل ایکشن پلان“ تشکیل دیا گیا اور سابق آرمی چیف سمیت موجودہ نے بھی پہلے سے گرفتار دہشتگردوں کو ملٹری کورٹ سے سنائی جانے والی سزائے موت پر دستخط کیے اور مُجرم پھانسیوں پر چڑھا دئیے، بعد میں بعض ایسے دہشتگردوں کو بھی پھانسی دی گئی جو حالیہ واقعات میں ملوث تھے۔
سن 2015ء سے پاکستان میں قوم کی بڑے پیمانے پر انڈین ایجنسی ”RAW“ کے خلاف ذہن سازی کی گئی اور اُس کے بعد اخبارات کی اطلاعات کے مطابق افغانستان میں دھماکوں میں شدت آئی، خصوصاً حکومتی مقامات اور عہدے دار اس کا نشانہ بنتے رہے۔
ٹھہریئے! اس دوران 2010ء سے جنم لینے کے بعد، 2011ء اور 2012ء میں پروان چڑھنے کے 2013ء اور 2014ء میں عراق و کے شام کے بارڈر پر ایک شدید نوعیت کی فسادی تنظیم ”داعش“ نے قرنِ شیطان کی مثل سر اُٹھایا اور دُنیا دہشت کے نئے مفاہیم و معانی سے آشنا ہوئی اور القاعدہ کو بھول گئی، داعش کے قیام میں جہاں تک مالی امداد کا تعلق رہا ہے تو اُس میں سعودی عریبیہ کے کچھ مالدار لوگوں کا کردار تھا، اُنہیں سعودی حکومت نے اس لیے نہ روکا کہ ”چلو شام کی حکومت والی شیعے مریں گے، ہمیں کیا فرق پڑتا ہے“۔ اس تنظیم کو اسلحہ پہنچانے کے لیے امریکی کمپنیوں اور ایجنسیوں کا کردار تھا اِن کے خبیث جنگجوؤں کی تربیت کے لیے اسرائیل سے لے کر ”دُنیا بھر“ کی ایجنسیوں کا کردار شامل تھا (میرا یہ بھی ماننا ہے کہ نائن الیون کے حملے میں بھی ”دُنیا بھر“ کی ایجنسیوں کا حصہ شامل تھا، کیونکہ نیو ورلڈ آرڈر یونہی نہیں بنا کرتے)۔ بعد میں جب سعودی عریبیہ کو خدشہ ہوا کہ مبادا داعش، عراق کے علاقوں کو چیر کر سعودیہ کے گھر تک جا پہنچے تو اُس نے اپنے بارڈر کی سکیورٹی مزید مضبوط کی اور حج کے خطبے میں بھی اِن دہشگردوں کے خلاف بیان جاری کرایا (واضح رہے کہ، یہی سعودیہ روس کے خلاف لڑنے والے ”مجاہدین“ کو فنڈنگ دیتا رہا تھا، پھر نائن الیون کے بعد ان دیوبندی طالبان کی امداد بند کر دی اور لشکرِ طیبہ (جماعۃ الدعوۃ) کی امداد جاری رکھی، اب شاید ان کی بھی بند کر دی ہو)۔
اس ساری صورت حال میں ترکی کا کردار نہایت مجرمانہ رہا ہے، جسے کسی جنگ کا بظاہر سامنا نہ تھا، سوائے کُرد حریت پسندوں کے (یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی قومیت کی بناء پر ایران، عراق، ترکی اور شام کے سنگھم پر ایک آزاد ریاست کے خواہاں ہیں)۔ لہٰذا ترکی کے کرپٹ اور بے غیرت سیاستدان رجب طیب اردگان نے داعش کی مدد جاری رکھی، وہ یوں کہ اُس کا بیٹا بلال طیب داعش کے دہشتگردوں سے تیل خریدتا رہا۔۔۔ سو ”کام“ چلتا رہا۔۔۔ ترکی نے داعش کو کُردوں کے لیے ”اللہ کا عذاب“ بنا دیا اور مزے سے بیٹھ کر اپنے ہمسائے میں تین مُلکوں میں جاری بے سر و پا جنگ کا تماشا دیکھتے رہے، اور انجوائے کرتے رہے۔
سن 2013ء میں رجب طیب اردگان کی کرپشن سامنے آئی تو وہ خود کو ایکسپوز کرنے والے میڈیا کے خلاف ہو گیا، اپنے پیر جیسے اُستاد بھائی ”فتح اللہ گئولن“ کے خلاف ہو گیا، پھر ایک بار آرمی میں مارشل لاء کی سوچ چلی تو طیب اردگان کو خبر ہوگئی، وہ نہ صرف بچ نکلا، بلکہ سرکاری خرچ پر اپنے لیے ایک مخصوص ”ذاتی سیکویرٹی ایجنیسی“ تشکیل دے ڈالی، جس کا کام فوج کی جاسوسی کرنا ہے تا کہ وہ مارشل لاء کا نہ سوچ پائے، لیکن شومئی قسمت جولائی 2016ء میں ترکی کی ائیر فورس نے مارشل لاء لگانے کی کوشش کی، اور آرمی چیف کو بھی یرغمال بنا لیا، اُس وقت رجب طیب اردگان مُلک سے باہر تھا، اور ایسے واقعات اتفاق نہیں ہوا کرتے۔ پھر طیب اردگان سوشل میڈیا پر ظاہر ہوا اور قوم سے مدد کی اپیل کی، اُسی ذاتی سیکیورٹی ایجنسی کے بدمعاش ”گُلو بٹ“ سڑکوں پر آ گئے اور ائیر فورس کی بغاوت کی کوشش ناکام بنا دی۔ دُنیا کے اکثر میڈیا گروپس نے کہا کہ ترکی کے عوام رجب طیب کے ساتھ محبت کرتے ہیں اس لیے، عوام اور پولیس نے ائیر فورس کو ”لوہے کے چنے“ چبا دئیے۔
اسی اثناء میں سعودی عریبیہ سے یمن میں ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری رہا اور پھر پاکستان کی افواج کر ”ہائر“ کرنے کی باتیں چلتی رہیں، کہ یہ جا کر یمن میں سعودی عقیدے کی جنگ کرایہ پر لڑیں گی لیکن اخباری اطلاعات کے مطابق پاکستان کی پارلیمنٹ نے اس قسم کی کسی پیشکش کو ٹھکرا دیا لیکن ڈیڑھ ارب ڈالر کی رقم جانے کس مد میں وصول کر لی تھی، بہرحال اس کے بعد بھی یمن میں سعودیہ کی جانب سے بمباریوں کے سلسلے جاری رہے اور ہنوز جاری ہیں (ان برسوں میں سعودی عرب کے اندر بھی شیعہ کمیونٹی کو ختم کی بھر پور کوشش کی گئی، شیخ نمر باقر النمر کا قتل اس کی ایک مثال ہے)۔
داعش کے اُبھرنے کے بعد ایران و عراق میں مقیم قدیم مجوسی عقیدے کے لوگوں کو اخبارات نے ”یزیدی“ کے عنوان سے پہچان دی حالانکہ یہ عنوان غلط تھا جبکہ آج تک اخبارات میں استعمال ہورہا ہے۔ اس کے لیے ”ایزدی“ شاید درست عنوان تھا، اس قوم کے ساتھ بھی داعش کے جنگجوؤں کا رویہ ظالمانہ رہا۔
ایران کو فلسطین اور یمن میں موجود ”حزب اللہ“ سے کچھ لینا دینا تھا، اُسے یمن میں موجود شیعہ جماعتوں سے بھی ہمدردی تھی، امریکہ گِدھ کی ناک ایران کی طرف سے آنے والی کیمیکلی فضاؤں کو سونگھ کر فیصلہ نہیں کر پارہی تھی کہ شمالی کوریا کی طرح ایران کی مرگ قبل از موت ممکن ہے یا نہیں، کیونکہ حملہ اُسی ملک ہر کرتا ہے جس کا اُسے یقین آ جائے کہ اس کے پاس ”ایٹمی طاقت“ نہیں ہے۔ تو قارئین کرام! ایران نے اپنے ہم مسلک ”حزب اللہ“ کے جنگجوؤں اور یمن میں حوثی زیدی شیعوں کی امداد جاری رکھی۔
اپریل 2017ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے سرکاری دورے میں سعودی عرب میں اکثر مُسلم ممالک کے عمائدین کو ایک نئے ورلڈ آرڈر کا درس دیا۔ اس میں ایک عنصر قطر بھی ہے، قطر میں سے بھی کئی امیر لوگ داعش کے لوگوں کو فنڈز دیتے تھے، اب چونکہ سعودی عرب امریکہ سے ایک بلین ڈالرز سے بھی زائد مالیت کے اسلحے خریدنے کی ڈیلز کر چکا تھا لہٰذا اُس نے بھی قطر پر دباؤ ڈالا کہ ہمارے ”امیر المملکۃ السعودیہ جناب ڈونلڈ ٹرمپ“ کی بات مان لو! لیکن قطر اپنی بات پر مُصر رہا۔ سن 2017ء میں امریکہ نے انہیں خبردار کیا، اور اُن پر حملہ کرنا چاہا (یاد رکھیں داعش کے قیام و انصرام میں امریکا کا خود بھی، بلکہ سب سے بڑا کردار تھا) لیکن ایران جو کہ قطری وہابیوں کا نطریاتی مخالف تھا اُس نے عراق کو راستے دے دئیے، سعودیہ اور متحدہ عرب امارات سمیت مختلف وسط ایشیائی ممالک اُس کا بائیکاٹ کر چکے تھے، بلکہ ایک بار تو قطریوں کے حج ادا کرنے پر بھی پابندی لگ گئی تھی، لیکن پھر وہ کھل گئی اب وہ پاکستانیوں اور بھارتیوں کی طرح باقاعدہ ویزہ لے کر اور جہاز وغیرہ کا سفر کر کے جا سکتے ہیں اُن کا خرچ بھی تقریباً پاکستانیوں کے خرچ کے برابر ہوتا ہے، پہلے وہ بارڈر پار کرکے آسانی کے ساتھ کم خرچ بالا نشین کے مصداق سستا حج کر لیتے تھے۔
آج جبکہ ”فادر آف طالبان“ کی وفات ہو چکی تو ماسکو روس میں طالبان کی میٹنگ منعقد ہوئی ہے جس میں طالبان نے کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
بی بی سی نے لکھا ہے، ”افغانستان کی امن کونسل کے ارکان نے جمعے کے روز ماسکو میں ایک کثیر ملکی کانفرنس کے دوران طالبان کے ایک وفد سے ملاقات کی ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ طالبان نے کسی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی ہو جس سے افغانستان کے تنازعے کے سیاسی حل کی امید روشن ہو گئی ہے۔
روسی خبررساں ادارے آر آئی اے کے مطابق امن کونسل کے ترجمان احسان طاہری نے کہا: 'ہم نے طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کے موضوع پر بات کی اور ان سے کہا کہ وہ اپنی مرضی سے جگہ اور وقت مقرر کریں۔'
یہ کانفرنس ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب امریکہ کے خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد بھی طالبان کے ساتھ قطر میں ایک الگ ملاقات کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
روسی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ 'ہم اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ سیاسی حل کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، اور اس بات کی ضرورت ہے کہ افغانستان کے پڑوسی ملک اور علاقائی شراکت دار بھی فعال طریقے سے اس میں حصہ لیں۔'
مغربی ملک اور افغانستان کے صدر اشرف غنی کی حکومت روس میں ہونے والے اس اجلاس کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس عمل کی قیادت افغانستان کو کرنی چاہیے۔
طالبان کے پانچ رکنی وفد کے علاوہ اس اجلاس میں پاکستان، انڈیا، چین، امریکہ، قطر اور دوسرے ملکوں کے علاوہ کئی اہم افغان سیاسی شخصیات نے بھی شرکت کی جن میں سے بعض کے اشرف غنی کی حکومت سے اختلافات چل رہے ہیں۔ “
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں