ڈاکٹر غافر شہزاد سے میری پہلی ملاقات 30 دسمبر 2015ء کے روز ہوئی اس کی روداد کی پہلی قسط مندرجہ ذیل لنک پر موجود ہے۔ لنک
دوسری ملاقات بھی اسی شام پاک ٹی ہاؤس میں ہوئی (میں دسمبر میں کئی بار پاک ٹی ہاؤس گیا ہوں اور ایک آدھ ادبی محفل میں بھی شریک ہوا ہوں)۔ بہرحال میں نے ان سے جو سوالات پوچھے، ان کے جوابات اپنے الفاظ میں دے رہا ہوں یعنی جوابات کا مفہوم کم و بیش یہی ہے۔
1۔ آپ کے نام کا عبدالغفور سے غافر شہزاد تک کا سفر کیسے طے ہوا؟
جواب: میری تعلیمی اسناد میں میرا نام عبدالغفور ہے ہائی سکول میں ادبی ذوق کی وجہ سے کسی 'ادبی' لفظ کی جستجو تھی جسے قلمی نام کے طور پر لکھا جائے انہی دنوں مجھے کہیں راستے میں ایک ورق پڑا ہوا مِلا، اس پر سورہ غافر (سورۃ مؤمن 40 نمبر سورت) کے کچھ الفاظ لکھے ہوئے تھے، جن میں ایک لفظ 'غافر' تھا۔ یہ بھی اللہ عزوجل کا ایک نام ہے اور غفور کا ہم معنیٰ ہے مجھے یہ نام پسند آیا اور اُس دور میں میری کچھ چیزیں "عبدالغفور غافر" کے نام سے چھپیں لیکن سکول پھر کالج کے کاغذات میں 'عبدالغفور' ہی رہا، بعد ازاں میں نے 'غافر چودھری' لکھنا شروع کردیا یہ نام بھی چھپتا رہا، پھر ادبی دنیا کے مزاج سے مطابقت کے لئے لفظ 'چودھری' لکھنا چھوڑ دیا اور لفظِ 'شہزاد' اپنا کر غافر شہزاد لکھنا شروع کردیا اور اب مکمل دفتری نام "عبدالغفور غافر شہزاد" ہے جبکہ تعلیمی اسناد پر صرف 'عبدالغفور' لکھا ہوا ہے۔ جھنجھٹ سے بچنے کے لئے اُسے تبدیل نہیں کروایا۔
2۔ آپ نے 52 برس کی عمر تک اتنا تحقیقی کام کیا کہ آپ خود ایک حوالہ بن گئے آپ اپنی زندگی کی ان کامیابیوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔
جواب: مجھے یوں لگتا ہے کہ ابھی بہت کام کرنا باقی ہے جتنا ہو پایا وہ بہت قلیل ہے کچھ سینئرز سے یہ درس ملتا ہے کہ وہ طویل وقت تک لکھتے رہے جیسا کہ انتظار حسین صاحب اور احمد ندیم قاسمی مرحوم کی مثالیں موجود ہیں۔ میری ایک خوبی یہ ہے کہ میں جس کام کو شروع کرتا ہوں اسے مکمل ضرور کرتا ہوں، اب میں شعوری طور پر کئی مضامین لکھ کر انہیں ایک کتاب کی شکل دینے کی کوشش کرتا ہوں، جیسا کہ قیام پاکستان کے بعد کی تعمیرات کی تحقیق پر بہت کام کی ضرورت ہے۔
3- داتا دربار میں مزار کہیں نیچے ہے یا شروع سے قبر مبارک اوپر ہی ہے؟
جواب: دراصل یہ مزار ایک ٹیلے پر تھا، بعد میں کچھ ناگزیر وجوہ کی بنا پر اس ٹیلے کے نچلے حصے کو چاروں اطراف سے دیوار بنا کر محفوظ کرنا پڑا، اس لئے 1960ء- 1970ء کی دہائیوں میں نچلا حصہ دیکھنے والے کچھ لوگ اس کنفیوژن میں ہیں کہ شاید پہلے قبر نیچے تھی، دراصل یہ قبر اپنی اصل جگہ پر اوپر اونچائی پر واقع ہے۔ (ڈاکٹر صاحب نے اس کی مزید تفصیلات سے بھی وضاحت کی)
4۔ آپ کی شاعری کی کتنی کتب ہیں؟
جواب: دو کتابیں ہیں، لیکن ابھی سٹاک ختم ہوا ہے جلد ہی ایک بار پھر شائع ہو جائیں گی۔
5۔ دو سال قبل ایک بار کسی اخبار میں پڑھا تھا کہ حلقہ ارباب ذوق کی مجلس (ایوانِ اقبال) میں ڈاکٹرغافر شہزاد خوب گرجے برسے، شاید کسی فن پارے پر تنقید کا کوئی مسئلہ تھا (قارئین کو مطلع کیا جاتا ہے کہ میں اُسی خبر کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کے پاس ڈرا سہما بیٹھا رہا کہ کہیں گرج برس کا امکان کہیں سے ایک بار پھر نہ پیدا ہو جائے)
جواب: ہاں یاد آیا! وہ کسی محترمہ کی ایک مطبوعہ غزل پر بحث ہونے جا رہی تھی جس سے میں نے منع کیا کیونکہ حلقہ اربابِ ذوق کے آئین کے مطابق مطبوعہ غزل پر تنقید کرنا منع تھا تو صدرِ محفل نے مجھے کہا اگر آپ کو کوئی مسئلہ تو آپ باہرچلے جائیں، میں نے جواب دیا کہ آپ اس تنظیم کے رکن ہونے کا جیسا حق رکھتے ہیں ویسا حق میں بھی رکھتا ہوں پہلے آپ باہر تشریف لے جائیں، پھر میں بھی باہر چلتا ہوں۔ میں نے کہا کہ اُن کی غزل ہم نے سن لی ہے یہی کافی ہے حالانکہ میں اُسے پہلے سے چھپا ہوا دیکھ چکا تھا، چھپنے کے بعد حلقہ اربابِ ذوق میں تنقید نہیں ہوسکتی۔ تو اس بات کا ذکر کسی اخبار میں آیا ہوگا
6۔ میرے لئے آپ کا کوئی پیغام؟
جواب: آپ ویکیپیڈیا پر لکھنے کا بہت اچھا کام کر رہے ہیں، آج شاید آپ کو اندازہ ہو یا نہ ہو ایک وقت آئے گا یہی کام آپ کی پہچان بن جائے گا۔
سوال نمبر پانچ کے جواب کے بعد مجھے تھوڑا سا اطمینان ہوگیا کہ ڈاکٹر صاحب مجھے ماریں گے نہیں، ورنہ میں ان سے ڈرتا بھی تھا/ہوں۔ جیسا کہ ممتاز مفتی نے 'تلاش' میں اس لاحاصل احترام (ڈر) کی خوب کلاس لگائی ہے۔ میرے ہاتھ میں 'ماہنامہ نوائے منزل لاہور' کے ایک گزشتہ شمارے کی کئی کاپیاں تھیں لیکن ڈاکٹر صاحب کو ایک بھی نہ دے کر آیا، دفتر سے باہر نکلتے ہی میں حسیب کو کال کرکے یہ 'بھولنے' والا واقعہ بتا کر کہا، "مینوں کوئی گالھ کڈھ"، آج زندگی میں پہلی بار خود کوئی گالی سننے کو جی چاہا کہ ایک رسالہ دِکھا کر پھر تھیلے میں ڈال کر لے آیا، بہرحال رات کے وقت 'پاک ٹی ہاؤس' میں محمد کامران اختر کے ہمراہ ملاقات میں میگزین کو موصوف کے ہاتھوں میں جانے کا شرف حاصل ہوا۔
ڈاکٹر صاحب ایک شائستہ سنجیدگی سے ملے، انداز فرینک لیکن مہذبانہ تھا۔ میں خود بھی کافی حد (جتنا مجھ سے ممکن تھا) تک تہذیب کے دائرے میں رہا۔ میں وہاں وکیپیڈیا پر ان کی حیاتی لکھنے کی غرض سے مواد لینے گیا تھا، لہٰذا وہ بھی مل گیا۔ ابھی اس کی ترتیب دینا باقی ہے، پھر اردو وکیپیڈیا پر ایک جامع مضمون نظر آئے گا۔ ان شاء اللہ-
نوٹ: تحریر میں جوابات کے الفاظ میرے اپنے ہیں، ڈاکٹر صاحب کم و بیش یہی کہنا چاہتے تھے، جو باتیں میں نے حذف کی ہیں وہ احتیاطاً کی ہیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں